انتخابات میں غیر ملکی مداخلت ہوسکتی ہے

ہمیں اُن غیر ملکی قوتوں اور عناصر کو پیشِ نگاہ رکھنا ہوگا جو پُرامن انتخابات کے بھی دشمن ہیں.

tanveer.qaisar@express.com.pk

کائونٹ ڈائون شروع ہوچکا ہے۔ہرطلوع ہوتا ہوا آفتاب انتخابات کو قریب سے قریب تر لانے کا باعث بن رہا ہے۔ 11مئی کے لیے ہی تودن گنے جاتے تھے۔خصوصاً وہ سیاسی جماعتیں،ازقسم جماعتِ اسلامی اور پاکستان تحریکِ انصاف، جنہوں نے 2008کے عام انتخابات میں بوجوہ حصہ نہیں لیاتھا،اِس بار زیادہ تیاری میں ہیں اور پُرجوش بھی۔ جماعتِ اسلامی کی اعلیٰ قیادت 2008 تا 2013 پچھتاتی ہی رہی کہ انتخابات میں حصہ کیوں نہ لیاگیا۔

ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کے منتخب ارکان بھی گزشتہ اسمبلی کا حصہ بنتے تو بہت مناسب کردار ادا کرسکتے تھے۔اِس بار وہ انتخابی دنگل سے دور رہنے کا رِسک لے رہے ہیں نہ لے سکتے ہیں،چنانچہ ہم اسلام آباد میں جماعتِ اسلامی کے ممتاز سیاستدان میاں محمد اسلم صاحب اور پی ٹی آئی کے الیاس مہربان واسرار شاہ صاحبان کی صورت میں ،پورے ملک میں جماعتِ اسلامی اورتحریکِ انصاف کے اجتماعی تحرک کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

گیارہ مئی2013 کو انشاء اللہ ملک بھر میں انتخابات کا بھرپور یُدھ پڑے گا لیکن اِس سلسلے میں کئی خطرات وخدشات اور وسوسوں کا بھی سامنا ہے۔ خصوصی طور پر ہمیں اُن غیر ملکی قوتوں اور عناصر کو پیشِ نگاہ رکھنا ہوگا جو پُرامن انتخابات کے بھی دشمن ہیں اور جو مملکتِ خداداد کو یک جہت ویک جا بھی دیکھنا نہیں چاہتے ۔لاریب جمہوریت،جمہوری عمل اور انتخابات ملک میں رواداری کے فروغ اور ملک کو یک جہت ویکجا رکھنے میں نہایت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ہم نے جب جب اِس حقیقت سے رُوگردانی کی، جب بھی اس حقیقت سے انحراف کیا اور جمہوریت کی جگہ کسی اور نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کی،ہمیں منہ کی کھاناپڑی۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جمہوری عمل جتنا حساس اور مفید ہے،اُسی تناسب سے اِس میں یہ بھی گنجائش پائی جاتی ہے کہ بعض ملک دشمن عناصر کوآسانی کے ساتھ نقب لگانے کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔دوستی اور ملاقاتوں کے نام پر اپنے اپنے عزائم کا تکملہ کیاجاتا ہے۔ہمارے منتظمین کوانتخابات کے دوران اُن شریراور شرانگیزقوتوں کو بھی آگے بڑھنے سے روکنا ہوگا جنہوں نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران ملک بھر میں پچاس ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔اِس قیامت کا بے گناہ سویلین بھی شکار بنے اور ملک کی حفاظت پر مامورہمارے جوان اور افسر بھی لقمہء اجل بنادیے گئے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی بڑے قاتل،گروہ اور تنظیم کو قرارواقعی سزا نہ دی جاسکی۔

