اس ملزم کی پیدائش
اس ملزم کی پیدائش اس وقت ہوئی جب تلوار کو قلم ، تاج و تخت کو پوتھی یا مذہبی مددگار کی ضرورت پڑی۔
ویسے تو اس ملزم کی پیدائش اس وقت ہوئی جب تلوار کو قلم ، تاج و تخت کو پوتھی یا مذہبی مددگار کی ضرورت پڑی۔
اس سے پہلے جب تک انسان ایک '' جسم '' تھا تو اسے صرف ''تلوار '' سے قابو کرنا اور سیدھا رکھنا آسان تھا لیکن جب جسم کے ساتھ ساتھ اس میں ایک '' ذہن '' بھی پیدا ہونے لگا تو صرف تلوار سے اسے قابو کرنا مشکل ثابت ہو نے لگا، تب حکمران کو ایک ایسے مدد گار یا ساجھے دار کی ضرورت پڑی جو اس ذہن کو بھی اس کے تابع فرمان لے آئے اور رکھے ، چنانچہ اس نے ذہن کو مسخر کرنے کے لیے مذہبی مددگار کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
جو اس کے لیے ذہنوں کو قابوں میں رکھے، بدلے میں اس نے منافع میں سے کچھ تھوڑا سا حصہ اس کو دیدیا۔ اس نئے ساجھے دار کا کام یہ تھاکہ حکمران کو مذہبی تقدس کا لباس پہنائے رکھے ، اس کے ہر کام کو مذہبی سایہ فراہم کرتا رہے اور حکمران کا تابع فرمان بنائے چنانچہ ابتدائی زمانوں میں اس نے حکمران کو براہ راست '' دیوتا '' بنایاپھر آہستہ آہستہ '' دیوتازادہ '' بنایا اور اسے آسمانی فرستادے کا مقام دیا، بعد کے زمانوں میں جب انسان ان باتوں کے جھانسے سے باہر ہونے لگا تو اسے ظل اللہ ، ظل الٰہی اور خدا کا مقرر کیا ہوا بتایا ۔
لیکن ان زمانوں میں اس کے نام کچھ اور ہوتے تھے، پروہت رشی منی، پنڈت ، براھمن وغیرہ، اس کا درجہ بھی بلند ہوتا تھا۔ ذرایع آمدن بھی بہت اور خود مختارانہ ہوتے تھے۔ لیکن یہ تو تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمران براہ راست ابلیسیہ گروہ کا نمایندہ ہوتا ہے اور صدیوں کے تجربات نے اسے اتنا عیار مکار اور ہوشیار بنایا ہوا ہے کہ ہر چیز کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اسے خوب آتا ہے، بوقت ضرورت گدھے کو بھی باپ بنا لیتا ہے اور باپ کو بھی گدھا کہنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتا۔اس لیے دھیرے دھیرے اس نے اپنے اس مذہبی ساجھے دار کے بھی پر کاٹنا شروع کردیے اور بالاخر اسے بھی اپنا تابع فرمان بنا لیا ۔
انسانی تاریخ میں یہ دونوں طاقتیں برابر ساتھ چلتی رہیں کیونکہ انسان ایک ہونے کے باوجود دو پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ ایک جسم اور دوسرا ذہنی یا ایک ظاہر اور ایک باطن، ایک جسم اور ایک روح ۔ اس لیے ان دونوں کی بھی ہمیشہ ضرورت رہی لیکن تاریخ کے ادوار میں ایسے بھی موڑ آتے رہے کہ کبھی ایک کا پلہ بھاری رہتا کبھی دوسرے کا ۔
آخر کار رب مخلوقات کی طرف سے اس دین کا ظہور ہوا جو انسانیت کے لیے آخری، مکمل اور حتمی ہے، اس اعلان کے ساتھ کہ '' الیوم المکت لکم دینکم '' آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا کیونکہ اس سے پہلے کے ''ادیان '' قوموں قبیلوں یا نسلوں کے لیے ذیلی نصاب ہوا کرتے تھے۔ یہ طالب علم جسے انسان کہتے ہیں پرائمری اسکولوں اور درسگاہوں سے ہوتا ہوا، درجہ بدرجہ '' نصابات '' سیکھتا ہوا اب یونیورسٹی اور آخری تکمیلی ڈگری دینے کے قابل ہو گیا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح منفی قوت یا ابلیسی مزاج بھی موجود تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کے بھی تین پشتوں کے بعد حکمرانیہ یا احساس برتری کا خوگر مزاج ابھرآیا اور کربلا کے میدان میں حکمرانیت سرگرم ہو گئی ۔ اور اس کو بھی دو (2) میں تقسیم ہونا پڑا ، دین کی دو شاخیں ہو گئیں۔ ایک وہ جو حکمران کے ساتھ تھی اور حکمران کی طرح ظواہر پر زور دیتی تھی۔ اور دوسری حکمران اور ظواہر سے الگ ہو گئی
