پاک بھارت تعلقات میں بہتری لیکن کیسے
بھارت نے سکھ یاتریوں کیلئے بھیجی گئی سمجھوتہ ایکسپریس یہ کہہ کر خالی واپس کردی کہ یہ ٹرین مسافروں کیلئے محفوظ نہیں
کہا جاتا ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔ جب ہم کسی بھارتی سے ملتے ہیں تو ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ میں بھارت میں بسنے والوں سے حال ہی میں ننکانہ صاحب میں بھی ملا اور کراچی میں چالیس ہزار کے قریب بھارتی بوہری کمیونٹی کے سالانہ پروگرام میں شرکت کےلیے آئے، ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ ہمیں بہت کم جگہوں پر جا کر ایسا لگتا ہے کہ ہم بھارت میں نہیں۔ جب ایسا ہی ہے تو بھارت اور پاکستان، دونوں ممالک اپنے دل صاف کریں اور نفرت چھوڑیں۔
اگر ہم واقعی اچھے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں تو ہمیں امن و محبت سے رہنا ہوگا اس کا عملی تجربہ ہمیں گزشتہ دنوں کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ''سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس انڈیا'' کے صدر اور متحرک امن کارکن اوم پرکاش شا سے مل کر ہوا۔ وہ فرما رہے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کا بہترین راستہ مذاکرات ہیں جبکہ ہمارے پاس تعلقات میں بہتری کےلیے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔ گفت و شنید سے بہتری ممکن ہوسکتی ہے، بشرطیکہ دونوں حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ تناﺅ اور کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
دونوں طرف کے لوگ ترقی اور خوشحالی کےلیے امن کے راستے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت دور اندیشی اور تدبر سے کام لے اور دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری سے غربت میں مؤثر انداز میں کمی لائی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے غربت اور ناخواندگی کے خلاف لڑنا چاہیے، تبھی ہم آنے والی نسلوں کو پرامن خطہ دے سکے گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستانیوں کی انڈیا سے محبت ہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ویزا کے حصول کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر جب ہم نے ان سے پوچھا کہ بھارت سرکار مختلف حیلے بہانے بنا کر وہاں کے لوگوں کو پاکستان میں ہونے والے ادبی میلوں میں آنے سے کیوں روکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بھارت سرکار کسی انڈین کو روک ہی نہیں سکتی اگر پاکستان نے ان کو ویزا جاری کردیا ہے۔ لیکن جب ہم نے انہیں بتایا کہ گزشتہ سال بھارتی حکام نے نہ صرف سکھ یاتریوں کو روکا بلکہ سکھ یاتریوں کو لینے کےلیے جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس کو یہ کہہ کر خالی واپس بھیج دیا تھا کہ یہ ٹرین مسافروں کےلیے محفوظ نہیں ہے۔
حالیہ عالمی اردو کانفرنس اور کراچی لٹریچر فیسٹول میں باقاعدہ دعوت نامے بھیجے گئے تھے اور انڈین دانشوروں اور شعراء نے یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ اس کے باوجود چند لوگ ہی پاکستان آسکے تھے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس پر بعد میں تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
ہم اپنے صحافتی کیریئر میں کئی بھارتی دانشوروں اور شعراء سے ملے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہی اس خطے میں امن کی ضمانت ہیں جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کےلیے بے شمار وفود کے تبادلے ہوئے۔
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک ہر سال مذہبی رسومات کی ادائیگی و سیاحت کی ترغیب کی غرض سے ویزے جاری کرتے رہے ہیں اور ان ویزوں پر دونوں ممالک کے شہری اپنے مذہبی مقامات کا دورہ اور زیارت کرنے اور مذہبی رسومات میں شرکت کےلیے پاکستان اور بھارت آتے جاتے تھے۔ برسوں پہلے سمجھوتہ ایکسپریس بھی چلائی گئی جس سے سکھ برادری کا اپنی مذہبی تقریبات میں شرکت کےلیے پاکستان آنا بھی آسان ہوگیا تھا مگر سب بے سود رہا۔ حالانکہ مخدوش حالات میں بھی بھارتی یاتریوں کو پاکستان کی جانب سے نہ صرف ہر ممکن سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا جاتا رہا بلکہ ان کی حفاظت کا بھی مؤثر انتظامات کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان سے بھارت جانے والے زائرین پر عین وقت پر پابندی لگائی جاتی رہی اور اولیائے کرام کی درگاہوں پر حاضری دے کر روحانی و قلبی سکون حاصل کرنے کے متمنی دل مسوس کر ہی رہ جاتے تھے جبکہ یہ ویز ے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے ساتھ عوام کی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے اور مذہبی سیاحت کے فروغ کی پالیسی کے تحت جاری کیے جاتے تھے اور اس عمل میں حتی الامکان کوشش کی جاتی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو آڑے نہ آنے دیا جائے لیکن سیکولرزم کا دعویدار بھارت اس عمل میں بھی ہر بار رکاوٹیں پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتا تھا اور مختلف حیلے بہانوں سے زائرین اور یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا کرتا تھا۔ حالانکہ پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں بھی مہمان نوازی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا مسئلہ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت آج تک کشیدہ ہے، وہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور پاکستانی عوام یقین رکھتے ہیں کہ اگرچہ فی الوقت کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوا ہے لیکن بھارت کو مخاصمانہ جذبات سے پاک بات چیت کی جانب آنا چاہیے۔ دوسری طرف بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے امید تھی لیکن گزشتہ ایک برس میں انہوں نے پاکستان کو یا تو نظرانداز کیا یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا پہاڑ بنا کر بات چیت سے دور رہنے کا جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی اور بھارتی دانشوروں کی رائے میں دونوں ممالک کو طویل مدتی امن کی جانب غور کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنے اور بداعتمادی کا سلسلہ روکنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف قدامت پسند عناصر پر قابو نہ پانے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کو ثقافتی تبادلے کے حوالے سے پیش رفت کرنے کی بھی ضرورت ہے، جیسے میڈیا کے مشترکہ پروگرام اور ثقافتی اور ادبی میلوں میں دونوں ممالک کے مندوبین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
ذرائع ابلاغ یقیناً دنوں ممالک میں تعلقات کے سدھار میں اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں تاہم اس سلسلے میں ذمہ داری دونوں ممالک کی منتخب حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ادارہ جاتی رابطوں کے ساتھ ساتھ مالکان کے فورمز، پیشہ ورانہ تنظیموں، ایڈیٹرز اور صحافیوں کے درمیان روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں اخبارات کے نمائندگان کا تعین ایک اہم اور حل طلب مسئلہ ہے۔ صحافیوں کو آسان طریقہ کار پر ویزے جاری ہونے چاہئیں، صحافیوں کے ایک دوسرے ممالک میں سفر کے حوالے سے پالیسیوں میں نرمیاں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ ہونے والی پیشرفتوں سے باخبر رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر ہم واقعی اچھے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں تو ہمیں امن و محبت سے رہنا ہوگا اس کا عملی تجربہ ہمیں گزشتہ دنوں کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ''سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس انڈیا'' کے صدر اور متحرک امن کارکن اوم پرکاش شا سے مل کر ہوا۔ وہ فرما رہے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کا بہترین راستہ مذاکرات ہیں جبکہ ہمارے پاس تعلقات میں بہتری کےلیے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔ گفت و شنید سے بہتری ممکن ہوسکتی ہے، بشرطیکہ دونوں حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ تناﺅ اور کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
دونوں طرف کے لوگ ترقی اور خوشحالی کےلیے امن کے راستے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت دور اندیشی اور تدبر سے کام لے اور دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری سے غربت میں مؤثر انداز میں کمی لائی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے غربت اور ناخواندگی کے خلاف لڑنا چاہیے، تبھی ہم آنے والی نسلوں کو پرامن خطہ دے سکے گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستانیوں کی انڈیا سے محبت ہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ویزا کے حصول کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر جب ہم نے ان سے پوچھا کہ بھارت سرکار مختلف حیلے بہانے بنا کر وہاں کے لوگوں کو پاکستان میں ہونے والے ادبی میلوں میں آنے سے کیوں روکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بھارت سرکار کسی انڈین کو روک ہی نہیں سکتی اگر پاکستان نے ان کو ویزا جاری کردیا ہے۔ لیکن جب ہم نے انہیں بتایا کہ گزشتہ سال بھارتی حکام نے نہ صرف سکھ یاتریوں کو روکا بلکہ سکھ یاتریوں کو لینے کےلیے جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس کو یہ کہہ کر خالی واپس بھیج دیا تھا کہ یہ ٹرین مسافروں کےلیے محفوظ نہیں ہے۔