اِس کے لیے نہ تو عدلیہ کو دوش دیاجاسکتا ہے اور نہ ہی انتظامیہ کو نااہلی کا طعنہ دے کر موردِالزام ٹھہرایاجاسکتا ہے۔اِس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہمارا نظریاتی اورملک دشمن عنصر ہمارے سماج کے اندر پوری طرح رچ بس گیاہے۔ہمارے سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے اِس کی تلاش میں بہت جان بھی ماری ہے، کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن خاطر خواہ فساد انگیزہدف کو جڑ سے اُکھاڑا نہ جاسکا۔عام انتخابات کے دوران اِن مفسد عناصر سے محفوظ رہنے کے لیے بلاشبہ بہت محنت اور کڑی نظر درکار ہوگی۔

بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین جناب بلاول بھٹوزرداری ابھی تک اِس لیے بھی کسی بڑے انتخابی جلسے سے خطاب نہیں کرسکے کہ اُنہیں غیر ممالک سے اشیر واد حاصل کرنے والے اِن عناصر سے شدید خطرہ ہے۔اُن کے والدگرامی،جو سربراہِ مملکت بھی ہیں،بھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ بلاول کی ہرجگہ رونمائی سے پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک اور کامیاب نشستوں میں زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔


جُوںجُوں انتخابات کا دن قریب آرہا ہے،تُوںتُوں بعض غیر ملکی سفارت کار زیادہ ''تندہی'' کے ساتھ وطنِ عزیز کے بعض اہم سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے نمایاں افراد سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔خصوصاً مغربی ممالک کے سفیروں کی ''کاوشیں'' اِس سلسلے میں حد سے بڑی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔محبِ وطن پاکستانی اور ملکی سلامتی کے ضامن ادارے اِن ملاقاتوں کو بجاطورپر تشویش کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ہمارے بعض سیاستدان خود بھی اِن غیر ملکی مغربی سفارت کاروں سے رابطوں میں ہیں۔اِسے کسی بھی رُخ سے مستحسن اقدام قرارنہیں دیاجاسکتا۔

یہ ملاقاتیں یاتو سفیروں اور قونصل جنرلوں کی رہائش گاہوں میں ہورہی ہیں یا کسی پنج ستارہ ہوٹل کے کسی پُرسکون گوشے میں یا پھر اسلام آباد کے ایک سیکٹر میں واقع جدید کیفوں میں۔لوگوں کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے کبھی کبھار اِن ملاقاتوں میں متعلقہ ملک کے پریس قونصلر بھی شامل کرلیے جاتے ہیں تاکہ نگاہ رکھنے والوں کو یہ بتایاجاسکے کہ یہ تو محض سیاست وصحافت کے موضوع پر گپ شپ کی جارہی ہے۔مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ اِس سلسلے میں دوممالک زیادہ متحرک ہیں اور انتخابات کے انعقاد سے قبل یہ دونوں ممالک زیادہ سے زیادہ اہداف حاصل کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ نئی حکومت بننے اور ''بنانے'' میںبھی اُنہیں اپنا لُچ تلنے میں آسانیاں رہیں۔

اِس میں بھلا کیا شک ہے کہ بعدازاں یہی ملاقاتیں اور گپ شپ حکومتوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔دوسرے الفاظ میں اِسے ہی تو ''ملک کے اندر غیر ملکی مداخلت'' کا نام دیاجاتا ہے۔تو کیا اِس قباحت سے بچنے اور مستقبل میں شکوہ کرنے سے بہتر نہیں ہے کہ ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل کم از کم اِن غیر ملکی سفارت کاروں کو ملنے سے اجتناب کریں؟طرفہ تماشا یہ ہے کہ مبینہ طور پر بعض سیاستدان اپنے گھروں میں اِن مغربی سفارت کاروں کو بلارہے ہیں۔کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ شوق اپنے باطن میں کس قدر ہلاکت خیز ہے؟