شد آں کہ اہل نظر در کنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن درد ہاں ولب خاموش
اب ان دونوں شاخوں کی تاریخ بڑی طول طویل ہے اور تفصیلی بحث کی طالب ہے، اس لیے ہم اپنی بحث کو مختصر کرتے ہوئے اس '' کردار '' کی طرف آتے ہیں جس کا نام عرف عام میں '' ملا'' ہے۔ مختلف ادوار میں اس کے نام بھی بدلتے رہے ہیں جیسے قاضی ، عالم، مولوی، مولانا وغیرہ لیکن کردار اس کا ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے حکمرانوں اور اشرافیہ کو '' دین '' کا '' کور '' فراہم کرنا لیکن درمیان میں یوں ہوا کہ اس بیچارے سادہ لوح بندے کو ساجھے دار کے بجائے ایک کمزور محتاجانہ حیثیت دی گئی ۔ بہر حال ملا یا پیش امام کو نہایت ہی کزور، بے اختیار اور مجبور پوزیشن دے دی گئی ۔ حکمران نے یا اشرافیہ نے اس کے ساتھ گھپلہ یہ کیا کہ نظام میں اس کے لیے کوئی مستقل مقام متعین نہیں کیا اور اس کی ضروریات کو نظر انداز کرکے '' اشرافیہ '' کی بھیک کی شکل دے دی گئی۔
نہ اس کی کوئی تنخواہ تھی نہ دوسرا کوئی باعزت ذریعہ آمدن ۔ صرف اشرافیہ کی طرف سے ملنے والی خیرات پر اس کا انحصار ہو گیا یہاں تک کہ اسے کسی بہتر پوزیشن کے بجائے کمی گروہ میں شامل کیا گیا اور یہی وہ مقام ہے جس سے اس کی بے وقتی اور توہین و تضحیک کی ابتدا ہو گئی ۔ یہاں تک کہ معاشرے کا تمام تر بگاڑ اس کے کاندھوں پر ڈالا گیا ، اس کی غربت کا نتیجہ تھا کہ اشرافیہ نے اپنی تمام خواہشات، بے راہ رویوں اور بد اعمالیوں کے لیے اس کے '' دستخط '' لینا شروع کر دیے۔
ایسے معاملات کی فہرست بہت طویل ہے جن کے بارے میں حکمران اشرافیہ نے ملا کا سہارا لیا۔ جیسے تعداد ازواج ، مردوں کی ظالمانہ حاکمیت ، کمزوروں یتیموں اور بیواؤں کے مسائل یا تقسیم وراثت اور غلامی وغیرہ کے معاملات ۔ اکثر ایسے پیش امام مسجد میں رکھے جاتے جو کسی اورپہاڑی یا غیر زرعی علاقے کے ہوتے، وہ غربت یا تن آسانی یا بیروزگاری سے تنگ آکر یہ پیشہ اختیار کرتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مقامی خوشحال لوگ اس پیشے کو اختیار ہی نہ کرتے، یوں غربت کے مارے غیر مقامی لوگ آدھے ادھورے دینی مسائل سیکھ کر پیش امام ہو جاتے جن کی باگیں پیچھے کھڑے ہونے والے چندہ دہندگان اور '' مخیر '' امیروں کے ہاتھ میں ہوتی تھیں۔
چنانچہ ایک طویل دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ دینی مسائل میں کیا کچھ بدعتیں رونما ہوئیں جس کی ساری ذمے داری اس مجبوو محکوم '' ملا '' پر عائد ہوتی کہ اس نے '' لالچ '' میں آکر امراء کی عیاشیوں اور بد اعمالیوں کے لیے دینی جواز فراہم کیا حالانکہ جسے ہم ' لالچ '' کا نام دیتے ہیں، وہ سراسر ' 'مجبوریاں ہوتی تھیں۔ ہر طرف سے مجبور و لاچار صرف '' خیرات '' پر زندہ رہنے والا خیرات کے وسائل کی مرضی و خواہش پر نہ چلتا تو کیا کرتا۔ ؟ گویا وہی بات ہوئی کہ
