بوسیدہ نیم پلیٹ

کروڑوں روپے مالیت کا سول لائنز والا میر صاحب کا وہ پلاٹ اب بھی اسی حالت میں ہے۔

کئی سال پہلے پی آئی ڈی سی ہاؤس میں ایک دوست سے مل کر جوں ہی باہر نکلا، مہتاب بھائی سے ملاقات ہوگئی جو ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے لیے ہوئے قرض کی قسط جمع کرانے جا رہے تھے۔ اْن دنوں ایچ بی ایف سی کا دفتر سول لائنز میں واقع شیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ میں ہوا کرتا تھا اور وہاں قرض لینے کے خواہشمندوں اور قسطیں جمع کرانے والوں کی بھیڑ دیکھ کرکسی مچھلی بازار کا گمان ہوتا تھا۔

میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ بھیڑ میں دل گھبرانے لگتا ہے سو ایسی جگہوں پر جانے سے ہمیشہ گریزاں رہتا ہوں۔ ہم دونوں نے چونکہ واپس لالوکھیت جانا تھا اس لیے طے پایا کہ قسط جمع کرا کے ساتھ ہی جائیں گے۔

میں نے مہتاب بھائی سے کہا وہ جاکر قسط جمع کرا آئیں، میں باہر ان کا انتظارکرتا ہوں۔ اب کا تو پتہ نہیں کہ میرا پھر اس طرف کبھی جانا نہیں ہوا، البتہ اْس وقت بلڈنگ کے عین سامنے ایک وسیع وعریض پلاٹ پر چار دیواری کے اندر گھنا جنگل اگا ہوا تھا، جس کی شمالی دیوارکے ساتھ جانے والی سڑک کینٹ اسٹیشن جانے والے روڈ کے اس پار شیرٹن ہوٹل سے متصل چیف منسٹر س ہاؤس کے گیٹ تک جاتی تھی۔

میں اس دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا کہ اندر سے ایک موٹا سا بلا پلاٹ کا بند گیٹ پھلانگ کر باہر آیا، اس طرف دیکھا تو میری نظر بوسیدہ سی نام کی تختی (نیم پلیٹ) پر پڑی جس پر کٹے پھٹے الفاظ میں لکھا تھا ''میر بندہ علی خان تالپور۔'' گویا یہ پلاٹ ان کا تھا جو غالباً 40ء کے عشرے کے اوائل میں، جب وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے، خریدا گیا ہوگا۔

میر صاحب کا نام دیکھ کر میں ماضی کی یادوں میں کھوگیا اور اسکول کے زمانے کی پرانی باتیں تازہ ہونے لگیں۔ ٹنڈو غلام علی میں ان کے بنگلے کی عقبی دیوارکے ساتھ ڈھورائیوں کے پاڑے (محلہ) کی ایک ادھیڑ عمر خاتون ماسی بھاگ بھری اماں کی پکی سہیلی تھیں اور اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔

وہاں خالہ کو ماسی بلایا جاتا تھا، ایک دن جب میں اسکول سے آکر ہمارے ڈبل بیڈ سائزکے پینگھے ( جھولے) میں لیٹا ہچکولے کھا رہا تھا، باورچی خانے سے اماں کی آواز سن کر اٹھا جو مجھے بلا رہی تھیں، وہاں پہنچا تو ماسی کو بیٹھا پایا، اماں مجھے دیکھ کر بولیں بیٹا تمہاری ماسی کو میر صاحب کے نام عرضی لکھ دو، یہ اتنی گرمی اور تپتی دھوپ میں خاص اس کام کے لیے چل کر آئی ہیں۔

میں واپس جا کر اپنے بستے سے کاپی اور پین نکال لایا اور ماسی کے پاس بیٹھ کر ان کی ڈکٹیٹ کرائی ہوئی عرضی لکھ دی۔ وہ میر صاحب کے آرام کا وقت تھا جو وہ اپنے ماموں کے ڈیرے (حویلی) میں گزارا کرتے تھے۔

ماسی عرضی لے کر وہاں پہنچیں اور میر صاحب کے بیدار ہونے پر ان کی خدمت میں پیش کردی۔ میں نے شاید کہیں اور بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہو، ماسی کا کام ہوا کہ نہیں اس کا تو پتہ نہیں البتہ شام کو بنگلے پر پہنچ کر انھوں نے اپنا نوکر بھیج کر ماسی سے پتہ کروایا کہ اس نے عرضی کس سے لکھوائی تھی، پھر وہی نوکر گھر آکر مجھے بلا لے گیا کہ میر صاحب نے یاد فرمایا ہے۔ وہ اس وقت بنگلے کی مغربی سمت باغ میں لگے چیکو کے پیڑ کے پاس بیٹھے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ میری لکھی ہوئی عرضی ان کے سامنے میز پر رکھی تھی، مجھے دیکھ کر پوچھا کولہی، یہ عرضی تم نے لکھی ہے؟


میں نے اثبات میں گردن ہلادی تو پھر دریافت فرمایا یہ جو تم نے میرے نام کے ساتھ ایم ایل اے لکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے عرض کیا یہ آپ کی ڈگری ہے۔ پوچھا تمہیں کیسے پتہ کہ یہ میری ڈگری ہے، میں نے جواباً سوال کیا کہ اگر ڈگری نہیں ہے تو آپ نے بنگلے کے حویلی کی طرف سے بیرونی گیٹ پر لگی نام کی تختی پرکیوں لکھوا رکھا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ میر صاحب نے نوکر کو جو مجھے بلا لایا تھا، حکم دیا کہ ابھی اور اسی وقت پہلے وہ تختی اتارو اور پھر جاکر اس کے (میرے) کلاس ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر دونوں کو بلا لاؤ۔

