انتخابات کا انعقاد خدشات کی زد میں…
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ بہرحال کچھ بہتری کی امید ہے۔
انتخابات 2013 کی تیاریاں اپنے جوبن پر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں نے ایک دوسرے کے اشتراک سے عام انتخابات صاف و شفاف اور منصفانہ کرانے کا عزم کر لیا ہے، فوج بھی پشت پر کھڑی ہے۔ ہر روز الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ یا ہدایت کی شکل میں حکم نامہ سامنے آ رہا ہے جو انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے ضروری تصور کیا جاتا ہے اور جس کی تائید و حمایت اسے سپریم کورٹ سے حاصل ہوتی ہے۔
جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کے حامل سابق ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات اور سزائوں نے عوامی نمایندوں کا پول کھول دیا ہے۔ ریٹرننگ افسروں کے سوالات سے پریشان اور دین کے بنیادی علوم سے نابلد امیدوار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ سیکولر طبقے 'غیر ضروری' سوالات پر سیخ پا ہیں اور ان کی تنقید کا رخ ریٹرننگ افسروں کی جانب مڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی فرض شناسی اور مستعدی کے باعث اب قوم کو کسی قدر امید ہو چلی ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے نتائج ماضی سے مختلف ہوں گے۔
گزشتہ 60 برسوں میں احتساب کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا، ہر مرتبہ انتخابی دنگل میں دولت، دھن اور دھونس کا ایسا رواج چلا کہ الیکشن میں شریفوں اور دیانت داروں کا جیتنا مشکل رہا اور دولت و دھونس رکھنے والے بآسانی ایوانوں میں پہنچتے رہے۔ سابقہ انتخابات میں دھاندلی کے وہ ریکارڈ قائم ہوئے جن کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی اور عوام کی ایک بڑی تعداد کا انتخابی نظام سے اعتماد اٹھ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی مجموعی شرح 25 فی صد سے بھی کم ہو گئی تھی۔
اس دفعہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں، عوام پہلی مرتبہ اتنی آزاد اور بے باک عدالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس نے قانون و انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے سابق جنرل سے لے کر منتخب حکومت تک کے آگے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ خوش قسمتی سے ملک کو الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی غیر جانب دار ملا۔ جب کہ فوج بھی انتخابات کے صاف و شفاف اور پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس مرتبہ الیکشن کم از کم جھرلو نہیں ہوں گے اور نہ ہی دھونس و دھن کے ذریعے نتائج پر سابقہ ادوار کی طرح اثر انداز ہونا آسان ہو گا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ بہرحال کچھ بہتری کی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد جو انتخابی عمل سے مایوس ہو کر لاتعلق ہو گئی تھی وہ دوبارہ انتخابی عمل میں شامل ہو رہی ہے۔
سردست اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے جو انتخابات کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا نظر آ رہا ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال کے باعث کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ امیدواروں میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے جب کہ جلسوں کی سیکیورٹی اور ان کا تحفظ نگراں حکومت کی ذمے داری ہے۔ انتظامیہ تاحال امن و امان قائم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ خصوصاً کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ سپریم کورٹ کراچی میں قیام امن کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔
کراچی میں نو گو ایریاز کے خاتمے کے لیے مزید 7 روز کی مہلت کے اگلے ہی روز پولیس نے شہر میں 42 نو گو ایریاز کی موجودگی کا اعتراف کر لیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو امن کے لیے ایک بار پھر 7 روز کی مہلت دیتے ہوئے ٹھوس اقدامات کا حکم دیا۔ مولانا اورنگزیب فاروقی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے 400 کے قریب اہلسنت شہداء اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا ذکر کیا جب کہ حکومت کی جانب سے معاوضہ بھی نہیں دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ امن و امان کے قیام، شہریوں کو انصاف، مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دلانے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
