بچے مساجد سے د ُور کیوں۔۔۔
ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالاں کہ ان ہی بچوں نے تو کل جوان ہوکر پختہ نمازی بننا تھا۔
چھوٹا بچہ جب گھر میں اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ویسا کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ وہ بغیر کہے مصلے کے ساتھ آکھڑا ہوجاتا ہے۔
رکوع سجود کی نقل اتارتا ہے بالکل سنجیدگی کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے جیسا وہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پھر وہ اپنے ابُو کو مسجد میں جاتے دیکھتا ہے، وہ بھی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں اور بغیر کہے وہ پیچھے پیچھے مسجد چلا جاتا ہے۔
کبھی گھر سے کوئی نہ بھی جائے تو وہ خود مسجد پہنچ جاتا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہاں آکر لوگ کیا کرتے ہیں، یہاں لوگ جمع کیوں ہوتے ہیں۔ وہ مسجد آتا ہے لیکن اسے مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا، وہ یہاں بھی گھر کی طرح دوڑتا، بھاگتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، کبھی اس صف میں جاتا ہے کبھی دوسری صف میں، کبھی وضو خانے کی طرف آکر دوسروں کی طرح منہ ہاتھ دھوتا ہے۔
وہ بھی ٹونٹی کھولتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتا ہے کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہتا ہے، کیوں کہ اسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہے، اسے اچھا لگتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بڑے بڑے کام کرنا چاہتا ہے اور وہ ان تمام کاموں میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے، دل سے کرتا ہے، اپنی طرف سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں خوشی محسوس کرتا ہے لیکن کوئی بابا جی اسے وضو خانے پر آکر جھڑکتے ہیں، اوئے ادھر کیا کررہے ہو، اتنی زیادہ ٹونٹی کیوں کھولی ہے۔
اتنی دیر سے پانی ضایع کررہے ہو، چلو اٹھو، وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ بعض مسجد کے بزرگ تو بچوں کو دیکھتے ہی ان کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور جب تک وہ مسجد سے نکل نہیں جاتے یا ان کی مرضی کے مطابق ٹک کر نہیں بیٹھتے انھیں چین نہیں آتا، کچھ نمازی تو ایسے ہیں کہ بچہ دیکھ کر غصے میں آجاتے ہیں۔
صف میں بیٹھا دیکھا تو قمیص سے پکڑ کر پیچھے کردیا، کسی بچے کو باتیں کرتے دیکھا تو ایک تھپڑ لگادیا، بدتمیز یہ مسجد ہے چپ کرو۔ وہ نماز پڑھتے ہوئے ہِل رہا تھا تو نماز کے دوران یا بعد میں سرعام تذلیل کردی جاتی ہے۔ جہاں دو تین بچے باتیں کرتے یا ہنستے دیکھے فوراً انھیں مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے، کیوں کہ مسجد کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ وہ قرآن پکڑتے ہیں تو چھین لیا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ہے قرآن پھاڑ دے گا، کوئی بچہ صاف ستھرا نہیں تو تب بھی دھکے دے کر مسجد کے دروازے پر کردیا جاتا ہے۔
دوران تراویح بچے لمبی نماز سے تھک کر بیٹھے یا ساری تراویح پڑھنے کے بہ جائے کوئی پڑھ لی کوئی چھوڑ دی تو اس پر کوئی صاحب انھیں گھوریں گے، منہ بنائیں گے، باتیں سنائیں گے، کوئی بازو سے پکڑ کر جھپٹ کر اسے زبردستی نماز میں کھڑا کریں گے یا کہیں گے نہیں نماز پڑھنی تو مسجد سے دفع ہوجاؤ، اے سی والے ہال سے نکال کر گرم صحن میں بھیج دیا جاتا ہے یہی صورت حال خواتین کے ہال میں بچوں کے ساتھ ہوتی ہے ان سب درشت رویوں، گرم لہجوں، سخت غصے والے مزاجوں اور بچوں کی بے عزتی کرنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