حالیہ عالمی اردو کانفرنس اور کراچی لٹریچر فیسٹول میں باقاعدہ دعوت نامے بھیجے گئے تھے اور انڈین دانشوروں اور شعراء نے یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ اس کے باوجود چند لوگ ہی پاکستان آسکے تھے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس پر بعد میں تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
ہم اپنے صحافتی کیریئر میں کئی بھارتی دانشوروں اور شعراء سے ملے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہی اس خطے میں امن کی ضمانت ہیں جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کےلیے بے شمار وفود کے تبادلے ہوئے۔
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک ہر سال مذہبی رسومات کی ادائیگی و سیاحت کی ترغیب کی غرض سے ویزے جاری کرتے رہے ہیں اور ان ویزوں پر دونوں ممالک کے شہری اپنے مذہبی مقامات کا دورہ اور زیارت کرنے اور مذہبی رسومات میں شرکت کےلیے پاکستان اور بھارت آتے جاتے تھے۔ برسوں پہلے سمجھوتہ ایکسپریس بھی چلائی گئی جس سے سکھ برادری کا اپنی مذہبی تقریبات میں شرکت کےلیے پاکستان آنا بھی آسان ہوگیا تھا مگر سب بے سود رہا۔ حالانکہ مخدوش حالات میں بھی بھارتی یاتریوں کو پاکستان کی جانب سے نہ صرف ہر ممکن سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا جاتا رہا بلکہ ان کی حفاظت کا بھی مؤثر انتظامات کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان سے بھارت جانے والے زائرین پر عین وقت پر پابندی لگائی جاتی رہی اور اولیائے کرام کی درگاہوں پر حاضری دے کر روحانی و قلبی سکون حاصل کرنے کے متمنی دل مسوس کر ہی رہ جاتے تھے جبکہ یہ ویز ے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے ساتھ عوام کی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے اور مذہبی سیاحت کے فروغ کی پالیسی کے تحت جاری کیے جاتے تھے اور اس عمل میں حتی الامکان کوشش کی جاتی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو آڑے نہ آنے دیا جائے لیکن سیکولرزم کا دعویدار بھارت اس عمل میں بھی ہر بار رکاوٹیں پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتا تھا اور مختلف حیلے بہانوں سے زائرین اور یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا کرتا تھا۔ حالانکہ پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں بھی مہمان نوازی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا مسئلہ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت آج تک کشیدہ ہے، وہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور پاکستانی عوام یقین رکھتے ہیں کہ اگرچہ فی الوقت کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوا ہے لیکن بھارت کو مخاصمانہ جذبات سے پاک بات چیت کی جانب آنا چاہیے۔ دوسری طرف بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے امید تھی لیکن گزشتہ ایک برس میں انہوں نے پاکستان کو یا تو نظرانداز کیا یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا پہاڑ بنا کر بات چیت سے دور رہنے کا جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی اور بھارتی دانشوروں کی رائے میں دونوں ممالک کو طویل مدتی امن کی جانب غور کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنے اور بداعتمادی کا سلسلہ روکنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف قدامت پسند عناصر پر قابو نہ پانے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کو ثقافتی تبادلے کے حوالے سے پیش رفت کرنے کی بھی ضرورت ہے، جیسے میڈیا کے مشترکہ پروگرام اور ثقافتی اور ادبی میلوں میں دونوں ممالک کے مندوبین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
ذرائع ابلاغ یقیناً دنوں ممالک میں تعلقات کے سدھار میں اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں تاہم اس سلسلے میں ذمہ داری دونوں ممالک کی منتخب حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ادارہ جاتی رابطوں کے ساتھ ساتھ مالکان کے فورمز، پیشہ ورانہ تنظیموں، ایڈیٹرز اور صحافیوں کے درمیان روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں اخبارات کے نمائندگان کا تعین ایک اہم اور حل طلب مسئلہ ہے۔ صحافیوں کو آسان طریقہ کار پر ویزے جاری ہونے چاہئیں، صحافیوں کے ایک دوسرے ممالک میں سفر کے حوالے سے پالیسیوں میں نرمیاں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ ہونے والی پیشرفتوں سے باخبر رہ سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