ان حالات میں جب انتخابی مہم زوروں پر ہے، ہر فرد اس بات کا متمنی ہے کہ نئی قیادت ایسی ہو جس کے اقتدار میں آنے کے بعد قیامِ امن کا پرچم لہرایا جائے۔ لوٹ مار، قتل و غارت کا سلسلہ تھم جائے۔ اگر ہم اپنے دین کی بات کریں تو اسلام دین فطرت ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک ایسا معاشرہ عطا کرنا چاہتا ہے جہاں ہر شخص کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو۔ ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ سنہرے ادوار ہمیں امن کی یاد دلاتے ہیں جب اسلامی معاشرہ امن و آشتی، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ مسلم خلیفہ کے جھنڈے تلے ملک کا ہر فرد پرسکون اور مطمئن تھا۔ لیکن آج ہمارا ملک جس کے حصول کا مقصد لا الہ الا اللہ تھا اس اسلامی معاشرے کے بالکل مخالف تصویر پیش کرتا ہے۔
موجودہ نام نہاد جمہوری اور سیکولر نظام نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جمہوریت کے پلیٹ فارم سے تمغہ قیادت حاصل کرنے والے وزراء، غریبوں کی کمائی پر عیش کرنے والے بد عنوان حکمران سرزمین کو سوائے ظلم ، مہنگائی، غربت اور بدامنی کے کچھ بھی نہ دے سکے۔ مساوات محمدی کا درس تو تب ہی بھلا دیا گیا تھا جب اس سیکولر نظام نے پنجے گاڑے تھے۔ یہ جمہوری نظام کا ہی تحفہ ہے جو آج اس ملک کا ہر باشندہ پریشان ہے اور اسے اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
الغرض اگر ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ شرعی نظام کا نفاذ یقینی بنایا جائے، شرعی حدود کی پاسداری کی جائے۔ قرآن و سنت سے متصادم قوانین ختم کیے جائیں اور یہ بات راقم نہیں، ہمارا آئین کہتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم تبدیلی لانے کے لیے اپنی سی کوشش تو کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں عام انتخابات میں ہم اپنا ووٹ اس شخص کو دیں جس میں دیگر امیدواروں کی بہ نسبت برائیاں کم ہوں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ووٹ کے ذریعے قیادت ان افراد کے سپرد کی جائے جن کی وفا داریاں کسی غیر ملک اور بیرونی آقائوں کی بجائے اس سرزمین کے ساتھ وابستہ ہوں جو ملک میں شریعت کے روشن اصولوں کو رائج کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوں کیوں کہ اسلامی نظام ہی تمام مسائل کا حل ہے۔
جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کے حامل سابق ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات اور سزائوں نے عوامی نمایندوں کا پول کھول دیا ہے۔ ریٹرننگ افسروں کے سوالات سے پریشان اور دین کے بنیادی علوم سے نابلد امیدوار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ سیکولر طبقے 'غیر ضروری' سوالات پر سیخ پا ہیں اور ان کی تنقید کا رخ ریٹرننگ افسروں کی جانب مڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی فرض شناسی اور مستعدی کے باعث اب قوم کو کسی قدر امید ہو چلی ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے نتائج ماضی سے مختلف ہوں گے۔
گزشتہ 60 برسوں میں احتساب کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا، ہر مرتبہ انتخابی دنگل میں دولت، دھن اور دھونس کا ایسا رواج چلا کہ الیکشن میں شریفوں اور دیانت داروں کا جیتنا مشکل رہا اور دولت و دھونس رکھنے والے بآسانی ایوانوں میں پہنچتے رہے۔ سابقہ انتخابات میں دھاندلی کے وہ ریکارڈ قائم ہوئے جن کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی اور عوام کی ایک بڑی تعداد کا انتخابی نظام سے اعتماد اٹھ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی مجموعی شرح 25 فی صد سے بھی کم ہو گئی تھی۔
اس دفعہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں، عوام پہلی مرتبہ اتنی آزاد اور بے باک عدالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس نے قانون و انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے سابق جنرل سے لے کر منتخب حکومت تک کے آگے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ خوش قسمتی سے ملک کو الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی غیر جانب دار ملا۔ جب کہ فوج بھی انتخابات کے صاف و شفاف اور پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس مرتبہ الیکشن کم از کم جھرلو نہیں ہوں گے اور نہ ہی دھونس و دھن کے ذریعے نتائج پر سابقہ ادوار کی طرح اثر انداز ہونا آسان ہو گا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ بہرحال کچھ بہتری کی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد جو انتخابی عمل سے مایوس ہو کر لاتعلق ہو گئی تھی وہ دوبارہ انتخابی عمل میں شامل ہو رہی ہے۔