انھیں گھورنے، مارنے، دوڑانے اور گھسیٹنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالاں کہ ان ہی بچوں نے تو کل جوان ہوکر پختہ نمازی بننا تھا لیکن افسوس ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا جائیں۔ دوسرا سبب مساجد کے قاری صاحبان ہیں جن کے پاس بچے سپارہ، قاعدہ پڑھنے آتے ہیں اب یہاں بھی نظم و ضبط کا ''عظیم مسئلہ'' سامنے آیا کسی بچے کی نماز پڑھنے میں غلطی نکلی نہیں اور ڈنڈا، مکا، چپت اس کے جسم پر لگی نہیں، خوف اور جبر کا ماحول ہر غلطی پر سزا، ہر بار سبق یاد نہ ہونے پر بے عزتی اور مار کٹائی یا کم از کم سرعام ''انعام'' مجھے کتنے لوگ ایسے ملے کہ جنھوں نے کہا کہ میری بچپن میں خواہش تھی کہ میں عالم دین بنوں، حافظ قرآن بنوں، دین سیکھوں لیکن فلاں قاری صاحب کی وجہ سے میں ایسا متنفر ہوا کہ دوبارہ مسجد میں داخل نہیں ہوا، میں نے فلاں بچے کی خوف ناک پٹائی لگتی دیکھی تو میں وہاں سے بھاگ گیا، مجھے قاری صاحب کے رعب کی وجہ سے سبق یاد ہی نہیں ہوتا تھا یا یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا تھا۔ قاریوں اور نمازیوں کے ان رویوں نے ہماری مساجد کو بے رونق کر رکھا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں کیا ہوتا تھا ؟ مسجد نبویؐ میں کیا صورت حال تھی؟ بچے تو ہر دور میں شرارتی رہے، بھاگنے، دوڑنے، باتیں کرنے، اچھلنے، کودنے والے، ابھی انھیں کیا پتا کہ مسجد کے آداب کیا ہیں؟ مسجد میں آتے جاتے رہیں گے، نمازیوں کو دیکھتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ سب سیکھ جائیں گے کہ مسجد میں کس طرح رہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی بچے ایسے ہی کیا کرتے تھے کبھی اس صف میں دوڑ، کبھی اس صف میں، کبھی نبی ﷺ کے اوپر چڑھ گئے، کبھی سجدے میں آپؐ ہیں تو آپؐ کی پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگے، کبھی منبر پر چڑھ گئے۔
کبھی رونے لگے کبھی کچھ کبھی کچھ لیکن آپؐ کا رویہ کیا تھا ؟ سر سجدے میں ہے تمام صحابہ کرامؓ مقتدی بھی سر بہ سجود ہیں، سجدہ طویل ہوگیا طویل سے طویل تر صحابہؓ کے دل میں مختلف خیال آرہے ہیں کہ آج اللہ خیر کرے نبیؐ سر سجدے سے کیوں نہیں اٹھا رہے بہت دیر بعد سر اٹھایا سلام پھیرا صحابہؓ کو متفکر پایا تو فرمایا: بات دراصل یہ تھی کہ ایک بچہ میری پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگا تو میں نے اسے اتارنا مناسب نہیں سمجھا وہ خود ہی اترا تو پھر میں نے سر اٹھایا، کتنی عزت کتنا احترام مسجد میں نماز کے دوران بھی ایک بچے کے کھیل یا اس کی شرارتوں کا۔ بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز مختصر کردیا کرتے تھے لیکن یہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ لوگ یا عورتیں اپنے بچوں کو مساجد میں نہ لایا کریں اس سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہیں۔ کیا ہماری نمازوں کا خشوع و خضوع صحابہ کرامؓ کی نمازوں سے زیادہ ہے جو کسی بچے کی آواز پر فوراً خراب ہوجاتا ہے۔ بل کہ آپؐ تو لوگوں کو کہتے کہ عورتوں کو مساجد میں آنے سے نہ روکو، اب عورتیں آئیں گی تو ان کے ساتھ بچے بھی آئیں گے اور وہ ہنسیں گے بھی، روئیں گے بھی، تو کیا کیا جائے؟ برداشت کیا جائے۔
