بچے طوطے نہیں ہوتے
بچوں کو شروع سے ہی طوطوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر طوطے ہی بن کر رہ جاتے ہیں
والدین اپنے بچوں کو اسکول بھجواتے ہیں تاکہ وہ اچھی طرح پڑھ لکھ کر، وہاں سے قابل اور کامیاب انسان بن کر نکلیں۔ اس مقصد کے پیش نظر انہیں اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے اسکول میں داخلہ دالوایا جاتا ہے۔ یہ بڑے بڑے اسکول بھی قوم کے نونہالوں میں قابلیت پیدا کرنے کا فریضہ سرانجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
ہمارا نصاب تعلیم اور اسکولنگ سسٹم بچوں کو کچھ اور بنائیں نہ بنائیں، انہیں کھل کر رٹا لگانے کے قابل ضرور بناتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں قابلیت کی پہلی اور آخری نشانی رٹے لگا کر اچھے نمبر حاصل کرنے ہی کو سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہمارے بچے اسکولوں سے قابل طوطے بن کر نکلتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم اور اسکولنگ سسٹم کا المیہ ہے کہ یہاں بچوں کو رٹے لگواکر اور لکیر کا فقیر بنا کر سمجھا جاتا ہے کہ یہ آگے چل کر عملی زندگی میں افلاطون اور ارسطو بن کر نکلیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے رٹے لگا لگا کر تھوک کے حساب سے نمبر لینے والے اکثر بچے عملی زندگی میں کوئی بڑا تیر مارنے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔
شروع ہی سے انہیں غورو فکر کرنا، چیزوں کو سمجھنا اور کچھ نیا کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ انہیں بس ہر چیز کو یاد رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں پہلے ہی دن سے جو چیز بچوں کو سب سے زیادہ سیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے رٹا لگانے کی مشق۔
چیزوں کو سوچے سمجھے بغیر یاد کرنے یا سیکھنے کا عمل رٹا کہلاتا ہے۔ رٹا کلچر ہمارے تعلیمی نظام میں پائی جانے والی سب سے بڑی خامی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے انہیں رٹو طوطے بنانے پر زیادہ فوکس کیا جاتاہے۔
انہیں شروع سے ہی طوطوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر طوطے ہی بن کر رہ جاتے ہیں اورکچھ نیا اور غیرمعمولی کرنے کی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں۔ ر ٹا لگانے کی عادت طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ وہ کوئی نیا اور تخلیقی کام کرنے سے ہمیشہ کنی کتراتے ہیں اور یوں ان کے اندر نئی نئی چیزیں بنانے اور غیرمعمولی طور پر سوچنے کی صلاحیتیں پروان ہی نہیں چڑھ پاتیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں بڑے بڑے سائنس دان، نامور تخلیق کار، فن کار اور لکھاری کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں؛ اور اگلی نسلوں میں ان کی جگہ لینے والوں میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔
بہت سارے ہائی اسٹینڈرڈ اسکولز بھی بچوں کو ایک محدود قسم کی تعلیم دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور کوششیں بچوں کو بس امتحانی نقطہ نظر سے مواد تیار کروانے، رٹا لگوانے اور اچھے نمبر حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے والدین سے منہ مانگی فیسیں وصول کرتے ہیں اور بدلے میں انہیں اچھے نتائج سے خوش اور مطمئن کرکے اپنا کاروبار خوب چمکاتے رہتے ہیں۔
حالانکہ والدین اپنے بچوں کو صرف اچھے نمبر حاصل کرنے کےلیے اسکول میں داخل نہیں کرواتے بلکہ ان کامقصد انہیں عملی زندگی میں قابل اور کامیاب بنانا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، رٹے کی عادت بچوں کو قابل بنانے کے بجائے انہیں رٹو طوطے بناتی ہے اور انہیں تخلیقی ہونے سے روکتی ہے۔ خود بچوں کی بھی ساری توجہ صرف اور صرف اچھے نمبر حاصل کرنے پر رہتی ہے اور وہ سوچنے، غور و فکر کرنے اور مسائل کا حل نکالنے جیسی ضروری مہارتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
دنیا کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ آج وہ قومیں اور ملک دنیا کے لیڈر ہیں جنہوں نے روزِ اول ہی سے اپنے طلبہ میں تخلیقی طریقہ تدریس کی حوصلہ افرائی کی اور اسے اپنایا۔ تخلیقی تدریس سے مراد ایسا طریقہ تدریس ہے جس کا مقصد طلبہ میں فطری تجسس کو بیدار کرنا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
آج کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس کی جاری ہے کہ ہم اپنے گلے سڑے اور بوسیدہ طریقہ تدریس کو خدا حافظ کہہ کر اس کی جگہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج تخلیقی طریقہ تدریس اختیار کریں اور ایسا نظام تعلیم تشکیل دیں جو ہماری نئی نسل میں تخلیقی فکر کو اچھی طرح پروان چڑھانے کی تمام خوبیاں رکھتا ہو۔