یہ محض افواہیں نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ انتخابات کی آمد آمد کے موقع پر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں بروئے کار ایک طاقتور ملک کے قونصل خانے کا پولیٹیکل قونصلر اور خود قونصل جنرل زیادہ کھلے ڈُلے ''انداز'' میں مختلف سیاست دانوں سے ''بامقصد'' ملاقاتیں کررہے ہیں۔متعلقہ لوگوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اِن ملاقاتوں سے گریز کیاجائے کہ یہ ملاقاتیں فی الحقیقت شکوک وشبہات کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہیں۔یہ بات اب راز نہیں رہی کہ 23فروری2013 کو ایک معروف مغربی ملک کے سفارت کاروں کا ایک وفد اسلام آباد سے لاہور گیا اور اُس نے بغیرکسی جھجک کے ایک مذہبی جماعت کے تین اہم افراد،پیپلزپارٹی کی دو نمایاں شخصیات ،ایک معروف قانون دان، مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) کے دو مرکزی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔جنابِ عالی ،میل جول میں کوئی حرج ہے نہ گناہ اور نہ ہی یہ آدابِ سفارت کاری کے منافی عمل ہے لیکن اِن خصوصی ملاقاتوں کا ایجنڈا کیاتھا،قوم تو بس یہ جاننا چاہتی ہے۔

پاکستان کو جن غیر ملکی قوتوں نے گزشتہ 33برس سے (پہلے افغانستان میں سوویت یونین کی اور پھرافغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد)اپنی جولانگاہ بنارکھا ہے(اِن میں بعض اسلامی ممالک کا نام بھی آتا ہے)وہ گیارہ مئی کے انتخابات میں اپنی من پسند مداخلت سے بازنہیں آئیں گی۔اِس حوالے سے بلوچستان خصوصی ہدف بن سکتا ہے۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا ناطقہ بند کرنے اور اِسے اپنے ڈھب پر لانے کے لیے بلوچستان میں مسلسل غیر ملکی مداخلتیں ہورہی ہیں۔اِس سلسلے میں بھارت ،افغانستان اور امریکا کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔بلوچستان میں ممکنہ امریکی مداخلت کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن اپنے ایک انٹرویومیں ہمیں پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں،چنانچہ اطلاعاً عرض ہے کہ بلوچستان میں انتخابات کے سلسلے میں غیر ملکی مداخلت کے امکانات زیادہ قوی ہیں۔

اِسے بعدازاں کوئی بھی نام دیاجاسکے گا،چنانچہ ضروری ہے کہ ہماری فیصلہ ساز قوتیں اور ادارے بلوچستان کو اپنے دل سے لگاکررکھیں اور وہ تمام بلوچ سیاسی جماعتیں جو گیارہ مئی2013کے انتخابات میں حصہ لینے کا واضح عندیہ دے چکی ہیں،اُنہیں آزادی کے ساتھ اِس جمہوری عمل میں اپنا کردار ادا کرنے دیاجائے۔ہماری یہ بھی گزارش ہے کہ انتخابات کے دوران بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ڈیرہ بگٹی، قلات، تربت، خضدار، پنجگور، کوہلو، مکران اور گوادر کے حساس علاقوں پر خصوصی نگاہ رکھی جائے۔اِس ضمن میں جاوید مینگل،براہمداغ بگٹی، ڈاکٹراللہ نذراور ڈاکٹرمالک ، اُن کے وابستگان اور ان کے مبینہ سرپرستوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

نوٹ:شنید ہے کہ یورپی یونین سے پاکستان میں انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے ایک سودس آبزرورز تشریف لارہے ہیں۔ اِن کے سربراہ کا نام مائیکل گاہلرہے۔آٹھ اپریل2013 کو مائیکل صاحب نے اعلان کیا کہ اِن ایک سودس آبزرورز میں سے ایک شخص بھی بلوچستان میں انتخابات کا جائزہ لینے نہیں جائے گا کیونکہ ''وہاں سیکیورٹی کے معاملات خاصے پریشان کن ہیں۔'' حکومتِ پاکستان کو اِس پر بات کرنا چاہیے اور مائیکل گاہلر کو یقین دلانا چاہیے کہ ہم تمہاری سیکیورٹی کے ذمے دار ہیں۔
Load Next Story