بیاد پروفیسر مجتبیٰ حسین
میں جوان ہو رہا تھا اور پڑھنے لکھنے میں کافی دلچسپی رکھتا تھا مگر وہ میری طرف سے پریشان بھی ہوجاتے تھے۔
PESHAWAR:
والد محترم کو گزرے ہوئے 29 برس ہونے کو ہیں مگر جب بھی ان کا تذکرہ ہوتا ہے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یکم اپریل 1989ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی منعقدہ ادبی کانفرنس جو لاہور میں سجی تھی وہ اس کے میر محفل تھے۔ صبح 9 بجے ان کا گھر فون آیا کہ میں لاہور سے کراچی آ رہا ہوں مجھے لینے آجاؤ میں ابھی گیارہ بجے تیار ہو رہا تھا کہ دوسرا فون آیا کہ مجتبیٰ صاحب کی کارکو ایئرپورٹ کے نزدیک گورنمنٹ کی ایک بس نے ٹکر مار دی اور اس گاڑی کے بائیں حصے پر ہٹ کیا اور مجتبیٰ صاحب جاں بحق ہوگئے۔
یہ عجیب کال تھی کیونکہ اس کار کے ڈرائیور ڈاکٹر طارق عزیز تھے اور اس کے علاوہ چند احباب بھی موجود تھے جن میں مسلم شمیم بھی شریک سفر تھے، ظاہر ہے ایسی صورت میں مجھے جس کرب سے گزرنا پڑا وہ ناقابل بیان مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی میڈیا نے ان کی رحلت کی خبر کو بڑی اہمیت دی۔
آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، پی ٹی وی اور ملک کے تمام پرنٹ میڈیا نے وہ مقام دیا کہ میں آج بھی مشکور ہوں کہ ان کے علم و فضل کو تسلیم کیا۔ مگر میں تو اس وقت تحریر کے قابل بھی نہ تھا بلکہ پہلی بار 2014ء میں نے ان پر ایک آرٹیکل تحریر کیا مگر آج بھی دل ملول ہے اور ہاتھوں کی جنبش میں خلل آج بھی ہے کیونکہ منظر نامہ پھر سامنے آرہا ہے۔
جگہ جگہ تعزیتی جلسے، محترمہ کی جانب سے اظہار افسوس، ادبی حلقوں کی گریہ و زاری اور خصوصاً بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کی کراچی آمد اور ان کو خراج عقیدت۔ والد محترم کو میں نے کئی برس خود دیکھا ہے کہ وہ طلبا کو کیسے پڑھاتے تھے، اکثر طلبا دور دراز کے ہوا کرتے تھے مثلاً ڈیرہ بگٹی کے طلبا بھی کلاس میں موجود ہوتے تھے تو پشین اور چمن سے آنے والے جو ہوسٹل میں مقیم ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب کوئی استاد کی حیثیت سے درخواست دیتا تو وہ ان درخواست دہندہ کو انٹرویو کے بعد یہ الفاظ کہا کرتے تھے ''دیکھیے جناب یہ گورنمنٹ کی ملازمت نہیں ہے، مشنری مشن سمجھ کر آئیے۔'' گوکہ وہ بائیں بازو کے پرانے ترقی پسند تحریک کے رفیق تھے مگر تعلیم میں صرف نصاب ہی نصاب، بحث مباحثہ الگ ہوا کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان کے مشہور ڈرامہ نگار سلیم احمد کے بھائی شمیم احمد نے بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانا چاہا تو باقاعدہ انٹرویو کے بعد ان کو پڑھانے کے لیے منتخب کرلیا۔جب والد محترم کی رحلت کے بعد میں ان کے ڈیپارٹمنٹ گیا تو ان کا چپڑاسی مجھ سے لپٹ کر رونے لگا اور یہی کہتا رہا کہ آج تک صاحب نے مجھے پہلے سلام نہیں کرنے دیا وہ خود پہلے سلام کرتے تھے۔ حالانکہ وہ جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ خاصا متمول تھا۔ زمینداری کے علاوہ باپ باقر حسین جو جونپور کے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ تھے، بڑے بھائی مصطفیٰ حسین اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس اور خود فرسٹ کلاس فرسٹ الٰہ باد یونیورسٹی سے۔
