میرٹ کا قتل سب سے بڑی دھاندلی اورکرپشن ہے جمال شاہ
غلط شخص تعینات ہوگا تواس سے ادارے کا ہی نہیں ملک کا بھی نقصان ہوگا، انٹرویو
KARACHI:
مثل مشہورہے کہ 'جس کا کام اسی کوساجے' ۔ واقعی ہی ہمارے ملک میں قومی اداروں کی تباہی کا تذکرہ کریں توان کی بڑی وجوہات میں سے ایک نان پروفیشنل افسران کی تعیناتی بھی ضرورہوگی۔
دیکھا جائے توہمارے ملک کے تمام ادارے جودوسرے ممالک میں سالانہ اربوں روپے کا منافع دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں اربوں روپے کے خسارے سے دوچارہیں۔ من پسند افسران کونوازنے کیلئے جب جب اقدامات ہوئے توہمارے قومی اداروں کے نقصانا ت میں اضافہ ہوا۔
جتنا وقت ایک نان پروفیشنل افسرکوادارے کے قوائد وضوابط کو سمجھنے میں لگتا ہے، اتنی دیرمیں حکومت کی رخصتی کا وقت قریب آجاتا۔ لیکن اس مرتبہ فن وثقافت کے فروغ کیلئے قائم ادارے ' پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس '( پی این سی اے ) کی باگ دوڑ جمال شاہ جیسے ایک ایسے پروفیشنل آرٹسٹ کوسونپی گئی جوایک طرف توملک کے منجھے ہوئے اداکار، ڈائریکٹر، رائٹرہیں ، وہیں فن مصوری میں بھی خوب کمال رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا، جو قارئین کی نذرہے۔
ڈائریکٹرجنرل 'پی این سی اے ' جمال شاہ نے بتایاکہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے اورمیں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میرا بچپن سے ہی لگاؤ فائن آرٹس کی طرف تھا توجب میں اپنا تھیسس لاہورکے نیشنل کالج آف دی آرٹس ( این سی اے ) میں مکمل کررہا تھا تومیرے ایک عزیز آغااکبرشاہ جواس وقت بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، نے مجھ سے ملاقات کی اورمیری فائن آرٹس میں دلچسپی دیکھتے ہوئے پوچھا کے مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہو تومیں نے کہا کہ میں یونیورسٹی میں فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ کا قیام چاہتا ہوں۔
انہوں نے مجھ سے ایک پرپوزل مانگا اورمیرے تھسیس مکمل ہونے سے پہلے ہی بلوچستان یونیورسٹی میں فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ بن گیا۔ اس وقت کوئٹہ میں ایک نہیں بلکہ تین فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ قائم ہوچکے ہیں۔ جب میں این سی اے میں زیرتعلیم تھا تواس دورمیں آرٹ کودبانے کی بہت کوشش کی جاتی تھی۔
لاہورمیں 'این سی اے' کوبچانے کیلئے بھی بہت جدوجہد کی اوردوروزہ بھوک ہڑتال پربھی بیٹھا۔ یہی نہیں کالج بند ہونے پرچڑیا گھرمیں کلاس لیتے رہے۔ جہاں تک میری سیاست میں دلچسپی کی بات ہے توسیاست میں ہمیشہ سے دلچسپی رہی۔ میں کوئٹہ میں سائنس کالج کا سیکرٹری بھی رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں سیاست کوتبدیلی کا بہت اہم ذریعہ سمجھتا ہوں۔ میں سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں لیکن پارٹی پولیٹیکل سے دورہوں۔
میں سمجھتا ہوںکہ ہمارے ملک میں اگرپورے اخلاص سے جدوجہد کی جائے اورسیاست میں کوئی مداخلت نہ کرے توآئندہ پانچ ، چھ برس میں بہت بڑی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے، چیزیں بہترہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک آرٹسٹ غیرسیاسی نہیں ہوسکتا۔ فن ، کبھی بھی سیاست سے دورنہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جس طرح سیاست تبدیلی کا ایک بہترین ذریعہ ہے اسی طرح فن بھی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دیکھا جائے تو فن اور سیاست عوام کوباشعوربنانے کا کام ہی کرتے ہیں۔ فن اورسیاست کا بہت گہرا تعلق ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جمال شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا قتل سب سے بڑی دھاندلی اورکرپشن ہے۔ جوشخص مثال بن سکتا ہے، اس کا راستہ روکا جاتا ہے۔ اسی طرح ہرادارے میں غلط شخص تعینات ہوگا تواس سے ادارے کا ہی نہیں بلکہ ملک کا بھی نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس وقت مجھے 'پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس 'جیسے ادارے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ میں چاہوں تواس عہدے پربراجمان ہوکر بہت ہی آرام دہ زندگی بھی بسرکرسکتا ہوں۔ مگرمیرا تعلق اس شعبے ہے اورمیں بہت جوش کے ساتھ یہاں کام کرتا ہوں۔
