جمہوریت کے رنگ نرالے

ملک کے کئی با اثر سیاستدان حکومت کا بھی حصہ بن گئے تھے۔ اب اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی وہ جمہوریت کے دیوانے ہیں۔

usmandamohi@yahoo.com

وطن عزیز جن بہت سی چیزوں میں خودکفیل ہے، ان میں ہمارے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ ملک میں کتنے سیاستدان ہیں آج تک کوئی ان کی گنتی نہ کرسکا۔ جہاں سیاستدان ان گنت ہیں وہاں سیاسی پارٹیوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں سات سو سے زیادہ سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جن میں سے کل 182 رجسٹرڈ ہیں ۔ ہمارے ملک کی سیاسی اور جمہوری اقدار کی فراوانی کے آگے تو مغربی ممالک کی جمہوریتیں بھی کچھ نہیں ہیں وہ جمہوریت کے چیمپئن ضرور بنے ہوئے ہیں مگر وہاں ہمارے ہاں جیسے جمہوریت کے مزے کہاں ؟ حالانکہ ہمارے ہاں ایک دو بار نہیں چار بار جمہوریت کا گلا گھونٹا جا چکا ہے اور آمرانہ حکومتیں قائم ہوچکی ہیں جن میں جمہوریت کش اور سیاسی رجحان کو کرش کرنے والی پالیسیاں بھی بنائی گئیں مگر شاباش ہے اس ملک کے عوام کو ، ان کے جذبہ جمہوریت کو بڑے سے بڑا آمر بھی ذرا کم نہ کرسکا۔ بلکہ بعض آمروں کو تو خود اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کے لیے جمہوریت کا سہارا لینا پڑا ، پھر ہمارے بعض سیاستدانوں نے جمہوریت کی خاطر ان کی مدد سے بھی گریز نہیں کیا اور وہ ان کی آمرانہ جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے آئے۔ ایسے سیاستدان عرف عام میں جمہوریت کے نام پر دھبہ ضرور کہلاتے ہیں مگر عوام کو پھر بھی ان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے آمروں کو بھی جمہوریت پر چلنا سکھا دیا ۔

پھر دیکھنے میں آیا کہ آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کے بعد اکثر آمر جمہوری طرز پر عوام کی خدمت کرنے کے لیے جمہوریت کا حصہ بن گئے۔ اس کی مثال سابق جنرل پرویز مشرف سے بھی دی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے ہی قائداعظم مسلم لیگ قائم کرلی تھی۔ ملک کے کئی با اثر سیاستدان اس کا حصہ بن کر حکومت کا بھی حصہ بن گئے تھے۔

اب اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی وہ جمہوریت کے دیوانے ہیں۔ تاہم وہ سیاستدان جو پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ان کا دم بھر رہے تھے اور ان کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہانے کا ببانگ دہل اعلان کر رہے تھے اور بڑے فخر سے یہ بھی کہتے تھے کہ اگر مشرف سو مرتبہ بھی وردی میں صدارت کا الیکشن لڑیں گے تو وہ انھیں سر دھڑ کی بازی لگا کر کامیاب کرائیں گے مگر وہ ان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور مشرف کی قائد مسلم لیگ کو بھی ان سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ بے رخی یقینا حوصلہ شکن تھی مگر ان بے رخی کرنے والوں نے مشرف کو جمہوریت کا ایسا مزہ چکھادیا تھا کہ وہ بھلا کہاں ختم ہونے والا تھا۔ آج مشرف سب کچھ چھن جانے اور اپنے پر مقدمات کی بھرمار کے باوجود آنے والے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔

مشرف کا ملک میں آنا اس لیے بھی آسان نہیں ہے کیونکہ حکومت وقت اور عدلیہ انھیں حوالات کی ہوا کھلانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ وہ ایک دفعہ پہلے بھی دبئی سے یہاں آکر اپنی خرابی صحت کا چکمہ دے کر ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ چلو ان کی الیکشن میں حصہ لینے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے یا نہیں لیکن ان کی بے چینی سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت تو آمروں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور وہ انھیں آمر سے عوامی رہنما بنا دیتی ہے۔


