ایک روشن دن
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس استعارے کی روش اور مثبت پہلوؤں کی معرفت اسے ایک ایسی شکل دی جائے۔
برادرم ظفر محمود نے گزشتہ دنوں 23مارچ کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں اس طرف توجہ دلائی کہ اس سے قطع نظر کہ 1940 کو منٹو پارک (اقبال پارک) میں ہونے والے تاریخی جلسے میں جو قرارداد پیش کی گئی (جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی) وہ23مارچ کو منظور ہوئی تھی یا 24مارچ کو۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اصل میں قومی اور سرکاری سطح پر یہ دن اس قرار داد کے حوالے سے نہیں بلکہ 1956ء میں پہلا آئین منظور اور لاگو ہونے پر بطور ''یوم جمہوریہ پاکستان'' ایک قومی دن قرار پایا تھا اور اسی کو بعد میں بدل کر ''یوم پاکستان'' کا نام دے دیا گیا اور یہ کہ اسے اہتمام اور باقاعدگی سے منانے کا کوئی سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے پہلے موجود یا جاری نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں کچھ ٹی وی چینلز کے سروے کی معرفت (جنھیں فیس بک پر بھی شیئر کیا گیا) یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے عوام الناس کے ساتھ ساتھ بہت سے بظاہر تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ 23مارچ کیا ہے' ہماری قومی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے اور اسے کیوں منایا جاتا ہے ؟ کئی لوگوں نے اسے14اگست یعنی یوم آزادی اور قیام پاکستان کے ساتھ بھی غلط ملط کیا۔
پرائمری اور مڈل تک کی درسی کتابوں میں بھی اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جب کہ 40% بچے سرے سے اسکول جا ہی نہیں پاتے، سو سب سے پہلے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کی تاریخ' نوعیت اور اہمیت سے پاکستانی شہری کو نہ صرف مختلف ذرایع سے آگاہ کیا جائے بلکہ انھیں اس قرارداد کے پس منظر میں کارفرما اس صورت حال کی تفصیل بھی بتائی جائے جس کی وجہ سے ہمارے بزرگوں کو ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار پاکستان کے قیام کے لیے آواز اٹھانا پڑی اور یہ بھی بتایا جائے کہ مطالبہ ایک ایسے نئے ملک کے لیے تھا جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو گی اور جہاں اس کے تمام شہری رنگ نسل عقیدے طبقے مذہب اور زبان کے فرق کے باوجود ایک جیسے حقوق کے حامل ہوں گے اور اس میں عوام کی حکمرانی ہو گی۔
ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ایک طویل اور تکلیف دہ بحث ہے، سو اس پر ماتم اور سینہ کوبی سے کچھ حاصل وصول نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس استعارے کی روش اور مثبت پہلوؤں کی معرفت اسے ایک ایسی شکل دی جائے جس میں اس روز پیش کی جانے والی قرارداد کے مقصد اور روح کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جمہوریت پر مبنی اساس اور مستقبل کو آسان اور موثر انداز میں اور پوری ذمے داری کے ساتھ پاکستان کے ہر شہری تک اس طرح سے پہنچایا جائے کہ اس کا ذہن اور دل دونوں میں مقصد اور جذبہ یک جان ہو جائیں اور یہ ہمارے قومی سفر کا ایک ایسا نقطہ آغاز اور سنگ میل بن جائے جہاں سارے مسافر یعنی پورا معاشرہ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہو اور جس کا رخ اس منزل کی طرف جہاں ہر کوئی مساوات' ترقی' آزادی' انسانی حقوق اور روحانی خوشی سے یکساں طور پر مستفیض اور بہرہ مند ہو سکے۔
عالمی برادری میں پاکستان کو ایک آزاد' خود مختار' ترقی یافتہ اور مضبوط ملک بنانے کے لیے جہاں اور بہت سی چیزوں مثلاً تعلیم' صحت' روزگار ، انسانی حقوق اور ترقی کے مساوی مواقع بہم اور فراہم کرنے کی ضرورت ہے وہاں آزاد' معتدل اور متوازن خارجہ پالیسی کا قیام اور مضبوط دفاعی قوت کا حصول بھی بے حد ضروری ہے کہ ہم ایک ایسے جغرافیائی خطے اور تاریخی عمل کے بھی شکار ہیں جن میں یہ دونوں باتیں بوجوہ ایک انتہائی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