سردست اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے جو انتخابات کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا نظر آ رہا ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال کے باعث کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ امیدواروں میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے جب کہ جلسوں کی سیکیورٹی اور ان کا تحفظ نگراں حکومت کی ذمے داری ہے۔ انتظامیہ تاحال امن و امان قائم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ خصوصاً کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ سپریم کورٹ کراچی میں قیام امن کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔
کراچی میں نو گو ایریاز کے خاتمے کے لیے مزید 7 روز کی مہلت کے اگلے ہی روز پولیس نے شہر میں 42 نو گو ایریاز کی موجودگی کا اعتراف کر لیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو امن کے لیے ایک بار پھر 7 روز کی مہلت دیتے ہوئے ٹھوس اقدامات کا حکم دیا۔ مولانا اورنگزیب فاروقی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے 400 کے قریب اہلسنت شہداء اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا ذکر کیا جب کہ حکومت کی جانب سے معاوضہ بھی نہیں دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ امن و امان کے قیام، شہریوں کو انصاف، مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دلانے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
ان حالات میں جب انتخابی مہم زوروں پر ہے، ہر فرد اس بات کا متمنی ہے کہ نئی قیادت ایسی ہو جس کے اقتدار میں آنے کے بعد قیامِ امن کا پرچم لہرایا جائے۔ لوٹ مار، قتل و غارت کا سلسلہ تھم جائے۔ اگر ہم اپنے دین کی بات کریں تو اسلام دین فطرت ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک ایسا معاشرہ عطا کرنا چاہتا ہے جہاں ہر شخص کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو۔ ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ سنہرے ادوار ہمیں امن کی یاد دلاتے ہیں جب اسلامی معاشرہ امن و آشتی، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ مسلم خلیفہ کے جھنڈے تلے ملک کا ہر فرد پرسکون اور مطمئن تھا۔ لیکن آج ہمارا ملک جس کے حصول کا مقصد لا الہ الا اللہ تھا اس اسلامی معاشرے کے بالکل مخالف تصویر پیش کرتا ہے۔
موجودہ نام نہاد جمہوری اور سیکولر نظام نے وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جمہوریت کے پلیٹ فارم سے تمغہ قیادت حاصل کرنے والے وزراء، غریبوں کی کمائی پر عیش کرنے والے بد عنوان حکمران سرزمین کو سوائے ظلم ، مہنگائی، غربت اور بدامنی کے کچھ بھی نہ دے سکے۔ مساوات محمدی کا درس تو تب ہی بھلا دیا گیا تھا جب اس سیکولر نظام نے پنجے گاڑے تھے۔ یہ جمہوری نظام کا ہی تحفہ ہے جو آج اس ملک کا ہر باشندہ پریشان ہے اور اسے اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
الغرض اگر ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ شرعی نظام کا نفاذ یقینی بنایا جائے، شرعی حدود کی پاسداری کی جائے۔ قرآن و سنت سے متصادم قوانین ختم کیے جائیں اور یہ بات راقم نہیں، ہمارا آئین کہتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم تبدیلی لانے کے لیے اپنی سی کوشش تو کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں عام انتخابات میں ہم اپنا ووٹ اس شخص کو دیں جس میں دیگر امیدواروں کی بہ نسبت برائیاں کم ہوں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ووٹ کے ذریعے قیادت ان افراد کے سپرد کی جائے جن کی وفا داریاں کسی غیر ملک اور بیرونی آقائوں کی بجائے اس سرزمین کے ساتھ وابستہ ہوں جو ملک میں شریعت کے روشن اصولوں کو رائج کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوں کیوں کہ اسلامی نظام ہی تمام مسائل کا حل ہے۔