یہ نسلی اسیر رہائی کے منتظر
ایک کالم نگار کی حیثیت سے ہم نے ایک سماج کی اہم ترین برائی کی نشاندہی کردی ہے۔
گوکہ خوراک کا عام تصور یہ ہے کہ انسان کی متوازن خوراک ان اشیا کے استعمال سے مکمل ہوتی ہے، اول لحمیات یعنی گوشت جس میں مرغی ، مچھلی ، گائے اور بکرے کا گوشت و دیگر وہ پرندے جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ حلال ہیں ۔ دوم ، انسانی خوراک کی ضروریات میں شامل ہے سبزیاں جن میں تمام قسم کی سبزیاں مثلاً شلجم گاجر، مولی، پالک، میتھی، ساگ، گوبھی، بینگن، مٹر، آلو، بھنڈی ،لوکی، ٹینڈے وغیرہ وغیرہ ۔
سوم جب کہ تمام قسم کی دالیں جن میں مونگ ، مسور ، ماش، لوبیہ وہ دیگر جب کہ دیگر انسانی چہارم خوراک میں دودھ، انڈے تمام قسم کے موسمی پھل جیسے سیب،کیلے،آم ، امرود، آڑو، املوک ودیگر موسمی پھل یہ تمام اشیا متوازن خوراک کا حصہ ہیں اور انسانی ضروریات میں شامل ہیں نہ کہ فضول خرچی یا اسراف میں شمار ہوتی ہیں مگر افسوس دنیا کے اکثر ممالک میں یہ انسان کی ضروریات کی یہ اشیا عام افراد کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں ۔
بہرکیف ہم جن لوگوں کا ذکرکرنے جا رہے ہیں۔ ان کی خوراک ہے پسی ہوئی لال مرچ کے ساتھ ناکافی روٹی وہ بھی فقط 24 گھنٹے میں ایک بار ان کی تعداد بھی کوشش کریں گے کہ پوری پوری بتا دیں گوکہ یہ خاصا مشکل امر ہے تو ان لوگوں کی تعداد بیان کی جاتی ہے18 لاکھ۔ جی ہم ذکر کر رہے ہیں۔
نجی جیلوں میں اسیر لوگوں کا لازمی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بدنصیب لوگ کب سے اسیر ہیں تو پورے وثوق سے یہ بتانا بھی شاید ناممکن ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ نسل در نسل اسیر ہیں یہ بتادیں کہ یہ 18 لاکھ پاکستانی شہری اسیری کی زندگی بسر کرنے پر کیوں مجبورکردیے گئے؟
تو عرض یہی کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بڑوں نے کسی زمانے میں کسی ضرورت کے تحت چند روپے کسی وڈیرے سے قرضہ لیا پھر وہ قرضہ بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گیا کہ وہ آدمی جس نے چند روپے قرضہ لیا نے خود کو قرض خواہ کی غلامی میں دے دیا اور اپنی آزادی کھو دی یوں غلامی پھر اس کی آنے والی نسلوں کا مقدر بنتی گئی کیونکہ وہ قرضہ جو کہ چند روپوں کی شکل میں لیا تھا اول چند روپوں سے سیکڑوں میں تبدیل ہوا پھر سیکڑوں سے ہزاروں روپے میں پھر ہزاروں روپوں سے لاکھوں میں تبدیل ہوا ۔
مثال ہم اس قرضے کے روپے کی یوں دیں گے کہ جیسے کہ بھٹو حکومت میں مالیاتی اداروں سے فقط 17 کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا اور جواز یہ پیش کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہماری معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے چنانچہ ضروری ہے تھوڑا قرضہ لیا جائے تاکہ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے ۔
