دہشت گردی

جوں ہی غلطی تسلیم کرلی جاتی ہے وہ’’تجربہ‘‘بن جاتی ہے اور تجربہ غلطی دہرانے نہیں دیتا۔

جیسے ہی ملک کے چوکس وفاقی وزیر داخلہ خبردارکرتے تھے کہ ملک میں دہشت گردی کی خطرناک ،ہولناک،الم ناک خونی واردات ہونے والی ہے، ویسے ہی متعدد صوبائی وزیر داخلہ ڈبل سواری پر پابندی لگادیتے ، سمجھ لیتے کہ دہشت گرد چالان کے ڈر سے خودکش جیکٹ اتارکر کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں، ٹارگٹ کلر کلاشن کوف الماری میں چھپادیتے ہیں اور بھتہ خور دستی بم صندوق میں، اس کے بعد سب کے سب اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ بیٹھے ڈبل سواری پر سے پابندی اٹھنے کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ رنگے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں، فرض کیجیے کہ ایک خودکش بمبار بھرے بازار میں رنگے ہاتھوں پکڑاگیا، سوال یہ ہے کہ اس کو رنگے ہاتھوں پکڑے گا کون؟ کیونکہ اس وقت بہادری کا تقاضہ تو یہ ہوتاہے کہ بھاگو! جدھر منہ اٹھا بھاگو! جتنا تیز بھاگ سکتے ہو بھاگو! یعنی سر پر پیر رکھ کر بھاگو!

غلطی اس وقت تک غلطی ہی رہتی ہے جب تک کہ غلطی تسلیم نہیں کرلی جاتی، جوں ہی غلطی تسلیم کرلی جاتی ہے وہ''تجربہ''بن جاتی ہے اور تجربہ غلطی دہرانے نہیں دیتا۔

پہلے افغان روس جنگ کے دوران پاکستان کے جن اقدامات پر عموماً اعتراضات کیے جاتے ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان میں کتنا وزن ہے(A)افغان روس جنگ میں پاکستان کی شمولیت(B)غیر ملکی جنگجوئوں کی میزبانی(C)افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کے قیام کی درپردہ حمایت نہیں بلکہ اعلانیہ کوشش(D)9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں(امریکی دبائو کے تحت)شمولیت۔

A:روس افغان جنگ کی جغرافیائی حقیقت یہ ہے کہ یہ حقیقتاً روس پاکستان جنگ تھی جو افغانستان کے میدان میں لڑی جارہی تھی، جس کا ٹارگٹ گرم پانیوںکی پاکستانی بندرگاہ ''گوادر ''تھی جس کو پاکستان نے پہلے مرحلے میں ہی ناکام بنادیا، تیس لاکھ(روس دشمن)افغان مہاجرین کو پاک افغان بارڈر پر بطور''انسانی سرحد''آباد کرکے باقی امریکا کی مدد سے روس کے خلاف جو گوریلا جنگ لڑی گئی وہ روس کو افغانستان سے بھگانے کے لیے نہیں بلکہ افغانستان کے دلدل میں پھنسانے کے لیے تھی تاکہ وہ معاشی تباہی سے دو چار ہوکر اپنی ''سپر پاوری'' سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

B:اگر امریکا کو الگ رکھ کر (اس کی امداد سے) غیر ملکی جنگجوئوں کی بھرتی، تربیت، لاجسٹک سپورٹ اور(اپنے علاقے میں) ان کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہ کی جاتیں تو(امریکا کے یوٹرن لینے کے نتیجے میں)کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد، کل کے رنگروٹ آج کے خطرناک ترین گوریلے جنہوں نے روس جیسی سپر پاور کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہمارے گلے نہیں پڑجاتے۔


C:افغانستان میں کبھی بھی کسی ایک گروپ کا مکمل کنٹرول نہیں رہا، مختلف علاقوں میں مقامی کمانڈرز(وار لارڈز کا تسلط رہتا ہے ایسے میں(درپردہ حمایت کی بجائے)کسی ایک گروپ کی علانیہ حمایت سے باقی سارے گروپس کی بدگمانی کا شکار ہونے سے بچنا چاہیے تھا۔