مشرف کے مددگار سیاستدانوں نے ہی انھیں این آر او کے لیے راضی کرایا تھا جس سے پیپلز پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا ،البتہ مشرف سے علیحدگی کے بعد قائد مسلم لیگ سمٹ کر رہ گئی اور چند سیٹوں تک محدود ہوگئی۔ انھی سیاستدانوں میں شیخ رشید بھی شامل تھے جو ان حضرات کی طرح مشرف سے پہلے میاں صاحب کے برے وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ خیر سے شیخ رشید عوام میں غیر مقبول ہونے سے بال بال بچ گئے۔ یہ شخص جمہوریت کا علم بردار ہے۔ اپنی جمہوریت پسندی کی بدولت ہی مسلم لیگ کی دل کھول کر خدمت کرتا رہا ہے۔ پہلے مسلم لیگ (ن) کی خدمت کی پھر قائد مسلم لیگ کی اور اب عوامی مسلم لیگ کا پرچم تھامے ہوئے ہے۔ وہ نواز شریف کی حکومت میں وزیر ہی نہیں ان کے خاص ساتھیوں میں شامل تھے۔

1999 میں پرویز مشرف کے مارشل لا نے انھیں میاں صاحب سے جدا کردیا تھا اور پھر رفتہ رفتہ وہ چوہدری برادران کے رنگ میں رنگ گئے مگر جب مشرف حکومت ختم ہوئی تو وہ کہیں کے نہ رہے۔ انھوں نے میاں صاحب کے قافلے میں شامل ہونے کی کوشش کی مگر میاں صاحبان کے مصاحبین نے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ بس یہی وہ غلطی تھی جو میاں صاحب کو مار گئی اور مشکلوں میں دھکیل گئی۔ شیخ رشید کو میاں صاحب کا انکار کچھ ایسا ان کے دل پر لگا کہ وہ میاں صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کی حکومت کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔

وہ کھلم کھلا ان کی حکومت کو گرانے کے لیے اپنے ہر بیان اور ٹی وی ٹاک میں عوام کو جلاؤ گھیراؤ اور گراؤ کے لیے اکسانے لگے۔ ان کا اس طرح نڈر ہوجانا بھی ایک معمہ تھا جس پر مبصرین بھی حیرت زدہ تھے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر میاں صاحب انھیں بھی مشرف کے دیگر لوگوں کی طرح اپنا لیتے تو نہ الیکشن میں دھاندلی کا مسئلہ اٹھتا اور نہ نوبت دھرنوں تک پہنچ پاتی۔ بعض تجزیہ کار میاں صاحب پر آنیوالی مصیبتوں کی وجہ کچھ غیر مرئی مخلوق کو بھی قرار دیتے ہیں۔

بہرحال میاں صاحب کے حالات کسی رخ پر بھی جائیں مگر اس شخص نے خود کو ایک زیرک سیاستدان کے طور پر منوالیا ہے۔ اس شخص نے میاں صاحب کی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پھر شیخ رشید نے خود کو مزید طاقتور بنانے کے لیے عمران خان کی انگلی پکڑ لی ہے اور اب عمران خان میاں صاحب کے خلاف وہ سب کچھ کرتے نظر آرہے ہیں جس کی شیخ رشید فرمائش کر رہے ہیں۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست سکھانے والا شیخ رشید ہی ہے البتہ یہ بات اور ہے کہ شیخ رشید بھی ہوشیار آدمی ہیں انھوں نے عمران خان کو سیاست کے سارے گر ابھی نہیں سکھائے ہیں جب ہی خان صاحب سیاست میں فاش غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں انھوں نے اپنی اصولی سیاست کا خود ہی جنازہ نکال دیا ہے۔ ایک دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے کا مطلب اکیس سال کی پی ٹی آئی کی سیاست کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہوگا اور پھر دوسرے ہی دن اپنے تمام سینیٹرز کے ووٹ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو دلوادیے۔ اس وقت شیخ رشید کھلے عام میاں صاحب کے اڈیالہ جیل جانے کا اعلان کر رہے ہیں پہلے بھی وہ جو کہتے رہے ہیں وہ باتیں پوری ہوتی رہی ہیں۔ شاید شیخ رشید کی غیبی خبر سے متاثر ہوکر ہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب اگر جیل گئے تو وہ جیل سے پارٹی کی رہنمائی کریں گے۔

بہرحال شیخ رشید نے بھی میاں صاحب کی دشمنی میں کئی غلطیاں کر ڈالی ہیں۔ حالانکہ وہ ایک جمہوری آدمی ہیں مگر حال ہی میں انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگانے کا مطالبہ کیا ہے ویسے اس مطالبے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ شیخ رشید نے دوسری بڑی غلطی ایک جلسہ عام میں قومی اسمبلی پر لعنت بھیج کر کی ہے جس سے ان کی جمہوریت نوازی کو سخت چوٹ لگی ہے پھر ان کی دیکھا دیکھی عمران خان نے بھی وہی الفاظ دہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچنے کے لیے اپنی پوری انتخابی مہم جوئی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
Load Next Story