شکارپور کی یادیں
یکم جون 1990 کو شکارپور میں بھی ایک قیامت برپا کرائی گئی تھی۔
اپنا آبائی شہر کسے پیارا نہیں ہوتا اورکون اپنی پیدائش کی جگہ بھول سکتا ہے وہ بڑا شہر ہو یا کوئی اور ملک ۔ گاؤں ہو یا چھوٹا شہر لوگ صوبہ بھول جاتے ہیں مگر اپنے شہر کو سالوں نہیں عشروں میں بھی نہیں بھولتے کیونکہ انھیں اپنا بچپن اپنے آبائی علاقوں کے راستے، تعلیمی ادارے، بچپن کے اسکول اور باہر کے دوست بلکہ اپنے شہر والے ہمیشہ یاد رہتے ہیں کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت فوت اورکہاں دفن ہوگا مگر وہ اپنے پیدائشی علاقے کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
ہندوستان سے مستقل ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے اور مختلف شہروں میں پیدا ہوکر کہیں بھی جا بسنے والے اپنے آبائی شہر کی محبت میں اپنے شہر کا حوالہ دینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
دہلوی، اجمیری، پانی پتی، میرٹھی اور دیگر اپنے شہر کی محبت میں شہرکا حوالہ ضرور دیتے ہیں مگر میرے آبائی شہر شکار پور کا حوالہ فلمی دنیا کی مشہور شخصیت اے شاہ شکار پوری بھی تھے۔
کراچی میں آباد ملک بھر سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے رہائشی علاقوں کے نام اپنے اپنے شہروں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں اور مزار قائد کے قریب واقع شکار پورکالونی بھی مشہور ہے جہاں رہنے والوں کی معمولی تعداد ہی شاید شکارپور سے تعلق رکھتی ہو مگر شکار پورکالونی کراچی کا مشہور اور پوش علاقہ ہے۔
میں بھی 1990 کو کبھی نہیں بھول سکتا جب بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سندھ میں ہونے والے لسانی جھگڑوں کو قوم پرستوں نے فروغ دیا تھا اور قومی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں مجبوری میں کی جانے والی نقل مکانی رکوانے میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی جس کی وجہ سے کراچی اور اندرون سندھ رہنے والوں کو اپنے علاقے چھوڑ کر حیدرآباد اور کراچی آکر آباد ہونا پڑا تھا جو ایک انتہائی تکلیف دہ نقل مکانی تھی۔جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے تھے، اس جلاوطنی کا دکھ بھولا نہیں جاسکتا۔ وقت گزرتا گیا اور 1990 کو گزرے 28 سال گزر گئے۔
یکم جون 1990 کو شکارپور میں بھی ایک قیامت برپا کرائی گئی تھی۔ اس وقت شکارپور کے آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ سندھ تھے جن کی حکومت میں مجھ سمیت ہزاروں افراد کو اپنے آبائی شہر چھوڑنا پڑے تھے مگر بعد میں اللہ کے کرم سے کوئی افسوسناک واقعہ پیش نہیں آیا ۔کراچی میں اپنے شہروں کے حوالے سے متعدد ایسی سماجی تنظیمیں ہیں جن کے ممبران انھی علاقوں کے رہنے والے ہیں اور آپس میں مل بیٹھنے کے لیے اپنے شہریوں کے حوالے سے قائم یہ تنظیمیں خوش آیند اور قابل تقلید ہیں جو نفسانفسی، مطلب و مفاد پرستی اور مصروفیت کے شہر کراچی میں اپنے آبائی وطن سے تعلق رکھنے والوں کو سالوں بعد ایک دوسرے سے ملنے کا موقعہ فراہم کرتی ہیں کیونکہ تقریب ملاقات بہت ضروری ہے اور ایسے موقعے پر ہی اپنوں میں بیٹھ کر حال دل کہنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
شکار پور سے بعض وجوہات کے باعث کراچی میں آباد ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری ملازم تو مجبوری میں یہاں رہ رہے ہیں مگر نئی نسل کی کراچی میں پیدائش والے بچے بھی اپنے بڑوں کے آبائی شہروں کو یاد رکھتے ہیں مگر ان میں وہ بات، خلوص و محبت نہیں جو شکار پورکی محبت بھری زمین پہ جنم لینے والوں میں ہے کیونکہ وہ اپنے شہر والوں سے تعلق کو خاندان قرار دیتے ہیں۔ شکارپور والوں کی یہ باہمی محبت بلاامتیاز ہے جن میں صرف ایک رشتہ شکارپوری ہوتا ہے۔
مجھ سمیت شکارپور والوں نے یہاں شکارپور شہر سدھار اور شکار پورینز کلچرل سوسائٹی بھی بنائی تھی جو مصروفیت کی بھینٹ چڑھی مگر موجود ہے جس میں سابق سیشن جج الطاف احمد شیخ اور ماسٹر علی محمد بھٹو و دیگر کی محنت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
