یہ داغ داغ لوگ

سیاسی رہنما چاہے جتنے گن گاتے رہیں داغ داغ ہی ہوتے ہیں، یہ لگ جائیں تو قبر تک ساتھ ہی جاتے ہیں۔

مارچ کا مہینہ ہے اور درجہ حرارت 41 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ نواب شاہ اور دادو میں تو 45 ڈگری ہوچکا ہے۔ آگے اپریل، مئی، جون ہیں، ان مہینوں میں تو شدید گرمی پڑتی ہے۔

کبھی کسی زمانے میں مارچ خوشگوار موسم کا مہینہ ہوتا تھا، مگر اب چند سال سے مارچ بھی گرم ہوگیا ہے۔ اپنے ملک کا سیاسی موسم بھی خوب گرم ہوچکا ہے۔ الیکشن قریب آگئے ہیں، سیاسی کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں، سیاسی کھیل کے میدان بھرے ہوئے ہیں۔ وہی برسوں پرانے والے مناظر ہیں۔

سیاسی جلسے جلوس ہیں، سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہیں، سیاسی کبوتر ایک چھجے سے دوسرے چھجے کی طرف محو پرواز ہیں، جو کل تک بدکردار تھے، جھوٹے تھے، انھی جھوٹوں کو پارٹی سربراہ سچا قرار دے کر گلے لگا رہے ہیں، ان بدکرداروں کی شرافت کے گن گائے جا رہے ہیں۔ مگر جو داغ تن پر لگے ہوئے ہیں وہ تو کسی بھی صابن سے ختم نہیں ہوں گے۔

سیاسی رہنما چاہے جتنے گن گاتے رہیں داغ داغ ہی ہوتے ہیں، یہ لگ جائیں تو قبر تک ساتھ ہی جاتے ہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں ایک وزیر ہوا کرتے تھے، عبدالوحید، موصوف ایوب خان کی خوشامد میں اتنا گر گئے بلکہ غرق ہوگئے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں نازیبا بیان دے دیا۔ یہ داغ وحید خان اپنے ساتھ ہی لے کر قبر میں اتر گئے۔ جنرل ایوب رہا اور نہ وحید خان رہا۔

اسی جنرل ایوب سے پہلے ایک وزیر ہوا کرتے تھے ان کا نام تھا احمد سعید کرمانی۔ انھوں نے بابائے مزدوراں مرزا ابراہیم کے مقابل لاہور میں الیکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔ الیکشن کا نتیجہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوچکا تھا۔ احمد سعید کرمانی کی شکست کا اور مرزا ابراہیم کی فتح کا اعلان ہوچکا تھا، مگر بعد میں الیکشن کا نتیجہ تبدیل کرکے احمد سعید کرمانی کی فتح کا اعلان کردیا گیا۔ الزامات کا یہ داغ ساتھ ہی لے کر احمد سعید کرمانی بھی مٹی میں رل کھل گئے۔

ایسے داغ و داغ سیاسی کرداروں سے ہماری سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے۔ جالب کے چند مصرعے:

کتھے رہیا نمرود تے فرعون کتھے آ

سدا جگ اتے رہنا اے نشان رب دا

اے زمین رب دی، آسمان رب دا

ساڈا ساریاں دا سانجھا اے جہان رب دا


مگر یہ داغ و داغ لوگ، یہ خدا کے انکاری ہیں۔ ان کا ایمان یہ ہے کہ خدا نہیں ہے۔ جو تخت پہ بیٹھا ہے بس وہی خدا ہے۔ اسی کی مانو، اسی کے گن گاؤ، زندگی عیش و آرام سے گزارو، زندگی کے مزے لوٹو اور مر جاؤ۔ مگر یہ بھی سچ ہے بلکہ یہی سچ ہے کہ موسیٰ زندہ ہے۔ ابراہیم زندہ ہے۔ فرعون عجائب گھروں میں نشان عبرت بنا پڑا ہے۔ نمرود کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ میں شاید غلط لکھ گیا۔ فرعون، نمرود اور یزید کے نشان آج بھی ہیں اور وہ یہی داغ و داغ بدکردار، جھوٹے، مکار، خوشامدی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ہیں۔ یہ اگر سدھر جائیں تو دیگر ادارے بھی لوٹ مار میں حصے دار نہ بن پائیں۔ آئین کے رکھوالے یہی سیاستدان ہیں۔

