کوڑاچی کے لقب سے کس نے نوازا
اس دور حکومت میں ہم نے کیا کیا دیکھا اور کیا کیا برداشت کیا۔
GILGIT:
کراچی میں پی ایس ایل کے کامیاب، پرجوش، پرامن اور شاندار انعقاد کا سہرا ہر کوئی اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی وزرا، (ن) لیگ کے ترجمان نے بھی کراچی کے سابقہ حالات کا ذکر کر کے کراچی میں بحالی امن کو اپنی حکومت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے پرامن میچ کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جب کہ حکومت سندھ کے وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ''وفاق نے امن و امان کے لیے آدھے اخراجات دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی ادا نہ کی۔''
ساتھ ہی انھوں نے اس کامیابی کا مکمل ذمے دار وزیر اعلیٰ سندھ کو قرار دیا ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی ذاتی کوشش اور محنت کا ثمر ہے یہ تو وہ سیاسی مخاصمت والی باتیں ہیں کہ وفاق سندھ کو نیچا دکھانے کو سندھ حکومت وفاقی حکومت کو تمام تر خامیوں کا ذمے دار قرار دے مگر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ پی ایس ایل فائنل واقعی بے حد منظم طور پر بڑی خوش اسلوبی سے ہوا، کراچی کے عوام جن کو کبھی دہشت گرد اور کبھی ''زندہ لاشیں'' قرار دیا گیا انھیں ان کے نظم و ضبط کے باعث مہذب اور پڑھے لکھے اورکراچی کو پڑھے لکھے افراد کا شہر بھی قرار دیا گیا۔
اب اگر یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ صاحب کی دلچسپی، کوشش اور محنت کا ثمر ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر وہ سنجیدہ کوشش کریں تو کراچی کے سارے مسائل اس جذبے سے حل کرسکتے تھے، کرسکتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات سر پر آگئے ہیں اور اس دفعہ پی پی کو اپنی باری لینی ہے لہٰذا برسوں ہر شعبہ زندگی میں بدعنوانی لاکھوں بلکہ اربوں کی ہیراپھیری کی کہانی گلی گلی مشہور ہوئی تو میرا کراچی، بلدیہ عظمیٰ نے اپنے اختیارات اور فنڈز نہ ملنے پر اپنی کارکردگی کے نہ ہونے کا الزام حکومت سندھ پر عائد کیا وہاں حکومت سندھ ہر مسئلے کا ذمے دار وفاق کی جانبداری پر ڈالتی رہی۔ اور کوشش یہ کی جاتی رہی کہ تمام تر اختیارات اداروں کے بجائے سندھ حکومت کے پاس مرتکز ہوجائیں۔
اب انتخابات کے نزدیک آنے پر ہوش آیا کہ کچھ کیا جائے اللہ نے یہ ایک موقعہ عطا فرمایا تو اپنی تمام صلاحیتیں، کوششیں سامنے لاکر خود ہی یہ ثابت کردیا کہ اگر کرنا چاہیں تو نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ کرنے والوں کی کمی وہی ساری قوتیں، وہی ادارے، وہی انتظامیہ اور وہی پولیس جو ہر طرح سے کام چوری میں شہرت یافتہ تھی نے آخر کیسے اس موقع پر مستعدی سے تمام کام سر انجام دیے؟
پاکستان کے سب سے بڑے شہر جو روشنیوں، ادبی و ثقافتی تقریبات کے لیے مشہور تھا اس کو کراچی کے بجائے ''کوڑاچی'' کے لقب سے کس نے نوازا اور کیوں؟ جب صاحبان اقتدار کو علم ہے کہ انھیں ہر پانچ سال بعد عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے تو آخر روز اول سے اپنی بہترین کارکردگی کا آغاز کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس سوال کا جواب یوں تو پورے سندھ (بلکہ ملک) لیکن بطور خاص کراچی کے عوام کے بچے بچے کی زبان پر ہے کہ اقتدار میں آنے کی کوشش عوام کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر صاحبان اقتدار کے قبضے کی نیت سے ہوتی ہے۔
لہٰذا انتخابات سے چند ماہ قبل سب نیند سے انگڑائی لے کر بیدار ہوتے ہیں اور کسی پھوہڑ خاتون کی طرح جو مہمانوں کی آمد کا سن کر جلدی جلدی اپنے بکھرے گھر کو درست کرنے لگتی ہے کی طرح پانچ سال (بلکہ لگاتار دو دو باریاں) کے بعد جلدی جلدی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش اور بلند و بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں۔