پاکستان آنے سے قبل انھوں نے اپنے استاد فراق گورکھ پوری کے کہنے پر 1946ء میں الٰہ باد میں روٹا مشین کا پریس لگایا جہاں کتابت اور پلیٹ میکنگ کی سہولت موجود تھی، بقول دادی صاحبہ کے اور اس زمانے کے 20 ہزار روپے خرچ ہوئے جب کہ 1948ء تک صدر کراچی میں دس ہزار میں جمشید روڈ اور گرومندر میں بنگلہ ملتا تھا مگر وہ روپیہ کو انسان کے مقابلے میں نیچا سمجھتے تھے۔
جب سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن نے تقسیم ہند کی تائید کردی تو انھوں نے بھی دادی جان قمر النسا بی بی کو پاکستان کے لیے تیار کرنا شروع کردیا کیونکہ دادا جان اس وقت فوت ہوچکے تھے، جب والد صاحب 16 برس کے بھی نہ ہوئے تھے بالآخر والد محترم 1948ء کو بمبئی سے پانی کے جہاز پر سوار ہوئے اورکراچی میں قیام کیا۔ یہ دیار غیر تھا ان کے لیے مگر طیب بخاری جو ایک صحافی تھے اور گرومندر پر ایک بنگلے میں رہائش پذیر تھے وہاں قیام کیا پھر چند برس بعد بہارکالونی میں کرایے پر رہائش پذیر رہے اور ریڈیو پاکستان سے ناتا رہا، اس کے علاوہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے سرگرم رہے اور ریڈیو پاکستان میں جزوقتی پروگرام اور تحریر سے وقت گزرتا رہا۔
دادی جان اپنے ساتھ خاصا سونا چاندی لائی تھیں جو برے اوقات میں نہ صرف کام آتا رہا، بہرحال بہتر زندگی کے لیے والد صاحب جدوجہد کرتے رہے 1960ء کے عرصے میں وہ چائنیز سفارت خانے کے پریس ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہوئے اور چند برس بعد نیشنل کالج میں تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور اس کے بعد فیڈرل بی ایریا کراچی میں اپنے دوستوں کے ہمراہ سراج الدولہ کالج قائم کیا ۔ پروفیسر یحییٰ سلام اللہ جو بوسٹن یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے اس کے علاوہ پروفیسر ظفر عمر زبیری اور خود والد محترم نے رفاقت کے بعد راجہ صاحب آف محمود آباد سے رجوع کیا جنھوں نے اس کالج کے قیام میں مالی تعاون کیا۔
والد مرحوم چونکہ پرنسپل تھے اس لیے ان کو خاصی مشکلات پیش آتی تھیں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس علاقے میں یہ کالج قائم کیا گیا وہ علاقہ مجموعی طور پر درمیانہ طبقہ یا اس سے بھی کم مالی حالات کے لوگ یہاں تھے اور تقریباً 20 فیصد کی فیس معاف یا کوئی نہ کوئی ڈسکاؤنٹ کردیا جاتا۔
مجھے یاد ہے کہ میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں تھرڈ ایئر بی ایس سی کا طالب علم تھا جب سوویت یونین کے قونصلیٹ آفس کے ایک اعلیٰ افسر گھر آئے اور والد صاحب کو باضابطہ طور پر کہا کہ ہم حکومتی سطح پر اس کالج کی تعمیر نو کرسکتے ہیں مگر آپ نے منع کردیا اورکہا کہ ہم نظریاتی طور پر غریب طبقے کو بلند کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے ہم اپنے اصول سے انحراف نہیں کرسکتے۔
ادھر میں یہ بتانا بھی بھول گیا کہ مجتبیٰ حسین جب بھارت سے ہجرت کر بیٹھے تو 1950ء کے وسط میں فراق گورکھ پوری نے کئی کنٹینر 20x20 کیوبک فٹ کے کراچی بھیج دیے یہ تمام ان کی کتابیں تھیں اس طرح انھوں نے والد صاحب کا قرض اتار دیا تو پہلی مرتبہ دادی جان کو یہ کہتے سنا کہ یہ فراق گورکھ پوری نہیں منے (والد صاحب) یہ تو فراڈ گورکھ پوری نکلے۔ زندگی یوں ہی آزمائشوں سے گزرتی گئی اور لب ہی لب میں میر انیس کا یہ شعر گنگناتا رہا:
