بھگت سنگھ سب کا ہیرو

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی دراصل ایس پی جیمس اسکوٹ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔

tauceeph@gmail.com

پنجاب کے فرزند بھگت سنگھ کو برٹش حکومت نے 30مارچ 1931ء کو لاہور میں پھانسی دی ، مگر 87 سال گزرنے کے باوجود وہ پاکستان اور بھارت کے انقلابیوں کے ہیرو ہیں ۔ بھگت سنگھ کو لاہور کے علاقے شادمان میں شام 7:00 بجے پھانسی دی گئی۔

سامراج مخالف تحریکوں کی اہمیت کو سمجھنے والے شام کو اس چوک پر جمع ہوئے اور بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔ حکومت پنجاب کے محکمہ آرکائیو نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف چلائے جانے والے مقدمے کے کاغذات عوام کے مطالعے کے لیے پیش کردیے ۔ انارکلی میں محکمہ آرکائیوکے دفتر میں ان کاغذات کی نمائش ہوئی۔

برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدارکو توسیع دینے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں نیا انتظامی، عدالتی اور تعلیمی ڈھانچہ کا قیام، جدید تعلیم کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام، بجلی آنے سے جدید صنعت سازی اور کلکتہ سے دہلی تک ریلوے لائن بچھانے سے ایک نیا معاشرہ تشکیل پانے لگا ۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے نتیجے میں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔

راجہ رام موہن رائے نے پہلے ہندوؤں میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگرکیا۔ ستی کی رسم کے خلاف مہم چلائی ۔ سرسید احمد خان نے مسلمان امراء کو جدید تعلیمی نظام کی طرف راغب کرنے کے لیے موثرکوشش کی، یوں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستانی معاشرے میں جو جمود پیدا ہوا تھا وہ ختم ہونے لگا ۔ ایک انگریز لارڈ ہوم نے 1885ء میں برصغیر کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس بنائی ۔ 1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی۔ پھر کمیونسٹ پارٹی قائم ہوئی۔ مزدور اور کسان انجمنیں قائم ہونے لگیں۔

بہت سے نوجوان برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آنے لگے، یوں کچھ نوجوان سرکاری ملازمتوں میں کھپ گئے اور کچھ کو نجی اداروں، برطانوی کمپنیوں میں ملازمتیں ملیں۔ کچھ کاروبار میں لگ گئے۔ جاگیرداروں، نوابوں اور مہاراجوں میں بھی انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان پڑا، یوں انگریز حکومت کے اقتدار پر سوالات اٹھنے لگے ۔

مولانا محمد علی جوہر وغیرہ نے خلافت تحریک چلائی ۔ گاندھی نے تحریک خلافت کی حمایت کی۔ اس طرح انگریز راج کے خلاف جذبات ابھرنے لگے۔ جو سکھ مزدور روزگار کی تلاش میں امریکا اورکینیڈا جاتے تھے ان میں آزادی کا جذبہ زیادہ اجاگر ہوا ۔ برطانیہ میں رہنے والے ہندوستانی شہریوں نے بھی آزادی کی پرامن جدوجہد کا درس دینا شروع کیا۔ پھر کانگریس نے ہندوستانیوں کے راج کا نعرہ لگایا ۔کمیونسٹ پارٹی اور غدر پارٹی آزادی اور مزدوروں کے انقلاب کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے لگی۔

برطانوی حکومت نے دنیا بھر میں اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان سے بڑے پیمانے پر فوجی بھرتی کیے تھے۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کا دارو مدار ہندوستانی فوجیوں پر تھا۔ ایک طرف جدید تعلیم حاصل کرنے والے آزادی کی تمنا کر رہے تھے تو دوسری طرف جمعیت علماء ہند کے علماء نے انگریز راج کے خاتمے کے لیے قربانیوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔

اگرچہ انگریز حکومت نے محدود پیمانے پر بلدیاتی ادارے قائم کیے تھے مگر حکومت جمہوری اداروں کے قیام کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس زمانے میں گاندھی ، نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی وغیرہ آزادی کی خواہش کے ساتھ انگریز حکومت کے معتوب تھے۔ حکومت آزادئ صحافت سے بھی خوفزدہ تھی ۔

ہندوستان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی ہند حکومت نے رولٹ ایکٹ نافذ کیا۔ اس قانون نے شہری آزادیوں کو سلب کیا۔ حکومت کو اخبارات پر پابندی لگانے، سیاسی اجتماع کو غیر قانونی قرار دینے کے اختیارات حاصل ہوگئے۔ محمد علی جناح ، نہرو اور گاندھی نے رولٹ ایکٹ کو سیاہ قانون قرار دیا۔ لاہور میں کانگریس اور قوم پرستوں نے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج شروع کیا۔

لالہ لجپت رائے قوم پرست رہنما تھے۔انھوں نے انگریز حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ رولٹ ایکٹ کے سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک جلوس کی قیادت لالہ لجپت رائے نے کی۔ پولیس نے جلوس کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے بیہمانہ لاٹھی چارج کیا۔ اس لاٹھی چارج کے نتیجے میں لالہ لجپت پولیس کے ڈنڈوں سے شدید زخمی ہوئے، انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے۔

بھگت سنگھ 1907ء میں پنجاب ، ضلع لائلپورکی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں چک نمبر 105 جی بی بنگلہ ولیج میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سندھو جاٹ برادری سے تھا ۔ بھگت سنگھ نوجوانی میں انقلابی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ بھگت سنگھ کے ساتھ مسلمان ہندو سمیت سبھی شامل تھے ۔ بھگت سنگھ کو لالہ لجپت کی موت کا شدید صدمہ تھا اور انتقام کا جذبہ ان کے دماغ میں کھول رہا تھا۔


