مسلم لیگ ن اور جے یو آئی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات

جے یو آئی اورقومی وطن پارٹی کے درمیان بھی گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت صوابی میں تو دونوں پارٹیوں کے درمیان۔۔۔

جے یو آئی اور قومی وطن پارٹی کے درمیان بھی گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت صوابی میں تو دونوں پارٹیوں کے درمیان ایڈجسٹمنٹ ہوچکی ہے۔ فوٹو : فائل

بالاخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی ہے کیونکہ جمعیت علماء اسلام(ف)نے راز کی وہ بات کہہ ہی دی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کے درمیان خیبرپختونخوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات آگے نہیں بڑھ پارہے۔

جمعیت علماء اسلام(ف)یہ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ(ن)اس کے ساتھ خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب میں بھی ایڈجسٹمنٹ کرے ، لیکن یہ بات بڑی واضح ہے کہ نہ تو پنجاب میں مسلم لیگ(ن)کو جے یو آئی کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہاں پر جے یو آئی کسی ایسی پوزیشن میں ہے کہ جو مسلم لیگ(ن)کی ضرورت ہو اس لیے پنجاب میں دونوں پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کا عمل سرے سے شروع ہی نہیں ہوا اور نہ ہی شروع ہونے کا کوئی امکان ہے جس کے اثرات خیبرپختونخوا پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

جہاں پر دونوں پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہونے کے باوجود واضح انداز میں بات آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آرہی، تاہم ایک بات پر ضرور سمجھوتہ ہو گیا ہے کہ جن نشستوں پر کوئی مسئلہ نہیں ہے ان پر دونوں پارٹیاں ایڈجسٹمنٹ کرلیں گی۔ البتہ جن نشستوں پر مسئلہ ہے جن میں پشاور اور کرک،شانگلہ اور بعض دیگر اضلاع سرفہرست ہیں کے حوالے سے یہ حکمت عملی اپنائی جائے گی کہ ان نشستوں کو ''کھلا''چھوڑ دیاجائے گا تاکہ دونوں جماعتوں کے امیدوار اپنے طور پر اپنی انتخابی مہم چلائیں اور جسے بھی کامیابی ملے بعد میں حکومت سازی کے وقت ان نشستوں کو اپنالیا جائے گا ۔

جے یو آئی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ اب بھی بند نہیں ہوا بلکہ یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ سیاسی جماعتوںنے اپنے ٹکٹ ہولڈرامیدواروں کے نام الیکشن کمیشن کو 17 اپریل تک فراہم کرنے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پاس ردوبدل کے لیے کافی وقت ہے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جانب مذاکراتی عمل جاری ہے اور دوسری جانب سیاسی پارٹیاں اپنے طور پر ردوبدل کرنے کے علاوہ باہر سے آنے والوں کے لیے بھی جگہ بنارہی ہیں جن میں جے یو آئی سرفہرست ہے۔

جبکہ مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ امیر مقام نے پشاور میں این اے چار کی نشست اپنی ہی پارٹی کے ناصر موسیٰ زئی کے لیے خالی کردی ہے کیونکہ 2008 ء کے انتخابات جس میں امیر مقام ،سابق صدر پرویز مشرف کی بھائی بندی کے تحت الیکشن کے لیے میدان میں اترے تھے اس وقت بھی ان کی اس حلقہ پر تیسری پوزیشن تھی اور اب جبکہ وہ پارٹی تبدیل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے میدان میں اتررہے ہیں تو انہوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے یہ نشست پشاور سے تعلق رکھنے والے امیدوار کے لیے خالی کردی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں بہرکیف وہ امیر مقام سے بہتر مقابلہ کرپائیں گے۔

البتہ اے این پی کے ارباب ایوب جان ،جماعت اسلامی کے صابر حسین اعوان اور جے یو آئی کے ممکنہ طور پر ارباب کمال کی موجودگی میں یہ مقابلہ اتنا آسان نہیں ہوگا جبکہ ان کے ساتھ اس دوڑ میں پیپلزپارٹی کے مصباح الدین بھی شامل ہوں گے۔ جے یو آئی اور قومی وطن پارٹی کے درمیان بھی گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت صوابی میں تو دونوں پارٹیوں کے درمیان ایڈجسٹمنٹ ہوچکی ہے اور اب چارسدہ سمیت بعض دیگر اضلاع کی سطح پر یہ سلسلہ جاری ہے جن میں زیادہ اہمیت چارسدہ کو دی جارہی ہے جہاں پر جے یو آئی اور قومی وطن پارٹی یکجا ہوکر این اے 7 پر اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں جو سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ویسے ہی انتخابی مہم نہیں چلارہے تاہم اس کے بدلے میں قومی وطن پارٹی این اے 8 پر آفتاب شیر پاؤ کے لیے جے یو آئی کی سپورٹ چاہے گی جس کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم بھی اہم معاملہ ہے جن کے حوالے سے ابھی بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔


سیاسی پارٹیوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں سب کی نطریں جہاں جے یو آئی اور مسلم لیگ(ن) پر لگی ہوئی ہیں وہیں پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان جو مذاکرات جاری ہیں وہ بھی سب کی نظروں میں ہیں اور اس حوالے سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ جماعت اسلامی او رتحریک انصاف کے درمیان معاملات طے پاجائیں گے۔

