آرٹیکل 62 اور 63 کا چرچا
اگلا آرٹیکل63 ہے، اس کی ذیلی دفعات اور جزیات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا‘
آج کل آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا بہت چرچا ہے' یہ آرٹیکلز نئے نہیں ہیں، اپنی مدت پوری کرنے والی جمہوری حکومت نے آئین میں بہت سی ترامیم کیں لیکن ان آرٹیکلز کو نہیں چھیڑا گیا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی لبرل ہونے کی دعویدار بھی ہیں۔ میں نے آئین کی کتاب کھولی اور آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پڑھنا شروع کیے۔ آرٹیکل 62 میں قومی اسمبلی کا رکن ہونے کی شرائط یا قابلیت کو بیان کیا گیا ہے۔
اس میں سات آٹھ ذیلی شقیں ہیں۔ میں تین چار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس آرٹیکل کی شق 1 کی ذیلی دفعہ ڈی میں قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت کا معیار کچھ یوں ہے۔ ''وہ اچھے کردار کا مالک ہو' اسے عموماً اس حوالے سے نہ جانا جاتا ہو کہ وہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس کے بعد ذیلی شق ای میں لکھا ہے' ''اسے اسلام کی تعلیمات اور روایات کا علم ہو اور اسلام کے بیان کردہ لازمی فرائض کا علم ہو' اس کے ساتھ ساتھ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہوا ہو۔
ذیلی شق ایف میں بھی کچھ شرائط یا اوصاف درج ہیں۔ ''وہ ذہین' نیکوکار ہو' عیاش' فضول خرچ، آوارہ گرد نہ ہو' صادق اور امین ہو اور ان دونوں حوالوں سے کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو۔
شق G میں کہا گیا ہے ۔ '' قیام پاکستان کے بعد اس نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آخر میں یہ وضاحت ہے کہ ذیلی شق ڈی اور ای کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہو گا تاہم کسی غیر مسلم امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی اخلاقی ساکھ کا حامل ہو۔
اگلا آرٹیکل63 ہے، اس کی ذیلی دفعات اور جزیات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا' یہ خاصی طویل' پیچیدہ اور مشکل ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی سیاسی شخصیت تو کیا، دینی علم رکھنے والے بھی کسی نہ کسی شق کی زد میں آ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریٹرننگ افسروں کی مہربانی ہے کہ انھوں نے ایک دو سوال پوچھ کر امیدواروں کی جان چھوڑ دی ورنہ سارے ہی ٹکٹکی پر بندھے نظر آتے۔
ضیاء الحق کو ایسے قوانین کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ضیاء الحق 1986میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اس کے بعد یہی سیاسی جماعیتں اور شخصیات اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں جو آج خود کو جمہوریت کا علمبردار کہلاتی ہیں۔ دور کیوں جائیں، چند روز پہلے ہی حقیقی جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے، اس حکومت نے آئین میں بہت سی ترامیم کیں، ایک صوبے کو اس کی شناخت دینے کا دعویٰ بھی سینے پر ہاتھ مار کیا جاتاہے لیکن یہ آرٹیکلز بدستور آئین کا حصہ ہیں۔ رضا ربانی، فاروق نائیک یا کسی اور لبرل قانون دان نے ان آرٹیکلز میں تبدیلی کا نہ سوچا۔ صوبوں کو تو خود مختاری دے دی گئی لیکن عوام کو قید سے رہائی دلوانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
یہ تو آئین کے دو آرٹیکلز ہیں' جو بہت اونچی سطح کی قانون سازی کا نتیجہ ہے لیکن اگر روزمرہ کے بعض بظاہر بے ضرر قوانین کو دیکھیں تو طبیعت ''خوش'' ہو جائے گی۔ آوارہ گردی ایکٹ ابھی تک رائج ہے۔ فحاشی' فحش حرکات یا نازیبا حرکات و اشارے پر بھی پولیس پرچہ کاٹ کر ان جرائم کے مرتکب ملزم کو حوالات میں بند کر دیتی ہے۔ یہ ایسے جرائم یا حرکات ہیں' جو رات کے اندھیرے میں ہوں' چار دیواری میں ہوں یا کسی پبلک مقام پر سب جگہ قابل دست اندازی پولیس ہیں' حتیٰ کہ رقص جسے پولیس کی زبان میں مجرا کہا جاتا ہے' وہ بھی جرم ہے حالانکہ مجرا رقص کی ایک قسم ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر قسم کے رقص کو مجرا کہا جاتا ہے اور مجرا کرنے، اسے دیکھنے اور سننے والے دونوں مجرم کہلاتے ہیں۔
آپ نے اکثر اخبارات میں اس قسم کی خبر پڑھی ہو گی، پولیس کا مجرے کی محفل پر چھاپہ' تین رقاصائیں اور 15 تماشبین گرفتار' شراب کی بوتلیں اور نقدی برآمد' مقدمہ درج' ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا''۔ ایک اورجرم بھی آپ کو بتاتا چلوں۔ ارادہ ڈکیتی۔ اگر آپ اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ کسی جگہ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں، کسی مخبر کی اطلاع پر پولیس اچانک چھاپہ مار کر سب کو گرفتار کر سکتی ہے اور کوئی جرم ہو نہ ہو، پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے ارادہ ڈکیتی کا پرچہ درج کردیں گے۔اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا سات برس قید ہے۔
