عمران خان کا امتحان
بلاشبہ وقت نے سنیل گواسکر کی اس بے لاگ رائے کو حرف بہ حرف درست ثابت کردیا
یہ قصہ ان دنوں کا ہے جب بھارت کی کرکٹ ٹیم سنیل گواسکر کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی۔ مہاراجہ گائیکواڈ اس ٹیم کے منیجر تھے جسے کراچی انٹرکونٹی نینٹل ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ میچ سے قبل ہمیں ریڈیو پاکستان کے لیے گواسکر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کرنا تھا جس کے لیے ہم نے مہاراجہ صاحب سے پیشگی اجازت حاصل کرلی تھی۔ چنانچہ مقررہ وقت پر ہم وہاں پہنچ گئے اور ایک نہایت خوبصورت انٹرویو ریکارڈ کرلیا جس کی بازگشت ہمارے ذہن میں برسوں گزر جانے کے بعد بھی محفوظ اور تروتازہ ہے۔
اچھے خاصے طویل دورانیے کے اس دلچسپ انٹرویو کے دوران سنیل گواسکر سے بہت سی باتیں ہوئیں اور ہم نے ان سے بہت سے سوالات بھی کیے جن کے جوابات انھوں نے توقف اور بلاتوقف، دونوں طرح سے دیے۔ آخر میں ہم نے ان سے ایک ایسا سوال کیا جس کی شاید انھیں قطعاً توقع نہ ہوگی۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمارے اس سوال کے جواب میں شاید تذبذب میں پڑ جائیں گے یا پھر اس کا جواب گول مول انداز میں دیں گے۔ مگر ہمارے اس سوال کا جواب ان کی جانب سے بالکل برجستہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ آپ بے شمار پرستاروں کے ہاٹ فیورٹ ہیں، مگر یہ بتائیے کہ خود آپ کا سب سے فیورٹ کھلاڑی کون ہے؟ "Who else except Imran?" یعنی عمران کے علاوہ بھلا اور کون ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران محض ایک بہترین آل راؤنڈر ہی نہیں بلکہ ایک بے مثال کپتان بھی ہے۔
بلاشبہ وقت نے سنیل گواسکر کی اس بے لاگ رائے کو حرف بہ حرف درست ثابت کردیا اور عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں انھیں قائدانہ صلاحیت کے وہ جوہر دکھلائے جنھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ ان کے حریف بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ عمران خان کی قیادت کا دور پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے سنہری دور ہے کیونکہ پاکستان کا ورلڈ چیمپئن بننا اس دور کا عظیم واقعہ ہے۔ عمران نہ صرف بذات خود ایک بے مثل کھلاڑی ہیں بلکہ انھیں ممولے کو شہباز سے لڑانے کا ہنر بھی خوب آتا ہے جس کا جیتا جاگتا ثبوت عالمی کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شاندار کامیابی کی صورت میں ہمیشہ موجود رہے گا۔
کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد عمران نے خدمت خلق کے میدان کا انتخاب کیا اور یہاں بھی اپنی خداداد صلاحیت کا لوہا منوالیا۔ شوکت خانم اسپتال کا قیام ایک غیرمعمولی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اسے اگر ناممکن کی جستجو کہا جائے تو شاید یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ مگر لفظ ''ناممکن'' تو عمران کی لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔ چناں چہ اپنے خوشگوار اور امیدافزا آغاز کے بعد یہ عظیم الشان منصوبہ اپنی تکمیل کے تمام مراحل نہایت آسانی اور خوش اسلوبی سے طے کرتا چلا گیا اور نہ جانے کتنے لوگ اب تک اس سے فیضیاب ہو چکے ہیں۔
اپنے ہدف کا خوب سوچ سمجھ کر تعین کرنا اور پھر ایک کارگر حکمت عملی کے تحت ا س کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا عمران خان کے خمیر میں شامل ہے اور عزم صمیم اور غیرمعمولی خود اعتمادی اس کی کامیابیوں کی کلید ہے۔
وہ ہمت مرداں مدد خدا کا قائل ہے۔ اسی لیے جب وہ اپنی منزل کا تعین کرتا ہے تو پھر پیچھے کی جانب مڑ کر نہیں دیکھتا۔ No Looking Back ۔ چنانچہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ یہ اس کی عادت نہیں بلکہ ایک روایت ہے۔ ابتداء میں اسے نہ صرف کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی بلکہ مایوس کن صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنا اس کی زندگی کا ایک غلط فیصلہ تھا جوکہ عزت سادات کو داؤ پر لگا دینے کے مترادف تھا۔ بہ ظاہر ایسا سوچنا شاید غلط بھی نہ تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ Politics is a dirty game ۔ یہاں اچھے اچھوں کی پگڑی اچھال دی جاتی ہے اور اس عاشقی میں عزت سادات بھی چلی جاتی ہے۔ اور پھر وطن عزیز کی سیاست تو ایسی ہے کہ بہ قول شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
