’’18کروڑ عوام…اور انتخابات2013‘‘

اس وقت ملک میں تقریباً دو سو سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن ان میں سے چند ایک ہی رجسٹرڈ جماعتیں ہیں

انتخابات کے انعقاد کے دن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں انتخابی سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوگیا ہے، ایک طرف الیکشن کمیشن اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاسی مہمات میں مصروف ہیں، ادھر سپریم کورٹ بھی انتخابات کے لیے کیے گئے اقدامات کا بھی بغور جائزہ لے رہی ہے اور وقتاً فوقتاً الیکشن کمیشن کو ضروری احکامات جاری کررہی ہے تاکہ الیکشن کا انعقاد صاف شفاف ہو اور کسی قسم کی بد عنوانی، لا قانونیت یا دھاندلی کے خدشات وشبہات پیدا نہ ہوں۔ الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی کارروائیوں اور دلچسپی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں اس بار انتخابات صاف شفاف ہوںگے اور اہل امیدوار ہی کامیاب ہوکر ایوانوں میں پہنچیںگے، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، کہتے ہیں نا کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے۔

اسی طرح ماضی کے ڈسے ہوئے حکمرانوں کی ناقص کارکردگی دیکھ کر اور ماضی کے حالات کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد نہایت احتیاط سے آگے بڑھا جارہاہے، نہایت ہی باریک بینی سے ہر پہلو کو پرکھاجارہاہے۔پاکستان کی65سالہ تاریخ کی تناظر میں دیکھاجائے تو شاید پہلی مرتبہ صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے اتنا منظم پلان بنایاجارہاہے شاید حقیقت بھی یہی ہے کہ اسی طرح انتھک کوششوں کے بغیر صاف شفاف انتخابات کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ الیکشن کمیشن ٰ کی ان کوششوں کو بارآور کرے اور انتخابات کا انعقاد پرسکون اور امن وامان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ اب آیئے دیکھتے ہیں اس سارے انتخابی عمل میں18کروڑ عوام کا کیا کردار ہے۔

اس وقت ملک میں تقریباً دو سو سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن ان میں سے چند ایک ہی رجسٹرڈ جماعتیں ہیں،الیکشن کمیشن کے اندازے کے مطابق تقریباً119جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان سے فعال جماعتوں کی تعداد50سے56ہوگی، جو عوامی نمایندگی کا دعویٰ بھی کرتی ہیں اور میدان سیاست میں بھی سرگرم ہیں، یہ تو صرف سیاسی جماعتوں کے دعوے ہیں لیکن اس اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ تو ان کے نام معلوم ہیں اور نہ ہی ان کے سربراہان کا پتہ ہے، جن چند معروف جماعتوں سے عوام واقف ہیں ان میں وہ جماعتیں شامل ہیں جو کہ پچھلے کئی سالوں سے انتخابی میدان میں سرگرم عمل رہی ہیں، مثلاً پاکستان پیپلزپارٹی،پاکستان مسلم لیگ (جو کہ اب مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے) عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، مہاجر قومی موومنٹ، مہاجر اتحاد تحریک، پاکستان سنی تحریک، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام(ف) جمعیت علمائے اسلام(س) جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمہوری وطن پارٹی، پاکستان عوامی تحریک، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، تحریک تحفظ پاکستان، عوامی مسلم لیگ، پختون ملی عوامی پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ(ان جماعتوں میںکچھ جماعتیں نومولود بھی ہیں) لیکن پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور ق )عوامی نیشنل پارٹی متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام(ف) زیادہ فعال رہی ہیں۔ زیادہ تر ان ہی چند پارٹیوں کے درمیان انتخابی معرکے سر کیے جاتے ہیں۔

ہر جماعت اپنا اپنا منشور تیارکرکے عوام کے سامنے پیش کررہی ہے اور ہر ایک جماعت 18کروڑ عوام کی حمایت کا دعویٰ بھی کررہی ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ 18کروڑ عوام کا ان کی جماعت پر اعتماد ہے۔ احکامات وقوانین نے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو سخت اور کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، کیونکہ وہ انتخابی پابندیوں کے تحت وہ نہ ہی جلسے جلوس کرسکتے ہیں نہ کارنر میٹنگز کرسکتے ہیں نہ بینرز آویزاں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہورڈنگ لگواسکتے ہیں اور نہ ہی وال چاکنگ یا پمفلیٹس تقسیم کرسکتے ہیں۔ پولنگ والے دن کے لیے بھی خطیر پابندیاں لگادی گئی ہیں۔

بیشک ان خدشات سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا چونکہ اس وقت ملک کے اندرونی حالات نہایت مخدوش ہیں اور ہر طرف دہشت گردی کا راج ہے، امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہے، حالات پر قابو پانے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہوچکے ہیں، بنیادی خطرات وخدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے، انتخابات کا پر امن طورپر منعقد ہوتا مشکل دکھائی دے رہا ہے، یہی نہیں بلکہ اکثر سیاستدان بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں الیکشن خونی ہوںگے یعنی الیکشن کی مہم کے دوران دہشت گردوں کی کارروائیوں کا رکنا نظر نہیں آتا، آپس میں سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور الزام تراشیوں کے رویوں سے بھی کارکنان دست وگریباں ہوسکتے ہیں۔


