غور کرو
ہر ملک میں مٹھی بھر لوگ ایسے ہیں جو 80 فیصد قومی دولت پر قابض ہیں۔
بہت ساری سامنے کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر غورکیا جانا چاہیے لیکن ایک تو انسان زندگی کے جھمیلوں میں اس قدر مصروف ہے یا اسے مصروف کردیا گیا ہے کہ وہ ان ''غیر ضروری'' امور پر غورکرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ دوسرے اس حوالے سے ایسے موضوع بھی سامنے آتے ہیں جن پر زبان ہلانا ایک سنگین جرم کہلاتا ہے۔
اس قسم کے حساس ترین موضوع پر گفتگو انسان، انسانی معاشروں اور انسان کی اجتماعی بھلائی اور بد ترین ماضی اور بد ترین حال کو ایک بہتر اور بہترین مستقبل کے حوالے سے ضروری بھی ہے اور اہم بھی ہے لیکن ہماری عقائدی اخلاقیات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس قسم کے حساس لیکن متنازعہ موضوع پر غوروفکر کریں یا گفتگو کریں۔
ہوسکتا ہے آج کی اخلاقیات کے حوالے سے ان حساس موضوعات پر گفتگو جرم ہو لیکن انسانی تاریخ میں اکثر ایسے زعما گزرے ہیں جو بڑے بڑے رسک لے کر حساس ترین موضوع پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور اس کی سزا بدترین مخالفت اور بدترین الزامات کی شکل میں پاتے رہے ہیں لیکن انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور انسان کے بہتر مستقبل کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے موضوعات پر محتاط طریقے ہی سے سہی اظہار خیال کیا جائے۔
میں عموماً ڈے ٹو ڈے مسائل پر کالم لکھتا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ موقع نکال کر ایسے موضوعات کو بھی زیر بحث لاؤں جو انسان کی اجتماعی بھلائی اور انسان کے بہتر مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔
آج اس حوالے سے مجھے گفتگو کرنے کا خیال یوں آیا کہ میری نواسی آئرہ جس کی عمر دس دن ہے ، اسے دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں وہ بھوک لگتی ہے تو روتی ہے کیونکہ ابھی اسے بولنا نہیں آتا، رونا بھوک کا سگنل ہے اور اتنی عمر کے بچوں کی مائیں اس رونے کا مطلب سمجھتی ہیں اور فوری دودھ دے کر اس کے رونے کا ازالہ کردیتی ہیں لیکن ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں لاکھوں ایسی مائیں ہیں بلکہ کروڑوں ایسی مائیں اور ایسے باپ ہیں جو شیر خوار بچوں کے لیے دودھ نہیں خرید سکتے ہیں جس کا نتیجہ کمزور وجود کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ایسے نوزائیدہ بچے ہمارے گھرانے ہمارے ملک ہی میں نہیں ہر ملک ہر گھرانے میں موجود ہوتے ہیں جنھیں دودھ میسر نہیں ہوتا ۔ دودھ میسر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کروڑوں بچوں کے دودھ پر ہر ملک کی اشرافیہ قابض ہے جن ملکوںمیں یہ اشرافیہ موجود ہے ان ملکوں کے کروڑوں بچے دودھ سے محروم ہیں اور سالانہ لاکھوں کے حساب سے غریب کے یہ بچے دودھ کے فقدان کی وجہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اشرافیہ ان لوٹ کے اربوں روپوں کا دفاع کرتی ہے جن سے ہزاروں بچوں کو دودھ میسر آسکتا ہے۔
آئرہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش میں اس کا دخل ہے نہ اس کی مرضی شامل ہے لیکن چونکہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ مسلمان ہے ایک آئرہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس پیدائش میں اس کا کوئی دخل ہے نہ مرضی شامل ہوتی ہے لیکن چونکہ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ ایک ہندو ہوگئی ہے، ایک آئرہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے وہ عیسائی بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کا دخل ہے نہ اس کی مرضی شامل ہے۔
ایک آئرہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوتی ہے وہ سکھ ہوجاتی ہے حالانکہ نہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ ایک آئرہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس لیے وہ یہودن بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ اس سے آگے چلیے ایک ہی مذہب کے درمیان تقسیم ملاحظہ کیجیے۔ ایک آئرہ کسی سنی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس کی پیدائش میں نہ اس کی مرضی شامل ہے نہ دخل ہے لیکن وہ سنی کہلائے گی۔