D:امریکا کی خواہش پر (وسط ایشیا کے نیل کے ذخیروں تک محفوظ راستے کی خاطر)طالبان کو منظم کیا گیا اور افغانستان میں داخل کیا گیا، جنہوںنے دو حیرت انگیز کارنامے انجام دیے(1)افغانستان جیسی جنگجو قوم سے ہتھیار رکھوالیے اور امن قائم کردیا(2)ہیروئن کی پیداوار صفر فیصد کردی، بد قسمتی سے امریکا میں9/11کا افسوسناک سانحہ پیش آیا، امریکا نے طالبان سے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جو پختون روایات کے خلاف تھا، جس سے امریکا بھی بخوبی واقف تھا، طالبان نے اس کا مطالبہ مسترد کردیا، امریکا نیٹو افواج کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا، اس طرح غیر ملکی جنگجوئوں کے ساتھ ساتھ طالبان بھی پاکستان کے گلے پڑ گئے، جن کو نگل سکتاہے نہ اگل سکتاہے، کیونکہ پاکستان ا پنی''معاشی محتاجی''کے طفیل دہشت گردی کی عالمی جنگ میں امریکا کا حلیف بن گیا، دگنی مار کھارہاہے، ایک اپنے حصہ کی اور دوسرا امریکا کے حصے کی بھی، کیونکہ امریکا ہزاروں میل دور سات سمندر پار ہے، ساری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ صرف اور صرف پاکستان ہی بن رہا ہے اور ساری دنیا کی نظروں میں صرف اور صرف سرزمین پاکستان ہی دہشت گردوں کی''مادر ملکہ''ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ساری پشتون پٹی پس ماندگی، جہالت اور قبائلی کلچر کا ''جنکشن'' ہے اس لیے یہ دہشت گردوں کی جنت ہے، چنانچہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے روایتی اقدامات چاہے وہ مذاکراتی ہوں یا عسکری، عارضی ہی ثابت ہوںگے، یہی اقدامات پائیدار، قابل قبول اس وقت ثابت ہوںگے جب تک اس خطہ سے''مفلسی'' کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، کیا وجہ ہے کہ اس علاقے کے وہ معصوم بچے جن کو اپنی مائوں کی گود میں یا گھر کے آنگن میں ہونا چاہیے تھا ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے مدرسوں میں پل رہے ہیں، ان کا باپ اپنے گائوں سے سیکڑوں میل دور کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیلچہ تغاری، چھینی ہتھوڑا لیے دیہاڑی لگانے کے انتظار میں بیٹھا رہتاہے، جب کہ پختون قوم جفاکش بھی ہے اور فنی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

(مثلاً اسلحہ سازی، گھریلو مشقت کا درجہ رکھتی ہے) ملک میں کاروں،ٹرکوں، موٹر سائیکلوں، رکشائوں وغیرہ کا وہ ہجوم ہے کہ سڑکیں کم پڑرہی ہیں کیوں نہ آٹو پارٹس بنانے والے کا ٹج انڈسٹری کی سطح کے کارخانوں کا جال بچھادیاجائے جس کی پیکنگ کو گھریلو انڈسٹری کا درجہ دے دیاجائے، آٹو پارٹس مینوفیکچرنگ مشینوں کی در آمد پر ٹیکس کی چھوٹ ہو، چھوٹے گھریلو سطح کے کارخانوں کو بلا سود قرضے دیے جائیں، اس علاقے میں10سال کے لیے ٹیکس ہالی ڈے ہوں وغیرہ۔ اگراب بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیںگے تو پھر دہشت گردی کو عذاب الٰہی سمجھ کربہ رضا ورغبت قبول کرلینا پڑے گا۔

جب ہلاکو خان کی فوجیں بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجارہی تھیں اور خود ہلاکوخان ننگی تلوار لیے گھوڑا دوڑاتا خلافت کا قتل عام کررہاتھا ایک تباہ حال بڑھیا کی اس پر نظر پڑ گئی، وہ دوڑ کر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر لٹک گئی اور بد دعا دینے لگی''اے ہلاکو خان تجھ پر خدا کا عذاب نازل ہو!''ہلاکو خان یہ سن کر چیخ پڑا'' احمق بڑھیا! تو کس اﷲ کے عذاب کے انتظار میں ہے، وہ اﷲ کا عذاب میں ہی تو ہوں! اس نے تلوار کے ایک ہی وار میں بڑھیا کی گردن اڑادی۔
Load Next Story