وسائل و مسائل کا رونا رونے والے آخر اس ایک موقعے پر پورے نہ سہی اسٹیڈیم کے اطراف اور ان علاقوں جہاں سے مہمانوں کے گزرنے کے امکانات تھے کو کیسے آراستہ، صاف ستھرا کرنے میں کامیاب ہوئی، ٹریفک کا نظام کیسے بحال رہا، پولیس کیسے سنجیدگی سے اپنے فرائض ادا کرتی رہی ۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ اگر پورے دورانیے میں نہ سہی مگر موجودہ وزیر اعلیٰ کی تقرری کے بعد سے ہی اسی جذبے کا اظہار کیا جاتا تو کیا شہر کا حال یہ ہوتا؟ اتنے عرصے میں کچھ بہتری تو نظر آنی چاہیے تھی ۔
اس دور حکومت میں ہم نے کیا کیا دیکھا اور کیا کیا برداشت کیا۔ جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے جوانوں کے باعث کراچی کے متعدد گھروں میں سوگ ہے اور لاپتہ افراد کو بار بار ہائیکورٹ میں پیش کرنے کے نوٹس کے باوجود جانے کتنی ماؤں، بہنوں اور بیویوں کی نگاہیں ہر وقت در پر لگی رہتی ہیں کہ شاید اس بار عدالتی حکم پر ان کے لاپتہ پیاروں کو عدالت میں پیش کردیا جائے۔
کراچی جیسے بڑے شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں تقریباً سال بھر تک جعلی لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی ہمارے نظام تحفظ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس شہر میں آئے دن نوزائیدہ بچے اغوا ہونے اور گزشتہ ماہ رواں میں ایک دن میں دو تین نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے کی اطلاع ہو وہاں ایسی غفلت کو کس کھاتے میں لکھا جائے؟ سرکاری اسپتالوں میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد ہی علاج کرواتے ہیں۔
جناح اسپتال کے زچگی وارڈ میں جعلی لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی کی اطلاع پر یہ طبقہ مزید پریشانی اور عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے مگر سرکارکو اس طبقے کے خدشات و پریشانی سے کیا سروکار؟ خیال کیا جا رہا ہے جعلی لیڈی ڈاکٹر کا تعلق کسی ایسے گروہ سے تو نہیں جو بچوں کو اغوا کراتے ہیں۔ پھر تواتر سے نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے سے یہ شک بھی پیدا ہو رہا ہے کہ ایسے کیسز میں ان موصوفہ کے علاوہ اور نہ جانے کتنی جعلی ڈاکٹرز یا ہیلتھ وزیٹرز ملوث ہوں گی۔ دیکھیے اس کیس کی تفتیش سے کیا بات سامنے آتی ہے۔
ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی صورتحال کی بنیادی وجہ شرح خواندگی میں شرمناک حد تک کمی اور اگر کچھ لوگ دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر بھی لیں تو روزگار کی کمی کے باعث ٹھوکریں کھا کر وہ بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جرائم پیشہ افراد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کوئی حکومت بھی نظام تعلیم کو ہر بچے کے لیے عام اور سستی کرنے کے اقدام کے بجائے تعلیم کو صرف کاغذی اسناد تک محدود کرنے کے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک پر قابض ایک مخصوص ذہنیت کا طبقہ یہ چاہتا ہی نہیں کہ یہاں کے لوگ پڑھ لکھ کر ان سے آگے نکل سکیں اس وجہ سے نہ تازہ دم قیادت سامنے آرہی ہے نہ تعلیمی سطح پر بہتری کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔
طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہوئے تقریباً 40 سال ہوچکے ہیں ایسے میں سندھ کے عوام کو کوٹہ سسٹم کے تحت صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے سے روکا گیا اور اب نیا تازیانہ نظام تعلیم پر جامعات ترمیمی بل کی شکل میں لگایا گیا ہے جس کے ذریعے جامعات کی خودمختاری کو بھی حکومت سندھ نے اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی ابھی تک تعلیم اعلیٰ طبقے میں بانٹی جا رہی تھی غریب کا بچہ والدین کی محنت مزدوری سے پڑھ کر بھی ان پڑھ ہی رہ جاتا تھا مگر اب تعلیمی اداروں پر بھی سیاسی قبضہ ہوگا۔ مگر ارباب سیاست یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ سیاست نہیں کرنی ہے البتہ ان کے بوئے ہوئے کانٹے ان کی آنے والی نسلوں کو بھی لہو لہان کرتے رہیں گے۔
ایسے میں سیاستدانوں کے بلند بانگ دعوؤں کی حقیقت ملک کی مزید تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہی جاسکتی۔ سنجیدہ، مہذب اور محب وطن افراد پریشان ہیں کہ اکثریت اقلیت کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
