مجھے کیا برا تھا مرنا اگر اک بار ہوتا
بیمار ہونے پر ہمیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ بے شک اس کی قدروقیمت کا اندازہ بیمار ہونے پر ہوتا ہے۔
QUETTA:
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ سے سوال کرتے ہوئے پوچھا ''یا باری تعالیٰ اگر کوئی بندہ آپ سے دنیا کی ساری نعمتوں میں سے صرف ایک کا انتخاب کرکے مانگے تو کیا دعا کرنی چاہیے،، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''صحت''۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے تندرستی ہے۔ اگر کسی کے پاس دنیا کی ساری نعمتیں موجود ہوں مگر صحت نہ ہو تو سب چیزیں اس کے لیے بے کار ثابت ہوں گی۔
بیمار ہونے پر ہمیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ بے شک اس کی قدروقیمت کا اندازہ بیمار ہونے پر ہوتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائیں، شفایابی کے لیے ہم ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، لمبی لمبی قطاروں میں بے بسی سے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، اس وقت ہم پورے طور پر ڈاکٹروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
آپ کسی بھی پرائیوٹ اسپتال چلے جائیں، ہمارے مسیحا آپ کو کسی بلیک میلر سے کم نظر نہیں آئیں گے، مہنگے ٹیسٹ، دوائیں و انجکشن اور اسپتال میں ایڈمٹ ہونے پر لمبے چوڑے خرچے سے آپ نہیں بچ سکتے۔ اگر کسی طرح ان کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو وہ صرف ایک جملے سے قابو کرنے کا گر جانتے ہیں، صاحب مریض کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے، ہم نے تو بالکل ٹھیک تشخیص کی ہے، آگے آپ کی مرضی، کل کو کچھ ہوگیا تو ہماری ذمے داری نہیں ہوگی۔
بس جناب! اب آپ کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ آپ بے چارگی کے عالم میں اﷲ سے امید لگائے ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اب یہ مریض کی قسمت ہے کہ تشخیص اور علاج اسے راس آجائے ورنہ اس کے لیے بھی ڈاکٹروں کے پاس مضبوط توجیہات موجود ہوتی ہیں۔ ہم نے تو پوری کوشش کی مگر جو اوپر والے کو منظور تھا، ہم بے بس ہیں، صبر کریں۔
علی عباس کی کتاب روایت تمدن قدیم میں درج ہے کہ بابلی تہذیب میں جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کے اقربا اسے لے جا کر شہر کے چوک پر لٹا دیتے۔ رہگزر سے گزرنے والے لوگ مزاج پرسی کرتے، انھی میں کوئی ایسے بھی نکل آتے جو خود اس مرض میں مبتلا رہ چکے ہوتے، وہ مریض کی کیفیت بھانپ جاتے، چنانچہ وہ مریض کو علاج بتاتے اور مریض شفایاب ہوجاتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے ہم آج بھی اسی تمدنی دور سے گزر رہے ہیں، خاص کر ایک عام آدمی جس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ جب بیمار ہو تو کسی اسپتال میں لاوارثوں کی طرح جمع ہوجائے، عزیز و اقارب اس کی عیادت کو آئیں تو ساتھ اپنا کوئی ذاتی نسخہ بھی دے جائیں۔
مریض اس پر عمل کرکے اگر خوش قسمتی سے شفایاب ہوجائے تو ٹھیک، ورنہ کسی اور ٹوٹکے کا انتظار کرے۔ کیونکہ آپ اسپتال میں تو بس اﷲ توکل پر ٹھیک ہوتے ہیں کہ جس قسم کی تشخیص کا چلن اس وقت ہمارے ملک میں ہورہا ہے اکثر ڈاکٹر مریض کے تمام ٹیسٹ لینے کے بعد بھی ٹھیک سے مرض ڈائیگنوس نہیں کرپاتے اور غلط سمت علاج اسٹارٹ کردیتے ہیں اور بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرض تو آپ کو لاحق ہی نہیں تھا، جس کی دوائیں آپ عرصے سے کھا رہے ہیں۔
یہ رجحان ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہی نہیں مرض کیا ہے تو بقول شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی کیفیت ہوگی۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ معالجوں کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قدر مہنگائی میں علاج و معالجہ کروانا ویسے بھی ہم جیسے غریب ملک کے شہریوں کے لیے کسی بار گراں سے کم نہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام سرکاری اور مقامی اسپتالوں میں آنے والے مریض اس بات کو لے کر پریشان نظر آتے ہیں کہ ہم اپنے مریضوں کو کہاں لے جائیں۔