بھگت سنگھ اور ان کے ساتھ شیورام راج گرو نے دسمبر 1929ء میں ایک 21 سالہ انگریز پولیس افسر جان سنڈرس کو غلطی سے گولی مارکر ہلاک کردیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی دراصل ایس پی جیمس اسکوٹ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اس انگریز افسر نے لالہ لجپت رائے اور ان کے ساتھیوں پر لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔ بھگت سنگھ نے لاہور کے علاوہ دیو کالج (اسلامیہ کالج سول لائن کے علاقے)میں پولیس افسر پر گولیاں چلائی تھیں۔

جاری ہونے والے کاغذات میں شامل انگریز افسر سنڈرس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنڈرس کے جسم میں 8 گولیاں لگی تھیں ۔ بھگت سنگھ کے ایک اور ساتھ چندرا شیکر آزاد نے ایک ہندوستانی سپاہی چرن سنگھ کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کے تھا جب بھگت سنگھ سنڈرس پر حملے کے بعد کالج کے احاطے کی طرف جا رہے تھے تو اس سپاہی نے بھگت سنگھ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی تھی، بہرحال بھگت سنگھ ، شیو رام اور چندرا شیکر موقع واردات سے دیوکالج کے راستے فرار ہوگئے۔

ان کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ کا ایک ساتھی دیوکالج سے متصل ایس پی آفس کے دروازے پرکھڑا تھا تاکہ ایس پی جیمس اسکاٹ کے دفتر سے نکلنے کا سگنل دے مگر سنڈرس موٹر سائیکل پر نکلا اور بھگت سنگھ کو غلط پیغام ملا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی اس واردات کے بعد روپوش ہوگئے۔ انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے پیغام کو گاؤں گاؤں پہنچانے کے لیے پمفلٹ اور پوسٹر تیار کیے۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی 1929ء میں منظرعام پر آئے۔ یہ لوگ دہلی میں سینٹرل لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس کے دوران مہمانوں کی گیلری میں داخل ہوئے۔ دھواں والے بم پھینکے۔ مزدوروں اورکسانوں کے راج کے لیے نعرے لگائے، آزادی کے مطالبے پر مشتمل پمفلٹ پھینکے اور پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر رضاکارانہ گرفتاریاں دیں۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف لاہورکی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

لاہور جیل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی۔ اس بھول ہڑتال کے پورے ہندوستان پر اثرات پڑے۔ سیاستدانوں نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیلیں کیں۔ جیل کے عملے نے زبردستی غذا جسم میں داخل کرنے کی کوشش کی اور اس بھوک ہڑتال کے دوران بھگت سنگھ کا ایک ساتھی داس 1923ء میں انتقال کر گیا۔ بھگت سنگھ کو مارچ 1931ء کو پھانسی دیدی گئی۔

پنجاب کے قدیم اخبار '' زمیندار'' کی خبر میں کہا گیا تھا کہ بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا۔ جاری ہونے والی دستاویزات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ اور ان کے 25 ساتھیوں کا تعلق پورے ہندوستان سے تھا اور ان کا رابطہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی اور نوجوان بھارت سبھا سے تھا۔ وہ سوشلسٹ انقلاب کے داعی تھے۔

ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ کو بم کیس کے مقدمے کی سماعت کے لیے سیشن کورٹ لایا گیا تھا اور اس الزام میں انھیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی اور جزائر انڈومان(کالاپانی) بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی کہ حکام کو اس بات کا علم ہوگیا کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی ایڈیشنل ایس پی سنڈرس اور سپاہی چرن سنگھ کے قتل میں ملوث ہیں۔

بھگت سنگھ کے دو ساتھی وعدہ معاف گواہ بن گئے، یوں ٹریبونل نے سزائے موت کا فیصلہ کیا ۔ یہ مقدمہ لاہور سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ ان دستاویزات میں شامل کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی لاہور میں کن مقامات پر روپوش رہے۔

اس طرح بھگت سنگھ جیل سے اپنے والد کو جو خطوط لکھتے، انقلابی لٹریچر،کتابیں اور پمفلٹ جن کا انھوں نے مطالعہ کیا ان دستاویزات کا حصہ ہیں۔ بھگت سنگھ نے اپنی اسیری کے دوران جن کتابوں کا مطالعہ کیا، ان میں پنجاب کا المیہ، زخمی پنجاب، سلطانہ ڈاکو اور جگا داس ڈاکو وغیرہ شامل ہیں۔

ان کاغذات میں بھگت سنگھ کے ہاتھ سے تحریر کردہ درخواستیں بھی شامل ہیں جس پر ان کے دستخط ہیں مگر درخواستوں میں روایتی طور پر لکھے جانے والے الفاظ Yours truly or obediently استعمال نہیں کیے تھے بلکہ Yours etc etc کے الفاظ تحریر کیے گئے جس سے انگریزوں سے نفرت جھلکتی ہے۔ ان دستاویزات میں بھگت سنگھ کا ڈیتھ وارنٹ پر پھانسی کے بعد جیل حکام کی رپورٹ بھی شامل ہے۔

یہ دستاویزات آزادی کے فوراً بعد عوام کے سامنے پیش کی جانی چاہیے تھیں تاکہ انگریز سامراج کا آزادی کے متوالوں کے ساتھ سلوک واضح ہو سکے مگر 79 سال گزرنے کے بعد بھی یہ فیصلہ خوش آیند ہے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اس خطے کو انگریزوں سے نجات دلانے کے لیے قربانیاں دیں۔ ان کی لاہور میں یادگار بننی چاہیے اور ان کا ذکر نصابی کتابوں میں ہونا چاہیے۔ بھگت سنگھ سب کا ہیرو تھا۔
Load Next Story