چند ماہ قبل جب طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، تب انھوں نے چند انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا' ان میں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عملدرآمد کی شرط بھی تھی۔ حکومتی ٹیم نے انھیں پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی' اس وقت ہی یہ اشارہ مل گیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے' اب حکمران پیپلز پارٹی کی بیچارگی یا بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اس کے دو وزیر اعظم نااہل ہو چکے ہیں' پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر امتیاز صفدر وڑائچ اپنے کاغذات نامزدگی مسترد کرا کے الیکشن ٹریبونل کے رحم و کرم پر ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پر الزامات لگ رہے ہیں۔
سیاستدان اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہے ہیں اور زیادتی کا واویلا کر رہے ہیں لیکن نگراں بڑے مزے سے بیٹھے ہیں اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں' پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ نے میاں شہباز شریف کے دور کی انتظامیہ کو تبدیل کر دیا ہے' یوں ن لیگ کے مخالفوں کا ایک مطالبہ پورا ہو گیا، اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں دھاندلی کر کے ہرایا گیا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ملتان میں جو کمشنر تعینات کیا گیا ہے' وہ یوسف رضا گیلانی کی مرضی سے کیا گیا ہے جب کہ گجرات میں چوہدریوںکا افسر ہو گا' اب پیپلز پارٹی' تحریک انصاف اور ق لیگ مطمئن ہو گئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری افسر کسی کا حامی نہیں ہوتا' وہ آنے والے طوفان کا خطرہ بہت پہلے محسوس کر لیتا ہے' اس نے چڑھتے سورج کی پوجا کرنی ہوتی ہے' غروب ہوتے ہوئے سورج کو صرف الوداع کیا جاتا ہے' جن کا سورج غروب ہو چکا ہے' وہ بیورو کریسی سے کوئی توقع نہ رکھیں۔ الیکشن جیسے تیسے ہو جانے ہیں، آج جو امیدوار ذلیل ہو رہے ہیں، انھی میں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔ عوام کی رہنمائی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ منتخب ہو کر عہدے یا مراعات لی جائیں، اصل کام یہ ہے کہ جن قوانین کے باعث وہ خود پریشان یا رسوا ہوئے ہیں، کم ازکم ان میں ہی تبدیلی لے آئیں، اگر یہ نہیں کرنا تو پھر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ جو کچھ کرتی ہے، وہ درست ہے۔
اس میں سات آٹھ ذیلی شقیں ہیں۔ میں تین چار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس آرٹیکل کی شق 1 کی ذیلی دفعہ ڈی میں قومی اسمبلی کے رکن کی اہلیت کا معیار کچھ یوں ہے۔ ''وہ اچھے کردار کا مالک ہو' اسے عموماً اس حوالے سے نہ جانا جاتا ہو کہ وہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس کے بعد ذیلی شق ای میں لکھا ہے' ''اسے اسلام کی تعلیمات اور روایات کا علم ہو اور اسلام کے بیان کردہ لازمی فرائض کا علم ہو' اس کے ساتھ ساتھ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہوا ہو۔
ذیلی شق ایف میں بھی کچھ شرائط یا اوصاف درج ہیں۔ ''وہ ذہین' نیکوکار ہو' عیاش' فضول خرچ، آوارہ گرد نہ ہو' صادق اور امین ہو اور ان دونوں حوالوں سے کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو۔
شق G میں کہا گیا ہے ۔ '' قیام پاکستان کے بعد اس نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آخر میں یہ وضاحت ہے کہ ذیلی شق ڈی اور ای کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہو گا تاہم کسی غیر مسلم امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی اخلاقی ساکھ کا حامل ہو۔
اگلا آرٹیکل63 ہے، اس کی ذیلی دفعات اور جزیات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا' یہ خاصی طویل' پیچیدہ اور مشکل ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی سیاسی شخصیت تو کیا، دینی علم رکھنے والے بھی کسی نہ کسی شق کی زد میں آ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریٹرننگ افسروں کی مہربانی ہے کہ انھوں نے ایک دو سوال پوچھ کر امیدواروں کی جان چھوڑ دی ورنہ سارے ہی ٹکٹکی پر بندھے نظر آتے۔
