مغل دور میں تزئین کاری اورمصـّوری
اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔
وہ چیزیں جو مغلوں کے ہاتھوں رواج پائیں اور ان کی سرپرستی کی پناہ میں آئیں ان میں تزئین کاری اور شبیہ سازی قابل ذکر ہیں۔
مغل فنِ مصوری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقی کے ان مدارج کو پہنچی۔ منگولوں سے اگر فن مصوری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔ 14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کا فنِ مصوری تزئین کاری تک محدود تھا کیوں کہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔
اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکم رانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا، لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرینِ فن سے بھر گیا۔
بابر فنونِ لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوری اور فلسفے میں اسے بڑی دل چسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصور بہزاد کی بڑی تعریف کی ہے۔ بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائیوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرینِ فن کی سرپرستی کا وقت آیا تو اس نے صدائے اجل کو لبیک کہا۔
ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن ایک خوب صورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوروں کو بلوا کر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔ ایران کے دورِ اقامت میں ہمایوں کی کئی نامور مصوروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوری کے ایک نئے اسکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فنِ مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔
ایرانی مصوروں نے مصوری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثاتِ زمانہ اور انقلاباتِ وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ میر سید علی اور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ عبدالصمد نے ہندوستانی مصوروں کی مدد سے داستان امیر حمزہ کی تزئین کا کام سر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرالعصر کا خطاب حاصل کیا۔
بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فنِ مصوری کی بھی تجدید ہوئی۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئی تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصور جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فنِ مصوری کا گہوارہ بن گیا۔ اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئینِ اکبری میں اس کا مفصل ذکر ہے۔
اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئین کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔
مغل فنِ مصوری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقی کے ان مدارج کو پہنچی۔ منگولوں سے اگر فن مصوری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔ 14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کا فنِ مصوری تزئین کاری تک محدود تھا کیوں کہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔
اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکم رانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا، لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرینِ فن سے بھر گیا۔
بابر فنونِ لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوری اور فلسفے میں اسے بڑی دل چسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصور بہزاد کی بڑی تعریف کی ہے۔ بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائیوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرینِ فن کی سرپرستی کا وقت آیا تو اس نے صدائے اجل کو لبیک کہا۔
ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن ایک خوب صورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوروں کو بلوا کر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔ ایران کے دورِ اقامت میں ہمایوں کی کئی نامور مصوروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوری کے ایک نئے اسکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فنِ مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔
ایرانی مصوروں نے مصوری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثاتِ زمانہ اور انقلاباتِ وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ میر سید علی اور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ عبدالصمد نے ہندوستانی مصوروں کی مدد سے داستان امیر حمزہ کی تزئین کا کام سر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرالعصر کا خطاب حاصل کیا۔
بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فنِ مصوری کی بھی تجدید ہوئی۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئی تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصور جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فنِ مصوری کا گہوارہ بن گیا۔ اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئینِ اکبری میں اس کا مفصل ذکر ہے۔
اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئین کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