انصاف میں تاخیر ایک المیہ انشورنس کمپنیاں عوام میں اعتماد بڑھائیں گورنر پنجاب
تکافل شرعی اصولوں کے مطابق ہے، رئیس الدین پراچہ
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہاہے کہ کمپنیاں انشورنش کے شعبے کی ترقی کے لیے عوام میں اپنا اعتماد بڑھائیں اگر انشورنش کمپنیاں اپنا کام درست طریقے سے کریں تو گورننس بہتر ہو گی۔
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا انصاف کی فراہمی میں تاخیر ایک المیہ ہے، انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ہمیں مسائل کے حل کیلیے پورے جذبے سے کام کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور وفاقی ادارہ انشورنس محتسب کے زیراہتمام یونائیٹڈ انشورنس کمپنی اور پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے اشتراک سے ''گڈ گورننس اور انشورنس انڈسٹری کی ترقی''کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے سرانجام دیے۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ مہمان خصوصی تھے۔
سیمینارمیں وفاقی محتسب انشورنس محمد رئیس الدین پراچہ، پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے ریجنل ڈائریکٹر طارق سعید چودھری،انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین اوریونائیٹڈ انشورنس کے چیف ایگزیکٹو محمد راحت صادق، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر چوہدری عرفان یوسف،ایکسپریس میڈیا گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مارکیٹنگ اظفر نظامی،ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ شرمین خرم سمیت دیگرنے شرکت کی۔
گورنرپنجاب ملک محمدرفیق رجوانہ نے کہاکہ انشورنش پالیسی دراصل کمپنی اورپالیسی لینے والے کے مابین ایک اعتمادکا نام ہے، کمپنیاں انشورنش کے شعبے کی ترقی کیلیے عوام میں اپنا اعتماد بڑھائیں۔ اگر انشورنش کمپنیاں اپنا کام درست طریقے سے کریں تو گورننس بہترہوگی۔ گورنرپنجاب نے کہا ہے انشورنش کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے کمپنیوں کوصارفین میں اپنا اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔گورنر پنجاب نے کہا میں خود جج رہا ہوں۔ اگر کوئی ملزم 14سال کال کوٹھڑی میں رہتا ہے اور پھر بری ہوجاتا ہے،تو وہ درحقیقت پھانسی لگ چکا ہوتا ہے،اس کی زندگی کے 14سال کا حساب کون دیگا؟۔انہوں نے کہا انشورنس کمپنیاں صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان کے جائز مسائل حل کریں،کسی کو بلاوجہ کمپنی دفاتر کے چکر نہ لگوائے جائیں۔ وفاقی انشورنس محتسب محمد رئیس الدین پراچہ نے کہا کہ پاکستان میں عوام کو انشورنش محتسب کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، ہرسال انشورنش کے 25 سے 30 ہزارکلیم مسترد ہوجاتے ہیں، جن کے انشورنش کلیم مستردہوتے ہیں وہ دادرسی سے محروم رہتے ہیں۔
اب لائف انشورنش کے ساتھ ساتھ ہیلتھ، کاروبار، مشینری،فصلوں اورانسانی صلاحیتیوں کی بھی انشورنس ہورہی ہے۔جنرل انشورنس کے حوالے سے عوام کوتحفظات ہیں لیکن تکافل شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہا ہے،کمپنیوں کو کلائنٹس کے ساتھ اعتمادبڑھانے کی ضرورت ہے، کلیم اداکرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، ہیلتھ کلیم فوری اداہونا چاہیے، گڈگورننس پرعمل کیا جائے تو انشورنس محتسب کا کام ختم ہوجائیگا۔انہوں نے کہا سی پیک خطے میں ترقی کے نئی راہیں کھول رہا ہے، انشورنس ایسوسی ایشن اس سیکٹر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک فورم پر اکٹھا کر کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے منصوبہ بندی کرے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی ادارہ انشورنس محتسب جلد ملتان اور پشاور میں اپنے ریجنل دفاتر قائم کریگا۔ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین اور یونائیٹڈ انشورنس کے چیف ایگزیکٹو محمدراحت صادق نے کہا کہ انشورنس سیکٹر ترقی کر رہا ہے اور انشورنس کمپنیاں خود کو جدید تقاضوںسے ہم آہنگ کر رہی ہیں۔
انشورنس محتسب کے قیام سے انشورنس پالیسی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں ابھی انشورنس کروانے کی شرح انتہائی کم ہے۔پاک قطر تکافل کے ریجنل ڈائریکٹرطارق سعید چوہدری نے کہا کہ ایسے اہم موضوع پر سیمینار منعقد کرنے پر ایکسپریس میڈیا گروپ مبارکباد کا مستحق ہے۔اس سے عوام میں انشورنس کے حوالے سے شعور اور آگاہی پید اہوگی۔ انہوں نے کہا تکافل کے ماڈل کو مزید بہتر بنانے کیلیے وفاقی انشورنس محتسب ہماری رہنمائی کریں۔پانچ سال میں انشورنس سیکٹر کی گروتھ 13 فیصد رہی۔ 2016میں انشورنس انڈسٹری میں265ارب روپے کا بزنس ہوا۔ انشورنس پالیسی کمپنی اور خریدار کے درمیان ایک عہد ہے۔
اس لیے اس میں قوانین کیساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر چوہدری عرفان یوسف نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل گڈ گورننس ہے جس کیلیے طویل المیعاد اور مربوط پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا حکومت پالیسی سازی کے عمل میں بزنس کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا خودانحصاری حاصل کرنے کیلئے ہمیں بیرونی قرضے لینے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، معیشت و کاروبار کی بہتری کیلئے فوری ٹیکس اصلاحات کی جائیں۔ توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے میگا پراجیکٹس شروع کیے جائیں۔ انہوں نے کہا حکومت معاشی حوالے سے اچھی پالیسیاں بنارہی ہیں،پی آئی اے اور سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا۔