ہمارے نزدیکی ہمسائے ہوں یا عالمی سیاست اور معیشت کو کنٹرول کرنے والی بین الاقوامی طاقتیں، سب کے سب ہماری صلاحیت اور استطاعت سے خائف ہیں یا اسے اپنا ''بچہ جمورا'' بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ افغان وار' مودی سرکار' ٹرمپ اور سی پیک نے مل جل کر اس صورت حال کو اورزیادہ گمبھیر بنا دیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے عمومی اور جنگی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے بے تحاشا اور غیرمعمولی فروغ نے بالخصوص اس آگ پر جلتی کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود ہمیں روایتی اور زمینی دفاع کے معاملات پر ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا پڑتا ہے۔
اب بھلے ہی اسلحے کی اس دوڑ میں ہم جیسے ملکوں کا نقصان اور اسلحہ اور ٹیکنالوجی فروشوں کا فائدہ ہو، امر واقعہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے دفاع کے لیے فوج کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور رکھنا پڑتا ہے اور پھر اس کا اعلان اور اظہار بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس سے اپنے عوام کا حوصلہ اور ہمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان طاقتوں کو بھی پیغام پہنچتا ہے جن تک بوجوہ یہ اطلاع جانی چاہیے۔
اتفاق سے اس برس 23مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی فوجی پریڈ اور دفاعی قوت کے مظاہرے کے حوالے سے مجھے بھی میڈیا اور فنون لطیفہ کے کئی احباب کے ساتھ ISPR کی معرفت اس میں بطور مہمان شرکت کا موقع ملا اور ایمان داری کی بات یہی ہے کہ امن سے تمام تر محبت اور نظریاتی عقیدت کے باوجود ہم سب کو اس احساس سے بہت خوشی اور تقویت ملی کہ خدانخواستہ اگر کوئی دوسری صورت حال بھی پیدا ہوئی تو ہماری فوج نہ صرف اس کے لیے تیار ہے بلکہ اس کی تیاری ہر اعتبار سے مکمل اور شاندار بھی ہے۔
چند دن قبل کرنل ضامن نقوی صاحب نے جب اس تقریب میں شمولیت کی دعوت دی تو معلوم ہوا کہ اس بار پہلے سے کچھ زیادہ دوستوں کو مدعو کیا جا رہا ہے کہ بیرونی ممالک سے بھی کچھ سپر اسٹارز کی آمد بھی متوقع ہے سو اس کہکشاں کو سجانے کے لیے مزید مقامی ستاروں کی ضرورت ہو گی۔ سب مہمانوں کو راولپنڈی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تاکہ سخت ترین سیکیورٹی میں انھیں ایک ساتھ لانے اور لے جانے میں آسانی ہو۔
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے جن احباب کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں ان میں فلم اور ڈرامے سے محمد قوی خان' عابد علی' فردوس جمال' ایوب کھوسو' ہمایوں سعید' صبا پرویز' نیلم منیر' مرزا ندیم بیگ' فخر عالم' عدنان جیلانی' کھلاڑیوں میں جہانگیر خان (اسکواش) اظہر علی کرکٹر) سہیل عباس (ہاکی) محمد وسیم (باکسنگ) لکھاریوں میں میرے علاوہ حسینہ معین اور خلیل الرحمن قمر، گلوکاروں میں فاخر اور عالم لوہار شامل ہیں۔ عزیزہ منیبہ مزاری بھی اپنی ویل چیئر اور بلند حوصلے کے ساتھ موجود تھیں۔
تقریب میں سب سے زیادہ ہٹ حسب معمول فضائیہ کا مظاہرہ رہا ہے کہ اس کی اپنی ہی تھرل اور کشش ہوتی ہے۔ ISPR کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور، جائنٹ فورسز کے چیف آف اسٹاف جنرل زبیر اور سپہ سالار جنرل باجوہ سے بھی ملاقات رہی، تینوں ہی بہت محبت سے ملے لیکن سب سے زیادہ مزا جنرل باجوہ کے اس جملے کا آیا جب انھوں نے مسکرا کر مجھے بتایا کہ وہ میرے مرحوم دوست اور ٹی وی کے سابق جنرل منیجر رفیق وڑائچ کے بھانجے ہیں اور یوں میرا ان سے ادب کے علاوہ ایک اضافی رشتہ بھی ہے۔
مسلسل کی جانے والی رننگ کمنٹری اور اعلانات یوں تو بہت معلوماتی اور برمحل تھے لیکن ان میں شاعری کا استعمال نہ صرف ضرورت سے کچھ زیادہ تھا بلکہ کچھ اشعار پڑھے بھی نثر ہی کی طرح گئے، یہ اور بات ہے کہ جذبے کی حرارت میں بے وزنی کی طرف زیادہ دھیان جا ہی نہیں سکا۔