وقت گزرتا گیا اور یہ قرضہ بڑھتے بڑھتے عصر حاضر میں سو ارب ڈالر سے بھی تجاوزکرگیا ہے یہ غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضے کا ذکر ہے جب کہ ملکی اداروں سے حاصل کردہ قرضہ بھی سو ارب ڈالر سے کم نہیں ملکی قرضوں کا ذکر ہم نے ایک مثال کے طور پر کیا ہے۔ بہرکیف اب پھر آتے ہیں نجی جیلوں میں اسیر لوگوں کی جانب ۔ ان اسیران کی خوراک کا ذکر تو ہم نے کردیا، شاید ایک برس میں ایک جوڑا شلوار قمیص ان لوگوں کو پوشاک کے نام پر بھی دستیاب ہوجاتا ہوگا ۔
ان لوگوں کے انسانی حقوق کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ کسی چار دیواری زندان کے اسیر تو ہیں نہیں کہ ان کے حقوق کی کوئی بات کرے بس جان لوکہ جہاں ان کے وڈیرے کی زرعی اراضی یا جاگیر کی حدود ختم وہیں ان اسیران کی آزادی بھی ختم۔
اب اگر اس جاگیر کی حدود سے باہر جانا ہے تو خصوصی اجازت اس وڈیرے سے حاصل کرنا ضروری ہے بصورت دیگر وہ اسیر یا اسیران اس زندان سے باہر نہیں جاسکتے یہ اجازت کا حصول بھی ایسے ہے جیسے عصر حاضر میں نادرا سے شناختی کارڈ کا حصول۔ گوکہ یہ پاکستانیوں کا حق ہے کہ وہ آسانی سے اپنا شناختی کارڈ حاصل کر سکیں۔ بہرکیف یہ بات ہم نے ضمناً کہہ دی البتہ ہماری بات کی صداقت درکار ہو تو متعلقہ ادارے میں تشریف لے جائیں۔
تمام قسم کے حقوق سے محروم یہ اسیران میں سے اگرکوئی نامعلوم فرد زندان سے فرارکی کوشش کرتا ہے تو ناکامی کی صورت میں گویا وہ ہمیشہ کے لیے نامعلوم ہی ہوجاتا ہے پھر یہاں ایک مثال ہم پیش کریں گے، اس مظلوم کی جس کا نام ہے منو بھیل۔ اس با ہمت اسیر نے نجی جیل سے نہ صرف خود فرار حاصل کیا بلکہ اپنے ساتھ اسیران کو بھی فرار حاصل کرنے میں معاونت کی۔ مگر منو بھیل و اس کے خاندان کے لیے آزادی کا یہ عرصہ انتہائی قلیل ثابت ہوا اور تھوڑے ہی عرصے بعد منو بھیل کی ماں بیوی و بچوں سمیت 9 افراد کو یرغمال بنالیا گیا گویا پھر سے نجی جیل میں اسیر کردیے گئے۔
اب منو بھیل 11 برس سے اپنے اہل خانہ کی نجی جیل سے رہائی کے لیے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں منو بھیل متعلقہ تھانے سے لے کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹا چکا ہے مگر ہنوز اس کے تمام گھر والے نجی جیل میں اسیر ہیں تاہم یہ ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تحت منو بھیل کے کیس کے سلسلے میں اولین سماعت 22 ستمبر 2007 کو جب کہ دوسری سماعت 26 نومبر 2007 کو ہوئی اور یہ سماعت آخری سماعت ثابت ہوئی اور منو بھیل کا یہ کیس التوا کا شکار ہوگیا اور تاحال یہی کیفیت ہے اب ان حالات میں کون بتا سکتا ہے وہ بھی پورے وثوق کے ساتھ کہ منو بھیل کے کیس کا فیصلہ کب ہوگا اور کیا فیصلہ ہوگا کیونکہ منو بھیل کے مد مقابل ہے بااثر ترین وڈیرا ، یہ عرض کرتا چلوں کہ نجی جیلیں ٹنڈو اللہ یار، سانگھڑ، تھرپارکر، میرپورخاص، ٹھٹھہ، بدین میں کثرت سے ہیں ۔
ایک کالم نگار کی حیثیت سے ہم نے ایک سماج کی اہم ترین برائی کی نشاندہی کردی ہے اب ہمارا سوال ہمارے حکمرانوں سے یہ ضرور بنتا ہے کہ آپ ایک جانب ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں، دوسری جانب 18 لاکھ ووٹ دینے والے وہ مظلوم ہیں جوکہ صدیوں سے اسیر ہیں اور نجی جیلوں سے رہائی کے منتظر ہیں گوکہ ہم قیام پاکستان کے وقت سے آزادی کے گیت گا رہے ہیں اور آزادی کے جشن منا رہے ہیں ایسا کرتے ہوئے ہمیں 71 برس ہوگئے ہیں معلوم نہیں ہمارے یہ بنیادی مسائل کب حل ہوں گے؟ امید ہے ووٹ کے تقدس کی سیاست کرنے والے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے دعوے کرنے والے و نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرنے والے نجی جیلوں کا خاتمہ ضرورکریں گے۔