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا انصاف کی فراہمی میں تاخیر ایک المیہ ہے، انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ہمیں مسائل کے حل کیلیے پورے جذبے سے کام کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور وفاقی ادارہ انشورنس محتسب کے زیراہتمام یونائیٹڈ انشورنس کمپنی اور پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے اشتراک سے ''گڈ گورننس اور انشورنس انڈسٹری کی ترقی''کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے سرانجام دیے۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ مہمان خصوصی تھے۔
سیمینارمیں وفاقی محتسب انشورنس محمد رئیس الدین پراچہ، پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے ریجنل ڈائریکٹر طارق سعید چودھری،انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین اوریونائیٹڈ انشورنس کے چیف ایگزیکٹو محمد راحت صادق، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر چوہدری عرفان یوسف،ایکسپریس میڈیا گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مارکیٹنگ اظفر نظامی،ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ شرمین خرم سمیت دیگرنے شرکت کی۔
گورنرپنجاب ملک محمدرفیق رجوانہ نے کہاکہ انشورنش پالیسی دراصل کمپنی اورپالیسی لینے والے کے مابین ایک اعتمادکا نام ہے، کمپنیاں انشورنش کے شعبے کی ترقی کیلیے عوام میں اپنا اعتماد بڑھائیں۔ اگر انشورنش کمپنیاں اپنا کام درست طریقے سے کریں تو گورننس بہترہوگی۔ گورنرپنجاب نے کہا ہے انشورنش کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے کمپنیوں کوصارفین میں اپنا اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔گورنر پنجاب نے کہا میں خود جج رہا ہوں۔ اگر کوئی ملزم 14سال کال کوٹھڑی میں رہتا ہے اور پھر بری ہوجاتا ہے،تو وہ درحقیقت پھانسی لگ چکا ہوتا ہے،اس کی زندگی کے 14سال کا حساب کون دیگا؟۔انہوں نے کہا انشورنس کمپنیاں صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان کے جائز مسائل حل کریں،کسی کو بلاوجہ کمپنی دفاتر کے چکر نہ لگوائے جائیں۔ وفاقی انشورنس محتسب محمد رئیس الدین پراچہ نے کہا کہ پاکستان میں عوام کو انشورنش محتسب کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، ہرسال انشورنش کے 25 سے 30 ہزارکلیم مسترد ہوجاتے ہیں، جن کے انشورنش کلیم مستردہوتے ہیں وہ دادرسی سے محروم رہتے ہیں۔
اب لائف انشورنش کے ساتھ ساتھ ہیلتھ، کاروبار، مشینری،فصلوں اورانسانی صلاحیتیوں کی بھی انشورنس ہورہی ہے۔جنرل انشورنس کے حوالے سے عوام کوتحفظات ہیں لیکن تکافل شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہا ہے،کمپنیوں کو کلائنٹس کے ساتھ اعتمادبڑھانے کی ضرورت ہے، کلیم اداکرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، ہیلتھ کلیم فوری اداہونا چاہیے، گڈگورننس پرعمل کیا جائے تو انشورنس محتسب کا کام ختم ہوجائیگا۔انہوں نے کہا سی پیک خطے میں ترقی کے نئی راہیں کھول رہا ہے، انشورنس ایسوسی ایشن اس سیکٹر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک فورم پر اکٹھا کر کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے منصوبہ بندی کرے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی ادارہ انشورنس محتسب جلد ملتان اور پشاور میں اپنے ریجنل دفاتر قائم کریگا۔ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین اور یونائیٹڈ انشورنس کے چیف ایگزیکٹو محمدراحت صادق نے کہا کہ انشورنس سیکٹر ترقی کر رہا ہے اور انشورنس کمپنیاں خود کو جدید تقاضوںسے ہم آہنگ کر رہی ہیں۔
انشورنس محتسب کے قیام سے انشورنس پالیسی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں ابھی انشورنس کروانے کی شرح انتہائی کم ہے۔پاک قطر تکافل کے ریجنل ڈائریکٹرطارق سعید چوہدری نے کہا کہ ایسے اہم موضوع پر سیمینار منعقد کرنے پر ایکسپریس میڈیا گروپ مبارکباد کا مستحق ہے۔اس سے عوام میں انشورنس کے حوالے سے شعور اور آگاہی پید اہوگی۔ انہوں نے کہا تکافل کے ماڈل کو مزید بہتر بنانے کیلیے وفاقی انشورنس محتسب ہماری رہنمائی کریں۔پانچ سال میں انشورنس سیکٹر کی گروتھ 13 فیصد رہی۔ 2016میں انشورنس انڈسٹری میں265ارب روپے کا بزنس ہوا۔ انشورنس پالیسی کمپنی اور خریدار کے درمیان ایک عہد ہے۔
اس لیے اس میں قوانین کیساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر چوہدری عرفان یوسف نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل گڈ گورننس ہے جس کیلیے طویل المیعاد اور مربوط پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا حکومت پالیسی سازی کے عمل میں بزنس کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا خودانحصاری حاصل کرنے کیلئے ہمیں بیرونی قرضے لینے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، معیشت و کاروبار کی بہتری کیلئے فوری ٹیکس اصلاحات کی جائیں۔ توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے میگا پراجیکٹس شروع کیے جائیں۔ انہوں نے کہا حکومت معاشی حوالے سے اچھی پالیسیاں بنارہی ہیں،پی آئی اے اور سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا۔