تقریب کے خصوصی مہمانوں میں صدر مملکت' وزیراعظم اور دیگر سویلین حضرات کے ساتھ وردی پوش جرنیلوں کو ایک جگہ پر اور خوشگوار ماحول میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ رب کریم 23مارچ کی اس برکت کو یونہی قائم اور برقرار رکھے کہ اتحاد، یقین اور ایمان ہی میں سب کی عزت' بقا اور ترقی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اصل میں قومی اور سرکاری سطح پر یہ دن اس قرار داد کے حوالے سے نہیں بلکہ 1956ء میں پہلا آئین منظور اور لاگو ہونے پر بطور ''یوم جمہوریہ پاکستان'' ایک قومی دن قرار پایا تھا اور اسی کو بعد میں بدل کر ''یوم پاکستان'' کا نام دے دیا گیا اور یہ کہ اسے اہتمام اور باقاعدگی سے منانے کا کوئی سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے پہلے موجود یا جاری نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں کچھ ٹی وی چینلز کے سروے کی معرفت (جنھیں فیس بک پر بھی شیئر کیا گیا) یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے عوام الناس کے ساتھ ساتھ بہت سے بظاہر تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ 23مارچ کیا ہے' ہماری قومی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے اور اسے کیوں منایا جاتا ہے ؟ کئی لوگوں نے اسے14اگست یعنی یوم آزادی اور قیام پاکستان کے ساتھ بھی غلط ملط کیا۔
پرائمری اور مڈل تک کی درسی کتابوں میں بھی اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جب کہ 40% بچے سرے سے اسکول جا ہی نہیں پاتے، سو سب سے پہلے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کی تاریخ' نوعیت اور اہمیت سے پاکستانی شہری کو نہ صرف مختلف ذرایع سے آگاہ کیا جائے بلکہ انھیں اس قرارداد کے پس منظر میں کارفرما اس صورت حال کی تفصیل بھی بتائی جائے جس کی وجہ سے ہمارے بزرگوں کو ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار پاکستان کے قیام کے لیے آواز اٹھانا پڑی اور یہ بھی بتایا جائے کہ مطالبہ ایک ایسے نئے ملک کے لیے تھا جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو گی اور جہاں اس کے تمام شہری رنگ نسل عقیدے طبقے مذہب اور زبان کے فرق کے باوجود ایک جیسے حقوق کے حامل ہوں گے اور اس میں عوام کی حکمرانی ہو گی۔
ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ایک طویل اور تکلیف دہ بحث ہے، سو اس پر ماتم اور سینہ کوبی سے کچھ حاصل وصول نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس استعارے کی روش اور مثبت پہلوؤں کی معرفت اسے ایک ایسی شکل دی جائے جس میں اس روز پیش کی جانے والی قرارداد کے مقصد اور روح کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جمہوریت پر مبنی اساس اور مستقبل کو آسان اور موثر انداز میں اور پوری ذمے داری کے ساتھ پاکستان کے ہر شہری تک اس طرح سے پہنچایا جائے کہ اس کا ذہن اور دل دونوں میں مقصد اور جذبہ یک جان ہو جائیں اور یہ ہمارے قومی سفر کا ایک ایسا نقطہ آغاز اور سنگ میل بن جائے جہاں سارے مسافر یعنی پورا معاشرہ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہو اور جس کا رخ اس منزل کی طرف جہاں ہر کوئی مساوات' ترقی' آزادی' انسانی حقوق اور روحانی خوشی سے یکساں طور پر مستفیض اور بہرہ مند ہو سکے۔
عالمی برادری میں پاکستان کو ایک آزاد' خود مختار' ترقی یافتہ اور مضبوط ملک بنانے کے لیے جہاں اور بہت سی چیزوں مثلاً تعلیم' صحت' روزگار ، انسانی حقوق اور ترقی کے مساوی مواقع بہم اور فراہم کرنے کی ضرورت ہے وہاں آزاد' معتدل اور متوازن خارجہ پالیسی کا قیام اور مضبوط دفاعی قوت کا حصول بھی بے حد ضروری ہے کہ ہم ایک ایسے جغرافیائی خطے اور تاریخی عمل کے بھی شکار ہیں جن میں یہ دونوں باتیں بوجوہ ایک انتہائی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