2016 میں شکارپور سے تعلق رکھنے والے شاعر اشفاق انور انصاری نے اپنے شہر والوں کے تعاون سے کراچی میں بزم احباب شکار پور قائم کی تھی جو شکارپور میں بھی قائم ہے جس کے کراچی و شکارپور میں نو پروگرام محدود پیمانے پر ہوئے اور پھر باہمی فیصلے سے دسواں بڑا پروگرام ''حرم عالیشان شہر شکار پور'' کے نام سے منعقد ہوا جس میں کراچی میں آباد شکارپور کے لوگوں کے علاوہ بزم احباب کے شکارپور سے تعلق رکھنے والے شریک ہوئے اور سالوں بعد جب بچھڑے ہوئے شکارپوری آپس میں ملے تو گلے مل کر آبدیدہ ہوگئے اور بعض اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور گلوگیر ہوگئے۔ 28 سال قبل شکارپور سے کراچی آکر آباد ہونے والوں میں اکثر ایسے تھے جن پر بڑھاپا آگیا، بچے جوان ہوگئے۔
کراچی میں گزارے گئے مشکل حالات میں کم لوگ ہی سیٹ ہوسکے جن میں کچھ ہمت ہار کر واپس بھی چلے گئے جنھوں نے نئے اور بڑے شہر میں ہمت نہیں ہاری اور حالات کا مقابلہ کیا جب سالوں بعد ایک دوسرے کے سامنے آئے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور سب ہی نے بزم احباب شکارپور کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اہل شکارپور کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقعہ فراہم کیا۔
راقم نے بھی اپنی تقریر میں تجویز دی کہ بزم احباب کے فورم سے ایک دوسرے کے غم و دکھ کی اطلاع دی جانی چاہیے کیونکہ کراچی کی مصروف زندگی میں تو پڑوسی کو پڑوسی کا حال بھی کم ہی ملتا ہے جب کہ شکارپور میں گزاری زندگی میں ایک دوسرے سے دنوں میں ملاقات ہوجاتی تھی جو کراچی میں سالوں میں بھی ممکن نہیں ہوتی۔
بزم احباب کے بانیوں میں اشفاق انور انصاری شاعر بھی ہیں جن کی شکارپور سے متعلق لکھی ہوئی نظمیں مختلف افراد کے ذریعے سنوائی گئیں تو سب ہی کو شکارپور کے اپنے اپنے علاقے، تعلیمی ادارے خاص طور پر اسلامیہ ہائی اسکول، اپنے اساتذہ اور بچپن کے دوست اور خاص کر کم آمدنی میں گزرا شکار پور کا پرسکون دور یاد آگیا جہاں سب کا تعلق ایک خاندان جیسا تھا اور سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں ایسے شریک ہوتے تھے جیسے ایک ہی گھر کے فرد ہوں۔ تقریب نے اپنا شہر ہی نہیں شکارپور کی یادیں بھی یاد دلا دیں اور آیندہ بھی ملنے کا عہد کیا گیا۔
ہندوستان سے مستقل ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے اور مختلف شہروں میں پیدا ہوکر کہیں بھی جا بسنے والے اپنے آبائی شہر کی محبت میں اپنے شہر کا حوالہ دینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
دہلوی، اجمیری، پانی پتی، میرٹھی اور دیگر اپنے شہر کی محبت میں شہرکا حوالہ ضرور دیتے ہیں مگر میرے آبائی شہر شکار پور کا حوالہ فلمی دنیا کی مشہور شخصیت اے شاہ شکار پوری بھی تھے۔
کراچی میں آباد ملک بھر سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے رہائشی علاقوں کے نام اپنے اپنے شہروں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں اور مزار قائد کے قریب واقع شکار پورکالونی بھی مشہور ہے جہاں رہنے والوں کی معمولی تعداد ہی شاید شکارپور سے تعلق رکھتی ہو مگر شکار پورکالونی کراچی کا مشہور اور پوش علاقہ ہے۔
میں بھی 1990 کو کبھی نہیں بھول سکتا جب بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سندھ میں ہونے والے لسانی جھگڑوں کو قوم پرستوں نے فروغ دیا تھا اور قومی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں مجبوری میں کی جانے والی نقل مکانی رکوانے میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی جس کی وجہ سے کراچی اور اندرون سندھ رہنے والوں کو اپنے علاقے چھوڑ کر حیدرآباد اور کراچی آکر آباد ہونا پڑا تھا جو ایک انتہائی تکلیف دہ نقل مکانی تھی۔جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے تھے، اس جلاوطنی کا دکھ بھولا نہیں جاسکتا۔ وقت گزرتا گیا اور 1990 کو گزرے 28 سال گزر گئے۔