اپنے اندر صبر و تحمل پیدا کیا جائے یا جذباتی ہوکر خواتین اور بچوں کو مساجد سے نکال دیں اور صریح شرعی حکم کی خلاف ورزی کرکے اپنے اللہ کو ناراض کرلیں۔ لیکن ہم جوں جوں پہلی دوسری صف کے پختہ نمازی بننے جاتے ہیں ہمارا مزاج اتنا ہی سخت ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی تکبر آجاتا ہے، مزاج گرم ہوجاتا ہے یہ کیسی عبادت ہے؟ اس کا نتیجہ تو دل کی نرمی کی صورت میں نکلنا چاہیے تھا، اچھے اخلاق نرم گفت گو بچوں سے محبت کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم بچوں کو مساجد میں آنے کی ترغیب دیں، کوئی بچہ مسجد آئے اس کا استقبال کریں۔
اسے گلے لگائیں، اسے بوسہ دیں اسے اتنی محبت، اتنا پیار، اتنی عزت و احترام دیں کہ اسے لگے کہ دنیا میں اس سے بہترین جگہ کوئی نہیں، ایسے اعلیٰ لوگ کہیں نہیں، اس کی شرارتوں، غلطیوں، باتوں، اچھلنے کودنے کو برداشت کریں اور کبھی سمجھائیں تو علیحدگی میں نرمی اور شفقت سے، اس طرح کہ اس کی عزت نفس محفوظ رہے، غصے کے بہ جائے مسکرائیں اور انھیں دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کریں کہ ہم سب بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ بچے شیطان نہیں ہوتے بل کہ اللہ کی نشانیوں میں ایک نشانی ہیں، معصوم ہوتے ہیں گناہوں سے پاک لیکن ناتجربہ کار ہوتے ہیں، وہ ہمیں دیکھ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ ان مساجد سے جُڑیں گے تو کل زندگی میں کسی بھی شعبے میں جائیں گے تو مساجد کو اعلیٰ مقام دیں گے۔ مساجد کے اماموں، قاریوں کو عزت دیں گے علمائے کرام کا احترام کریں گے بل کہ خود بھی عالم بنیں گے، وہ دنیا کے دیگر اداروں کے بہ جائے مساجد کو بنیادی مقام دیں گے۔ آئیں مساجد اور اپنے دلوں کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیجیے یہی ہماری ذمے داری ہے۔
اکثر بچوں کو تو کئی سال بعد یا بڑا ہونے پر علم ہوتا ہے کہ انھوں نے کیا غلطی کی تھی جس کی وجہ سے انھیں مسجد میں بے عزت کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت بچوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو وہ بے خبر ہوتے ہیں کہ انھوں نے کیا غلط کیا۔ نہ انھیں کوئی سمجھاتا ہے، ایک دو بار سمجھانا بھی کافی نہیں ہوتا بل کہ دس بار سمجھانا بھی نہیں، بس اپنے عمل اور ماحول سے سمجھائیں کہ وہ خود بہ خود اندازہ لگائیں کہ یہاں کا ماحول مختلف ہے اور مجھے یہاں کیسے آنا جانا ہے اور کیا کس طرح کرنا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تو بچوں کو درکنار کسی بڑے انسان کے مسجد میں پیشاب کرنے کو بھی برداشت کیا اور لوگوں کو اسے مارنے اور ڈانٹنے سے منع کیا پھر اسے بلا کر شفقت سے سمجھایا کہ مساجد نماز کی ادائی کے لیے ہوتی ہے ناکہ ایسے کاموں کے لیے۔ وہ اس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ کیا آج ہم کسی غیر مسلم کے لیے اپنی مساجد میں اتنا برداشت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ کم از کم مسلمان بچوں کے لیے تو پیدا کریں۔
میرے خیال میں تو بچے اگر مساجد میں پیشاب یا پاخانہ بھی کردیں تو اس پر ہنگامہ کھڑا نہ کریں اور نہ ہی ان کے والدین کو شکایت لگائیں کہ انھوں نے بچوں کو مسجد میں کیوں بھیجا۔ اسکول اپنے کاروبار کے لیے ڈھائی تین سال کے بچے کو برداشت کرتا ہے انھیں ہر صورت صاف ستھرا رکھتا ہے۔ پیمپرز کا بندوبست کرتا ہے یا کم از کم والدین کے تعاون سے اسے سر انجام دیتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ باوجود اس تمام تکالیف کے زیادہ سے زیادہ بچے اسکول میں آئیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسکول بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کلاسز میں جگہ نہیں لیکن مساجد کی صفائی ستھرائی کے لیے ہم خرچ کرتے ہیں ایک اور صفائی والے کا خرچہ برداشت کرلیں تو ہماری نئی نسلیں نمازی بن سکتی ہیں۔ جب سے ہماری مساجد میں قیمتی قالین بچھانے اور شیشے کی کھڑکیاں اور دروازوں کا رجحان پیدا ہوا ہے اس وقت سے مساجد کی انتظامیہ بچوں کے حوالے سے اور زیادہ حساس ہوگئی ہے انھیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ بچے قیمتی قالین خراب کردیں گے، شیشے والے دروازے ٹوٹ سکتے ہیں۔ ہم یہ سوچ لیں کہ بچے زیادہ قیمتی ہیں یا قالین؟ بچوں کی تربیت زیادہ ضروری ہے یا شیشوں والے دروازوں کی حفاظت؟
اگر ہم بچوں کو مساجد میں بے پناہ محبت دینے کا عزم کرلیں اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں تو یہ ہماری آئندہ نسل کو نمازی بنانے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زور ہم تعلیم کے حصول پر لگا رہے ہیں۔ مائیں اسکول کی طرح ہی بچوں کو اہتمام کے ساتھ بچوں کو تیار کرکے مسجد بھیجیں، نمازی حضرات جیب میں ٹافی، بسکٹ، چاکلیٹ، پانچ دس روپے لے کر آئیں کوئی بچہ مسجد میں نظر آئے اسے پیار سے پاس بٹھائیں، ٹافی یا پیسے دے کر محبت کا احساس دلائیں اور اس کی نماز میں کوتاہیوں پر نہایت پیارے الفاظ میں نشان دہی کریں کہ بیٹا یہ مسجد ہے، یہ اللہ کا گھر ہے، یہاں اونچا نہیں بولتے، یہاں شور نہیں کرتے، یہاں عبادت کی جاتی ہے یہاں ہم اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔
یہاں دوڑنا نہیں چاہیے، یہاں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، یہاں صاف ستھرے ہوکر آنا چاہیے، کل آپ صاف کپڑے پہن کر آنا، آپ کو پیسے بھی ملیں گے اور چاکلیٹ بھی۔ ان خوب صورت الفاظ سے ہم بچوں کا دل موہ سکتے ہیں، اگر مسجد سے بچوں کو محبت ملے گی تو وہ تادم آخریں مسجد سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ اگر آج ہماری مسجدوں میں دوران نماز پیچھے بچوں کی معصوم شرارتوں کی آوازیں نہ آرہی ہوں تو یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
رکوع سجود کی نقل اتارتا ہے بالکل سنجیدگی کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے جیسا وہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پھر وہ اپنے ابُو کو مسجد میں جاتے دیکھتا ہے، وہ بھی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں جاؤں اور بغیر کہے وہ پیچھے پیچھے مسجد چلا جاتا ہے۔
کبھی گھر سے کوئی نہ بھی جائے تو وہ خود مسجد پہنچ جاتا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہاں آکر لوگ کیا کرتے ہیں، یہاں لوگ جمع کیوں ہوتے ہیں۔ وہ مسجد آتا ہے لیکن اسے مسجد کے آداب کا علم نہیں ہوتا، وہ یہاں بھی گھر کی طرح دوڑتا، بھاگتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، کبھی اس صف میں جاتا ہے کبھی دوسری صف میں، کبھی وضو خانے کی طرف آکر دوسروں کی طرح منہ ہاتھ دھوتا ہے۔
وہ بھی ٹونٹی کھولتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ضرورت سے زیادہ ٹونٹی کھول بیٹھتا ہے کافی دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہتا ہے، کیوں کہ اسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہے، اسے اچھا لگتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بڑے بڑے کام کرنا چاہتا ہے اور وہ ان تمام کاموں میں بالکل سنجیدہ ہوتا ہے، دل سے کرتا ہے، اپنی طرف سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں خوشی محسوس کرتا ہے لیکن کوئی بابا جی اسے وضو خانے پر آکر جھڑکتے ہیں، اوئے ادھر کیا کررہے ہو، اتنی زیادہ ٹونٹی کیوں کھولی ہے۔