ہمارے نزدیکی ہمسائے ہوں یا عالمی سیاست اور معیشت کو کنٹرول کرنے والی بین الاقوامی طاقتیں، سب کے سب ہماری صلاحیت اور استطاعت سے خائف ہیں یا اسے اپنا ''بچہ جمورا'' بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ افغان وار' مودی سرکار' ٹرمپ اور سی پیک نے مل جل کر اس صورت حال کو اورزیادہ گمبھیر بنا دیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے عمومی اور جنگی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے بے تحاشا اور غیرمعمولی فروغ نے بالخصوص اس آگ پر جلتی کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود ہمیں روایتی اور زمینی دفاع کے معاملات پر ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا پڑتا ہے۔
اب بھلے ہی اسلحے کی اس دوڑ میں ہم جیسے ملکوں کا نقصان اور اسلحہ اور ٹیکنالوجی فروشوں کا فائدہ ہو، امر واقعہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے دفاع کے لیے فوج کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور رکھنا پڑتا ہے اور پھر اس کا اعلان اور اظہار بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس سے اپنے عوام کا حوصلہ اور ہمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان طاقتوں کو بھی پیغام پہنچتا ہے جن تک بوجوہ یہ اطلاع جانی چاہیے۔
اتفاق سے اس برس 23مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی فوجی پریڈ اور دفاعی قوت کے مظاہرے کے حوالے سے مجھے بھی میڈیا اور فنون لطیفہ کے کئی احباب کے ساتھ ISPR کی معرفت اس میں بطور مہمان شرکت کا موقع ملا اور ایمان داری کی بات یہی ہے کہ امن سے تمام تر محبت اور نظریاتی عقیدت کے باوجود ہم سب کو اس احساس سے بہت خوشی اور تقویت ملی کہ خدانخواستہ اگر کوئی دوسری صورت حال بھی پیدا ہوئی تو ہماری فوج نہ صرف اس کے لیے تیار ہے بلکہ اس کی تیاری ہر اعتبار سے مکمل اور شاندار بھی ہے۔
چند دن قبل کرنل ضامن نقوی صاحب نے جب اس تقریب میں شمولیت کی دعوت دی تو معلوم ہوا کہ اس بار پہلے سے کچھ زیادہ دوستوں کو مدعو کیا جا رہا ہے کہ بیرونی ممالک سے بھی کچھ سپر اسٹارز کی آمد بھی متوقع ہے سو اس کہکشاں کو سجانے کے لیے مزید مقامی ستاروں کی ضرورت ہو گی۔ سب مہمانوں کو راولپنڈی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تاکہ سخت ترین سیکیورٹی میں انھیں ایک ساتھ لانے اور لے جانے میں آسانی ہو۔
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے جن احباب کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں ان میں فلم اور ڈرامے سے محمد قوی خان' عابد علی' فردوس جمال' ایوب کھوسو' ہمایوں سعید' صبا پرویز' نیلم منیر' مرزا ندیم بیگ' فخر عالم' عدنان جیلانی' کھلاڑیوں میں جہانگیر خان (اسکواش) اظہر علی کرکٹر) سہیل عباس (ہاکی) محمد وسیم (باکسنگ) لکھاریوں میں میرے علاوہ حسینہ معین اور خلیل الرحمن قمر، گلوکاروں میں فاخر اور عالم لوہار شامل ہیں۔ عزیزہ منیبہ مزاری بھی اپنی ویل چیئر اور بلند حوصلے کے ساتھ موجود تھیں۔
تقریب میں سب سے زیادہ ہٹ حسب معمول فضائیہ کا مظاہرہ رہا ہے کہ اس کی اپنی ہی تھرل اور کشش ہوتی ہے۔ ISPR کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور، جائنٹ فورسز کے چیف آف اسٹاف جنرل زبیر اور سپہ سالار جنرل باجوہ سے بھی ملاقات رہی، تینوں ہی بہت محبت سے ملے لیکن سب سے زیادہ مزا جنرل باجوہ کے اس جملے کا آیا جب انھوں نے مسکرا کر مجھے بتایا کہ وہ میرے مرحوم دوست اور ٹی وی کے سابق جنرل منیجر رفیق وڑائچ کے بھانجے ہیں اور یوں میرا ان سے ادب کے علاوہ ایک اضافی رشتہ بھی ہے۔
مسلسل کی جانے والی رننگ کمنٹری اور اعلانات یوں تو بہت معلوماتی اور برمحل تھے لیکن ان میں شاعری کا استعمال نہ صرف ضرورت سے کچھ زیادہ تھا بلکہ کچھ اشعار پڑھے بھی نثر ہی کی طرح گئے، یہ اور بات ہے کہ جذبے کی حرارت میں بے وزنی کی طرف زیادہ دھیان جا ہی نہیں سکا۔
تقریب کے خصوصی مہمانوں میں صدر مملکت' وزیراعظم اور دیگر سویلین حضرات کے ساتھ وردی پوش جرنیلوں کو ایک جگہ پر اور خوشگوار ماحول میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ رب کریم 23مارچ کی اس برکت کو یونہی قائم اور برقرار رکھے کہ اتحاد، یقین اور ایمان ہی میں سب کی عزت' بقا اور ترقی ہے۔