بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی
محمدعلی جناح بحیثت وکیل بھگت سنگھ کے مقدمے میں دو بار پیش بھی ہوئے جب کہ کرم چندر گاندھی خاموش رہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی راج گرو اور سکھ دیو نے برصغیر کی آزادی اورسوشلسٹ معاشی نظام کے لیے پھانسی کے پھندے کو شعوری طور پر چوما اورآزادی کے ایسے ہیرو بنے کہ آج برصغیر کے چی گویرا ہیں۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی لاہور جیل میں قید تھے اور برطانوی سامراج ان کی غیر موجودگی میں ان پر مقدمہ چلا رہا تھا۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی انھیں سیاسی قیدی کا درجہ دینے اور ان کی موجودگی میں مقدمہ چلانے کے لیے بھوک ہڑتال کر رہے تھے تو محمدعلی جناح نے برطانوی استعمارکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ بھگت سنگھ کی موجودگی میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ محمدعلی جناح بحیثت وکیل بھگت سنگھ کے مقدمے میں دو بار پیش بھی ہوئے جب کہ کرم چندر گاندھی خاموش رہے،اس لیے کہ انگریز سرکار سے کی جانے والی ساز باز بے نقاب نہ ہو جائے۔
1928ء میں 21 سال کی عمر میں بھگت سنگھ کو دہشتگردی کے الزام میں گرفتارکیا گیا اور 23 مارچ1931ء کو 24 سال کی عمر میں لاہور شادمان چوک پر پھانسی دے دی گئی۔ ان کی سزائے موت پر عمل کر نے کے لیے شادمان چوک پر ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں بھگت سنگھ کو پھانسی دینی تھی جس پر پورے ہندوستان کا کوئی بھی جج پھانسی کے وقت موجود ہونے پر رضا مند نہ ہوا۔ نواب محمد احمد خان کو قصور سے بلوا کر ان کی موجودگی میں پھانسی دی گئی۔
واضح رہے کہ جنگ آ زادی کے ایک اور ہیرو ہیموکلیانی جن کی پیدائش 23 مارچ1923ء اور تختہ دار پر 21 جنوری 1943ء میں لٹکایا گیا۔ ہیموکلیانی، بھگت سنگھ کی انقلابی جدوجہد سے متاثر تھے۔ یہ تو ایک اچھی بات ہے کہ ڈاکٹر فیڈل کاستروکو حکومت پاکستان نے خصوصی اعزاز سے نوازا ہے جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جب شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تو چند علما کے دباؤ میں آکر اس نوٹیفیکیشن کو واپس لے لیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ پنجاب کے ایک شہرکا نام ایک انگریز کے نام سے لائل پور رکھا گیا اور پھر اس کا نام بدل کر ایک بادشاہ کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا توکسی نے اعتراض نہیں کیا، لیکن جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے پر چند علماء کے اعتراض پر احکامات واپس لے لیے۔
پاکستان میں آج کل مصلحت پسندی اور نظراندازی کے تابع ہوکر مقدمات اور سزائیں ہو رہی ہیں جب کہ بڑے بڑے ملزموں اور عوام دشمن اقدام کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمات کو التوا میں ڈالا جا رہا ہے۔ منوبھیل کا قصور یہ تھا کہ نجی جیل سے بھاگنے کے بعد دیگر قیدیوں کو بھی آزادی دلوائی ۔اس جرم کے باعث زمیندار نے اس کے بچوں اور بیوی سمیت نو افراد کو اغوا کرلیا اور وہ نو برس سے در بدر پھر رہا ہے۔ وہ پولیس کے تشدد کا سامنا بھی کرتا آرہا ہے، لیکن سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لیے جانے کے باوجود انصاف کا منتظر ہے۔
16جون 1996ء کو ایئرمارشل(ر) اصغر خان نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو ایک خط لکھا جس میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور بینکار یونس حبیب پر 1990ء کے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے 140ملین روپے کے عوامی فنڈکو سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔اس خط کی بنیاد پر 24 نومبر1996ء کو سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کی۔
12اکتوبرکو مشرف کے مارشل لا ء کے بعد 13سال تک اس کیس کی سماعت التوا کا شکار رہی۔ 29 فروری 2012ء کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اصغرخان کی درخواست پر باقاعدہ سماعت کا دوبارہ آغازکیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا۔ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی (ر) نے اپنے بیان حلفی میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے آرمی چیف کے حکم پر سن نوے کے عام انتخابات میں سیاستدانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ رو پے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
پرویز مشرف کو 3 نومبر2007 ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین توڑنے کا مرتکب قرار دیتے ہو ئے سات دن میں عدالت میں پیش ہونے اور اپنے دفاع کا حکم دیا تاہم انھوں نے خود پر عائد کیے گئے، الزامات کا جواب دینے سے انکارکردیا اور پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ چلے گئے۔