درمیان قحردریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
بعد میں کسی وقت اس کی تر دامنی '' پر بھی تفصیل سے بات ہوگی ۔
اس سے پہلے جب تک انسان ایک '' جسم '' تھا تو اسے صرف ''تلوار '' سے قابو کرنا اور سیدھا رکھنا آسان تھا لیکن جب جسم کے ساتھ ساتھ اس میں ایک '' ذہن '' بھی پیدا ہونے لگا تو صرف تلوار سے اسے قابو کرنا مشکل ثابت ہو نے لگا، تب حکمران کو ایک ایسے مدد گار یا ساجھے دار کی ضرورت پڑی جو اس ذہن کو بھی اس کے تابع فرمان لے آئے اور رکھے ، چنانچہ اس نے ذہن کو مسخر کرنے کے لیے مذہبی مددگار کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
جو اس کے لیے ذہنوں کو قابوں میں رکھے، بدلے میں اس نے منافع میں سے کچھ تھوڑا سا حصہ اس کو دیدیا۔ اس نئے ساجھے دار کا کام یہ تھاکہ حکمران کو مذہبی تقدس کا لباس پہنائے رکھے ، اس کے ہر کام کو مذہبی سایہ فراہم کرتا رہے اور حکمران کا تابع فرمان بنائے چنانچہ ابتدائی زمانوں میں اس نے حکمران کو براہ راست '' دیوتا '' بنایاپھر آہستہ آہستہ '' دیوتازادہ '' بنایا اور اسے آسمانی فرستادے کا مقام دیا، بعد کے زمانوں میں جب انسان ان باتوں کے جھانسے سے باہر ہونے لگا تو اسے ظل اللہ ، ظل الٰہی اور خدا کا مقرر کیا ہوا بتایا ۔
لیکن ان زمانوں میں اس کے نام کچھ اور ہوتے تھے، پروہت رشی منی، پنڈت ، براھمن وغیرہ، اس کا درجہ بھی بلند ہوتا تھا۔ ذرایع آمدن بھی بہت اور خود مختارانہ ہوتے تھے۔ لیکن یہ تو تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمران براہ راست ابلیسیہ گروہ کا نمایندہ ہوتا ہے اور صدیوں کے تجربات نے اسے اتنا عیار مکار اور ہوشیار بنایا ہوا ہے کہ ہر چیز کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اسے خوب آتا ہے، بوقت ضرورت گدھے کو بھی باپ بنا لیتا ہے اور باپ کو بھی گدھا کہنے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتا۔اس لیے دھیرے دھیرے اس نے اپنے اس مذہبی ساجھے دار کے بھی پر کاٹنا شروع کردیے اور بالاخر اسے بھی اپنا تابع فرمان بنا لیا ۔
انسانی تاریخ میں یہ دونوں طاقتیں برابر ساتھ چلتی رہیں کیونکہ انسان ایک ہونے کے باوجود دو پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ ایک جسم اور دوسرا ذہنی یا ایک ظاہر اور ایک باطن، ایک جسم اور ایک روح ۔ اس لیے ان دونوں کی بھی ہمیشہ ضرورت رہی لیکن تاریخ کے ادوار میں ایسے بھی موڑ آتے رہے کہ کبھی ایک کا پلہ بھاری رہتا کبھی دوسرے کا ۔
آخر کار رب مخلوقات کی طرف سے اس دین کا ظہور ہوا جو انسانیت کے لیے آخری، مکمل اور حتمی ہے، اس اعلان کے ساتھ کہ '' الیوم المکت لکم دینکم '' آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا کیونکہ اس سے پہلے کے ''ادیان '' قوموں قبیلوں یا نسلوں کے لیے ذیلی نصاب ہوا کرتے تھے۔ یہ طالب علم جسے انسان کہتے ہیں پرائمری اسکولوں اور درسگاہوں سے ہوتا ہوا، درجہ بدرجہ '' نصابات '' سیکھتا ہوا اب یونیورسٹی اور آخری تکمیلی ڈگری دینے کے قابل ہو گیا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح منفی قوت یا ابلیسی مزاج بھی موجود تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کے بھی تین پشتوں کے بعد حکمرانیہ یا احساس برتری کا خوگر مزاج ابھرآیا اور کربلا کے میدان میں حکمرانیت سرگرم ہو گئی ۔ اور اس کو بھی دو (2) میں تقسیم ہونا پڑا ، دین کی دو شاخیں ہو گئیں۔ ایک وہ جو حکمران کے ساتھ تھی اور حکمران کی طرح ظواہر پر زور دیتی تھی۔ اور دوسری حکمران اور ظواہر سے الگ ہو گئی