اتنی دیر سے پانی ضایع کررہے ہو، چلو اٹھو، وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ بعض مسجد کے بزرگ تو بچوں کو دیکھتے ہی ان کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور جب تک وہ مسجد سے نکل نہیں جاتے یا ان کی مرضی کے مطابق ٹک کر نہیں بیٹھتے انھیں چین نہیں آتا، کچھ نمازی تو ایسے ہیں کہ بچہ دیکھ کر غصے میں آجاتے ہیں۔
صف میں بیٹھا دیکھا تو قمیص سے پکڑ کر پیچھے کردیا، کسی بچے کو باتیں کرتے دیکھا تو ایک تھپڑ لگادیا، بدتمیز یہ مسجد ہے چپ کرو۔ وہ نماز پڑھتے ہوئے ہِل رہا تھا تو نماز کے دوران یا بعد میں سرعام تذلیل کردی جاتی ہے۔ جہاں دو تین بچے باتیں کرتے یا ہنستے دیکھے فوراً انھیں مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے، کیوں کہ مسجد کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ وہ قرآن پکڑتے ہیں تو چھین لیا جاتا ہے کہ چھوٹا بچہ ہے قرآن پھاڑ دے گا، کوئی بچہ صاف ستھرا نہیں تو تب بھی دھکے دے کر مسجد کے دروازے پر کردیا جاتا ہے۔
دوران تراویح بچے لمبی نماز سے تھک کر بیٹھے یا ساری تراویح پڑھنے کے بہ جائے کوئی پڑھ لی کوئی چھوڑ دی تو اس پر کوئی صاحب انھیں گھوریں گے، منہ بنائیں گے، باتیں سنائیں گے، کوئی بازو سے پکڑ کر جھپٹ کر اسے زبردستی نماز میں کھڑا کریں گے یا کہیں گے نہیں نماز پڑھنی تو مسجد سے دفع ہوجاؤ، اے سی والے ہال سے نکال کر گرم صحن میں بھیج دیا جاتا ہے یہی صورت حال خواتین کے ہال میں بچوں کے ساتھ ہوتی ہے ان سب درشت رویوں، گرم لہجوں، سخت غصے والے مزاجوں اور بچوں کی بے عزتی کرنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
انھیں گھورنے، مارنے، دوڑانے اور گھسیٹنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ہماری مساجد بچوں سے خالی رہتی ہیں حالاں کہ ان ہی بچوں نے تو کل جوان ہوکر پختہ نمازی بننا تھا لیکن افسوس ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا جائیں۔ دوسرا سبب مساجد کے قاری صاحبان ہیں جن کے پاس بچے سپارہ، قاعدہ پڑھنے آتے ہیں اب یہاں بھی نظم و ضبط کا ''عظیم مسئلہ'' سامنے آیا کسی بچے کی نماز پڑھنے میں غلطی نکلی نہیں اور ڈنڈا، مکا، چپت اس کے جسم پر لگی نہیں، خوف اور جبر کا ماحول ہر غلطی پر سزا، ہر بار سبق یاد نہ ہونے پر بے عزتی اور مار کٹائی یا کم از کم سرعام ''انعام'' مجھے کتنے لوگ ایسے ملے کہ جنھوں نے کہا کہ میری بچپن میں خواہش تھی کہ میں عالم دین بنوں، حافظ قرآن بنوں، دین سیکھوں لیکن فلاں قاری صاحب کی وجہ سے میں ایسا متنفر ہوا کہ دوبارہ مسجد میں داخل نہیں ہوا، میں نے فلاں بچے کی خوف ناک پٹائی لگتی دیکھی تو میں وہاں سے بھاگ گیا، مجھے قاری صاحب کے رعب کی وجہ سے سبق یاد ہی نہیں ہوتا تھا یا یاد کیا ہوا بھی بھول جاتا تھا۔ قاریوں اور نمازیوں کے ان رویوں نے ہماری مساجد کو بے رونق کر رکھا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں کیا ہوتا تھا ؟ مسجد نبویؐ میں کیا صورت حال تھی؟ بچے تو ہر دور میں شرارتی رہے، بھاگنے، دوڑنے، باتیں کرنے، اچھلنے، کودنے والے، ابھی انھیں کیا پتا کہ مسجد کے آداب کیا ہیں؟ مسجد میں آتے جاتے رہیں گے، نمازیوں کو دیکھتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ سب سیکھ جائیں گے کہ مسجد میں کس طرح رہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی بچے ایسے ہی کیا کرتے تھے کبھی اس صف میں دوڑ، کبھی اس صف میں، کبھی نبی ﷺ کے اوپر چڑھ گئے، کبھی سجدے میں آپؐ ہیں تو آپؐ کی پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگے، کبھی منبر پر چڑھ گئے۔