پرائیوٹ اسپتالوں میں بھی طبی سہولتیں ناپید ہیں۔ ڈاکٹرز، دوائیں اور مشینری سمیت تمام عملہ ہماری مدد اور رہنمائی نہیں کرتا۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی کمی ہوتی ہے یا پھر میعاد مدت ختم ہوچکی ہوتی ہے، صفائی کا فقدان ہے، وارڈز میں سخت تعفن ہوتا ہے، آئے دن اسپتالوں کی ہڑتالیں عام سی بات بن گئی ہے۔ کبھی نرسیں، ڈاکٹرز اور کبھی پیرامیڈیکل اسٹاف اپنے مطالبات منوانے کے لیے کام بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔
اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ اس سے آنے والے مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو کس قدر مشکلات ہوتی ہیں۔ یہ وہ بے بس ہوتے ہیں جن کے پاس پرائیوٹ اسپتالوں میں جانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔
افسوس کہ آزادی کے ان ستر سال میں ہم آج تک ایسا کوئی سرکاری اسپتال یا پرائیوٹ ادارہ بھی نہیں بنا سکے جہاں عام آدمی تو کیا ہمارے وزرا اپنا علاج کروا سکیں، یا کم از کم اتنا بھروسہ اسپتالوں کی لیب پر ہی ہو کہ ٹھیک تشخیص کی گئی ہوگی۔ یہ سارے وزراء ہمارے دیے ہوئے ٹیکس کی آمدنی سے باہر کے ممالک کے اسپتالوں میں اپنا اور اپنی فیملی کا علاج کروانے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی بیگم کلثوم نواز باہر علاج کے لیے ایڈمٹ ہیں، ان کے کئی آپریشن ہوچکے مزید ہونے باقی ہیں، پوری قوم کی دعا ہے کہ وہ صحت یاب ہو کر واپس آئیں۔ لیکن بات پھر وہیں رہ جاتی ہے، اس ملک کے بیس کروڑ عوام کے علاج کی سہولتیں کہاں سے دستیاب ہوں گی؟
ہمارے بابا رحمتے جو واقعی اشفاق احمد کے کردار کی تصویر بنے عوام میں آسانیاں بانٹنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں انھوں نے بیک وقت کئی کرپشن محاذ کھولے ہوئے ہیں، اسپتالوں میں ان کی اچانک آمد اور سوموٹو ایکشن سے جہاں اسپتال کا عملہ پشیمان ہوتا ہے وہاں مریض چیف صاحب کو اپنا سچا مسیحا سمجھتے ہیں، ان کے بروقت ایکشن سے ہی مسائل بہتر ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہر معاملے میں چیف صاحب کے سوموٹو کا انتظار کیا جائے۔
کیوں حکومتی نمایندوں کے فرائض بھی چیف جسٹس ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے متعدد بار کئی اسپتالوں کا دورہ کیا، وہاں موجود مریضوں کی شکایت و بدانتظامی پر برہم بھی ہوئے، اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی، طبی آلات و مشینوں کی خرابی اور ڈاکٹروں کی لاپروائی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
یہ وہ کام ہے جنھیں ووٹ سے الیکٹ ہوکر آنے والے نمایندگان کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے، لیکن افسوس پاکستان کی تاریخ میں کبھی اسپتالوں کی صورتحال درست نہیں رہی۔صحت اور تعلیم کے شعبے کی جو دگرگوں حالت ہے' اس سے تمام واقف ہیں۔ اگر حکمران اپنے فرائض کما حقہ پوری کریں تو جو مسائل آج نظر آ رہے ہیں وہ نہ ہوتے۔
حکومتی سربرہان کو چاہیے کہ اداروں پر چیک اینڈبیلنس رکھیں' وقتا فوقتا ان کی کارکردگی چیک کرتے رہیں۔ احتساب کا عمل شفاف بنائیں۔ ان کے اس عمل سے انتظامی اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی اور عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے اور عوام کا حکمرانوں پر اعتماد بھی بڑھے گا۔
سرکاری اسپتالوں کی ناقص کارکردگی ہی کے باعث پرائیویٹ اسپتال بہتر سہولتوں کی فراہمی کے نام پر عوام کا مالی استحصال کر رہے ہیں۔
بے شک صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے، جسے جہان بھر کے خزانے سے بھی بدلا نہیں جاسکتا، لیکن ایک عام آدمی کے پاس نہ تو خزانہ ہے نہ ہی بینک بیلنس ہے، اسے تو بیمار ہونے پر انھی دواخانوں سے شفا کی امید رکھنی ہے۔ مگر صحت تو درکنار وہاں ایک پرسکون موت بھی میسر نہیں۔ کیسی بے بسی ہے میرے ملک میں کہ بقول شاعر