کسی کی ایک طرح سے بسر ہوئی نہ انیسؔ
عروجِ مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا
میں جوان ہو رہا تھا اور پڑھنے لکھنے میں کافی دلچسپی رکھتا تھا مگر وہ میری طرف سے پریشان بھی ہوجاتے تھے کیونکہ میں طلبا تحریک میں سرگرمی سے آگے بڑھتا رہتا تھا اور جب این ایس ایف میں باضابطہ طور پر عہدیدار ہوگیا تو جیل کی آمد و رفت ہوتی رہی، اس پر ایک بار انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس مکان کے علاوہ کچھ اور نہیں تمہاری ضمانت کیا دوں مگر میں نے ان کو قرار دیا فکر نہ کریں جلد حالات بدلنے والے ہیں اور پھر سال بھر بعد بھٹو اقتدار میں آگئے گوکہ ہمارا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا تحریک آزادی کے ایک ہیرو سراج الدولہ ہم سے دور ہوچکے تھے۔ صرف یہ کالج کراچی میں تھا جو بنگال کی یاد دلاتا ہے اور دلاتا رہے گا۔
یہ غالباً 1972ء کے آخری دن تھے کہ نارتھ ناظم آباد کے گھر پر تین بجے کے قریب غوث بخش بزنجو جو بلوچستان کے گورنر تھے بی ایم کٹی کے ہمراہ گھر تشریف لائے اور والد صاحب کو شعبہ اردو بلوچستان یونیورسٹی کا چیئرمین بنانے کی دعوت دی اورگفتگو جاری رہی جتنی دیر میں، میں چائے پانی لے کر آتا گفتگو انجام پذیر ہوگئی اور والد محترم نے بلوچستان کو اپنا گھر بنا لیا اور نئی علمی اور درسی تحریک کے ایک بار پھر سپاہی بن گئے اور بس طلبا تھے اور والد گرامی ایک دوسرے کی مسرتوں کے مشنری کارکن بن گئے نہ دن دیکھا اور نہ رات تعلیم کے ساتھ شعور و آگہی، انسان دوستی کی روشنی سے بلوچستان منور ہوتا گیا کیونکہ 1974ء سے 1976ء تک میں ان کے ساتھ اسٹاف یونیورسٹی اسٹاف ٹاؤن میں قیام پذیر تھا۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ گلیسکو لیبارٹریز میں ایک اچھے عہدے پر مجھے ملازمت ملی اور انھوں نے میری پوسٹنگ کوئٹہ کردی، اس طرح ان کی رفاقت کو عملی طور پر دیکھا۔
اس مختصر سی گنجائش میں بہت کچھ لکھنے سے قاصر رہا البتہ یہ ضرور لکھوں گا کہ سراج الدولہ کالج کے طلبا نے کراچی میں دھوم مچا دی تھی، مجتبیٰ صاحب کی رحلت کو کوئٹہ کے طلبا نے فراموش نہ کیا انھوں نے یونیورسٹی کے بڑے ہال کا نام مجتبیٰ حسین ہال رکھا اور وہاں کے اساتذہ کی نگارشات میں ان کا تذکرہ سرفہرست ہوتا ہے۔ اب والد صاحب پر ایم فل اور پی ایچ ڈی پر کام ہو رہا ہے اور نئے طلبا فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی اور ڈاکٹر رئیس علوی کا ان کے معروف شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔
اردو کے نامور شاعر جوش ملیح آبادی کے بقول ''ان کا اصلی میدان انتقاد و سیاست ہے۔ انتقاد کے وقت ان کی نگاہیں عکس ریزکا کام کرتی ہیں اور وہ ادب کے بدن میں ڈوب کر ان کے تمام محاسن اور معائب کا معائنہ کرلیتی ہیں۔''
پروفیسر صاحب کی تمام نثری تصانیف، انتظار سحر، نیم رخ، تہذیب و تحریر، ادب و آگہی، سراب اور دیگر مضامین جن میں زوبی جو معروف آرٹسٹ تھے ان کا سہ ماہی جریدہ سے متعلق تصانیف کو یکجا کرنے کا بیڑا ڈاکٹر ہلال نقوی نے اٹھایا ہے وہ آخری مرحلے میں ہے اور اس کوکتابی شکل دینے کے لیے دور حاضر کے معروف دانشور و محقق ادب، ڈاکٹر جعفر احمد کی خصوصی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔
والد محترم کو گزرے ہوئے 29 برس ہونے کو ہیں مگر جب بھی ان کا تذکرہ ہوتا ہے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یکم اپریل 1989ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی منعقدہ ادبی کانفرنس جو لاہور میں سجی تھی وہ اس کے میر محفل تھے۔ صبح 9 بجے ان کا گھر فون آیا کہ میں لاہور سے کراچی آ رہا ہوں مجھے لینے آجاؤ میں ابھی گیارہ بجے تیار ہو رہا تھا کہ دوسرا فون آیا کہ مجتبیٰ صاحب کی کارکو ایئرپورٹ کے نزدیک گورنمنٹ کی ایک بس نے ٹکر مار دی اور اس گاڑی کے بائیں حصے پر ہٹ کیا اور مجتبیٰ صاحب جاں بحق ہوگئے۔
یہ عجیب کال تھی کیونکہ اس کار کے ڈرائیور ڈاکٹر طارق عزیز تھے اور اس کے علاوہ چند احباب بھی موجود تھے جن میں مسلم شمیم بھی شریک سفر تھے، ظاہر ہے ایسی صورت میں مجھے جس کرب سے گزرنا پڑا وہ ناقابل بیان مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی میڈیا نے ان کی رحلت کی خبر کو بڑی اہمیت دی۔
آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، پی ٹی وی اور ملک کے تمام پرنٹ میڈیا نے وہ مقام دیا کہ میں آج بھی مشکور ہوں کہ ان کے علم و فضل کو تسلیم کیا۔ مگر میں تو اس وقت تحریر کے قابل بھی نہ تھا بلکہ پہلی بار 2014ء میں نے ان پر ایک آرٹیکل تحریر کیا مگر آج بھی دل ملول ہے اور ہاتھوں کی جنبش میں خلل آج بھی ہے کیونکہ منظر نامہ پھر سامنے آرہا ہے۔
جگہ جگہ تعزیتی جلسے، محترمہ کی جانب سے اظہار افسوس، ادبی حلقوں کی گریہ و زاری اور خصوصاً بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کی کراچی آمد اور ان کو خراج عقیدت۔ والد محترم کو میں نے کئی برس خود دیکھا ہے کہ وہ طلبا کو کیسے پڑھاتے تھے، اکثر طلبا دور دراز کے ہوا کرتے تھے مثلاً ڈیرہ بگٹی کے طلبا بھی کلاس میں موجود ہوتے تھے تو پشین اور چمن سے آنے والے جو ہوسٹل میں مقیم ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب کوئی استاد کی حیثیت سے درخواست دیتا تو وہ ان درخواست دہندہ کو انٹرویو کے بعد یہ الفاظ کہا کرتے تھے ''دیکھیے جناب یہ گورنمنٹ کی ملازمت نہیں ہے، مشنری مشن سمجھ کر آئیے۔'' گوکہ وہ بائیں بازو کے پرانے ترقی پسند تحریک کے رفیق تھے مگر تعلیم میں صرف نصاب ہی نصاب، بحث مباحثہ الگ ہوا کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان کے مشہور ڈرامہ نگار سلیم احمد کے بھائی شمیم احمد نے بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانا چاہا تو باقاعدہ انٹرویو کے بعد ان کو پڑھانے کے لیے منتخب کرلیا۔جب والد محترم کی رحلت کے بعد میں ان کے ڈیپارٹمنٹ گیا تو ان کا چپڑاسی مجھ سے لپٹ کر رونے لگا اور یہی کہتا رہا کہ آج تک صاحب نے مجھے پہلے سلام نہیں کرنے دیا وہ خود پہلے سلام کرتے تھے۔ حالانکہ وہ جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ خاصا متمول تھا۔ زمینداری کے علاوہ باپ باقر حسین جو جونپور کے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ تھے، بڑے بھائی مصطفیٰ حسین اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس اور خود فرسٹ کلاس فرسٹ الٰہ باد یونیورسٹی سے۔
