سابق پارلیمنٹرینز کو الیکشن میں حصہ لینے میں مشکلات کا سامنا

اس مرتبہ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قوم پرست جماعتیں جنہوں نے2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ۔۔۔

اس مرتبہ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قوم پرست جماعتیں جنہوں نے2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا حصہ لے رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کے بعض سابق پارلیمنٹرینز کو انتخابات میں حصہ لینے میں اس لئے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ ان میں سے بعض کی ڈگریاں جعلی قرار دی گئی ہیں جبکہ بلوچستان سے سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں کرد اور سابق صوبائی وزیر علی مدد جتک کو قید و جرمانے کی سزائیں بھی سنائی گئی اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔

ہمایوں عزیز کرد کی سزا کو بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے کر انہیں بری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ علی مدد جتک کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے جس کے لئے آئندہ تاریخ سماعت پندرہ اپریل رکھی گئی ہے جبکہ سابق رکن قومی اسمبلی ناصر علی شاہ کو عدالت نے اشتہاری ملزم قرار دیا ہے۔

اسی طرح سابق سینیٹر محبت خان مری، ریحانہ یحییٰ بلوچ، سابق رکن صوبائی اسمبلی و اپوزیشن لیڈر نوابزادہ طارق مگسی اور سینیٹر میر اسرار اﷲ زہری کی ڈگریوں کو بھی جعلی قرار دیا گیا ہے جبکہ سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند کے صوبائی اور قومی اسمبلی نشستوں پر کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے پائیں گے تاہم اُنہوں نے رند قبیلے کا اجلاس طلب کیا ہے، اجلاس میں عام انتخابات سمیت سیاسی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست میں تو رہیں گے لیکن اسمبلی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے سیاستدانوں سے افسران غیر متعلقہ سوالات پوچھ رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے علاقے کے لوگوں نے ہمیشہ میری حمایت کی ہے اور مجھے ووٹ دیا ہے ان لوگوں کو مجھ سے دور نہیں رکھا جاسکتا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اہم سیاسی و قبائلی شخصیات انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جن میں محمود خان اچکزئی، سردار اختر جان مینگل، مولانا غفور حیدری، نوابزادہ طلال اکبر بگٹی، نواب ایاز خان جوگیزئی، حاجی لشکری رئیسانی، نوابزادہ جنگیز مری، نواب ثناء اﷲ زہری،میر ظفر اﷲ جمالی، جان جمالی، سردار صالح بھوتانی، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عصمت اﷲ،سید فضل آغا،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ قابل ذکر ہیں۔

اس مرتبہ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قوم پرست جماعتیں جنہوں نے2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا حصہ لے رہی ہیں۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ بلوچستان سے انتخابات کے نتائج 2008ء کے مقابلے میں مختلف ہوں گے۔


پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے اب تک بعض جماعتوں میں گومگو کا ماحول ہے، خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے لڑائی جھگڑوں کے علاوہ احتجاج کے انوکھے ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں اور یہ چیز اس وقت دیکھنے میں آئی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما سکینہ مینگل نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر خودسوزی کی کوشش کی جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پریس کانفرنس کے دوران ٹکٹ نہ ملنے پر نہ صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہا بلکہ بات ہاتھ پائی تک پہنچ گئی۔

ٹکٹوں کے حوالے سے جماعتوں کے اندر بعض پرانے کارکنوں کو جہاں بہت سی شکایات ہیں وہاں کئی لوگ حالیہ الیکشن میں ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہیں اور انہوں نے اپنے اس غصے کا اظہار پارٹی کے نامزد اُمیدواروں کے مقابلے میں اندرون طورپر مخالف کی حمایت کرکے احتجاج کا طریقہ اپنا لیا ہے۔

دوسری جانب انتخابات کے حوالے سے ان جماعتوں نے اپنی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر ایک بہت بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا۔انتخابی سرگرمیوں کے آغاز کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں میں سیاسی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے تاہم امن و امان کے حوالے سے خوف کا عالم بھی ہے اور اس حوالے سے سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کو کافی تحفظات اور خدشات بھی ہیں جس کا اظہار وہ بارہا کرچکے ہیں۔

بلوچستان میں انتخابی اتحاد تشکیل دیئے جانے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر رابطے کئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بھی کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں اُنہوں نے بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور اس بات کا خیر مقدم کیا کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور یہ انتخابات جزوی انقلاب کا ذریعہ بن سکتے ہیں اپنے دورے کے دوران جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اختر مینگل سے ملاقات بھی کی۔ انتخابی اتحاد کے حوالے سے بی این پی، نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) کے مابین رابطے بھی ہوئے ہیں۔

بلوچستان کی نگران کابینہ کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے جبکہ وفاق سمیت دیگر صوبوں میں نگران سیٹ اپ مکمل ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں نگران کابینہ کے حوالے سے ابھی تک مشاورت کا عمل جاری ہے اور نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی تن تنہا اس وقت تمام فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ نگران کابینہ کے حوالے سے نگران وزیراعلیٰ پر کافی دباؤ ہے اور اس حوالے سے 12 اور 8 کا جو فارمولا بنایا گیا تھا اس پر بھی عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

مختصر کابینہ کے بارے میں جو باتیں ہورہی تھیں اس کی وجہ سے اب تک نگران صوبائی کابینہ کا فیصلہ نہیں ہو پایا ہے کیونکہ کوشش یہ ہورہی ہے کہ کابینہ کا سائز مختصر نہ ہو۔ اس حوالے سے مختلف ناموں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جنہوں نے نگران سیٹ اپ کے لئے اپنی شیروانیاں تک سلوائی ہوئی ہیں تاہم ہما کس کس کے سر بیٹھتا ہے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دو یا تین ہفتے کے لئے کابینہ تشکیل دی جائے گی، کابینہ کا سائز کیا ہوگا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
Load Next Story