میں صبح آٹھ بجے دفترپہنچتا ہوں اورپھرجب تک کام مکمل نہ کرلوں گھرنہیں جاتا۔ میں 9سے 5بجے والی نوکری نہیں کرتا۔ اگردیکھا جائے تو2006ء سے اب تک ' پی این سی اے' میں بہت سی نشستیں خالی ہیں، ان پرلوگوںکو ملازمت دی جائے، تاکہ نئے لوگ آئیں اوروہ اس ادارے کوآگے لے کر جائیں۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ان ملازمتوں پر اسی شعبے سے متعلقہ لوگوںکو ملازمتیں دی جائیں اوران کوتربیت دے کراس قابل بنایا جائے کہ وہ مستقبل میں بہترکام کرسکیں۔
جمال شاہ نے مزید بتایا کہ پہلی فلم وکلچرل پالیسی کے حوالے سے تین روزہ کنونشن انتہائی کامیاب رہا ۔ بہت سے اقدمات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اب وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ سینکڑوں فنکاروں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا، سب نے مل کردستخط کیے، تو یہ پالیسی بنی۔ اس کام کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ ماضی کے مختلف ادوار میں حکومتوں نے جتنا سرکاری ٹیلی ویژن کو سپورٹ کیا، اگر فلم انڈسٹری کو تھوڑی سی توجہ دی جاتی تو آج فلمی صنعت دنیا بھر میں نام پیدا کررہی ہوتی۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں سینما گھروں کی تعداد بہت محدود ہوکرصرف 120 رہ گئی ہے۔ ہم اب کم از کم پانچ ہزارسنیما گھر بنائیں گے۔
اس پالیسی کے بعد اب پاکستان میں کوئی فنکار زندگی کے آخری دنوں میں پریشان نہیں ہوگا۔ فلم فنانس فنڈز بہت ضروری تھے اب وہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔ اب اگر کسی تخلیق کار کے پاس کوئی اچھا اور منفرد آئیڈیا ہے، تو وہ حکومت سے سرمایہ لے کر عالمی معیار کی فلم پروڈیوس کرسکتا ہے۔ اس سے نیا ٹیلنٹ بھی تیزی سے ابھر کر سامنے آئے گا۔
''کو پروڈکشن'' بھی بہت ضروری ہے، ہم چائنہ کے ساتھ مل کر فلمیں بنائیں گے تو مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔ چائنہ فلموں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، وہاں بالی وڈ کی فلمیں '' دنگل اور سیکرٹ سپرسٹار'' کو زبردست رسپانس ملا اور ان دونوں فلموں نے بھارت سے زیادہ بزنس چائنہ میں کیا۔ ہم نے پہلی ''کو پروڈکشن'' فلم کا اعلان کردیا ہے، جس کا نام ''کٹ'' ہے۔
جمال شاہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہم کلچر پالیسی پرعمل کرکے ہی فن کاروں کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک طریقہ کار بنایا جائے گا تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو۔ پاکستان کے تشخص کواجاگر کرنے والی فلموں کو زیادہ سپورٹ کیا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ اب فنکاروں کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔
کلچرل پالیسی اور''سی پیک کلچرل کارواں''میرا آئیڈیا تھا، میں نے سابق وزیراعظم سے ایک ملاقات میں ساری تفصیلات بتائی تھیں ، جس پرانہوں نے ہرطرح سے سپورٹ کا یقین دلایا تھا۔ اس طرح ہم نے کلچرل پالیسی بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے اوراب وقت کے ساتھ ساتھ اس پربھی عملدرآمد شروع ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ فن وثقافت کے فروغ کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں، جس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچ سکے۔