کبھی رونے لگے کبھی کچھ کبھی کچھ لیکن آپؐ کا رویہ کیا تھا ؟ سر سجدے میں ہے تمام صحابہ کرامؓ مقتدی بھی سر بہ سجود ہیں، سجدہ طویل ہوگیا طویل سے طویل تر صحابہؓ کے دل میں مختلف خیال آرہے ہیں کہ آج اللہ خیر کرے نبیؐ سر سجدے سے کیوں نہیں اٹھا رہے بہت دیر بعد سر اٹھایا سلام پھیرا صحابہؓ کو متفکر پایا تو فرمایا: بات دراصل یہ تھی کہ ایک بچہ میری پیٹھ پر چڑھ کر کھیلنے لگا تو میں نے اسے اتارنا مناسب نہیں سمجھا وہ خود ہی اترا تو پھر میں نے سر اٹھایا، کتنی عزت کتنا احترام مسجد میں نماز کے دوران بھی ایک بچے کے کھیل یا اس کی شرارتوں کا۔ بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز مختصر کردیا کرتے تھے لیکن یہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ لوگ یا عورتیں اپنے بچوں کو مساجد میں نہ لایا کریں اس سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہیں۔ کیا ہماری نمازوں کا خشوع و خضوع صحابہ کرامؓ کی نمازوں سے زیادہ ہے جو کسی بچے کی آواز پر فوراً خراب ہوجاتا ہے۔ بل کہ آپؐ تو لوگوں کو کہتے کہ عورتوں کو مساجد میں آنے سے نہ روکو، اب عورتیں آئیں گی تو ان کے ساتھ بچے بھی آئیں گے اور وہ ہنسیں گے بھی، روئیں گے بھی، تو کیا کیا جائے؟ برداشت کیا جائے۔
اپنے اندر صبر و تحمل پیدا کیا جائے یا جذباتی ہوکر خواتین اور بچوں کو مساجد سے نکال دیں اور صریح شرعی حکم کی خلاف ورزی کرکے اپنے اللہ کو ناراض کرلیں۔ لیکن ہم جوں جوں پہلی دوسری صف کے پختہ نمازی بننے جاتے ہیں ہمارا مزاج اتنا ہی سخت ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی تکبر آجاتا ہے، مزاج گرم ہوجاتا ہے یہ کیسی عبادت ہے؟ اس کا نتیجہ تو دل کی نرمی کی صورت میں نکلنا چاہیے تھا، اچھے اخلاق نرم گفت گو بچوں سے محبت کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم بچوں کو مساجد میں آنے کی ترغیب دیں، کوئی بچہ مسجد آئے اس کا استقبال کریں۔
اسے گلے لگائیں، اسے بوسہ دیں اسے اتنی محبت، اتنا پیار، اتنی عزت و احترام دیں کہ اسے لگے کہ دنیا میں اس سے بہترین جگہ کوئی نہیں، ایسے اعلیٰ لوگ کہیں نہیں، اس کی شرارتوں، غلطیوں، باتوں، اچھلنے کودنے کو برداشت کریں اور کبھی سمجھائیں تو علیحدگی میں نرمی اور شفقت سے، اس طرح کہ اس کی عزت نفس محفوظ رہے، غصے کے بہ جائے مسکرائیں اور انھیں دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کریں کہ ہم سب بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ بچے شیطان نہیں ہوتے بل کہ اللہ کی نشانیوں میں ایک نشانی ہیں، معصوم ہوتے ہیں گناہوں سے پاک لیکن ناتجربہ کار ہوتے ہیں، وہ ہمیں دیکھ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ ان مساجد سے جُڑیں گے تو کل زندگی میں کسی بھی شعبے میں جائیں گے تو مساجد کو اعلیٰ مقام دیں گے۔ مساجد کے اماموں، قاریوں کو عزت دیں گے علمائے کرام کا احترام کریں گے بل کہ خود بھی عالم بنیں گے، وہ دنیا کے دیگر اداروں کے بہ جائے مساجد کو بنیادی مقام دیں گے۔ آئیں مساجد اور اپنے دلوں کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیجیے یہی ہماری ذمے داری ہے۔