ایسے نظام تدریس کو اپنا کر ہی ہم عہد حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا موجود ہ دور بے پناہ مواقع اور امکانات رکھتا ہے لیکن یہ مواقع صرف انہی لوگوں اور قوموں کےلیے ہیں جو دنیا میں کچھ نیا کرنے، نیا سوچنے، نئی ایجادات کرنے اور دنیا کو ایک بہتر شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر ہم بھی من حیث القوم، دنیا کی ترقی میں اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ایسا کرکے ہی ہم اپنی نسل کو ایک روشن اور ترقی یافتہ مستقبل دے سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمارا نصاب تعلیم اور اسکولنگ سسٹم بچوں کو کچھ اور بنائیں نہ بنائیں، انہیں کھل کر رٹا لگانے کے قابل ضرور بناتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں قابلیت کی پہلی اور آخری نشانی رٹے لگا کر اچھے نمبر حاصل کرنے ہی کو سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہمارے بچے اسکولوں سے قابل طوطے بن کر نکلتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم اور اسکولنگ سسٹم کا المیہ ہے کہ یہاں بچوں کو رٹے لگواکر اور لکیر کا فقیر بنا کر سمجھا جاتا ہے کہ یہ آگے چل کر عملی زندگی میں افلاطون اور ارسطو بن کر نکلیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے رٹے لگا لگا کر تھوک کے حساب سے نمبر لینے والے اکثر بچے عملی زندگی میں کوئی بڑا تیر مارنے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔
شروع ہی سے انہیں غورو فکر کرنا، چیزوں کو سمجھنا اور کچھ نیا کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ انہیں بس ہر چیز کو یاد رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں پہلے ہی دن سے جو چیز بچوں کو سب سے زیادہ سیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے رٹا لگانے کی مشق۔
چیزوں کو سوچے سمجھے بغیر یاد کرنے یا سیکھنے کا عمل رٹا کہلاتا ہے۔ رٹا کلچر ہمارے تعلیمی نظام میں پائی جانے والی سب سے بڑی خامی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے انہیں رٹو طوطے بنانے پر زیادہ فوکس کیا جاتاہے۔
انہیں شروع سے ہی طوطوں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر طوطے ہی بن کر رہ جاتے ہیں اورکچھ نیا اور غیرمعمولی کرنے کی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں۔ ر ٹا لگانے کی عادت طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ وہ کوئی نیا اور تخلیقی کام کرنے سے ہمیشہ کنی کتراتے ہیں اور یوں ان کے اندر نئی نئی چیزیں بنانے اور غیرمعمولی طور پر سوچنے کی صلاحیتیں پروان ہی نہیں چڑھ پاتیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں بڑے بڑے سائنس دان، نامور تخلیق کار، فن کار اور لکھاری کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں؛ اور اگلی نسلوں میں ان کی جگہ لینے والوں میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔
بہت سارے ہائی اسٹینڈرڈ اسکولز بھی بچوں کو ایک محدود قسم کی تعلیم دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور کوششیں بچوں کو بس امتحانی نقطہ نظر سے مواد تیار کروانے، رٹا لگوانے اور اچھے نمبر حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے والدین سے منہ مانگی فیسیں وصول کرتے ہیں اور بدلے میں انہیں اچھے نتائج سے خوش اور مطمئن کرکے اپنا کاروبار خوب چمکاتے رہتے ہیں۔
حالانکہ والدین اپنے بچوں کو صرف اچھے نمبر حاصل کرنے کےلیے اسکول میں داخل نہیں کرواتے بلکہ ان کامقصد انہیں عملی زندگی میں قابل اور کامیاب بنانا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، رٹے کی عادت بچوں کو قابل بنانے کے بجائے انہیں رٹو طوطے بناتی ہے اور انہیں تخلیقی ہونے سے روکتی ہے۔ خود بچوں کی بھی ساری توجہ صرف اور صرف اچھے نمبر حاصل کرنے پر رہتی ہے اور وہ سوچنے، غور و فکر کرنے اور مسائل کا حل نکالنے جیسی ضروری مہارتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
دنیا کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ آج وہ قومیں اور ملک دنیا کے لیڈر ہیں جنہوں نے روزِ اول ہی سے اپنے طلبہ میں تخلیقی طریقہ تدریس کی حوصلہ افرائی کی اور اسے اپنایا۔ تخلیقی تدریس سے مراد ایسا طریقہ تدریس ہے جس کا مقصد طلبہ میں فطری تجسس کو بیدار کرنا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔
آج کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس کی جاری ہے کہ ہم اپنے گلے سڑے اور بوسیدہ طریقہ تدریس کو خدا حافظ کہہ کر اس کی جگہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج تخلیقی طریقہ تدریس اختیار کریں اور ایسا نظام تعلیم تشکیل دیں جو ہماری نئی نسل میں تخلیقی فکر کو اچھی طرح پروان چڑھانے کی تمام خوبیاں رکھتا ہو۔
ایسے نظام تدریس کو اپنا کر ہی ہم عہد حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا موجود ہ دور بے پناہ مواقع اور امکانات رکھتا ہے لیکن یہ مواقع صرف انہی لوگوں اور قوموں کےلیے ہیں جو دنیا میں کچھ نیا کرنے، نیا سوچنے، نئی ایجادات کرنے اور دنیا کو ایک بہتر شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر ہم بھی من حیث القوم، دنیا کی ترقی میں اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ایسا کرکے ہی ہم اپنی نسل کو ایک روشن اور ترقی یافتہ مستقبل دے سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