مجھے کیا برا تھا، مرنا اگر اک بار ہوتا
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ سے سوال کرتے ہوئے پوچھا ''یا باری تعالیٰ اگر کوئی بندہ آپ سے دنیا کی ساری نعمتوں میں سے صرف ایک کا انتخاب کرکے مانگے تو کیا دعا کرنی چاہیے،، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''صحت''۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے تندرستی ہے۔ اگر کسی کے پاس دنیا کی ساری نعمتیں موجود ہوں مگر صحت نہ ہو تو سب چیزیں اس کے لیے بے کار ثابت ہوں گی۔
بیمار ہونے پر ہمیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ بے شک اس کی قدروقیمت کا اندازہ بیمار ہونے پر ہوتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائیں، شفایابی کے لیے ہم ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، لمبی لمبی قطاروں میں بے بسی سے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، اس وقت ہم پورے طور پر ڈاکٹروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
آپ کسی بھی پرائیوٹ اسپتال چلے جائیں، ہمارے مسیحا آپ کو کسی بلیک میلر سے کم نظر نہیں آئیں گے، مہنگے ٹیسٹ، دوائیں و انجکشن اور اسپتال میں ایڈمٹ ہونے پر لمبے چوڑے خرچے سے آپ نہیں بچ سکتے۔ اگر کسی طرح ان کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو وہ صرف ایک جملے سے قابو کرنے کا گر جانتے ہیں، صاحب مریض کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے، ہم نے تو بالکل ٹھیک تشخیص کی ہے، آگے آپ کی مرضی، کل کو کچھ ہوگیا تو ہماری ذمے داری نہیں ہوگی۔
بس جناب! اب آپ کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ آپ بے چارگی کے عالم میں اﷲ سے امید لگائے ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اب یہ مریض کی قسمت ہے کہ تشخیص اور علاج اسے راس آجائے ورنہ اس کے لیے بھی ڈاکٹروں کے پاس مضبوط توجیہات موجود ہوتی ہیں۔ ہم نے تو پوری کوشش کی مگر جو اوپر والے کو منظور تھا، ہم بے بس ہیں، صبر کریں۔
علی عباس کی کتاب روایت تمدن قدیم میں درج ہے کہ بابلی تہذیب میں جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کے اقربا اسے لے جا کر شہر کے چوک پر لٹا دیتے۔ رہگزر سے گزرنے والے لوگ مزاج پرسی کرتے، انھی میں کوئی ایسے بھی نکل آتے جو خود اس مرض میں مبتلا رہ چکے ہوتے، وہ مریض کی کیفیت بھانپ جاتے، چنانچہ وہ مریض کو علاج بتاتے اور مریض شفایاب ہوجاتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے ہم آج بھی اسی تمدنی دور سے گزر رہے ہیں، خاص کر ایک عام آدمی جس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ جب بیمار ہو تو کسی اسپتال میں لاوارثوں کی طرح جمع ہوجائے، عزیز و اقارب اس کی عیادت کو آئیں تو ساتھ اپنا کوئی ذاتی نسخہ بھی دے جائیں۔
مریض اس پر عمل کرکے اگر خوش قسمتی سے شفایاب ہوجائے تو ٹھیک، ورنہ کسی اور ٹوٹکے کا انتظار کرے۔ کیونکہ آپ اسپتال میں تو بس اﷲ توکل پر ٹھیک ہوتے ہیں کہ جس قسم کی تشخیص کا چلن اس وقت ہمارے ملک میں ہورہا ہے اکثر ڈاکٹر مریض کے تمام ٹیسٹ لینے کے بعد بھی ٹھیک سے مرض ڈائیگنوس نہیں کرپاتے اور غلط سمت علاج اسٹارٹ کردیتے ہیں اور بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرض تو آپ کو لاحق ہی نہیں تھا، جس کی دوائیں آپ عرصے سے کھا رہے ہیں۔
یہ رجحان ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہی نہیں مرض کیا ہے تو بقول شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی کیفیت ہوگی۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ معالجوں کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قدر مہنگائی میں علاج و معالجہ کروانا ویسے بھی ہم جیسے غریب ملک کے شہریوں کے لیے کسی بار گراں سے کم نہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام سرکاری اور مقامی اسپتالوں میں آنے والے مریض اس بات کو لے کر پریشان نظر آتے ہیں کہ ہم اپنے مریضوں کو کہاں لے جائیں۔