سوم جب کہ تمام قسم کی دالیں جن میں مونگ ، مسور ، ماش، لوبیہ وہ دیگر جب کہ دیگر انسانی چہارم خوراک میں دودھ، انڈے تمام قسم کے موسمی پھل جیسے سیب،کیلے،آم ، امرود، آڑو، املوک ودیگر موسمی پھل یہ تمام اشیا متوازن خوراک کا حصہ ہیں اور انسانی ضروریات میں شامل ہیں نہ کہ فضول خرچی یا اسراف میں شمار ہوتی ہیں مگر افسوس دنیا کے اکثر ممالک میں یہ انسان کی ضروریات کی یہ اشیا عام افراد کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں ۔
بہرکیف ہم جن لوگوں کا ذکرکرنے جا رہے ہیں۔ ان کی خوراک ہے پسی ہوئی لال مرچ کے ساتھ ناکافی روٹی وہ بھی فقط 24 گھنٹے میں ایک بار ان کی تعداد بھی کوشش کریں گے کہ پوری پوری بتا دیں گوکہ یہ خاصا مشکل امر ہے تو ان لوگوں کی تعداد بیان کی جاتی ہے18 لاکھ۔ جی ہم ذکر کر رہے ہیں۔
نجی جیلوں میں اسیر لوگوں کا لازمی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بدنصیب لوگ کب سے اسیر ہیں تو پورے وثوق سے یہ بتانا بھی شاید ناممکن ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ نسل در نسل اسیر ہیں یہ بتادیں کہ یہ 18 لاکھ پاکستانی شہری اسیری کی زندگی بسر کرنے پر کیوں مجبورکردیے گئے؟
تو عرض یہی کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بڑوں نے کسی زمانے میں کسی ضرورت کے تحت چند روپے کسی وڈیرے سے قرضہ لیا پھر وہ قرضہ بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گیا کہ وہ آدمی جس نے چند روپے قرضہ لیا نے خود کو قرض خواہ کی غلامی میں دے دیا اور اپنی آزادی کھو دی یوں غلامی پھر اس کی آنے والی نسلوں کا مقدر بنتی گئی کیونکہ وہ قرضہ جو کہ چند روپوں کی شکل میں لیا تھا اول چند روپوں سے سیکڑوں میں تبدیل ہوا پھر سیکڑوں سے ہزاروں روپے میں پھر ہزاروں روپوں سے لاکھوں میں تبدیل ہوا ۔
مثال ہم اس قرضے کے روپے کی یوں دیں گے کہ جیسے کہ بھٹو حکومت میں مالیاتی اداروں سے فقط 17 کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا اور جواز یہ پیش کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہماری معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے چنانچہ ضروری ہے تھوڑا قرضہ لیا جائے تاکہ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے ۔
وقت گزرتا گیا اور یہ قرضہ بڑھتے بڑھتے عصر حاضر میں سو ارب ڈالر سے بھی تجاوزکرگیا ہے یہ غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضے کا ذکر ہے جب کہ ملکی اداروں سے حاصل کردہ قرضہ بھی سو ارب ڈالر سے کم نہیں ملکی قرضوں کا ذکر ہم نے ایک مثال کے طور پر کیا ہے۔ بہرکیف اب پھر آتے ہیں نجی جیلوں میں اسیر لوگوں کی جانب ۔ ان اسیران کی خوراک کا ذکر تو ہم نے کردیا، شاید ایک برس میں ایک جوڑا شلوار قمیص ان لوگوں کو پوشاک کے نام پر بھی دستیاب ہوجاتا ہوگا ۔