اگر یہ آئین کی چوکیداری صحیح طرح ادا کریں تو دوسرے ادارے چوں تک نہ کریں۔ اسمبلیوں میں یہی بیٹھتے ہیں۔ قانون سازی یہی کرتے ہیں مگر اس آئین اور قانون کا کیا فائدہ کہ جب دس فیصد اوپر والے تمام دولت پر قابض ہوجائیں۔ ان دس فیصد لوگوں کے گھر، بینک (باہر بھی اور اندر بھی) بھرے ہوئے ہوں، زمینیں ان کی ہوں، تو آئین اور قانون کہاں رہ گیا! اور جب آئین و قانون بنانے والے لٹیرے بن جائیں تو دوسرے ادارے لوٹ مار میں حصے دار کیوں نہ بنیں۔

پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ کیسے کیسے سیاسی کھلاڑی کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ کیا کیا تاویلیں،دلیلیں پیش کر کرکے اپنے اپنے ظالم پارٹی لیڈروں کو سچا اور بے داغ ثابت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہ بھی اپنے اپنے داغ و داغ دامن لے کر قبروں میں اتر جائیں گے مر کھپ جائیں گے۔ جالب کا شعر ہے:

نشان تمہارا نہ ہوگا ذرا مرو تو سہی

فرازِ جاں سے نیچے قدم دھرو تو سہی

دیکھو بھئی! مجھے جو آتا ہے وہی لکھتا ہوں ''میں زمیں کا آدمی ہوں، مجھے کام ہے زمین سے/یہ ستارے آسمان کے مجھے چاہیں یا نہ چاہیں'' مجھے غاصبوں، لٹیروں کے چہرے بے نقاب کرنے ہیں اور میں کرتا رہوں گا، میری رہبری کے لیے سچ کی خاطر سولیوں پر لٹک جانے والے کافی ہیں۔ وہیں سے مجھے روشنی ملتی ہے۔ مجھے وہ لوگ زہر لگتے ہیں جو ظالموں اور ان کے حواریوں سے رابطے میں رہتے ہیں، میرا بھی تعلق عوام سے ہے، خواص کو میں نہیں مانتا۔

ایک اہل اقتدار ہی کیا یہاں تو ہزاروں ہیں جن کے قبضے میں عوام کی لوٹی ہوئی دولت ہے اور یہ لٹیرے ڈھکے چھپے نہیں، یہ سب پر عیاں ہیں۔ پھر بھی لٹیرے خوب پھل پھول رہے ہیں۔ ان لٹیروں سے یہ دولت چھین لو، پاکستان کا سارا قرضہ اتر جائے گا۔

میں بھی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ مجھے بھی ''اُس'' کا انتظار ہے جو آئے گا، اور لٹیروں کے پیٹوں سے لوٹی ہوئی دولت نکالے گا اور غریب کے جھونپڑے خوشیوں سے بھر جائیں گے۔ تھر کے بچے خوراک نہ ملنے پر موت کا شکار نہیں بنیں گے۔ بے علاج کوئی نہیں مرے گا، تمام بچے یکساں نظام تعلیم حاصل کریں گے۔ فیض احمد فیض نے پاکستان بننے کے فوراً بعد سمجھ لیا تھا کہ یہ آزادی نہیں ہے۔ ہم ایک قید سے دوسری قید میں آگئے ہیں:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ داغ داغ وہی لٹیرے اور ان کے حواری ہیں، جنھوں نے آمروں، جابروں، غاصبوں کو سہارا دیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ الیکشن پھر آرہے ہیں دیکھیں یہ الیکشن کیا رنگ دکھلاتا ہے۔ مولوی حضرات پھر سے ایک ہوگئے ہیں ''جدا ہونے کے لیے۔'' مگر ہماری منزل یہ نہیں، وہ جو فیض نے کہا تھا۔ بس اس پر دھیان رہے ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا'' فیض سے پہلے اقبال بھی شعلہ بار مصرعے کہہ کر گئے ہیں۔ کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو / جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی/ اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو/ سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ/ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو/مٹا دو!
Load Next Story