عمران کی سیاسی زندگی میں فراز کم اور نشیب زیادہ آئے۔ ابتداء میں یہ Solo Flight سے تعبیر کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے طیارے کو ایک طویل عرصے تک انتہائی صبر کے ساتھ Take Off کے انتظار میں رن وے پر کھڑا رہنا پڑا۔ مگر حسب عادت پائلٹ نے ہمت نہیں ہاری۔ اس پورے عرصے میں عمران نے مستقبل کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، پھر جب صحیح وقت آیا اور حالات سازگار ہوئے تو اس نے بڑے بڑے جلسے کرکے اپنی عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔
عوام اور بالخصوص نوجوان جو ملک کے رائے دہندگان کی غالب اکثریت پر مشتمل ہیں جوق در جوق اس کی جانب کھنچے چلے آئے۔ اس دوران اس نے اپنی جماعت میں انتخابی عمل کو متعارف کرواکر اس روایت کی بنیاد ڈال دی کہ جمہوریت کے دعوے سے پہلے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بھی جمہوریت کی روایت پر عمل پیرا ہوں۔ ہمارا خیال ہے کہ عمران نے یہ کام قدرے تاخیر سے کیا جس کی وجہ سے اسے عام انتخابات کی تیاریوں کے لیے زیادہ وقت میسر نہیں آیا۔ اگرچہ کام ذرا پہلے کرلیا جاتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔
بعض لوگوں کو عمران خان پر یہ اعتراض بھی ہے کہ اس نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رشتہ توڑنے والے پرانے سیاست دانوں کو بھی اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ہے جس سے اس کا یوتھ امیج متاثر ہوا ہے مگر حالات کا تقاضہ شاید یہی تھا کہ آیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے شاید یہ اقدام ناگزیر تھا۔ دوسری بات یہ کہ تجربہ کار لوگوں کی شرکت سے شاید نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی ہوگی۔ ہمارے خیال میں اس وقت اس بات کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا شاید قبل ازوقت ہوگا۔ یہ فیصلہ کتنا درست یا غلط تھا یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا اور انتخابی نتائج پر ہی اس کا انحصار اور دارومدار ہوگا۔
2013 کے عام انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے لیے انتہائی کڑی آزمائش سے کم نہیں۔ اس سیاسی اکھاڑے میں عمران کا مقابلہ بڑے بڑے نامی گرامی پہلوانوں سے ہوگا جو بہت منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور بے شمار داؤ پیچ آزما چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران کو ایک قسم کی چومکھی لڑنی ہوگی۔ ویسے بھی ہماری سیاست میں ووٹوں کے ساتھ ساتھ نوٹوں کا چلن بھی عام رہا ہے۔ اس کے علاوہ قبیلوں اور برادریوں کی روایت بھی موجود رہی ہے اور بہت سی سیاسی بدعتیں بھی ہمارے فرسودہ نظام میں پائی جاتی ہیں۔ اس پورے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران سیاست کے میدان میں بھی کیا کارنامہ انجام دیتا ہے اور اپنی ٹیم کو کس انداز میں کھلاتا ہے۔
اچھے خاصے طویل دورانیے کے اس دلچسپ انٹرویو کے دوران سنیل گواسکر سے بہت سی باتیں ہوئیں اور ہم نے ان سے بہت سے سوالات بھی کیے جن کے جوابات انھوں نے توقف اور بلاتوقف، دونوں طرح سے دیے۔ آخر میں ہم نے ان سے ایک ایسا سوال کیا جس کی شاید انھیں قطعاً توقع نہ ہوگی۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمارے اس سوال کے جواب میں شاید تذبذب میں پڑ جائیں گے یا پھر اس کا جواب گول مول انداز میں دیں گے۔ مگر ہمارے اس سوال کا جواب ان کی جانب سے بالکل برجستہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ آپ بے شمار پرستاروں کے ہاٹ فیورٹ ہیں، مگر یہ بتائیے کہ خود آپ کا سب سے فیورٹ کھلاڑی کون ہے؟ "Who else except Imran?" یعنی عمران کے علاوہ بھلا اور کون ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران محض ایک بہترین آل راؤنڈر ہی نہیں بلکہ ایک بے مثال کپتان بھی ہے۔
بلاشبہ وقت نے سنیل گواسکر کی اس بے لاگ رائے کو حرف بہ حرف درست ثابت کردیا اور عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں انھیں قائدانہ صلاحیت کے وہ جوہر دکھلائے جنھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ ان کے حریف بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ عمران خان کی قیادت کا دور پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے سنہری دور ہے کیونکہ پاکستان کا ورلڈ چیمپئن بننا اس دور کا عظیم واقعہ ہے۔ عمران نہ صرف بذات خود ایک بے مثل کھلاڑی ہیں بلکہ انھیں ممولے کو شہباز سے لڑانے کا ہنر بھی خوب آتا ہے جس کا جیتا جاگتا ثبوت عالمی کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شاندار کامیابی کی صورت میں ہمیشہ موجود رہے گا۔
کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد عمران نے خدمت خلق کے میدان کا انتخاب کیا اور یہاں بھی اپنی خداداد صلاحیت کا لوہا منوالیا۔ شوکت خانم اسپتال کا قیام ایک غیرمعمولی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اسے اگر ناممکن کی جستجو کہا جائے تو شاید یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ مگر لفظ ''ناممکن'' تو عمران کی لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔ چناں چہ اپنے خوشگوار اور امیدافزا آغاز کے بعد یہ عظیم الشان منصوبہ اپنی تکمیل کے تمام مراحل نہایت آسانی اور خوش اسلوبی سے طے کرتا چلا گیا اور نہ جانے کتنے لوگ اب تک اس سے فیضیاب ہو چکے ہیں۔
اپنے ہدف کا خوب سوچ سمجھ کر تعین کرنا اور پھر ایک کارگر حکمت عملی کے تحت ا س کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا عمران خان کے خمیر میں شامل ہے اور عزم صمیم اور غیرمعمولی خود اعتمادی اس کی کامیابیوں کی کلید ہے۔
وہ ہمت مرداں مدد خدا کا قائل ہے۔ اسی لیے جب وہ اپنی منزل کا تعین کرتا ہے تو پھر پیچھے کی جانب مڑ کر نہیں دیکھتا۔ No Looking Back ۔ چنانچہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ یہ اس کی عادت نہیں بلکہ ایک روایت ہے۔ ابتداء میں اسے نہ صرف کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی بلکہ مایوس کن صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنا اس کی زندگی کا ایک غلط فیصلہ تھا جوکہ عزت سادات کو داؤ پر لگا دینے کے مترادف تھا۔ بہ ظاہر ایسا سوچنا شاید غلط بھی نہ تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ Politics is a dirty game ۔ یہاں اچھے اچھوں کی پگڑی اچھال دی جاتی ہے اور اس عاشقی میں عزت سادات بھی چلی جاتی ہے۔ اور پھر وطن عزیز کی سیاست تو ایسی ہے کہ بہ قول شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
عمران کی سیاسی زندگی میں فراز کم اور نشیب زیادہ آئے۔ ابتداء میں یہ Solo Flight سے تعبیر کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے طیارے کو ایک طویل عرصے تک انتہائی صبر کے ساتھ Take Off کے انتظار میں رن وے پر کھڑا رہنا پڑا۔ مگر حسب عادت پائلٹ نے ہمت نہیں ہاری۔ اس پورے عرصے میں عمران نے مستقبل کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، پھر جب صحیح وقت آیا اور حالات سازگار ہوئے تو اس نے بڑے بڑے جلسے کرکے اپنی عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔
عوام اور بالخصوص نوجوان جو ملک کے رائے دہندگان کی غالب اکثریت پر مشتمل ہیں جوق در جوق اس کی جانب کھنچے چلے آئے۔ اس دوران اس نے اپنی جماعت میں انتخابی عمل کو متعارف کرواکر اس روایت کی بنیاد ڈال دی کہ جمہوریت کے دعوے سے پہلے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بھی جمہوریت کی روایت پر عمل پیرا ہوں۔ ہمارا خیال ہے کہ عمران نے یہ کام قدرے تاخیر سے کیا جس کی وجہ سے اسے عام انتخابات کی تیاریوں کے لیے زیادہ وقت میسر نہیں آیا۔ اگرچہ کام ذرا پہلے کرلیا جاتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔
بعض لوگوں کو عمران خان پر یہ اعتراض بھی ہے کہ اس نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رشتہ توڑنے والے پرانے سیاست دانوں کو بھی اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ہے جس سے اس کا یوتھ امیج متاثر ہوا ہے مگر حالات کا تقاضہ شاید یہی تھا کہ آیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے شاید یہ اقدام ناگزیر تھا۔ دوسری بات یہ کہ تجربہ کار لوگوں کی شرکت سے شاید نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی ہوگی۔ ہمارے خیال میں اس وقت اس بات کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا شاید قبل ازوقت ہوگا۔ یہ فیصلہ کتنا درست یا غلط تھا یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا اور انتخابی نتائج پر ہی اس کا انحصار اور دارومدار ہوگا۔
2013 کے عام انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے لیے انتہائی کڑی آزمائش سے کم نہیں۔ اس سیاسی اکھاڑے میں عمران کا مقابلہ بڑے بڑے نامی گرامی پہلوانوں سے ہوگا جو بہت منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور بے شمار داؤ پیچ آزما چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران کو ایک قسم کی چومکھی لڑنی ہوگی۔ ویسے بھی ہماری سیاست میں ووٹوں کے ساتھ ساتھ نوٹوں کا چلن بھی عام رہا ہے۔ اس کے علاوہ قبیلوں اور برادریوں کی روایت بھی موجود رہی ہے اور بہت سی سیاسی بدعتیں بھی ہمارے فرسودہ نظام میں پائی جاتی ہیں۔ اس پورے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران سیاست کے میدان میں بھی کیا کارنامہ انجام دیتا ہے اور اپنی ٹیم کو کس انداز میں کھلاتا ہے۔