31 مارچ 2014ء کوخصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا، جس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہے لیکن پرویز مشرف جیسا آمر تمام مقدمات کے باوجود آزادی سے گھومتا رہا۔ ڈاکٹر شازیہ کیس پاکستانی فوج اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان ہونے والے تنازعے کا بھی مرکز رہا جس میں کئی افراد جاں بحق بھی ہوئے، یہ کیس ابھی تک حل طلب ہے۔
26 اگست2015ء کو رینجرز نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اورسابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کوکلفٹن میں واقع ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا۔ دہشتگردوں کی مالی معاونت میں ڈاکٹرعاصم کے ملوث ہونے کی اطلاعات پر انھیں نوے دن کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ ڈاکٹر عاصم کو احتساب عدالت نے 9 فروری 2015ء کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
16دن بعد ہی نیب نے ڈاکٹرعاصم پر 460 ارب روپے کی مبینہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیا الدین اسپتال کی توسیع کے لیے دھوکا دہی سے پلاٹ لینے، ریاست کی زمین پر قبضہ کرنے، منی لانڈرنگ اورگیس کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے اور فرٹیلائزرکارٹیل کے ذریعے کمیشن حاصل کرنے کے خلاف ریفرنس دائرکیا گیا۔ 6 مئی 2016ء کو احتساب عدالت نے ڈاکٹر عاصم اور دیگر کو 460 ارب رو پے کرپشن کیس میں ملزم قرار دیا۔ دیگر بہت سے کیسوں کی طرح یہ کیس بھی اپنے فیصلے کا منتظر ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے سا تھیوں کو پھانسی دینے کے فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ نے اسے غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ اسی طرح شکاگو میں 1886، یوم مئی کے 6 انارکسٹوں کو پھا نسی دینے کے چند برس بعد شکاگوکے مئیر نے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہو ئے کہا تھا کہ پھانسی پانے والے بے قصور تھے۔ یہ ظلم وجبر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں شروع کیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ چینی سامراج کے بطن سے neo communist party یعنی زیر تکمیل کمیونسٹ پارٹی جنم لے رہی ہے۔ یہ خبر برطانیہ کے گارڈین اخبار میں چھپ چکی ہے۔اب وہ دن دور نہیں جب برصغیر اور چین میں کمیونزم کی تعمیر ہوگی اور عوام خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے۔یہ انقلابی عمل مہاراشٹر، فرانس اور اسپین میں شروع ہو چکا ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی انھیں سیاسی قیدی کا درجہ دینے اور ان کی موجودگی میں مقدمہ چلانے کے لیے بھوک ہڑتال کر رہے تھے تو محمدعلی جناح نے برطانوی استعمارکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ بھگت سنگھ کی موجودگی میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ محمدعلی جناح بحیثت وکیل بھگت سنگھ کے مقدمے میں دو بار پیش بھی ہوئے جب کہ کرم چندر گاندھی خاموش رہے،اس لیے کہ انگریز سرکار سے کی جانے والی ساز باز بے نقاب نہ ہو جائے۔
1928ء میں 21 سال کی عمر میں بھگت سنگھ کو دہشتگردی کے الزام میں گرفتارکیا گیا اور 23 مارچ1931ء کو 24 سال کی عمر میں لاہور شادمان چوک پر پھانسی دے دی گئی۔ ان کی سزائے موت پر عمل کر نے کے لیے شادمان چوک پر ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں بھگت سنگھ کو پھانسی دینی تھی جس پر پورے ہندوستان کا کوئی بھی جج پھانسی کے وقت موجود ہونے پر رضا مند نہ ہوا۔ نواب محمد احمد خان کو قصور سے بلوا کر ان کی موجودگی میں پھانسی دی گئی۔
واضح رہے کہ جنگ آ زادی کے ایک اور ہیرو ہیموکلیانی جن کی پیدائش 23 مارچ1923ء اور تختہ دار پر 21 جنوری 1943ء میں لٹکایا گیا۔ ہیموکلیانی، بھگت سنگھ کی انقلابی جدوجہد سے متاثر تھے۔ یہ تو ایک اچھی بات ہے کہ ڈاکٹر فیڈل کاستروکو حکومت پاکستان نے خصوصی اعزاز سے نوازا ہے جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جب شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تو چند علما کے دباؤ میں آکر اس نوٹیفیکیشن کو واپس لے لیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ پنجاب کے ایک شہرکا نام ایک انگریز کے نام سے لائل پور رکھا گیا اور پھر اس کا نام بدل کر ایک بادشاہ کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا توکسی نے اعتراض نہیں کیا، لیکن جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے پر چند علماء کے اعتراض پر احکامات واپس لے لیے۔
