پہلے خود کو کھو کے دیکھ
تصوف کے فلسفے کے دو رخ ہیں۔ ایک نظریاتی پہلو ہے دوسرا علمی وسعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
سندھ کی سرزمین کے رنگ تصوف کے حوالے سے بامعنی اور گہرے ہیں۔ تصوف کے فلسفے کو غیر جانبدار ذہن اور محبت بھرا دل ہی سمجھ سکتا ہے۔یہ انداز فکر فطری مشاہدوں سے سرشار ہے۔ اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ادراک و باطن کی متحرک نگاہ درکار ہے۔ جس کے لیے علمی درسگاہوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوجھ بوجھ کی آفاقیت ایک فقیر کے پاس بھی ہوسکتی ہے۔
عالم وہ نہیں جس نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں ۔ عالم وہ ہے جو زمین کی حکمت، فطرت کا مشاہدہ، آسمان کی فیاضی، فطری رابطوں کا حسن یا دکھ کی گہرائی جانتا ہو ۔ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب دونوں طرف سے مشاہدے و تجربے میں مماثلت پائی جاتی ہو ۔
تصوف کے فلسفے کے دو رخ ہیں۔ ایک نظریاتی پہلو ہے دوسرا علمی وسعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ تصوف کی بنیاد میں مذاہب کے نظریے فروغ پاتے رہے ہیں۔ ہم اشیا کی خاصیت یا خالص پن کو اپنی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر مسترد نہیں کرسکتے۔
سچل فرماتے ہیں:
پہلے خود کو کھو کے دیکھ
انجانے بھنور میں ڈوب کے دیکھ
خود کو کھو کے خود ہی پا لے
من سے منزل کا سراغ دیکھ لے
خود کو راہ سمجھا خود ہی اپنا رہبر بن
یعنی سب کی بات سنی جائے مگر یقین کرنے سے پہلے جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کا فن خود ہی سیکھنا پڑتا ہے۔ انسان کے اندر بھی بڑی روشنی ہے جس سے وہ بے خبر رہتا ہے ، بے خبری بھی حسن ہے۔ بے خبری کے بغیر آپ خود کو کھو نہیں سکتے۔ خود کوگنوانے کے بعد ایک جستجو پیدا ہوجاتی ہے انسان کے اندر، ذات کو دوبارہ دریافت کرنے کی دھن میں۔
تصوف کے اصول وہی ہیں جو مذاہب نے وضع کر رکھے ہیں۔ جیسے خالق کائنات کا ذکر، فطرت کی قربت، کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش اور انسانی رویوں کا حسن ۔ فطرت اورکائنات کے رویے الہامی ہیں۔ یہ رویے ہمہ گیر ہیں۔ یہ فطرت کے مختلف رویوں کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔ صوفی تمام تر رازوں کو فطرت کی وسعت سے سمجھ پاتا ہے اور من کے راستوں پر چل کر انھیں دریافت کرتا ہے ۔
سندھ کے صوفی شعرا میں حضرت سچل سرمست کا نام شاعرانہ رمزکے حسن میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس رمز میں جذبوں کی سچائی، نزاکت اور رواداری پائی جاتی ہے۔ سرمست کا اصلی نام عبد الوہاب تھا مگر حق گوئی اور صداقت کی وجہ سے سچل کے القاب سے نوازا گیا۔ آپ کی سندھی، سرائیکی اور اردو شاعری میں سچل کا تخلص استعمال کیا ہے۔ جب کہ پارسی مثنوی یا دیوان آشکار پارسی میں ''آشکار'' یا ''خدائی'' تخلص اختیار کیا۔ حضرت سچل کی ولادت 1739 میں ہوئی۔