ایک آئرہ ایک امریکی گھرانے میںپیدا ہوتی ہے وہ امریکی بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ ایک آئرہ جب مذہب اور ملت کے حوالے سے بٹ جاتی ہے تو اپنے اندر تعصبات، امتیازات، نفرتیں اور عداوتیں بھر لیتی ہے ایسا کیوں ہے اس مسئلے پر غور کرنا کیا ضروری نہیں؟
دنیا کے ہر مذہب ہر ملک میں 80 فیصد انسان دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں، ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی، سکھ بھی ہیں، عیسائی بھی اور یہودی بھی۔ ہر ملک میں مٹھی بھر لوگ ایسے ہیں جو 80 فیصد قومی دولت پر قابض ہیں ان میں ہندو بھی ہیں سکھ بھی ہیں عیسائی بھی ہیں اور یہودی بھی۔ اس دو فیصد اشرافیہ کے درمیان نہ نفرت پائی جاتی ہے نہ یہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ ایسا کیوں جب کہ ان کا مذہب بھی الگ ہے قومیت بھی الگ۔ کیا اس سوال کا جواب حاصل کرنا انسانوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے ضروری نہیں؟
آئرہ 10 دن کی بچی ہے میں نے اس کے جسمانی اعضا اور میکنزم پر غور کیا۔ چہرے پر دو آنکھیں، ناک، منہ، منہ میں زبان، کان، ہاتھ، پیر، پیٹ ہر عضو اپنا کام انجام دے رہا ہے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی، پارسی ہو یا یہودی، پاکستانی ہو یا ہندوستانی، امریکی ہو یا روسی، چینی ہو یا جاپانی ہر شخص کے اعضا انتہائی اہم ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ کیا ان اہم ترین اور نازک ترین ذمے داریوں کو جو جسم کا ہر عضو صبح سے شام تک ادا کرتا ہے ہندو ذمے داری، مسلم ذمے داری، سکھ ذمے داری، عیسائی ذمے داری کہا جاسکتا ہے؟
آج کہا جا رہا ہے کہ دنیا مستقبل میں پانی کے خطرناک ترین بحران کا شکار ہونے والی ہے پاکستان میں بھی پانی کا بحران پیدا ہونے والا ہے کیا اس بحران سے صرف کوئی ایک مذہب کوئی ایک قومیت کے لوگ ہی متاثر ہوں گے یا ہر انسان متاثر ہوگا؟ کیا ہر انسان مل جل کر اس قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرے گا یا بٹ کر مذہب اور قومیت میں تقسیم ہوکر ان مشکلات کا مقابلہ کرے گا ؟
اس قسم کے حساس ترین موضوع پر گفتگو انسان، انسانی معاشروں اور انسان کی اجتماعی بھلائی اور بد ترین ماضی اور بد ترین حال کو ایک بہتر اور بہترین مستقبل کے حوالے سے ضروری بھی ہے اور اہم بھی ہے لیکن ہماری عقائدی اخلاقیات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس قسم کے حساس لیکن متنازعہ موضوع پر غوروفکر کریں یا گفتگو کریں۔
ہوسکتا ہے آج کی اخلاقیات کے حوالے سے ان حساس موضوعات پر گفتگو جرم ہو لیکن انسانی تاریخ میں اکثر ایسے زعما گزرے ہیں جو بڑے بڑے رسک لے کر حساس ترین موضوع پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور اس کی سزا بدترین مخالفت اور بدترین الزامات کی شکل میں پاتے رہے ہیں لیکن انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور انسان کے بہتر مستقبل کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے موضوعات پر محتاط طریقے ہی سے سہی اظہار خیال کیا جائے۔
میں عموماً ڈے ٹو ڈے مسائل پر کالم لکھتا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ موقع نکال کر ایسے موضوعات کو بھی زیر بحث لاؤں جو انسان کی اجتماعی بھلائی اور انسان کے بہتر مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔
آج اس حوالے سے مجھے گفتگو کرنے کا خیال یوں آیا کہ میری نواسی آئرہ جس کی عمر دس دن ہے ، اسے دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں وہ بھوک لگتی ہے تو روتی ہے کیونکہ ابھی اسے بولنا نہیں آتا، رونا بھوک کا سگنل ہے اور اتنی عمر کے بچوں کی مائیں اس رونے کا مطلب سمجھتی ہیں اور فوری دودھ دے کر اس کے رونے کا ازالہ کردیتی ہیں لیکن ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں لاکھوں ایسی مائیں ہیں بلکہ کروڑوں ایسی مائیں اور ایسے باپ ہیں جو شیر خوار بچوں کے لیے دودھ نہیں خرید سکتے ہیں جس کا نتیجہ کمزور وجود کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ایسے نوزائیدہ بچے ہمارے گھرانے ہمارے ملک ہی میں نہیں ہر ملک ہر گھرانے میں موجود ہوتے ہیں جنھیں دودھ میسر نہیں ہوتا ۔ دودھ میسر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کروڑوں بچوں کے دودھ پر ہر ملک کی اشرافیہ قابض ہے جن ملکوںمیں یہ اشرافیہ موجود ہے ان ملکوں کے کروڑوں بچے دودھ سے محروم ہیں اور سالانہ لاکھوں کے حساب سے غریب کے یہ بچے دودھ کے فقدان کی وجہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اشرافیہ ان لوٹ کے اربوں روپوں کا دفاع کرتی ہے جن سے ہزاروں بچوں کو دودھ میسر آسکتا ہے۔
آئرہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش میں اس کا دخل ہے نہ اس کی مرضی شامل ہے لیکن چونکہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ مسلمان ہے ایک آئرہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس پیدائش میں اس کا کوئی دخل ہے نہ مرضی شامل ہوتی ہے لیکن چونکہ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ ایک ہندو ہوگئی ہے، ایک آئرہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے وہ عیسائی بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کا دخل ہے نہ اس کی مرضی شامل ہے۔
ایک آئرہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوتی ہے وہ سکھ ہوجاتی ہے حالانکہ نہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ ایک آئرہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس لیے وہ یہودن بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ اس سے آگے چلیے ایک ہی مذہب کے درمیان تقسیم ملاحظہ کیجیے۔ ایک آئرہ کسی سنی گھرانے میں پیدا ہوتی ہے اس کی پیدائش میں نہ اس کی مرضی شامل ہے نہ دخل ہے لیکن وہ سنی کہلائے گی۔
ایک آئرہ ایک امریکی گھرانے میںپیدا ہوتی ہے وہ امریکی بن جاتی ہے حالانکہ اس کی پیدائش میں اس کی مرضی شامل ہے نہ اس کا دخل ہے۔ ایک آئرہ جب مذہب اور ملت کے حوالے سے بٹ جاتی ہے تو اپنے اندر تعصبات، امتیازات، نفرتیں اور عداوتیں بھر لیتی ہے ایسا کیوں ہے اس مسئلے پر غور کرنا کیا ضروری نہیں؟
دنیا کے ہر مذہب ہر ملک میں 80 فیصد انسان دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں، ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی، سکھ بھی ہیں، عیسائی بھی اور یہودی بھی۔ ہر ملک میں مٹھی بھر لوگ ایسے ہیں جو 80 فیصد قومی دولت پر قابض ہیں ان میں ہندو بھی ہیں سکھ بھی ہیں عیسائی بھی ہیں اور یہودی بھی۔ اس دو فیصد اشرافیہ کے درمیان نہ نفرت پائی جاتی ہے نہ یہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ ایسا کیوں جب کہ ان کا مذہب بھی الگ ہے قومیت بھی الگ۔ کیا اس سوال کا جواب حاصل کرنا انسانوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے ضروری نہیں؟
آئرہ 10 دن کی بچی ہے میں نے اس کے جسمانی اعضا اور میکنزم پر غور کیا۔ چہرے پر دو آنکھیں، ناک، منہ، منہ میں زبان، کان، ہاتھ، پیر، پیٹ ہر عضو اپنا کام انجام دے رہا ہے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی، پارسی ہو یا یہودی، پاکستانی ہو یا ہندوستانی، امریکی ہو یا روسی، چینی ہو یا جاپانی ہر شخص کے اعضا انتہائی اہم ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ کیا ان اہم ترین اور نازک ترین ذمے داریوں کو جو جسم کا ہر عضو صبح سے شام تک ادا کرتا ہے ہندو ذمے داری، مسلم ذمے داری، سکھ ذمے داری، عیسائی ذمے داری کہا جاسکتا ہے؟
آج کہا جا رہا ہے کہ دنیا مستقبل میں پانی کے خطرناک ترین بحران کا شکار ہونے والی ہے پاکستان میں بھی پانی کا بحران پیدا ہونے والا ہے کیا اس بحران سے صرف کوئی ایک مذہب کوئی ایک قومیت کے لوگ ہی متاثر ہوں گے یا ہر انسان متاثر ہوگا؟ کیا ہر انسان مل جل کر اس قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرے گا یا بٹ کر مذہب اور قومیت میں تقسیم ہوکر ان مشکلات کا مقابلہ کرے گا ؟