کراچی میں پی ایس ایل کے کامیاب، پرجوش، پرامن اور شاندار انعقاد کا سہرا ہر کوئی اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی وزرا، (ن) لیگ کے ترجمان نے بھی کراچی کے سابقہ حالات کا ذکر کر کے کراچی میں بحالی امن کو اپنی حکومت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے پرامن میچ کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جب کہ حکومت سندھ کے وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ''وفاق نے امن و امان کے لیے آدھے اخراجات دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی ادا نہ کی۔''
ساتھ ہی انھوں نے اس کامیابی کا مکمل ذمے دار وزیر اعلیٰ سندھ کو قرار دیا ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی ذاتی کوشش اور محنت کا ثمر ہے یہ تو وہ سیاسی مخاصمت والی باتیں ہیں کہ وفاق سندھ کو نیچا دکھانے کو سندھ حکومت وفاقی حکومت کو تمام تر خامیوں کا ذمے دار قرار دے مگر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ پی ایس ایل فائنل واقعی بے حد منظم طور پر بڑی خوش اسلوبی سے ہوا، کراچی کے عوام جن کو کبھی دہشت گرد اور کبھی ''زندہ لاشیں'' قرار دیا گیا انھیں ان کے نظم و ضبط کے باعث مہذب اور پڑھے لکھے اورکراچی کو پڑھے لکھے افراد کا شہر بھی قرار دیا گیا۔
اب اگر یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ صاحب کی دلچسپی، کوشش اور محنت کا ثمر ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر وہ سنجیدہ کوشش کریں تو کراچی کے سارے مسائل اس جذبے سے حل کرسکتے تھے، کرسکتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات سر پر آگئے ہیں اور اس دفعہ پی پی کو اپنی باری لینی ہے لہٰذا برسوں ہر شعبہ زندگی میں بدعنوانی لاکھوں بلکہ اربوں کی ہیراپھیری کی کہانی گلی گلی مشہور ہوئی تو میرا کراچی، بلدیہ عظمیٰ نے اپنے اختیارات اور فنڈز نہ ملنے پر اپنی کارکردگی کے نہ ہونے کا الزام حکومت سندھ پر عائد کیا وہاں حکومت سندھ ہر مسئلے کا ذمے دار وفاق کی جانبداری پر ڈالتی رہی۔ اور کوشش یہ کی جاتی رہی کہ تمام تر اختیارات اداروں کے بجائے سندھ حکومت کے پاس مرتکز ہوجائیں۔
اب انتخابات کے نزدیک آنے پر ہوش آیا کہ کچھ کیا جائے اللہ نے یہ ایک موقعہ عطا فرمایا تو اپنی تمام صلاحیتیں، کوششیں سامنے لاکر خود ہی یہ ثابت کردیا کہ اگر کرنا چاہیں تو نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ کرنے والوں کی کمی وہی ساری قوتیں، وہی ادارے، وہی انتظامیہ اور وہی پولیس جو ہر طرح سے کام چوری میں شہرت یافتہ تھی نے آخر کیسے اس موقع پر مستعدی سے تمام کام سر انجام دیے؟
پاکستان کے سب سے بڑے شہر جو روشنیوں، ادبی و ثقافتی تقریبات کے لیے مشہور تھا اس کو کراچی کے بجائے ''کوڑاچی'' کے لقب سے کس نے نوازا اور کیوں؟ جب صاحبان اقتدار کو علم ہے کہ انھیں ہر پانچ سال بعد عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے تو آخر روز اول سے اپنی بہترین کارکردگی کا آغاز کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس سوال کا جواب یوں تو پورے سندھ (بلکہ ملک) لیکن بطور خاص کراچی کے عوام کے بچے بچے کی زبان پر ہے کہ اقتدار میں آنے کی کوشش عوام کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر صاحبان اقتدار کے قبضے کی نیت سے ہوتی ہے۔
لہٰذا انتخابات سے چند ماہ قبل سب نیند سے انگڑائی لے کر بیدار ہوتے ہیں اور کسی پھوہڑ خاتون کی طرح جو مہمانوں کی آمد کا سن کر جلدی جلدی اپنے بکھرے گھر کو درست کرنے لگتی ہے کی طرح پانچ سال (بلکہ لگاتار دو دو باریاں) کے بعد جلدی جلدی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش اور بلند و بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں۔
