جلسے جلوس آخری حربہ
جلوس کے شرکاء قدرتی طورپر اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لیے ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔
لاہور کی خوبصورت مال روڈ پر ایک تماشا ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں اس شہر کی اس سب سے بڑی سڑک پر نہ صرف بڑی بڑی دکانیں اور دفاتر ہیں ، اسمبلی ہال بھی ہے اور عالیشان گورنر ہاؤس بھی ۔ اس کے قرب و جوار میں صوبائی وزیراعلیٰ کے دفاتر ہیں افسر شاہی کی وسیع و عریض رہائش گاہیں بھی اس سے متصل ہیں۔
عوام کا کوئی گروہ اپنا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھنا چاہتا ہے تو وہ جلوس نکالتا ہے اور اس سڑک کو استعمال کرتا ہے تا کہ حکمرانوں کی چشم دید بھی ہو اور ان کو اپنے کسی خیر مقدمی جلوس کی خبر اچھی طرح مل سکے ۔ اس سے پہلے دوسرے خاموش ذرایع سے حکومت تک مطالبات پہنچائے جاتے ہیں لیکن جب کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور ایسا اکثر ہوتا ہے تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے لیے لاہور میں مال روڈ سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہے حالانکہ لاہوری وزیر اعلیٰ نے لاہور شہر کی مال روڈ کے علاوہ دوسری شاہراہیں بھی اس سے زیادہ کشادہ کر دی ہیں لیکن لاہوری کہتے ہیں 'جومزہ چھجو دے چوبارے او نہ بلخ نہ بخارے' یعنی مال روڈ ہی ان کی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے اور اس کو ہی ہنگامہ آرائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مال روڈ کے جلوس دو جگہوں سے شروع ہوتے ہیں بڑا جلوس ہو تو گول باغ سے جو مال روڈ کے ایک سرے پر واقع ہے اور چھوٹا جلوس مسجد شہداء سے جو اسمبلی ہال کے قریب ہی واقع ہے لیکن ان سب چھوٹے بڑے جلوسوں کی منزل ایک ہی ہوتی ہے ۔ اگر اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو تو اسمبلی ہال کے سامنے دوسری صورت میں گورنر ہاؤس ۔ اسمبلی میں جلوس نکالنے والے عوام کے منتخب نمایندے موجود ہوتے ہیں اور گورنر ہاؤس میں صوبے کا بڑا حاکم قیام کرتاہے۔
جلوس کے شرکاء قدرتی طورپر اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لیے ان مقامات کا رخ کرتے ہیں مگر پولیس انھیں ان دونوں مقامات پر جانے سے روکتی ہے، اب یہ جلوس والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں، شرافت سے منتشرہو جاتے ہیں یا تھانے جاتے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پولیس انھیں روکتی کیوں ہے ۔ عوام کے مطالبات حکومت اور ان کے منتخب نمایندوں تک نہیں پہنچیں گے تو وہ کہاں جائیں گے۔
کسی نے کہا ہے کہ پولیس اس لیے روکتی ہے کہ ایسے جلوسوں سے اسمبلی ہال کا تقدس مجروح ہوتا ہے لیکن ایک عقلمند کا کہنا ہے کہ اسمبلی کا تقدس مجروح کرنے والے تو اسمبلی کے اندر بیٹھے ہوتے ہیں یہ بے چارے جلوس والے کیا تقدس مجروح کریں گے، ان کی کیا مجال کہ اس معاملے میں اراکین اسمبلی کا مقابلہ کر سکیں۔
مال روڈ اور جلسے جلوس کا پرانا رشتہ آج کل کے ان دھرنوں سے یاد آیا ہے جو حکومت کے خلاف مختلف طبقہ فکر کے لوگ آئے روز دے رہے ہیں اس میں حکومت کے اپنے لوگ بھی شامل ہیں منتخب بلدیاتی نمایندے بھی شامل ہیں جن کو ابھی تک اختیار نہیں دیے گئے اور مظلوم طبقہ کے لوگ بھی ہیں جن کی حکومت کے ایوانوں میں کوئی شنوائی نہیں ہورہی اور وہ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
آج کل مال روڈ خواتین کے قبضے میں ہے اور مال روڈ جب بند ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ پورے لاہور کا ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکاہے ۔ مال روڈکے ایک حصے کو پہلے ہی نئی بننے والی ٹرین کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے بند کیا جا چکا ہے اس پر عوامی دھرنے مستزاد ہیں ۔ مظلوم عوام سے کمزور اور بے اثر مخلوق اورکوئی نہیں ۔ اس لیے مظلوم عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم سے حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے جلوسوں اور دھرنوں کا سہارا لینے پر مجبورہوں۔