مثل مشہورہے کہ 'جس کا کام اسی کوساجے' ۔ واقعی ہی ہمارے ملک میں قومی اداروں کی تباہی کا تذکرہ کریں توان کی بڑی وجوہات میں سے ایک نان پروفیشنل افسران کی تعیناتی بھی ضرورہوگی۔
دیکھا جائے توہمارے ملک کے تمام ادارے جودوسرے ممالک میں سالانہ اربوں روپے کا منافع دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں اربوں روپے کے خسارے سے دوچارہیں۔ من پسند افسران کونوازنے کیلئے جب جب اقدامات ہوئے توہمارے قومی اداروں کے نقصانا ت میں اضافہ ہوا۔
جتنا وقت ایک نان پروفیشنل افسرکوادارے کے قوائد وضوابط کو سمجھنے میں لگتا ہے، اتنی دیرمیں حکومت کی رخصتی کا وقت قریب آجاتا۔ لیکن اس مرتبہ فن وثقافت کے فروغ کیلئے قائم ادارے ' پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس '( پی این سی اے ) کی باگ دوڑ جمال شاہ جیسے ایک ایسے پروفیشنل آرٹسٹ کوسونپی گئی جوایک طرف توملک کے منجھے ہوئے اداکار، ڈائریکٹر، رائٹرہیں ، وہیں فن مصوری میں بھی خوب کمال رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا، جو قارئین کی نذرہے۔
ڈائریکٹرجنرل 'پی این سی اے ' جمال شاہ نے بتایاکہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے اورمیں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میرا بچپن سے ہی لگاؤ فائن آرٹس کی طرف تھا توجب میں اپنا تھیسس لاہورکے نیشنل کالج آف دی آرٹس ( این سی اے ) میں مکمل کررہا تھا تومیرے ایک عزیز آغااکبرشاہ جواس وقت بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، نے مجھ سے ملاقات کی اورمیری فائن آرٹس میں دلچسپی دیکھتے ہوئے پوچھا کے مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہو تومیں نے کہا کہ میں یونیورسٹی میں فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ کا قیام چاہتا ہوں۔
انہوں نے مجھ سے ایک پرپوزل مانگا اورمیرے تھسیس مکمل ہونے سے پہلے ہی بلوچستان یونیورسٹی میں فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ بن گیا۔ اس وقت کوئٹہ میں ایک نہیں بلکہ تین فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ قائم ہوچکے ہیں۔ جب میں این سی اے میں زیرتعلیم تھا تواس دورمیں آرٹ کودبانے کی بہت کوشش کی جاتی تھی۔
لاہورمیں 'این سی اے' کوبچانے کیلئے بھی بہت جدوجہد کی اوردوروزہ بھوک ہڑتال پربھی بیٹھا۔ یہی نہیں کالج بند ہونے پرچڑیا گھرمیں کلاس لیتے رہے۔ جہاں تک میری سیاست میں دلچسپی کی بات ہے توسیاست میں ہمیشہ سے دلچسپی رہی۔ میں کوئٹہ میں سائنس کالج کا سیکرٹری بھی رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں سیاست کوتبدیلی کا بہت اہم ذریعہ سمجھتا ہوں۔ میں سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں لیکن پارٹی پولیٹیکل سے دورہوں۔
میں سمجھتا ہوںکہ ہمارے ملک میں اگرپورے اخلاص سے جدوجہد کی جائے اورسیاست میں کوئی مداخلت نہ کرے توآئندہ پانچ ، چھ برس میں بہت بڑی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے، چیزیں بہترہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک آرٹسٹ غیرسیاسی نہیں ہوسکتا۔ فن ، کبھی بھی سیاست سے دورنہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جس طرح سیاست تبدیلی کا ایک بہترین ذریعہ ہے اسی طرح فن بھی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دیکھا جائے تو فن اور سیاست عوام کوباشعوربنانے کا کام ہی کرتے ہیں۔ فن اورسیاست کا بہت گہرا تعلق ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جمال شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا قتل سب سے بڑی دھاندلی اورکرپشن ہے۔ جوشخص مثال بن سکتا ہے، اس کا راستہ روکا جاتا ہے۔ اسی طرح ہرادارے میں غلط شخص تعینات ہوگا تواس سے ادارے کا ہی نہیں بلکہ ملک کا بھی نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس وقت مجھے 'پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس 'جیسے ادارے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ میں چاہوں تواس عہدے پربراجمان ہوکر بہت ہی آرام دہ زندگی بھی بسرکرسکتا ہوں۔ مگرمیرا تعلق اس شعبے ہے اورمیں بہت جوش کے ساتھ یہاں کام کرتا ہوں۔