چونکہ اسلحہ لے کر چلنے یا استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے تو ہوسکتاہے دوسری اشیاء یعنی ڈنڈے، لاٹھیاں اور سنگباری کو بھی استعمال کیاجاسکتاہے، اب تو کئی حلقوں سے یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ کیا موجودہ صورتحال میں انتخابات ہوںگے بھی یا نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے یہ پیغام بھی دیاگیا ہے کہ پولنگ والے روز ہر پولنگ اسٹیشن پر''دھرنا'' دیاجائے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ادارے ان حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔عرف عام تو یہی کہاجا سکتاہے کہ تب اداروں پر سخت دبائو ہوگا اور حالات پر قابو پانے کے لیے فوج کی مدد حاصل کرنا پڑے گی۔

خدا کرے پولنگ والے دن حالات قابومیں رہیں اور کوئی ناخوشگوار حادثہ اور واقعہ پیش نہ آئے، یہ جذبات اور خیالات صرف میرے ہی نہیں ہیں، عام اجتماعات، مجلسوں اور بیٹھکوں میں، حتیٰ کے دفاتر میں، درسگاہوں میں،مارکیٹ وبازاروں میں اسی موضوع پر باتیں ہورہی ہیں سب کے لبوں پر یہی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ خیریت کے ساتھ پر سکون ماحول میں انتخابات کا انعقاد کرانے کا بندوبست فرما دے۔

دراصل اس مرتبہ انتخابات کی اہمیت یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ اب عوام میں''جمہوریت''کو سمجھنے کا شعور پختہ ہوگیاہے۔بالخصوص نوجوان نسل جو اب 18سال کی عمر تک پہنچنے اور انتخابات میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کے قابل ہوگئے۔ اب ووٹ کی اہمیت کو خوب سمجھتے ہیں، اس سے قبل تو نوجوان نسل تو کیا بزرگ بھی ووٹ کے استعمال کو اہمیت نہیں دیتے تھے، کیونکہ اس وقت صرف امیدواران کی زبانی کے علاوہ صرف پرنٹ میڈیا کی وساطت سے الیکشن مہم چلائی جاتی اور آج کے دور میں تو''الیکٹرانک'' میڈیا میدان میں آگیا ہے جس کی وجہ سے عوام کے لیے بھی اور انتخابی امیدواران کے لیے بھی اپنے اظہار رائے کے لیے بہتر مواقع پیدا ہوگئے، پھر دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی''راز'' راز نہیں رہتا کوئی خفیہ کارروائی خفیہ نہیں رہتی، یہی وجوہات ہیں جن کی بناء پر موجودہ انتخابات 2013کی اہمیت اجاگر ہوگئی ہے، عوام بھی ماضی میں کئی انتخابات بھگتا چکے ہیں لیکن سیاسی اندھیروں میں۔ اور یہ انتخابات بھگتائیں گے ''الیکٹرانک میڈیا'' کی روشنی میں بالکل اسی طرح جس طرح انسان صاف شفاف پانی میں اپنی شکل وحرکات صاف وشفاف دیکھ لیتاہے۔

بس اب تو انتخابی مہمات کے روبہ عمل ہونے اور اپنے اختتام تک پہنچنے میں بہت قلیل وقت رہ گیا ہے، اس کے بعد عوام کے امتحان کا دن آجائے گا، اس ساری گہما گہمی، خدشات وشبہات، آنی جانی کا سلسلہ، بڑے بڑے دعوئوں کی جھنکار، ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی امنگ دیکھنے کے بعد کیا ہوگا، ''عوام کا فیصلہ'' اس کا ہم سب کو بے چینی سے انتظار رہے گا۔

اقتدار کا تاج کس کے سر سجے گا، یہ تو عوام کا رد عمل اور اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر منحصر ہوگا، یوں تو قیاس آرائیاں تو عروج پر ہیں۔ ووٹ تو ہر شخص علیحدہ علیحدہ استعمال کرتاہے، پولنگ بوتھ میں اکیلا ہوتا ہے اور اس کا ضمیر اس کو راستہ بتاتاہے، اسی کے مطابق وہ اپنا ووٹ استعمال کرتاہے، وہاں نہ کسی کا زور چلتاہے نہ دبدبہ بس اپنی اپنی انتظار گاہوں میں بیٹھے عوامی رد عمل کا انتظار کرنا ہوتاہے۔

اختتامی کلمات میں یہی کہوںگا کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے عوام کو اپنا ووٹ صحیح طریقے سے استعمال اور اپنے ضمیر کے مطابق صحیح نمایندوں اور اہل نمایندوں کا انتخاب کرنے کی توفیق دے تاکہ مستقبل روشن نظر آئے ورنہ وہی''چکی کے تین پات''اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
Load Next Story