افسران کو جیل میں ڈالنا شروع کر دیں تو سب ٹھیک ہو جائیگا سپریم کورٹ
سندھ میں سول سروسز کا حال ملک بھرمیں سب سے زیادہ خراب ہے،عدالتی حکم کے برخلاف ڈیپوٹیشن پر تعیناتیاں کی گئیں، عدالت
سپریم کورٹ پاکستان نے چیف سیکریٹری سندھ کوصوبے میں ڈیپوٹیشن پرتعینات 136افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے منگل کورپورٹ طلب کرلی ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران کو ان کے محکموں میں واپسی کے حکم پر عمل نہ ہوا تو چیف سیکریٹری سمیت دیگرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، چیف سیکریٹری، سیکریٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراف کیاکہ زیر بحث136 افسران میں چندکے علاوہ کی ان محکموں میں کوئی ضرورت نہیں جہاں انھیں تعینات کیاگیا ہے اور ان کی تعیناتی کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے ۔
چیف سیکریٹری نے مزید اعتراف کیا کہ بعض کیسز میں غلطی ہوگئی ہے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل بینچ نے پیر کوکراچی رجسٹری میں خلاف ضابطہ ترقیوں اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، عدالت نے اپنے ریمارکس میںکہا ہے کہ سندھ میں سول سروسز کا حال پورے ملک سے زیادہ خراب ہے، اگر افسران کو جیلوں میں ڈالنا شروع کردیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا، عدالت کسی کو سول سروس کا ڈھانچہ تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی ۔
ان افسران کے تبادلے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کی روح کے مطابق عمل کیا جائے،عدالت نے ہدایت کی کہ خصوصی مہارت کی بنیاد پر روکے گئے دیگر محکمو ں کے46افسران کابھی جواز پیش کیا جائے، سیکریٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر421ڈیپوٹیشن افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے جبکہ5ستمبر2012کو سندھ سول سروس (ترمیمی) آرڈننس جاری ہو ا ہے جس سے136ڈیپوٹیشن افسران کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے، ان افسران کی واپسی کے حوالے سے سمری نگراں وزیر اعلیٰ کو بھیج دی گئی ہے ۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت کو ان کمیٹیوں اور سمریوں سے کوئی غرض نہیں،کوئی بھی کمیٹی قانون کے برخلاف کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ، ، سیکریٹری سروسز نصیر جمالی نے موقف اختیار کیا کہ یہ تقرریاں سابق سیکریٹری نے کی تھی، عدالت نے آبزروکیا کہ یہ کسی فرد کا معاملہ نہیں عہدے کی ذمے داری ہے اور یہاں آپ ہی جواب دہ ہیں، عدالت کے استفسار پر چیف سیکریٹری نے اعتراف کیا کہ صوبہ سندھ میں ایک بھی ترقی سندھ سول سرونٹس کی شق8-Bکے تحت نہیں ہوئی ، ترقیاں وزیر اعلی سندھ نے کیں ، اس میں ہماری مرضی شامل نہیں تھی ، جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ وزیراعلی کو ہر بات کا علم نہیں ہوتا ۔
چیف سیکریٹری کی حیثیت سے آپ نے کیا موقف اختیار کیا اور وزیراعلی کو کیا بریفنگ دی ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود تھے مگر انہیں نظرانداز کرتے ہوئے ایکٹ بنایا گیا، عدالتی احکامات کا جائزہ لینے کے بجائے مزید تباہی پھیر دی گئی ہے، عدالت وزیراعلی کے اختیارات اور قوانین سے آگاہ ہے ، تاہم اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا جاسکتا،عدالت نے استفسار کیاکہ افسران کو ڈیپوٹیشن پر ایسے محکموں میں ہی کیوں لایا جاتا ہے۔
جہاں پیسے کی ریل پیل ہو، سوشل ویلفیئر کے افسر کو ایم ڈی اے میںتعینات کردیاگیا ہے، اسکول ٹیچر کو اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ میں ، آبپاشی کے فٹرکو پولیس میں انسپکٹر بنادیا، سیہون ڈیولپمنٹ کے افسر کو کہیں اور تعینات کردیا گیا،ایسے افسر کو پولیس میں گریڈ18دے دیا گیا جس نے ڈویژن کی سطح پربھی کام نہیں کیا،عدالت کے استفسارپر سیکریٹری سروسز نے بتایا کہ ایس پی خیرپور عل اصغر شاہ کو وزیر اعلیٰ نے ترقی دی، عدالت نے آبزرویشن دی کہ رخسار احمداور علی اصغر شاہ کی کیا خوبی ہے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں ڈیوٹی کی ہے، ان کی پرسنل فائل عدالت میں پیش کی جائے، جسٹس امیرہانی مسلم نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی ریاست کا ستون ہے ، آپ ہی ایسے ،عدالت نے 136افسران کو فوری طور پر ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کاحکم دیتے ہوئے منگل کو سرپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی،تاہم بینچ نے حکومت کو اجازت دی کہ اگروہ چند افسران کو روکنا چاہتی ہے تو انھیں روک سکتی ہے لیکن اس کی وجہ بتانا