اسی سال نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا۔ 1762 میں غلام شاہ کلہوڑو سندھ کی گادی پر جلوہ افروز ہوا اور احمد شاہ ابدالی سے ''شاہ وردی خان'' کا خطاب وصول کیا۔ 1763 میں کچھ کا علاقہ فتح کرنے کے بعد غلام شاہ نے حیدر آباد شہرکی بنیاد ڈالی اور اسے سندھ کا دارالخلافہ بنادیا۔ اس دور میں سندھ کی زراعت، آبپاشی نظام اور فن و فکر میں بڑی پیش رفت ہوئی۔ اس دور میں نادر شاہ کی لوٹ مار، ٹالپروں اور کلہوڑوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی، سرحدی عدم تحفظ، انگریزوں کی پراسرار سرگرمیوں اور عالموں کا حکمرانوں سے مل جانا یہ تمام تر مسائل ایسے تھے، جن کے خلاف سچل سرمست نے آواز بلند کی۔ حضرت سچل سرمست فرماتے ہیں۔
کچھ عامل کرسی پر بیٹھ کے محض وعظ دیتے ہیں کچھ کاتب ہیں کتابوں کے بے شمار سبق دیتے ہیں یہ عامل ظاہری علم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی ذات میں خلوص و محبت کمیاب ہیں۔ خود فراموشی کے عالم میں خود کو فریب دیتے ہیں۔ خود پرستی و خود غرضی نے ان سے ذات کا خالص پن چھین لیا ہے۔ ایسے عالم جو علم کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے فقط الفاظ کے سحر میں الجھا دیتے ہیں۔
سچل میں بغاوت پائی جاتی ہے روایتی نظام کے خلاف ۔ سچل کے مطابق عام لوگ ظاہری عالموں کے اختلافی مسائل میں الجھ کر آیات و حدیث پر عمل کرنے کے بجائے ملا کی تقلید کرنے لگے ہیں۔
بقول سچل سرمست کے:
میں طالب زاہد نہ تقویٰ دا ' ہک منگاں محبت مستی
سچل مستی مول نہ تھیوے جان جان ہو وے ہستی
حضرت سچل سرمست کا کلام ہر دور کا آئینہ ہے۔ جس میں اس دور کے کینے، تعصب اور خود پرستی کے رجحانات صاف دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ رویے ہر دور کا المیہ ہیں۔ انسان کو غفلت میں سکون ملتا ہے اور حقائق سے دوری میں اطمینان مگر صوفی کو روز ازل سے سچ کی تلاش ہے اور دنیا کو جھوٹ کی چاشنی پسند ہے۔ خواہشوں کا سیلاب ہے، جس میں انسانی اقدار اور آدرش بہہ جاتے ہیں، لیکن دو رویے سماج میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ایک محبت بھرا دل دوسرا بیدار ذہن۔ تصوف کے فلسفے کے یہ دو نکتے انتہائی اہم ہیں۔ چونکہ نظریے وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں غیر ضروری ابہام میں الجھا دیا جاتا ہے۔
غیر واضح خیال یا نظریہ سماج کے لیے موثر نہیں رہتا۔ لیکن محبت ہر دور کی ضرورت رہی ہے۔ یہ انتشار کو ترتیب میں لے کر آتی ہے۔ محبت کی کمی سے ذات یا معاشرتی زندگی میں خلا بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ بیدار ذہن ہی انفرادی رویوں اور اجتماعی سوچ کی افادیت کو فروغ دیتا ہے۔ جدید معاشرے، انفرادیت پسندی کا جال بنتے ہیں۔ جب کہ قدیم سوچ، اجتماعی شعور سے جڑی ہوئی ہے۔ معرفت کی منزلیں من کی راہوں کے مسافر ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ حضرت عبدالکریم اپنی کتاب ''انسان الکامل'' میں فرماتے ہیں۔ عظمت آگ کی مانند ہے۔ علم پانی، قوت ہوا اور حکومت مٹی ہے۔ ان عناصر سے انسان کا جوہر ترتیب پایا ہے۔ یہ اسی جوہر (یعنی ذات یا وجود کی حقیقت)کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک ازل سے جڑا ہوا ہے تو دوسری ابد تک محیط۔''