کبھی نابینا حضرات اپنی سفید چھڑیوں سے حکومت کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان بے سہارا لوگوں کو بھی حکومت کا کوئی منشی وعدے وعید کر کے ٹرخا دیتا ہے ۔ حالات اگرچہ تبدیل ہو چکے ہیں مگرحکومت پر مظلوم عوام کی آہوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کی پالیسیاں وہی چل رہی ہیں جو انگریز نے عوام سے نپٹنے کے لیے بنا رکھی تھیں، انگریز افسر شاہی کے جانشین سیاسی حکمرانوں کو یہی سبق پڑھاتے ہیں کہ ان طبقوں سے بچ کر رہیں اور انھیں سر پر نہ چڑھائیں ۔ اس لیے حکومت سے مذاکرات اول تو ہوتے ہی نہیں اور جب ہوتے ہیں تو ان میں سرد مہری کا عالم یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق اپنی جان بچانے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔
بات جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے عوامی مطالبات کی ہورہی تھی ۔ اصل سوال یہ ہے کہ نوبت جلوس اور دھرنے تک پہنچنے ہی کیوں دی جاتی ہے ۔ سیاسی جلوسوں اور جلسوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی طاقت کے مظاہرے کے لیے بھی جلوس نکالے جاتے ہیں لیکن سرکاری ملازمین جب جلوس نکالتے ہیں تو یہ حکومت وقت کی نالائقی اور کوتاہی کی کھلی علامت ہوتی ہے اور اس نظام حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے کہ یہ نظام اپنے کل پرزوں اور عوام کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا عوام کی خدمت اور حفاظت کیا کرے گا۔
دھرنوں کے ضمن میں یہ بات قطعاً ناقابل فہم ہے کہ انھیں عوام کے نمایندگان یعنی اراکین اسمبلی تک کیوں جانے نہیں دیا جاتا ۔ آخر وہ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں ۔ اسی طرح اگر وہ گورنر یا وزیر اعلیٰ تک اپنی فریاد نہیں پہنچائیں گے تو اور کس کے دروازے پر دستک دیں گے۔
پولیس کاکام توڑ پھوڑ اور بد امنی کی وجہ سے شروع ہوتا ہے اور سرکاری ملازمین کے جلوس شاید ہی کوئی ایسی حرکت کریں جس سے پولیس کو لاٹھیاں لہرانے کو موقع مل سکے لیکن اس حماقت کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ جلوس کو اسمبلی ہال یا گورنر ہاؤس تک کیوں نہ جانے دیا جائے۔
ایسی ناقابل فہم پالیسیوں کے باوجود حکمران شکایت کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اقتدار کی میعاد پوری نہیں کرنے دی جاتی اور امن و امان تباہ کر کے حکومت کے ترقیاتی کام روکے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی ان اداؤں پر بھی غور کریں کہ جلوس نکلتے کیوں ہیں اور حکومت کی کیا حرکتیں ان جلوسوں کر متحرک کرتی ہیں۔
عوام کا کوئی گروہ اپنا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھنا چاہتا ہے تو وہ جلوس نکالتا ہے اور اس سڑک کو استعمال کرتا ہے تا کہ حکمرانوں کی چشم دید بھی ہو اور ان کو اپنے کسی خیر مقدمی جلوس کی خبر اچھی طرح مل سکے ۔ اس سے پہلے دوسرے خاموش ذرایع سے حکومت تک مطالبات پہنچائے جاتے ہیں لیکن جب کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور ایسا اکثر ہوتا ہے تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے لیے لاہور میں مال روڈ سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہے حالانکہ لاہوری وزیر اعلیٰ نے لاہور شہر کی مال روڈ کے علاوہ دوسری شاہراہیں بھی اس سے زیادہ کشادہ کر دی ہیں لیکن لاہوری کہتے ہیں 'جومزہ چھجو دے چوبارے او نہ بلخ نہ بخارے' یعنی مال روڈ ہی ان کی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے اور اس کو ہی ہنگامہ آرائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مال روڈ کے جلوس دو جگہوں سے شروع ہوتے ہیں بڑا جلوس ہو تو گول باغ سے جو مال روڈ کے ایک سرے پر واقع ہے اور چھوٹا جلوس مسجد شہداء سے جو اسمبلی ہال کے قریب ہی واقع ہے لیکن ان سب چھوٹے بڑے جلوسوں کی منزل ایک ہی ہوتی ہے ۔ اگر اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو تو اسمبلی ہال کے سامنے دوسری صورت میں گورنر ہاؤس ۔ اسمبلی میں جلوس نکالنے والے عوام کے منتخب نمایندے موجود ہوتے ہیں اور گورنر ہاؤس میں صوبے کا بڑا حاکم قیام کرتاہے۔
جلوس کے شرکاء قدرتی طورپر اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لیے ان مقامات کا رخ کرتے ہیں مگر پولیس انھیں ان دونوں مقامات پر جانے سے روکتی ہے، اب یہ جلوس والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں، شرافت سے منتشرہو جاتے ہیں یا تھانے جاتے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پولیس انھیں روکتی کیوں ہے ۔ عوام کے مطالبات حکومت اور ان کے منتخب نمایندوں تک نہیں پہنچیں گے تو وہ کہاں جائیں گے۔