پاکستان آنے سے قبل انھوں نے اپنے استاد فراق گورکھ پوری کے کہنے پر 1946ء میں الٰہ باد میں روٹا مشین کا پریس لگایا جہاں کتابت اور پلیٹ میکنگ کی سہولت موجود تھی، بقول دادی صاحبہ کے اور اس زمانے کے 20 ہزار روپے خرچ ہوئے جب کہ 1948ء تک صدر کراچی میں دس ہزار میں جمشید روڈ اور گرومندر میں بنگلہ ملتا تھا مگر وہ روپیہ کو انسان کے مقابلے میں نیچا سمجھتے تھے۔
جب سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن نے تقسیم ہند کی تائید کردی تو انھوں نے بھی دادی جان قمر النسا بی بی کو پاکستان کے لیے تیار کرنا شروع کردیا کیونکہ دادا جان اس وقت فوت ہوچکے تھے، جب والد صاحب 16 برس کے بھی نہ ہوئے تھے بالآخر والد محترم 1948ء کو بمبئی سے پانی کے جہاز پر سوار ہوئے اورکراچی میں قیام کیا۔ یہ دیار غیر تھا ان کے لیے مگر طیب بخاری جو ایک صحافی تھے اور گرومندر پر ایک بنگلے میں رہائش پذیر تھے وہاں قیام کیا پھر چند برس بعد بہارکالونی میں کرایے پر رہائش پذیر رہے اور ریڈیو پاکستان سے ناتا رہا، اس کے علاوہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے سرگرم رہے اور ریڈیو پاکستان میں جزوقتی پروگرام اور تحریر سے وقت گزرتا رہا۔
دادی جان اپنے ساتھ خاصا سونا چاندی لائی تھیں جو برے اوقات میں نہ صرف کام آتا رہا، بہرحال بہتر زندگی کے لیے والد صاحب جدوجہد کرتے رہے 1960ء کے عرصے میں وہ چائنیز سفارت خانے کے پریس ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہوئے اور چند برس بعد نیشنل کالج میں تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور اس کے بعد فیڈرل بی ایریا کراچی میں اپنے دوستوں کے ہمراہ سراج الدولہ کالج قائم کیا ۔ پروفیسر یحییٰ سلام اللہ جو بوسٹن یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے اس کے علاوہ پروفیسر ظفر عمر زبیری اور خود والد محترم نے رفاقت کے بعد راجہ صاحب آف محمود آباد سے رجوع کیا جنھوں نے اس کالج کے قیام میں مالی تعاون کیا۔
والد مرحوم چونکہ پرنسپل تھے اس لیے ان کو خاصی مشکلات پیش آتی تھیں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس علاقے میں یہ کالج قائم کیا گیا وہ علاقہ مجموعی طور پر درمیانہ طبقہ یا اس سے بھی کم مالی حالات کے لوگ یہاں تھے اور تقریباً 20 فیصد کی فیس معاف یا کوئی نہ کوئی ڈسکاؤنٹ کردیا جاتا۔
مجھے یاد ہے کہ میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں تھرڈ ایئر بی ایس سی کا طالب علم تھا جب سوویت یونین کے قونصلیٹ آفس کے ایک اعلیٰ افسر گھر آئے اور والد صاحب کو باضابطہ طور پر کہا کہ ہم حکومتی سطح پر اس کالج کی تعمیر نو کرسکتے ہیں مگر آپ نے منع کردیا اورکہا کہ ہم نظریاتی طور پر غریب طبقے کو بلند کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے ہم اپنے اصول سے انحراف نہیں کرسکتے۔
ادھر میں یہ بتانا بھی بھول گیا کہ مجتبیٰ حسین جب بھارت سے ہجرت کر بیٹھے تو 1950ء کے وسط میں فراق گورکھ پوری نے کئی کنٹینر 20x20 کیوبک فٹ کے کراچی بھیج دیے یہ تمام ان کی کتابیں تھیں اس طرح انھوں نے والد صاحب کا قرض اتار دیا تو پہلی مرتبہ دادی جان کو یہ کہتے سنا کہ یہ فراق گورکھ پوری نہیں منے (والد صاحب) یہ تو فراڈ گورکھ پوری نکلے۔ زندگی یوں ہی آزمائشوں سے گزرتی گئی اور لب ہی لب میں میر انیس کا یہ شعر گنگناتا رہا:
کسی کی ایک طرح سے بسر ہوئی نہ انیسؔ
عروجِ مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا
میں جوان ہو رہا تھا اور پڑھنے لکھنے میں کافی دلچسپی رکھتا تھا مگر وہ میری طرف سے پریشان بھی ہوجاتے تھے کیونکہ میں طلبا تحریک میں سرگرمی سے آگے بڑھتا رہتا تھا اور جب این ایس ایف میں باضابطہ طور پر عہدیدار ہوگیا تو جیل کی آمد و رفت ہوتی رہی، اس پر ایک بار انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس مکان کے علاوہ کچھ اور نہیں تمہاری ضمانت کیا دوں مگر میں نے ان کو قرار دیا فکر نہ کریں جلد حالات بدلنے والے ہیں اور پھر سال بھر بعد بھٹو اقتدار میں آگئے گوکہ ہمارا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا تحریک آزادی کے ایک ہیرو سراج الدولہ ہم سے دور ہوچکے تھے۔ صرف یہ کالج کراچی میں تھا جو بنگال کی یاد دلاتا ہے اور دلاتا رہے گا۔
یہ غالباً 1972ء کے آخری دن تھے کہ نارتھ ناظم آباد کے گھر پر تین بجے کے قریب غوث بخش بزنجو جو بلوچستان کے گورنر تھے بی ایم کٹی کے ہمراہ گھر تشریف لائے اور والد صاحب کو شعبہ اردو بلوچستان یونیورسٹی کا چیئرمین بنانے کی دعوت دی اورگفتگو جاری رہی جتنی دیر میں، میں چائے پانی لے کر آتا گفتگو انجام پذیر ہوگئی اور والد محترم نے بلوچستان کو اپنا گھر بنا لیا اور نئی علمی اور درسی تحریک کے ایک بار پھر سپاہی بن گئے اور بس طلبا تھے اور والد گرامی ایک دوسرے کی مسرتوں کے مشنری کارکن بن گئے نہ دن دیکھا اور نہ رات تعلیم کے ساتھ شعور و آگہی، انسان دوستی کی روشنی سے بلوچستان منور ہوتا گیا کیونکہ 1974ء سے 1976ء تک میں ان کے ساتھ اسٹاف یونیورسٹی اسٹاف ٹاؤن میں قیام پذیر تھا۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ گلیسکو لیبارٹریز میں ایک اچھے عہدے پر مجھے ملازمت ملی اور انھوں نے میری پوسٹنگ کوئٹہ کردی، اس طرح ان کی رفاقت کو عملی طور پر دیکھا۔
اس مختصر سی گنجائش میں بہت کچھ لکھنے سے قاصر رہا البتہ یہ ضرور لکھوں گا کہ سراج الدولہ کالج کے طلبا نے کراچی میں دھوم مچا دی تھی، مجتبیٰ صاحب کی رحلت کو کوئٹہ کے طلبا نے فراموش نہ کیا انھوں نے یونیورسٹی کے بڑے ہال کا نام مجتبیٰ حسین ہال رکھا اور وہاں کے اساتذہ کی نگارشات میں ان کا تذکرہ سرفہرست ہوتا ہے۔ اب والد صاحب پر ایم فل اور پی ایچ ڈی پر کام ہو رہا ہے اور نئے طلبا فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی اور ڈاکٹر رئیس علوی کا ان کے معروف شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔
اردو کے نامور شاعر جوش ملیح آبادی کے بقول ''ان کا اصلی میدان انتقاد و سیاست ہے۔ انتقاد کے وقت ان کی نگاہیں عکس ریزکا کام کرتی ہیں اور وہ ادب کے بدن میں ڈوب کر ان کے تمام محاسن اور معائب کا معائنہ کرلیتی ہیں۔''
پروفیسر صاحب کی تمام نثری تصانیف، انتظار سحر، نیم رخ، تہذیب و تحریر، ادب و آگہی، سراب اور دیگر مضامین جن میں زوبی جو معروف آرٹسٹ تھے ان کا سہ ماہی جریدہ سے متعلق تصانیف کو یکجا کرنے کا بیڑا ڈاکٹر ہلال نقوی نے اٹھایا ہے وہ آخری مرحلے میں ہے اور اس کوکتابی شکل دینے کے لیے دور حاضر کے معروف دانشور و محقق ادب، ڈاکٹر جعفر احمد کی خصوصی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