یہ حقیقت ہے کہ سچل سرمست نے ظاہر سے باطن تک کا سفر ہنرمندی سے شاعری میں بیان کیا ہے۔ اگر افکار صلاحیت کے زمرے میں آتے ہیں تو سلیقہ عمل کی طاقت ہے۔ تصوف کا عملی اظہار محبت، رواداری، برداشت، رابطہ اور تنہائی ہے۔ صوفی کے یہ پانچ اصول معاشرے کی اصلاح و رہنمائی کے لیے بہترین لائحہ عمل ہیں۔
سچل سرمست وحدت الوجود کے قائل تھے۔ اس نظریے کو محی الدین ابن عربی نے فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا۔ ابن عربی نے اپنی تصانیف ''خصوص الحکم'' اور ''فتوحات المکیہ'' میں واضح طور پر اس فکر کے مختلف رنگوں کو اجاگر کیا ہے۔'' حضرت سچل سرمست خودشناسی کے جوہر کے حصول پر زور دیتے ہیں۔ ذات کو سمجھے بنا ہم زندگی اور کثیر رخی کائنات کی گہرائی کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چین کے عظیم مفکر کنفیوشیس نے اپنے افکار سے چین کی سماجی زندگی کے اقدار بدل دیے۔
ہر دور میں کنفیوشیس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ کنفیوشیس نے خود آگہی اور خودشناسی کا درس دیا ہے جسکی تعلیمات عملی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ خود آگہی کے بغیر عملی سوچ کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سچل کی تعلیمات کا دائرہ کنفیوشیس سے وسیع ہے۔ گو کہ دونوں ذاتی تجزیے کی صلاحیت، خود انحصاری اور رواداری کا درس دیتے ہیں مگر سچل سرمست کی آنکھوں میں جادونگری کا فسوں ملتا ہے۔ وہ نگاہ جو ہر چیز کو من کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔
سچل کی نظر میں انسان ایک مکمل کائنات ہے۔ یہ اس قدر وسیع ہے کہ انسان کو صدیاں بھی مل جائیں تو وہ باطن کے حقیقی رنگوں کو آسانی سے دریافت نہیں کرسکتا۔ دور کی پیچیدگیوں، جاگیرداری نظام کی الجھنوں اور ملائیت کے مہیب سایوں کے باوجود سچل کی آواز واضح اور جاندار دکھائی دیتی ہے۔ جس میں کہیں خوف کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ بقول سچل سرمست کے:
مجھے بیان کرنے والے جو بھی کہیں
مجھ میں انفرادیت کا رنگ پکا ہے
عالم وہ نہیں جس نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں ۔ عالم وہ ہے جو زمین کی حکمت، فطرت کا مشاہدہ، آسمان کی فیاضی، فطری رابطوں کا حسن یا دکھ کی گہرائی جانتا ہو ۔ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب دونوں طرف سے مشاہدے و تجربے میں مماثلت پائی جاتی ہو ۔
تصوف کے فلسفے کے دو رخ ہیں۔ ایک نظریاتی پہلو ہے دوسرا علمی وسعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ تصوف کی بنیاد میں مذاہب کے نظریے فروغ پاتے رہے ہیں۔ ہم اشیا کی خاصیت یا خالص پن کو اپنی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر مسترد نہیں کرسکتے۔
سچل فرماتے ہیں:
پہلے خود کو کھو کے دیکھ
انجانے بھنور میں ڈوب کے دیکھ
خود کو کھو کے خود ہی پا لے
من سے منزل کا سراغ دیکھ لے
خود کو راہ سمجھا خود ہی اپنا رہبر بن
یعنی سب کی بات سنی جائے مگر یقین کرنے سے پہلے جھوٹ کو سچ سے الگ کرنے کا فن خود ہی سیکھنا پڑتا ہے۔ انسان کے اندر بھی بڑی روشنی ہے جس سے وہ بے خبر رہتا ہے ، بے خبری بھی حسن ہے۔ بے خبری کے بغیر آپ خود کو کھو نہیں سکتے۔ خود کوگنوانے کے بعد ایک جستجو پیدا ہوجاتی ہے انسان کے اندر، ذات کو دوبارہ دریافت کرنے کی دھن میں۔