کسی نے کہا ہے کہ پولیس اس لیے روکتی ہے کہ ایسے جلوسوں سے اسمبلی ہال کا تقدس مجروح ہوتا ہے لیکن ایک عقلمند کا کہنا ہے کہ اسمبلی کا تقدس مجروح کرنے والے تو اسمبلی کے اندر بیٹھے ہوتے ہیں یہ بے چارے جلوس والے کیا تقدس مجروح کریں گے، ان کی کیا مجال کہ اس معاملے میں اراکین اسمبلی کا مقابلہ کر سکیں۔
مال روڈ اور جلسے جلوس کا پرانا رشتہ آج کل کے ان دھرنوں سے یاد آیا ہے جو حکومت کے خلاف مختلف طبقہ فکر کے لوگ آئے روز دے رہے ہیں اس میں حکومت کے اپنے لوگ بھی شامل ہیں منتخب بلدیاتی نمایندے بھی شامل ہیں جن کو ابھی تک اختیار نہیں دیے گئے اور مظلوم طبقہ کے لوگ بھی ہیں جن کی حکومت کے ایوانوں میں کوئی شنوائی نہیں ہورہی اور وہ دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
آج کل مال روڈ خواتین کے قبضے میں ہے اور مال روڈ جب بند ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ پورے لاہور کا ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکاہے ۔ مال روڈکے ایک حصے کو پہلے ہی نئی بننے والی ٹرین کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے بند کیا جا چکا ہے اس پر عوامی دھرنے مستزاد ہیں ۔ مظلوم عوام سے کمزور اور بے اثر مخلوق اورکوئی نہیں ۔ اس لیے مظلوم عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم سے حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے جلوسوں اور دھرنوں کا سہارا لینے پر مجبورہوں۔
کبھی نابینا حضرات اپنی سفید چھڑیوں سے حکومت کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان بے سہارا لوگوں کو بھی حکومت کا کوئی منشی وعدے وعید کر کے ٹرخا دیتا ہے ۔ حالات اگرچہ تبدیل ہو چکے ہیں مگرحکومت پر مظلوم عوام کی آہوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کی پالیسیاں وہی چل رہی ہیں جو انگریز نے عوام سے نپٹنے کے لیے بنا رکھی تھیں، انگریز افسر شاہی کے جانشین سیاسی حکمرانوں کو یہی سبق پڑھاتے ہیں کہ ان طبقوں سے بچ کر رہیں اور انھیں سر پر نہ چڑھائیں ۔ اس لیے حکومت سے مذاکرات اول تو ہوتے ہی نہیں اور جب ہوتے ہیں تو ان میں سرد مہری کا عالم یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق اپنی جان بچانے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔
بات جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے عوامی مطالبات کی ہورہی تھی ۔ اصل سوال یہ ہے کہ نوبت جلوس اور دھرنے تک پہنچنے ہی کیوں دی جاتی ہے ۔ سیاسی جلوسوں اور جلسوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی طاقت کے مظاہرے کے لیے بھی جلوس نکالے جاتے ہیں لیکن سرکاری ملازمین جب جلوس نکالتے ہیں تو یہ حکومت وقت کی نالائقی اور کوتاہی کی کھلی علامت ہوتی ہے اور اس نظام حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے کہ یہ نظام اپنے کل پرزوں اور عوام کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا عوام کی خدمت اور حفاظت کیا کرے گا۔
دھرنوں کے ضمن میں یہ بات قطعاً ناقابل فہم ہے کہ انھیں عوام کے نمایندگان یعنی اراکین اسمبلی تک کیوں جانے نہیں دیا جاتا ۔ آخر وہ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں ۔ اسی طرح اگر وہ گورنر یا وزیر اعلیٰ تک اپنی فریاد نہیں پہنچائیں گے تو اور کس کے دروازے پر دستک دیں گے۔
پولیس کاکام توڑ پھوڑ اور بد امنی کی وجہ سے شروع ہوتا ہے اور سرکاری ملازمین کے جلوس شاید ہی کوئی ایسی حرکت کریں جس سے پولیس کو لاٹھیاں لہرانے کو موقع مل سکے لیکن اس حماقت کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ جلوس کو اسمبلی ہال یا گورنر ہاؤس تک کیوں نہ جانے دیا جائے۔
ایسی ناقابل فہم پالیسیوں کے باوجود حکمران شکایت کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اقتدار کی میعاد پوری نہیں کرنے دی جاتی اور امن و امان تباہ کر کے حکومت کے ترقیاتی کام روکے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی ان اداؤں پر بھی غور کریں کہ جلوس نکلتے کیوں ہیں اور حکومت کی کیا حرکتیں ان جلوسوں کر متحرک کرتی ہیں۔