پاکستان میں آج کل مصلحت پسندی اور نظراندازی کے تابع ہوکر مقدمات اور سزائیں ہو رہی ہیں جب کہ بڑے بڑے ملزموں اور عوام دشمن اقدام کرنے والوں کے خلاف چلنے والے مقدمات کو التوا میں ڈالا جا رہا ہے۔ منوبھیل کا قصور یہ تھا کہ نجی جیل سے بھاگنے کے بعد دیگر قیدیوں کو بھی آزادی دلوائی ۔اس جرم کے باعث زمیندار نے اس کے بچوں اور بیوی سمیت نو افراد کو اغوا کرلیا اور وہ نو برس سے در بدر پھر رہا ہے۔ وہ پولیس کے تشدد کا سامنا بھی کرتا آرہا ہے، لیکن سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لیے جانے کے باوجود انصاف کا منتظر ہے۔
16جون 1996ء کو ایئرمارشل(ر) اصغر خان نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو ایک خط لکھا جس میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور بینکار یونس حبیب پر 1990ء کے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے 140ملین روپے کے عوامی فنڈکو سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔اس خط کی بنیاد پر 24 نومبر1996ء کو سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کی۔
12اکتوبرکو مشرف کے مارشل لا ء کے بعد 13سال تک اس کیس کی سماعت التوا کا شکار رہی۔ 29 فروری 2012ء کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اصغرخان کی درخواست پر باقاعدہ سماعت کا دوبارہ آغازکیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا۔ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی (ر) نے اپنے بیان حلفی میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے آرمی چیف کے حکم پر سن نوے کے عام انتخابات میں سیاستدانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ رو پے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
پرویز مشرف کو 3 نومبر2007 ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین توڑنے کا مرتکب قرار دیتے ہو ئے سات دن میں عدالت میں پیش ہونے اور اپنے دفاع کا حکم دیا تاہم انھوں نے خود پر عائد کیے گئے، الزامات کا جواب دینے سے انکارکردیا اور پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ چلے گئے۔
31 مارچ 2014ء کوخصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا، جس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہے لیکن پرویز مشرف جیسا آمر تمام مقدمات کے باوجود آزادی سے گھومتا رہا۔ ڈاکٹر شازیہ کیس پاکستانی فوج اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان ہونے والے تنازعے کا بھی مرکز رہا جس میں کئی افراد جاں بحق بھی ہوئے، یہ کیس ابھی تک حل طلب ہے۔
26 اگست2015ء کو رینجرز نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اورسابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کوکلفٹن میں واقع ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا۔ دہشتگردوں کی مالی معاونت میں ڈاکٹرعاصم کے ملوث ہونے کی اطلاعات پر انھیں نوے دن کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ ڈاکٹر عاصم کو احتساب عدالت نے 9 فروری 2015ء کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
16دن بعد ہی نیب نے ڈاکٹرعاصم پر 460 ارب روپے کی مبینہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیا الدین اسپتال کی توسیع کے لیے دھوکا دہی سے پلاٹ لینے، ریاست کی زمین پر قبضہ کرنے، منی لانڈرنگ اورگیس کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے اور فرٹیلائزرکارٹیل کے ذریعے کمیشن حاصل کرنے کے خلاف ریفرنس دائرکیا گیا۔ 6 مئی 2016ء کو احتساب عدالت نے ڈاکٹر عاصم اور دیگر کو 460 ارب رو پے کرپشن کیس میں ملزم قرار دیا۔ دیگر بہت سے کیسوں کی طرح یہ کیس بھی اپنے فیصلے کا منتظر ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے سا تھیوں کو پھانسی دینے کے فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ نے اسے غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ اسی طرح شکاگو میں 1886، یوم مئی کے 6 انارکسٹوں کو پھا نسی دینے کے چند برس بعد شکاگوکے مئیر نے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہو ئے کہا تھا کہ پھانسی پانے والے بے قصور تھے۔ یہ ظلم وجبر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں شروع کیا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ چینی سامراج کے بطن سے neo communist party یعنی زیر تکمیل کمیونسٹ پارٹی جنم لے رہی ہے۔ یہ خبر برطانیہ کے گارڈین اخبار میں چھپ چکی ہے۔اب وہ دن دور نہیں جب برصغیر اور چین میں کمیونزم کی تعمیر ہوگی اور عوام خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے۔یہ انقلابی عمل مہاراشٹر، فرانس اور اسپین میں شروع ہو چکا ہے۔