تصوف کے اصول وہی ہیں جو مذاہب نے وضع کر رکھے ہیں۔ جیسے خالق کائنات کا ذکر، فطرت کی قربت، کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش اور انسانی رویوں کا حسن ۔ فطرت اورکائنات کے رویے الہامی ہیں۔ یہ رویے ہمہ گیر ہیں۔ یہ فطرت کے مختلف رویوں کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔ صوفی تمام تر رازوں کو فطرت کی وسعت سے سمجھ پاتا ہے اور من کے راستوں پر چل کر انھیں دریافت کرتا ہے ۔
سندھ کے صوفی شعرا میں حضرت سچل سرمست کا نام شاعرانہ رمزکے حسن میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس رمز میں جذبوں کی سچائی، نزاکت اور رواداری پائی جاتی ہے۔ سرمست کا اصلی نام عبد الوہاب تھا مگر حق گوئی اور صداقت کی وجہ سے سچل کے القاب سے نوازا گیا۔ آپ کی سندھی، سرائیکی اور اردو شاعری میں سچل کا تخلص استعمال کیا ہے۔ جب کہ پارسی مثنوی یا دیوان آشکار پارسی میں ''آشکار'' یا ''خدائی'' تخلص اختیار کیا۔ حضرت سچل کی ولادت 1739 میں ہوئی۔
اسی سال نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا۔ 1762 میں غلام شاہ کلہوڑو سندھ کی گادی پر جلوہ افروز ہوا اور احمد شاہ ابدالی سے ''شاہ وردی خان'' کا خطاب وصول کیا۔ 1763 میں کچھ کا علاقہ فتح کرنے کے بعد غلام شاہ نے حیدر آباد شہرکی بنیاد ڈالی اور اسے سندھ کا دارالخلافہ بنادیا۔ اس دور میں سندھ کی زراعت، آبپاشی نظام اور فن و فکر میں بڑی پیش رفت ہوئی۔ اس دور میں نادر شاہ کی لوٹ مار، ٹالپروں اور کلہوڑوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی، سرحدی عدم تحفظ، انگریزوں کی پراسرار سرگرمیوں اور عالموں کا حکمرانوں سے مل جانا یہ تمام تر مسائل ایسے تھے، جن کے خلاف سچل سرمست نے آواز بلند کی۔ حضرت سچل سرمست فرماتے ہیں۔
کچھ عامل کرسی پر بیٹھ کے محض وعظ دیتے ہیں کچھ کاتب ہیں کتابوں کے بے شمار سبق دیتے ہیں یہ عامل ظاہری علم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی ذات میں خلوص و محبت کمیاب ہیں۔ خود فراموشی کے عالم میں خود کو فریب دیتے ہیں۔ خود پرستی و خود غرضی نے ان سے ذات کا خالص پن چھین لیا ہے۔ ایسے عالم جو علم کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے فقط الفاظ کے سحر میں الجھا دیتے ہیں۔
سچل میں بغاوت پائی جاتی ہے روایتی نظام کے خلاف ۔ سچل کے مطابق عام لوگ ظاہری عالموں کے اختلافی مسائل میں الجھ کر آیات و حدیث پر عمل کرنے کے بجائے ملا کی تقلید کرنے لگے ہیں۔
بقول سچل سرمست کے:
میں طالب زاہد نہ تقویٰ دا ' ہک منگاں محبت مستی
سچل مستی مول نہ تھیوے جان جان ہو وے ہستی
حضرت سچل سرمست کا کلام ہر دور کا آئینہ ہے۔ جس میں اس دور کے کینے، تعصب اور خود پرستی کے رجحانات صاف دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ رویے ہر دور کا المیہ ہیں۔ انسان کو غفلت میں سکون ملتا ہے اور حقائق سے دوری میں اطمینان مگر صوفی کو روز ازل سے سچ کی تلاش ہے اور دنیا کو جھوٹ کی چاشنی پسند ہے۔ خواہشوں کا سیلاب ہے، جس میں انسانی اقدار اور آدرش بہہ جاتے ہیں، لیکن دو رویے سماج میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ایک محبت بھرا دل دوسرا بیدار ذہن۔ تصوف کے فلسفے کے یہ دو نکتے انتہائی اہم ہیں۔ چونکہ نظریے وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں غیر ضروری ابہام میں الجھا دیا جاتا ہے۔