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران کو ان کے محکموں میں واپسی کے حکم پر عمل نہ ہوا تو چیف سیکریٹری سمیت دیگرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، چیف سیکریٹری، سیکریٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراف کیاکہ زیر بحث136 افسران میں چندکے علاوہ کی ان محکموں میں کوئی ضرورت نہیں جہاں انھیں تعینات کیاگیا ہے اور ان کی تعیناتی کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے ۔
چیف سیکریٹری نے مزید اعتراف کیا کہ بعض کیسز میں غلطی ہوگئی ہے ،جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل بینچ نے پیر کوکراچی رجسٹری میں خلاف ضابطہ ترقیوں اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، عدالت نے اپنے ریمارکس میںکہا ہے کہ سندھ میں سول سروسز کا حال پورے ملک سے زیادہ خراب ہے، اگر افسران کو جیلوں میں ڈالنا شروع کردیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا، عدالت کسی کو سول سروس کا ڈھانچہ تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی ۔
ان افسران کے تبادلے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کی روح کے مطابق عمل کیا جائے،عدالت نے ہدایت کی کہ خصوصی مہارت کی بنیاد پر روکے گئے دیگر محکمو ں کے46افسران کابھی جواز پیش کیا جائے، سیکریٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر421ڈیپوٹیشن افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے جبکہ5ستمبر2012کو سندھ سول سروس (ترمیمی) آرڈننس جاری ہو ا ہے جس سے136ڈیپوٹیشن افسران کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے، ان افسران کی واپسی کے حوالے سے سمری نگراں وزیر اعلیٰ کو بھیج دی گئی ہے ۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت کو ان کمیٹیوں اور سمریوں سے کوئی غرض نہیں،کوئی بھی کمیٹی قانون کے برخلاف کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ، ، سیکریٹری سروسز نصیر جمالی نے موقف اختیار کیا کہ یہ تقرریاں سابق سیکریٹری نے کی تھی، عدالت نے آبزروکیا کہ یہ کسی فرد کا معاملہ نہیں عہدے کی ذمے داری ہے اور یہاں آپ ہی جواب دہ ہیں، عدالت کے استفسار پر چیف سیکریٹری نے اعتراف کیا کہ صوبہ سندھ میں ایک بھی ترقی سندھ سول سرونٹس کی شق8-Bکے تحت نہیں ہوئی ، ترقیاں وزیر اعلی سندھ نے کیں ، اس میں ہماری مرضی شامل نہیں تھی ، جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ وزیراعلی کو ہر بات کا علم نہیں ہوتا ۔
چیف سیکریٹری کی حیثیت سے آپ نے کیا موقف اختیار کیا اور وزیراعلی کو کیا بریفنگ دی ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود تھے مگر انہیں نظرانداز کرتے ہوئے ایکٹ بنایا گیا، عدالتی احکامات کا جائزہ لینے کے بجائے مزید تباہی پھیر دی گئی ہے، عدالت وزیراعلی کے اختیارات اور قوانین سے آگاہ ہے ، تاہم اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا جاسکتا،عدالت نے استفسار کیاکہ افسران کو ڈیپوٹیشن پر ایسے محکموں میں ہی کیوں لایا جاتا ہے۔
جہاں پیسے کی ریل پیل ہو، سوشل ویلفیئر کے افسر کو ایم ڈی اے میںتعینات کردیاگیا ہے، اسکول ٹیچر کو اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ میں ، آبپاشی کے فٹرکو پولیس میں انسپکٹر بنادیا، سیہون ڈیولپمنٹ کے افسر کو کہیں اور تعینات کردیا گیا،ایسے افسر کو پولیس میں گریڈ18دے دیا گیا جس نے ڈویژن کی سطح پربھی کام نہیں کیا،عدالت کے استفسارپر سیکریٹری سروسز نے بتایا کہ ایس پی خیرپور عل اصغر شاہ کو وزیر اعلیٰ نے ترقی دی، عدالت نے آبزرویشن دی کہ رخسار احمداور علی اصغر شاہ کی کیا خوبی ہے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں ڈیوٹی کی ہے، ان کی پرسنل فائل عدالت میں پیش کی جائے، جسٹس امیرہانی مسلم نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی ریاست کا ستون ہے ، آپ ہی ایسے ،عدالت نے 136افسران کو فوری طور پر ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کاحکم دیتے ہوئے منگل کو سرپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی،تاہم بینچ نے حکومت کو اجازت دی کہ اگروہ چند افسران کو روکنا چاہتی ہے تو انھیں روک سکتی ہے لیکن اس کی وجہ بتانا