پرائیوٹ اسپتالوں میں بھی طبی سہولتیں ناپید ہیں۔ ڈاکٹرز، دوائیں اور مشینری سمیت تمام عملہ ہماری مدد اور رہنمائی نہیں کرتا۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی کمی ہوتی ہے یا پھر میعاد مدت ختم ہوچکی ہوتی ہے، صفائی کا فقدان ہے، وارڈز میں سخت تعفن ہوتا ہے، آئے دن اسپتالوں کی ہڑتالیں عام سی بات بن گئی ہے۔ کبھی نرسیں، ڈاکٹرز اور کبھی پیرامیڈیکل اسٹاف اپنے مطالبات منوانے کے لیے کام بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔
اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ اس سے آنے والے مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو کس قدر مشکلات ہوتی ہیں۔ یہ وہ بے بس ہوتے ہیں جن کے پاس پرائیوٹ اسپتالوں میں جانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔
افسوس کہ آزادی کے ان ستر سال میں ہم آج تک ایسا کوئی سرکاری اسپتال یا پرائیوٹ ادارہ بھی نہیں بنا سکے جہاں عام آدمی تو کیا ہمارے وزرا اپنا علاج کروا سکیں، یا کم از کم اتنا بھروسہ اسپتالوں کی لیب پر ہی ہو کہ ٹھیک تشخیص کی گئی ہوگی۔ یہ سارے وزراء ہمارے دیے ہوئے ٹیکس کی آمدنی سے باہر کے ممالک کے اسپتالوں میں اپنا اور اپنی فیملی کا علاج کروانے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی بیگم کلثوم نواز باہر علاج کے لیے ایڈمٹ ہیں، ان کے کئی آپریشن ہوچکے مزید ہونے باقی ہیں، پوری قوم کی دعا ہے کہ وہ صحت یاب ہو کر واپس آئیں۔ لیکن بات پھر وہیں رہ جاتی ہے، اس ملک کے بیس کروڑ عوام کے علاج کی سہولتیں کہاں سے دستیاب ہوں گی؟
ہمارے بابا رحمتے جو واقعی اشفاق احمد کے کردار کی تصویر بنے عوام میں آسانیاں بانٹنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں انھوں نے بیک وقت کئی کرپشن محاذ کھولے ہوئے ہیں، اسپتالوں میں ان کی اچانک آمد اور سوموٹو ایکشن سے جہاں اسپتال کا عملہ پشیمان ہوتا ہے وہاں مریض چیف صاحب کو اپنا سچا مسیحا سمجھتے ہیں، ان کے بروقت ایکشن سے ہی مسائل بہتر ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہر معاملے میں چیف صاحب کے سوموٹو کا انتظار کیا جائے۔
کیوں حکومتی نمایندوں کے فرائض بھی چیف جسٹس ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے متعدد بار کئی اسپتالوں کا دورہ کیا، وہاں موجود مریضوں کی شکایت و بدانتظامی پر برہم بھی ہوئے، اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی، طبی آلات و مشینوں کی خرابی اور ڈاکٹروں کی لاپروائی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
یہ وہ کام ہے جنھیں ووٹ سے الیکٹ ہوکر آنے والے نمایندگان کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے، لیکن افسوس پاکستان کی تاریخ میں کبھی اسپتالوں کی صورتحال درست نہیں رہی۔صحت اور تعلیم کے شعبے کی جو دگرگوں حالت ہے' اس سے تمام واقف ہیں۔ اگر حکمران اپنے فرائض کما حقہ پوری کریں تو جو مسائل آج نظر آ رہے ہیں وہ نہ ہوتے۔
حکومتی سربرہان کو چاہیے کہ اداروں پر چیک اینڈبیلنس رکھیں' وقتا فوقتا ان کی کارکردگی چیک کرتے رہیں۔ احتساب کا عمل شفاف بنائیں۔ ان کے اس عمل سے انتظامی اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی اور عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے اور عوام کا حکمرانوں پر اعتماد بھی بڑھے گا۔
سرکاری اسپتالوں کی ناقص کارکردگی ہی کے باعث پرائیویٹ اسپتال بہتر سہولتوں کی فراہمی کے نام پر عوام کا مالی استحصال کر رہے ہیں۔
بے شک صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے، جسے جہان بھر کے خزانے سے بھی بدلا نہیں جاسکتا، لیکن ایک عام آدمی کے پاس نہ تو خزانہ ہے نہ ہی بینک بیلنس ہے، اسے تو بیمار ہونے پر انھی دواخانوں سے شفا کی امید رکھنی ہے۔ مگر صحت تو درکنار وہاں ایک پرسکون موت بھی میسر نہیں۔ کیسی بے بسی ہے میرے ملک میں کہ بقول شاعر
مجھے کیا برا تھا، مرنا اگر اک بار ہوتا