ضیاء الحق کو ایسے قوانین کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ضیاء الحق 1986میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اس کے بعد یہی سیاسی جماعیتں اور شخصیات اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں جو آج خود کو جمہوریت کا علمبردار کہلاتی ہیں۔ دور کیوں جائیں، چند روز پہلے ہی حقیقی جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے، اس حکومت نے آئین میں بہت سی ترامیم کیں، ایک صوبے کو اس کی شناخت دینے کا دعویٰ بھی سینے پر ہاتھ مار کیا جاتاہے لیکن یہ آرٹیکلز بدستور آئین کا حصہ ہیں۔ رضا ربانی، فاروق نائیک یا کسی اور لبرل قانون دان نے ان آرٹیکلز میں تبدیلی کا نہ سوچا۔ صوبوں کو تو خود مختاری دے دی گئی لیکن عوام کو قید سے رہائی دلوانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
یہ تو آئین کے دو آرٹیکلز ہیں' جو بہت اونچی سطح کی قانون سازی کا نتیجہ ہے لیکن اگر روزمرہ کے بعض بظاہر بے ضرر قوانین کو دیکھیں تو طبیعت ''خوش'' ہو جائے گی۔ آوارہ گردی ایکٹ ابھی تک رائج ہے۔ فحاشی' فحش حرکات یا نازیبا حرکات و اشارے پر بھی پولیس پرچہ کاٹ کر ان جرائم کے مرتکب ملزم کو حوالات میں بند کر دیتی ہے۔ یہ ایسے جرائم یا حرکات ہیں' جو رات کے اندھیرے میں ہوں' چار دیواری میں ہوں یا کسی پبلک مقام پر سب جگہ قابل دست اندازی پولیس ہیں' حتیٰ کہ رقص جسے پولیس کی زبان میں مجرا کہا جاتا ہے' وہ بھی جرم ہے حالانکہ مجرا رقص کی ایک قسم ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر قسم کے رقص کو مجرا کہا جاتا ہے اور مجرا کرنے، اسے دیکھنے اور سننے والے دونوں مجرم کہلاتے ہیں۔
آپ نے اکثر اخبارات میں اس قسم کی خبر پڑھی ہو گی، پولیس کا مجرے کی محفل پر چھاپہ' تین رقاصائیں اور 15 تماشبین گرفتار' شراب کی بوتلیں اور نقدی برآمد' مقدمہ درج' ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا''۔ ایک اورجرم بھی آپ کو بتاتا چلوں۔ ارادہ ڈکیتی۔ اگر آپ اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ کسی جگہ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں، کسی مخبر کی اطلاع پر پولیس اچانک چھاپہ مار کر سب کو گرفتار کر سکتی ہے اور کوئی جرم ہو نہ ہو، پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے ارادہ ڈکیتی کا پرچہ درج کردیں گے۔اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا سات برس قید ہے۔
چند ماہ قبل جب طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، تب انھوں نے چند انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا' ان میں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عملدرآمد کی شرط بھی تھی۔ حکومتی ٹیم نے انھیں پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی' اس وقت ہی یہ اشارہ مل گیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے' اب حکمران پیپلز پارٹی کی بیچارگی یا بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اس کے دو وزیر اعظم نااہل ہو چکے ہیں' پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر امتیاز صفدر وڑائچ اپنے کاغذات نامزدگی مسترد کرا کے الیکشن ٹریبونل کے رحم و کرم پر ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پر الزامات لگ رہے ہیں۔
سیاستدان اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہے ہیں اور زیادتی کا واویلا کر رہے ہیں لیکن نگراں بڑے مزے سے بیٹھے ہیں اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں' پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ نے میاں شہباز شریف کے دور کی انتظامیہ کو تبدیل کر دیا ہے' یوں ن لیگ کے مخالفوں کا ایک مطالبہ پورا ہو گیا، اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں دھاندلی کر کے ہرایا گیا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ملتان میں جو کمشنر تعینات کیا گیا ہے' وہ یوسف رضا گیلانی کی مرضی سے کیا گیا ہے جب کہ گجرات میں چوہدریوںکا افسر ہو گا' اب پیپلز پارٹی' تحریک انصاف اور ق لیگ مطمئن ہو گئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری افسر کسی کا حامی نہیں ہوتا' وہ آنے والے طوفان کا خطرہ بہت پہلے محسوس کر لیتا ہے' اس نے چڑھتے سورج کی پوجا کرنی ہوتی ہے' غروب ہوتے ہوئے سورج کو صرف الوداع کیا جاتا ہے' جن کا سورج غروب ہو چکا ہے' وہ بیورو کریسی سے کوئی توقع نہ رکھیں۔ الیکشن جیسے تیسے ہو جانے ہیں، آج جو امیدوار ذلیل ہو رہے ہیں، انھی میں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے۔ عوام کی رہنمائی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ منتخب ہو کر عہدے یا مراعات لی جائیں، اصل کام یہ ہے کہ جن قوانین کے باعث وہ خود پریشان یا رسوا ہوئے ہیں، کم ازکم ان میں ہی تبدیلی لے آئیں، اگر یہ نہیں کرنا تو پھر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ جو کچھ کرتی ہے، وہ درست ہے۔