اکثر بچوں کو تو کئی سال بعد یا بڑا ہونے پر علم ہوتا ہے کہ انھوں نے کیا غلطی کی تھی جس کی وجہ سے انھیں مسجد میں بے عزت کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت بچوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو وہ بے خبر ہوتے ہیں کہ انھوں نے کیا غلط کیا۔ نہ انھیں کوئی سمجھاتا ہے، ایک دو بار سمجھانا بھی کافی نہیں ہوتا بل کہ دس بار سمجھانا بھی نہیں، بس اپنے عمل اور ماحول سے سمجھائیں کہ وہ خود بہ خود اندازہ لگائیں کہ یہاں کا ماحول مختلف ہے اور مجھے یہاں کیسے آنا جانا ہے اور کیا کس طرح کرنا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تو بچوں کو درکنار کسی بڑے انسان کے مسجد میں پیشاب کرنے کو بھی برداشت کیا اور لوگوں کو اسے مارنے اور ڈانٹنے سے منع کیا پھر اسے بلا کر شفقت سے سمجھایا کہ مساجد نماز کی ادائی کے لیے ہوتی ہے ناکہ ایسے کاموں کے لیے۔ وہ اس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ کیا آج ہم کسی غیر مسلم کے لیے اپنی مساجد میں اتنا برداشت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ کم از کم مسلمان بچوں کے لیے تو پیدا کریں۔
میرے خیال میں تو بچے اگر مساجد میں پیشاب یا پاخانہ بھی کردیں تو اس پر ہنگامہ کھڑا نہ کریں اور نہ ہی ان کے والدین کو شکایت لگائیں کہ انھوں نے بچوں کو مسجد میں کیوں بھیجا۔ اسکول اپنے کاروبار کے لیے ڈھائی تین سال کے بچے کو برداشت کرتا ہے انھیں ہر صورت صاف ستھرا رکھتا ہے۔ پیمپرز کا بندوبست کرتا ہے یا کم از کم والدین کے تعاون سے اسے سر انجام دیتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ باوجود اس تمام تکالیف کے زیادہ سے زیادہ بچے اسکول میں آئیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسکول بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کلاسز میں جگہ نہیں لیکن مساجد کی صفائی ستھرائی کے لیے ہم خرچ کرتے ہیں ایک اور صفائی والے کا خرچہ برداشت کرلیں تو ہماری نئی نسلیں نمازی بن سکتی ہیں۔ جب سے ہماری مساجد میں قیمتی قالین بچھانے اور شیشے کی کھڑکیاں اور دروازوں کا رجحان پیدا ہوا ہے اس وقت سے مساجد کی انتظامیہ بچوں کے حوالے سے اور زیادہ حساس ہوگئی ہے انھیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ بچے قیمتی قالین خراب کردیں گے، شیشے والے دروازے ٹوٹ سکتے ہیں۔ ہم یہ سوچ لیں کہ بچے زیادہ قیمتی ہیں یا قالین؟ بچوں کی تربیت زیادہ ضروری ہے یا شیشوں والے دروازوں کی حفاظت؟
اگر ہم بچوں کو مساجد میں بے پناہ محبت دینے کا عزم کرلیں اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں تو یہ ہماری آئندہ نسل کو نمازی بنانے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زور ہم تعلیم کے حصول پر لگا رہے ہیں۔ مائیں اسکول کی طرح ہی بچوں کو اہتمام کے ساتھ بچوں کو تیار کرکے مسجد بھیجیں، نمازی حضرات جیب میں ٹافی، بسکٹ، چاکلیٹ، پانچ دس روپے لے کر آئیں کوئی بچہ مسجد میں نظر آئے اسے پیار سے پاس بٹھائیں، ٹافی یا پیسے دے کر محبت کا احساس دلائیں اور اس کی نماز میں کوتاہیوں پر نہایت پیارے الفاظ میں نشان دہی کریں کہ بیٹا یہ مسجد ہے، یہ اللہ کا گھر ہے، یہاں اونچا نہیں بولتے، یہاں شور نہیں کرتے، یہاں عبادت کی جاتی ہے یہاں ہم اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔
یہاں دوڑنا نہیں چاہیے، یہاں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، یہاں صاف ستھرے ہوکر آنا چاہیے، کل آپ صاف کپڑے پہن کر آنا، آپ کو پیسے بھی ملیں گے اور چاکلیٹ بھی۔ ان خوب صورت الفاظ سے ہم بچوں کا دل موہ سکتے ہیں، اگر مسجد سے بچوں کو محبت ملے گی تو وہ تادم آخریں مسجد سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ اگر آج ہماری مسجدوں میں دوران نماز پیچھے بچوں کی معصوم شرارتوں کی آوازیں نہ آرہی ہوں تو یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