وسائل و مسائل کا رونا رونے والے آخر اس ایک موقعے پر پورے نہ سہی اسٹیڈیم کے اطراف اور ان علاقوں جہاں سے مہمانوں کے گزرنے کے امکانات تھے کو کیسے آراستہ، صاف ستھرا کرنے میں کامیاب ہوئی، ٹریفک کا نظام کیسے بحال رہا، پولیس کیسے سنجیدگی سے اپنے فرائض ادا کرتی رہی ۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ اگر پورے دورانیے میں نہ سہی مگر موجودہ وزیر اعلیٰ کی تقرری کے بعد سے ہی اسی جذبے کا اظہار کیا جاتا تو کیا شہر کا حال یہ ہوتا؟ اتنے عرصے میں کچھ بہتری تو نظر آنی چاہیے تھی ۔
اس دور حکومت میں ہم نے کیا کیا دیکھا اور کیا کیا برداشت کیا۔ جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے جوانوں کے باعث کراچی کے متعدد گھروں میں سوگ ہے اور لاپتہ افراد کو بار بار ہائیکورٹ میں پیش کرنے کے نوٹس کے باوجود جانے کتنی ماؤں، بہنوں اور بیویوں کی نگاہیں ہر وقت در پر لگی رہتی ہیں کہ شاید اس بار عدالتی حکم پر ان کے لاپتہ پیاروں کو عدالت میں پیش کردیا جائے۔
کراچی جیسے بڑے شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں تقریباً سال بھر تک جعلی لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی ہمارے نظام تحفظ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس شہر میں آئے دن نوزائیدہ بچے اغوا ہونے اور گزشتہ ماہ رواں میں ایک دن میں دو تین نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے کی اطلاع ہو وہاں ایسی غفلت کو کس کھاتے میں لکھا جائے؟ سرکاری اسپتالوں میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد ہی علاج کرواتے ہیں۔
جناح اسپتال کے زچگی وارڈ میں جعلی لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی کی اطلاع پر یہ طبقہ مزید پریشانی اور عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے مگر سرکارکو اس طبقے کے خدشات و پریشانی سے کیا سروکار؟ خیال کیا جا رہا ہے جعلی لیڈی ڈاکٹر کا تعلق کسی ایسے گروہ سے تو نہیں جو بچوں کو اغوا کراتے ہیں۔ پھر تواتر سے نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملنے سے یہ شک بھی پیدا ہو رہا ہے کہ ایسے کیسز میں ان موصوفہ کے علاوہ اور نہ جانے کتنی جعلی ڈاکٹرز یا ہیلتھ وزیٹرز ملوث ہوں گی۔ دیکھیے اس کیس کی تفتیش سے کیا بات سامنے آتی ہے۔
ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی صورتحال کی بنیادی وجہ شرح خواندگی میں شرمناک حد تک کمی اور اگر کچھ لوگ دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر بھی لیں تو روزگار کی کمی کے باعث ٹھوکریں کھا کر وہ بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جرائم پیشہ افراد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کوئی حکومت بھی نظام تعلیم کو ہر بچے کے لیے عام اور سستی کرنے کے اقدام کے بجائے تعلیم کو صرف کاغذی اسناد تک محدود کرنے کے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک پر قابض ایک مخصوص ذہنیت کا طبقہ یہ چاہتا ہی نہیں کہ یہاں کے لوگ پڑھ لکھ کر ان سے آگے نکل سکیں اس وجہ سے نہ تازہ دم قیادت سامنے آرہی ہے نہ تعلیمی سطح پر بہتری کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔
طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہوئے تقریباً 40 سال ہوچکے ہیں ایسے میں سندھ کے عوام کو کوٹہ سسٹم کے تحت صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے سے روکا گیا اور اب نیا تازیانہ نظام تعلیم پر جامعات ترمیمی بل کی شکل میں لگایا گیا ہے جس کے ذریعے جامعات کی خودمختاری کو بھی حکومت سندھ نے اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی ابھی تک تعلیم اعلیٰ طبقے میں بانٹی جا رہی تھی غریب کا بچہ والدین کی محنت مزدوری سے پڑھ کر بھی ان پڑھ ہی رہ جاتا تھا مگر اب تعلیمی اداروں پر بھی سیاسی قبضہ ہوگا۔ مگر ارباب سیاست یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ سیاست نہیں کرنی ہے البتہ ان کے بوئے ہوئے کانٹے ان کی آنے والی نسلوں کو بھی لہو لہان کرتے رہیں گے۔
ایسے میں سیاستدانوں کے بلند بانگ دعوؤں کی حقیقت ملک کی مزید تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہی جاسکتی۔ سنجیدہ، مہذب اور محب وطن افراد پریشان ہیں کہ اکثریت اقلیت کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