تاہم اندر کی خبر رکھنے والے شروع دن ہی سے یہ پتا دے رہے تھے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ایک جانب جماعت اسلامی جس نے گزشتہ الیکشن میں بائیکاٹ کرتے ہوئے اجتماعی غلطی کی تھی وہ اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مئی 2013 ء کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پورے زور کے ساتھ میدان میں آنا چاہتی ہے اور اس کی قیادت اور ورکروں کی خواہش ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدوار زیادہ سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑیں جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف جو پہلی بار بھر پور طریقہ سے الیکشن کے لیے میدان میں اتررہی ہے وہ بھی ایسی ہی خواہش رکھتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقہ پر اس کے امیدوار موجود ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان جاری مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں اور بظاہر ایسے امکانات ختم ہوگئے ہیں کہ یہ دونوں پارٹیاں اب ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کریں گی، رہی بات عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی تو یہ دونوں پارٹیاں ویسے بھی تنہائی کا شکار نظر آرہی تھیں کیونکہ اقتدار سے الگ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیاں ان سے کنی کترارہی ہیں جبکہ ان کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے ان دونوں پارٹیوں کا بھی یکجا ہونا مشکل نظر آرہا تھا ۔ ایسا ہی کچھ اب ہوبھی رہا ہے اور منظر میں اے این پی اور پیپلزپارٹی دونوں اکیلے الیکشن کے لیے میدان میں اترتی ہوئی نظر آرہی ہیں تاہم ان دونوں پارٹیوں کی خوش قسمتی ہوگی کہ ان کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں اکھٹے مل کر مشترکہ امیدوار میدان میں نہیں اتار پارہیں جس کا فائدہ ان دونوں پارٹیوں کو ہوگا کیونکہ اکیلے،اکیلے میدان میں اترنے کی صورت میں ہر پارٹی کو اپنے ہی ووٹ بنک پر انحصار کرنا ہوگا جس سے ہر پارٹی کی مقبولیت اور ووٹ بنک کا بڑے واضح انداز میں پتا چل جائے گا۔

گوکہ بظاہر ایسی کئی بات نظر نہیں آرہی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونے جارہی ہے کیونکہ گزشتہ دور میں حکومت میں پانچ سال اکھٹے گزارنے والی ان دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی ایسا رابطہ بھی نہیں ہے اور دونوں پارٹیوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اکثر حلقوں کے لیے اپنے امیدوار بھی میدان میں اتارے ہوئے ہیں، تاہم پشاور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون پر پیپلزپارٹی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سے اچانک ان باتوں کو ایک مرتبہ پھر تقویت ملنا شروع ہوگئی ہے۔

کیونکہ بعض حلقے ذوالفقار افغانی کی جانب سے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے دو سال پورے ہوئے بغیر ہی اعظم آفریدی کا راستہ روکتے ہوئے اپنے کاغذات جمع کرانے کے عمل کو کسی نہ کسی سطح پر دونوں پارٹیوں میں موجود انڈرسٹینڈنگ کا ہی شاخسانہ قراردے رہے ہیں کیونکہ یہ بات بڑی واضح ہے کہ ذوالفقار افغانی کی سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کو ابھی دو سال پورے نہیں ہوئے لیکن یہ بات انھیں بخوبی معلوم ہونے کے باوجود انہوںنے نہ صرف پارٹی سے زبردستی ٹکٹ لیا بلکہ اپنے کاغذات بھی جمع کرائے اور اب یہ کاغذات مسترد ہونے کی وجہ سے اے این پی کے لیے سہولت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ کورنگ امیدوار اقبال مہمند کے لیے بیک وقت این اے ون اور پی کے تھری ،کے دوحلقوں پر الیکشن کرنا مشکل ہوگا اور دونوں میں کسی ایک حلقہ کو بھی ان کی جانب سے چھوڑنے کا فائدہ اے این پی ہی کو ہوگا جس کے بدلے میں ہوسکتا ہے کہ اے این پی بھی پیپلزپارٹی کو کسی نہ کسی صورت میں کچھ فائدہ پہنچائے۔

پیپلز پارٹی اگر نگران کابینہ میں عمر فاروق کی شمولیت پر ناخوش ہے کیونکہ ان کے پیپلزپارٹی کے امیدوار اور سابق صوبائی وزیر شیر اعظم وزیرکے ساتھ مسائل ہیں تو دوسری جانب جے یو آئی نے بھی اس بارے میں اب کھل کر بات کردی ہے کہ اگر ایک نگران صوبائی وزیر پر اعتراض کیاجائے گا تو پھر یونس مروت پر جے یو آئی بھی اعتراض کرسکتی ہے، یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس پر ممکنہ طور پر دونوں جانب سے سیز فائر ہی کیاجائے گا کیونکہ نگران کابینہ کا اب ایک ماہ سے کچھ ہی زائد عرصہ رہ گیا ہے اور اس کابینہ کو کنٹرول کرنے کے لیے نگران وزیراعلیٰ اپنی جگہ موجود ہیں جو حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ امیدوار تھا اس لیے سیاسی پارٹیوں کو اپنی پسند وناپسند اور محبتوں ونفرتوں کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ پر تکیہ کرنا پڑے گا کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو اس سے گرد اڑنا شروع ہوجائے گی اور جو مسائل پیدا ہوں گے ان سے کوئی بھی پارٹی نہیں بچ سکے گی۔
Load Next Story