ان لوگوں کے انسانی حقوق کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ کسی چار دیواری زندان کے اسیر تو ہیں نہیں کہ ان کے حقوق کی کوئی بات کرے بس جان لوکہ جہاں ان کے وڈیرے کی زرعی اراضی یا جاگیر کی حدود ختم وہیں ان اسیران کی آزادی بھی ختم۔
اب اگر اس جاگیر کی حدود سے باہر جانا ہے تو خصوصی اجازت اس وڈیرے سے حاصل کرنا ضروری ہے بصورت دیگر وہ اسیر یا اسیران اس زندان سے باہر نہیں جاسکتے یہ اجازت کا حصول بھی ایسے ہے جیسے عصر حاضر میں نادرا سے شناختی کارڈ کا حصول۔ گوکہ یہ پاکستانیوں کا حق ہے کہ وہ آسانی سے اپنا شناختی کارڈ حاصل کر سکیں۔ بہرکیف یہ بات ہم نے ضمناً کہہ دی البتہ ہماری بات کی صداقت درکار ہو تو متعلقہ ادارے میں تشریف لے جائیں۔
تمام قسم کے حقوق سے محروم یہ اسیران میں سے اگرکوئی نامعلوم فرد زندان سے فرارکی کوشش کرتا ہے تو ناکامی کی صورت میں گویا وہ ہمیشہ کے لیے نامعلوم ہی ہوجاتا ہے پھر یہاں ایک مثال ہم پیش کریں گے، اس مظلوم کی جس کا نام ہے منو بھیل۔ اس با ہمت اسیر نے نجی جیل سے نہ صرف خود فرار حاصل کیا بلکہ اپنے ساتھ اسیران کو بھی فرار حاصل کرنے میں معاونت کی۔ مگر منو بھیل و اس کے خاندان کے لیے آزادی کا یہ عرصہ انتہائی قلیل ثابت ہوا اور تھوڑے ہی عرصے بعد منو بھیل کی ماں بیوی و بچوں سمیت 9 افراد کو یرغمال بنالیا گیا گویا پھر سے نجی جیل میں اسیر کردیے گئے۔
اب منو بھیل 11 برس سے اپنے اہل خانہ کی نجی جیل سے رہائی کے لیے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں منو بھیل متعلقہ تھانے سے لے کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹا چکا ہے مگر ہنوز اس کے تمام گھر والے نجی جیل میں اسیر ہیں تاہم یہ ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تحت منو بھیل کے کیس کے سلسلے میں اولین سماعت 22 ستمبر 2007 کو جب کہ دوسری سماعت 26 نومبر 2007 کو ہوئی اور یہ سماعت آخری سماعت ثابت ہوئی اور منو بھیل کا یہ کیس التوا کا شکار ہوگیا اور تاحال یہی کیفیت ہے اب ان حالات میں کون بتا سکتا ہے وہ بھی پورے وثوق کے ساتھ کہ منو بھیل کے کیس کا فیصلہ کب ہوگا اور کیا فیصلہ ہوگا کیونکہ منو بھیل کے مد مقابل ہے بااثر ترین وڈیرا ، یہ عرض کرتا چلوں کہ نجی جیلیں ٹنڈو اللہ یار، سانگھڑ، تھرپارکر، میرپورخاص، ٹھٹھہ، بدین میں کثرت سے ہیں ۔
ایک کالم نگار کی حیثیت سے ہم نے ایک سماج کی اہم ترین برائی کی نشاندہی کردی ہے اب ہمارا سوال ہمارے حکمرانوں سے یہ ضرور بنتا ہے کہ آپ ایک جانب ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں، دوسری جانب 18 لاکھ ووٹ دینے والے وہ مظلوم ہیں جوکہ صدیوں سے اسیر ہیں اور نجی جیلوں سے رہائی کے منتظر ہیں گوکہ ہم قیام پاکستان کے وقت سے آزادی کے گیت گا رہے ہیں اور آزادی کے جشن منا رہے ہیں ایسا کرتے ہوئے ہمیں 71 برس ہوگئے ہیں معلوم نہیں ہمارے یہ بنیادی مسائل کب حل ہوں گے؟ امید ہے ووٹ کے تقدس کی سیاست کرنے والے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کے دعوے کرنے والے و نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرنے والے نجی جیلوں کا خاتمہ ضرورکریں گے۔