شد آں کہ اہل نظر در کنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن درد ہاں ولب خاموش
اب ان دونوں شاخوں کی تاریخ بڑی طول طویل ہے اور تفصیلی بحث کی طالب ہے، اس لیے ہم اپنی بحث کو مختصر کرتے ہوئے اس '' کردار '' کی طرف آتے ہیں جس کا نام عرف عام میں '' ملا'' ہے۔ مختلف ادوار میں اس کے نام بھی بدلتے رہے ہیں جیسے قاضی ، عالم، مولوی، مولانا وغیرہ لیکن کردار اس کا ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے حکمرانوں اور اشرافیہ کو '' دین '' کا '' کور '' فراہم کرنا لیکن درمیان میں یوں ہوا کہ اس بیچارے سادہ لوح بندے کو ساجھے دار کے بجائے ایک کمزور محتاجانہ حیثیت دی گئی ۔ بہر حال ملا یا پیش امام کو نہایت ہی کزور، بے اختیار اور مجبور پوزیشن دے دی گئی ۔ حکمران نے یا اشرافیہ نے اس کے ساتھ گھپلہ یہ کیا کہ نظام میں اس کے لیے کوئی مستقل مقام متعین نہیں کیا اور اس کی ضروریات کو نظر انداز کرکے '' اشرافیہ '' کی بھیک کی شکل دے دی گئی۔
نہ اس کی کوئی تنخواہ تھی نہ دوسرا کوئی باعزت ذریعہ آمدن ۔ صرف اشرافیہ کی طرف سے ملنے والی خیرات پر اس کا انحصار ہو گیا یہاں تک کہ اسے کسی بہتر پوزیشن کے بجائے کمی گروہ میں شامل کیا گیا اور یہی وہ مقام ہے جس سے اس کی بے وقتی اور توہین و تضحیک کی ابتدا ہو گئی ۔ یہاں تک کہ معاشرے کا تمام تر بگاڑ اس کے کاندھوں پر ڈالا گیا ، اس کی غربت کا نتیجہ تھا کہ اشرافیہ نے اپنی تمام خواہشات، بے راہ رویوں اور بد اعمالیوں کے لیے اس کے '' دستخط '' لینا شروع کر دیے۔
ایسے معاملات کی فہرست بہت طویل ہے جن کے بارے میں حکمران اشرافیہ نے ملا کا سہارا لیا۔ جیسے تعداد ازواج ، مردوں کی ظالمانہ حاکمیت ، کمزوروں یتیموں اور بیواؤں کے مسائل یا تقسیم وراثت اور غلامی وغیرہ کے معاملات ۔ اکثر ایسے پیش امام مسجد میں رکھے جاتے جو کسی اورپہاڑی یا غیر زرعی علاقے کے ہوتے، وہ غربت یا تن آسانی یا بیروزگاری سے تنگ آکر یہ پیشہ اختیار کرتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مقامی خوشحال لوگ اس پیشے کو اختیار ہی نہ کرتے، یوں غربت کے مارے غیر مقامی لوگ آدھے ادھورے دینی مسائل سیکھ کر پیش امام ہو جاتے جن کی باگیں پیچھے کھڑے ہونے والے چندہ دہندگان اور '' مخیر '' امیروں کے ہاتھ میں ہوتی تھیں۔
چنانچہ ایک طویل دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ دینی مسائل میں کیا کچھ بدعتیں رونما ہوئیں جس کی ساری ذمے داری اس مجبوو محکوم '' ملا '' پر عائد ہوتی کہ اس نے '' لالچ '' میں آکر امراء کی عیاشیوں اور بد اعمالیوں کے لیے دینی جواز فراہم کیا حالانکہ جسے ہم ' لالچ '' کا نام دیتے ہیں، وہ سراسر ' 'مجبوریاں ہوتی تھیں۔ ہر طرف سے مجبور و لاچار صرف '' خیرات '' پر زندہ رہنے والا خیرات کے وسائل کی مرضی و خواہش پر نہ چلتا تو کیا کرتا۔ ؟ گویا وہی بات ہوئی کہ
درمیان قحردریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
بعد میں کسی وقت اس کی تر دامنی '' پر بھی تفصیل سے بات ہوگی ۔