میں نے پوچھا یہ آپ ان کو کیوں بلوا رہے ہیں، ان کا کیا قصور ہے، میں وعدہ کرتا ہوں آیندہ کبھی آپ کے نام کے ساتھ ایم ایل اے نہیں لکھوں گا۔ لیکن ان پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا، ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ''بہت پہلے جب میں سندھ کی لیجسلیٹو (قانون ساز) اسمبلی کا میمبر ہوا کرتا تھا، یہ اس زمانے کی لگی ہوئی نیم پلیٹ ہے اور اس کا مطلب ہے میمبر لیجسلیٹو اسمبلی (ایم ایل اے)، یہ بی اے یا ایم اے وغیرہ کی طرح کوئی ڈگری نہیں ہے۔ ''

اتنے میں میر صاحب کا نوکر جاکر سائیں موج علی شاہ اور سائیں خان محمد سانگی دونوں کو بلا لایا جو بالترتیب اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور میرے کلاس ٹیچر تھے، اس نے نام کی تختی بھی وہیں میز پر رکھ دی جو وہ اتار لایا تھا۔ میر صاحب نے ان کی وہ خبر لی کہ بیچاروں کے پسینے چھوٹ گئے، فرمایا اسکول کے ناقص معیار تعلیم کا جان کر انھیں بہت افسوس ہوا ہے، تیسرے درجے (آج کل کی چھٹی کلاس) کے بچے کو یہی نہیں معلوم کہ ایم ایل اے کس بلا کا نام ہے اور وہ اسے کوئی ڈگری سمجھتا ہے۔

دونوں اساتذہ کرام نے بلاوجہ کی جھاڑ سننے کے بعد جب اجازت چاہی تو میر صاحب نے انھیں متنبہ کیا کہ اب وہ گاہے گاہے اسکول کے بچوں سے بات کرکے دیکھا کریں گے کہ اسکول کے معیار تعلیم میں کوئی بہتری آئی ہے یا نہیں، نہ آئی تو وہ ڈائریکٹر ایجوکیشن سے ان کی شکایت کریں گے۔

یہ کوئی 60 سال پہلے کی بات ہے جب میر صاحب کے بڑے صاحبزادے اور شہرکے موجودہ حاکم میر غلام علی خان تالپور ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ میں ان کے ایک معمولی ملازم کا بیٹا تھا لیکن اس واقعے سے اندازہ کیجیے کہ عام لوگوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے میر صاحب کی سوچ کتنی مثبت تھی اور اس کو وہ کتنی سنجیدگی سے لیتے تھے۔

یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کے یورپی طرز کے بنگلے کا خوبصورت باغ ہمارا بہترین تفریحی مقام ہوا کرتا تھا، میر صاحب موجود ہوں نہ ہوں ہمیں وہاں کھیلنے کودنے سے کوئی منع نہیں کرتا تھا، ابا کے ساتھ جانا ہوتا تو بنگلے کے دالان میں رکھے صوفے جیسے جھولے میں بھی بیٹھا کرتا، میر صاحب کے پاس سے گزرتا اور وہ موڈ میں ہوتے تو ہاتھ بڑھا کر بازو سے پکڑلیتے اور ابا سے کہتے اس کولہی کو کہاں سے پکڑ لائے ہو، میں چیختا میں کولہی نہیں ان کا بیٹا ہوں تو فرماتے شکل سے تو نہیں لگتے بلکہ پکے کولہی لگتے ہو۔

میر صاحب کا رعب و دبدبہ مشہور تھا، ان کے سامنے اچھے اچھوں کی سٹی گم ہو جاتی تھی اور وہ ان سے بات کرتے ہوئے ہکلانے لگتے تھے، لیکن میں نے بچپن میں انھیں نہایت شفیق و مہربان پایا، ان سے میری بے تکلفی کی وجہ بھی یہی تھی، جانتا جو نہیں تھا کہ وہ کتنے بڑے اور قابل احترام آدمی ہیں۔

کروڑوں روپے مالیت کا سول لائنز والا میر صاحب کا وہ پلاٹ اب بھی اسی حالت میں ہے یا اس پر بھی شیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ یا قریبی اسٹیٹ لائف بلڈنگ جیسی کوئی پرشکوہ ملٹی اسٹوری عمارت تعمیر ہوچکی ہے، مجھے نہیں پتہ کیونکہ مدت ہوئی میں اس طرف نہیں گیا۔

اگر وہ اب بھی اْسی حالت میں ہے اور انھی کی ملکیت میں ہے تو یقیناً گیٹ پر نام کی وہ بوسیدہ تختی بھی پہلے کی طرح آویزاں ہوگی جس پر تب بھی ایم ایل اے لکھا ہوا نہیں تھا، اگر وہ قیمتی پلاٹ میر صاحب کے ورثا کے علم میں ہے تو انھیں کم از کم اس کے گیٹ پر لگی وہ بوسیدہ نیم پلیٹ ضرور تبدیل کرا دینی چاہیے تاکہ میری طرح کوئی اور ماضی کی بھول بھلیوں میں نہ بھٹکتا پھرے۔
Load Next Story