میں صبح آٹھ بجے دفترپہنچتا ہوں اورپھرجب تک کام مکمل نہ کرلوں گھرنہیں جاتا۔ میں 9سے 5بجے والی نوکری نہیں کرتا۔ اگردیکھا جائے تو2006ء سے اب تک ' پی این سی اے' میں بہت سی نشستیں خالی ہیں، ان پرلوگوںکو ملازمت دی جائے، تاکہ نئے لوگ آئیں اوروہ اس ادارے کوآگے لے کر جائیں۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ان ملازمتوں پر اسی شعبے سے متعلقہ لوگوںکو ملازمتیں دی جائیں اوران کوتربیت دے کراس قابل بنایا جائے کہ وہ مستقبل میں بہترکام کرسکیں۔
جمال شاہ نے مزید بتایا کہ پہلی فلم وکلچرل پالیسی کے حوالے سے تین روزہ کنونشن انتہائی کامیاب رہا ۔ بہت سے اقدمات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اب وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ سینکڑوں فنکاروں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا، سب نے مل کردستخط کیے، تو یہ پالیسی بنی۔ اس کام کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ ماضی کے مختلف ادوار میں حکومتوں نے جتنا سرکاری ٹیلی ویژن کو سپورٹ کیا، اگر فلم انڈسٹری کو تھوڑی سی توجہ دی جاتی تو آج فلمی صنعت دنیا بھر میں نام پیدا کررہی ہوتی۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں سینما گھروں کی تعداد بہت محدود ہوکرصرف 120 رہ گئی ہے۔ ہم اب کم از کم پانچ ہزارسنیما گھر بنائیں گے۔
اس پالیسی کے بعد اب پاکستان میں کوئی فنکار زندگی کے آخری دنوں میں پریشان نہیں ہوگا۔ فلم فنانس فنڈز بہت ضروری تھے اب وہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔ اب اگر کسی تخلیق کار کے پاس کوئی اچھا اور منفرد آئیڈیا ہے، تو وہ حکومت سے سرمایہ لے کر عالمی معیار کی فلم پروڈیوس کرسکتا ہے۔ اس سے نیا ٹیلنٹ بھی تیزی سے ابھر کر سامنے آئے گا۔
''کو پروڈکشن'' بھی بہت ضروری ہے، ہم چائنہ کے ساتھ مل کر فلمیں بنائیں گے تو مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔ چائنہ فلموں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، وہاں بالی وڈ کی فلمیں '' دنگل اور سیکرٹ سپرسٹار'' کو زبردست رسپانس ملا اور ان دونوں فلموں نے بھارت سے زیادہ بزنس چائنہ میں کیا۔ ہم نے پہلی ''کو پروڈکشن'' فلم کا اعلان کردیا ہے، جس کا نام ''کٹ'' ہے۔
جمال شاہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہم کلچر پالیسی پرعمل کرکے ہی فن کاروں کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک طریقہ کار بنایا جائے گا تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو۔ پاکستان کے تشخص کواجاگر کرنے والی فلموں کو زیادہ سپورٹ کیا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ اب فنکاروں کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔
کلچرل پالیسی اور''سی پیک کلچرل کارواں''میرا آئیڈیا تھا، میں نے سابق وزیراعظم سے ایک ملاقات میں ساری تفصیلات بتائی تھیں ، جس پرانہوں نے ہرطرح سے سپورٹ کا یقین دلایا تھا۔ اس طرح ہم نے کلچرل پالیسی بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے اوراب وقت کے ساتھ ساتھ اس پربھی عملدرآمد شروع ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ فن وثقافت کے فروغ کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں، جس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچ سکے۔