یکم جون 1990 کو شکارپور میں بھی ایک قیامت برپا کرائی گئی تھی۔ اس وقت شکارپور کے آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ سندھ تھے جن کی حکومت میں مجھ سمیت ہزاروں افراد کو اپنے آبائی شہر چھوڑنا پڑے تھے مگر بعد میں اللہ کے کرم سے کوئی افسوسناک واقعہ پیش نہیں آیا ۔کراچی میں اپنے شہروں کے حوالے سے متعدد ایسی سماجی تنظیمیں ہیں جن کے ممبران انھی علاقوں کے رہنے والے ہیں اور آپس میں مل بیٹھنے کے لیے اپنے شہریوں کے حوالے سے قائم یہ تنظیمیں خوش آیند اور قابل تقلید ہیں جو نفسانفسی، مطلب و مفاد پرستی اور مصروفیت کے شہر کراچی میں اپنے آبائی وطن سے تعلق رکھنے والوں کو سالوں بعد ایک دوسرے سے ملنے کا موقعہ فراہم کرتی ہیں کیونکہ تقریب ملاقات بہت ضروری ہے اور ایسے موقعے پر ہی اپنوں میں بیٹھ کر حال دل کہنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
شکار پور سے بعض وجوہات کے باعث کراچی میں آباد ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری ملازم تو مجبوری میں یہاں رہ رہے ہیں مگر نئی نسل کی کراچی میں پیدائش والے بچے بھی اپنے بڑوں کے آبائی شہروں کو یاد رکھتے ہیں مگر ان میں وہ بات، خلوص و محبت نہیں جو شکار پورکی محبت بھری زمین پہ جنم لینے والوں میں ہے کیونکہ وہ اپنے شہر والوں سے تعلق کو خاندان قرار دیتے ہیں۔ شکارپور والوں کی یہ باہمی محبت بلاامتیاز ہے جن میں صرف ایک رشتہ شکارپوری ہوتا ہے۔
مجھ سمیت شکارپور والوں نے یہاں شکارپور شہر سدھار اور شکار پورینز کلچرل سوسائٹی بھی بنائی تھی جو مصروفیت کی بھینٹ چڑھی مگر موجود ہے جس میں سابق سیشن جج الطاف احمد شیخ اور ماسٹر علی محمد بھٹو و دیگر کی محنت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
2016 میں شکارپور سے تعلق رکھنے والے شاعر اشفاق انور انصاری نے اپنے شہر والوں کے تعاون سے کراچی میں بزم احباب شکار پور قائم کی تھی جو شکارپور میں بھی قائم ہے جس کے کراچی و شکارپور میں نو پروگرام محدود پیمانے پر ہوئے اور پھر باہمی فیصلے سے دسواں بڑا پروگرام ''حرم عالیشان شہر شکار پور'' کے نام سے منعقد ہوا جس میں کراچی میں آباد شکارپور کے لوگوں کے علاوہ بزم احباب کے شکارپور سے تعلق رکھنے والے شریک ہوئے اور سالوں بعد جب بچھڑے ہوئے شکارپوری آپس میں ملے تو گلے مل کر آبدیدہ ہوگئے اور بعض اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور گلوگیر ہوگئے۔ 28 سال قبل شکارپور سے کراچی آکر آباد ہونے والوں میں اکثر ایسے تھے جن پر بڑھاپا آگیا، بچے جوان ہوگئے۔
کراچی میں گزارے گئے مشکل حالات میں کم لوگ ہی سیٹ ہوسکے جن میں کچھ ہمت ہار کر واپس بھی چلے گئے جنھوں نے نئے اور بڑے شہر میں ہمت نہیں ہاری اور حالات کا مقابلہ کیا جب سالوں بعد ایک دوسرے کے سامنے آئے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور سب ہی نے بزم احباب شکارپور کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اہل شکارپور کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقعہ فراہم کیا۔
راقم نے بھی اپنی تقریر میں تجویز دی کہ بزم احباب کے فورم سے ایک دوسرے کے غم و دکھ کی اطلاع دی جانی چاہیے کیونکہ کراچی کی مصروف زندگی میں تو پڑوسی کو پڑوسی کا حال بھی کم ہی ملتا ہے جب کہ شکارپور میں گزاری زندگی میں ایک دوسرے سے دنوں میں ملاقات ہوجاتی تھی جو کراچی میں سالوں میں بھی ممکن نہیں ہوتی۔
بزم احباب کے بانیوں میں اشفاق انور انصاری شاعر بھی ہیں جن کی شکارپور سے متعلق لکھی ہوئی نظمیں مختلف افراد کے ذریعے سنوائی گئیں تو سب ہی کو شکارپور کے اپنے اپنے علاقے، تعلیمی ادارے خاص طور پر اسلامیہ ہائی اسکول، اپنے اساتذہ اور بچپن کے دوست اور خاص کر کم آمدنی میں گزرا شکار پور کا پرسکون دور یاد آگیا جہاں سب کا تعلق ایک خاندان جیسا تھا اور سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں ایسے شریک ہوتے تھے جیسے ایک ہی گھر کے فرد ہوں۔ تقریب نے اپنا شہر ہی نہیں شکارپور کی یادیں بھی یاد دلا دیں اور آیندہ بھی ملنے کا عہد کیا گیا۔