غیر واضح خیال یا نظریہ سماج کے لیے موثر نہیں رہتا۔ لیکن محبت ہر دور کی ضرورت رہی ہے۔ یہ انتشار کو ترتیب میں لے کر آتی ہے۔ محبت کی کمی سے ذات یا معاشرتی زندگی میں خلا بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ بیدار ذہن ہی انفرادی رویوں اور اجتماعی سوچ کی افادیت کو فروغ دیتا ہے۔ جدید معاشرے، انفرادیت پسندی کا جال بنتے ہیں۔ جب کہ قدیم سوچ، اجتماعی شعور سے جڑی ہوئی ہے۔ معرفت کی منزلیں من کی راہوں کے مسافر ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ حضرت عبدالکریم اپنی کتاب ''انسان الکامل'' میں فرماتے ہیں۔ عظمت آگ کی مانند ہے۔ علم پانی، قوت ہوا اور حکومت مٹی ہے۔ ان عناصر سے انسان کا جوہر ترتیب پایا ہے۔ یہ اسی جوہر (یعنی ذات یا وجود کی حقیقت)کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک ازل سے جڑا ہوا ہے تو دوسری ابد تک محیط۔''
یہ حقیقت ہے کہ سچل سرمست نے ظاہر سے باطن تک کا سفر ہنرمندی سے شاعری میں بیان کیا ہے۔ اگر افکار صلاحیت کے زمرے میں آتے ہیں تو سلیقہ عمل کی طاقت ہے۔ تصوف کا عملی اظہار محبت، رواداری، برداشت، رابطہ اور تنہائی ہے۔ صوفی کے یہ پانچ اصول معاشرے کی اصلاح و رہنمائی کے لیے بہترین لائحہ عمل ہیں۔
سچل سرمست وحدت الوجود کے قائل تھے۔ اس نظریے کو محی الدین ابن عربی نے فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا۔ ابن عربی نے اپنی تصانیف ''خصوص الحکم'' اور ''فتوحات المکیہ'' میں واضح طور پر اس فکر کے مختلف رنگوں کو اجاگر کیا ہے۔'' حضرت سچل سرمست خودشناسی کے جوہر کے حصول پر زور دیتے ہیں۔ ذات کو سمجھے بنا ہم زندگی اور کثیر رخی کائنات کی گہرائی کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چین کے عظیم مفکر کنفیوشیس نے اپنے افکار سے چین کی سماجی زندگی کے اقدار بدل دیے۔
ہر دور میں کنفیوشیس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ کنفیوشیس نے خود آگہی اور خودشناسی کا درس دیا ہے جسکی تعلیمات عملی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ خود آگہی کے بغیر عملی سوچ کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سچل کی تعلیمات کا دائرہ کنفیوشیس سے وسیع ہے۔ گو کہ دونوں ذاتی تجزیے کی صلاحیت، خود انحصاری اور رواداری کا درس دیتے ہیں مگر سچل سرمست کی آنکھوں میں جادونگری کا فسوں ملتا ہے۔ وہ نگاہ جو ہر چیز کو من کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔
سچل کی نظر میں انسان ایک مکمل کائنات ہے۔ یہ اس قدر وسیع ہے کہ انسان کو صدیاں بھی مل جائیں تو وہ باطن کے حقیقی رنگوں کو آسانی سے دریافت نہیں کرسکتا۔ دور کی پیچیدگیوں، جاگیرداری نظام کی الجھنوں اور ملائیت کے مہیب سایوں کے باوجود سچل کی آواز واضح اور جاندار دکھائی دیتی ہے۔ جس میں کہیں خوف کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ بقول سچل سرمست کے:
مجھے بیان کرنے والے جو بھی کہیں
مجھ میں انفرادیت کا رنگ پکا ہے