ویلکم ملالہ
ملالہ کا یہ کہناکہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں تعلیم کا بول بالا ہوگا۔ تو اس میں غلط کیا ہے؟
شکر ہے ملالہ کے پاکستان آنے پر بھاری پبلسٹی نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے جلوس میں ائیر پورٹ سے گھر لایا گیا۔ ورنہ ملالہ کی آمد اس قدر ''ہائی رسک'' بن جاتی کہ وہ پاکستان ہی نہ آسکتی۔ یوں دنیا کو ایک بار پھر پیغام جاتا کہ پاکستان میں آج بھی انتہا پسندوں کا کنٹرول ہے۔
ملالہ یوسفزئی 6 برس بعد پاکستان آئی ہے ، اپنی تقریر میں اُس نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ کیسے وہ اپنے ملک اوراپنی دھرتی کو دیار غیر میں یاد کرتی تھی۔اس کی آمد کا کئی لوگوں کو اس قدر دکھ ہے کہ وہ سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک ہمارے بعض ''ایڈیٹرز'' فرما رہے ہیں کہ ملالہ ملک دشمن ہی نہیں فوج دشمن اور مذہب دشمن بھی ہے۔
اسے مغربی سازش کے تحت تیار کیا جارہا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں آئے اور پھر یہود و ہنود کی آلہ کار بن کر اس ملک کی سیاست پر حملہ آور ہو۔ شاید وزیراعظم بنے اور پھر شاید اس ملک کے اثاثے بشمول ہمارے ایٹم بم کو کسی بکسے میں ڈال کر مغربی طاقتوں کے حوالے کردے۔21توپوں کی سلامی ایسے لوگوں کی سوچ پر ۔ بندہ پوچھے جو گزشتہ ساٹھ برس سے اس ملک پر حکومت کر تے چلے آئے ہیں ، اُن سے بڑا بھی کوئی ''ایجنٹ '' ہو سکتا ہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ پاکستان میں کون غیر ملکی ایجنٹ نہیں رہا اور ہے؟
کون کون سا سیاستدان مغربی ملکوں میں متھا ٹیکنے نہیں جاتا، بے نظیر (مرحوم) کہاں سے آئی تھیں؟ نواز شریف کے بچے کہاں ہیں؟ عمران خان کی اولاد کہاں ہے ؟ پھر ہمارے مذہبی رہنماؤں کی اولاد بھی تو امریکا و یورپ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے تو کیا وہ سب ''ایجنٹ'' ہیں؟ کیا ایف سولہ جس پر ہم فخر کرتے ہیں وہ امریکا سے درآمد نہیں کیا ہوا؟
ملالہ کا یہ کہناکہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں تعلیم کا بول بالا ہوگا۔ تو اس میں غلط کیا ہے؟ اگر وہ تعلیم کے لیے کام کرنا چاہ رہی ہے تو کرنے دو ۔ کیا ہم ان نااہل اور کرپٹ ترین حکمرانوں اور بیوروکریسی کی وجہ سے پوری دنیا میں ذلیل و رسوا نہیں ہورہے؟
ملالہ کے بارے میں یہ ساری بدگمانیاں ایک طرف، میں صرف اتنا کہوں گا کہ آج سے 8 سال پہلے اس نے جن طالبان کے خلاف آواز بلند کی تھی کیا آج پوری قوم بشمول فوج و سیاستدان انھیں کا صفایا کرنے کا کریڈٹ نہیں لے رہے؟ مجھے سوات کے وہ دن یاد ہیں جب میں نے لڑکیوں کے اسکولوں کی تباہی ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھی تھی، تمام اسکولوں کو بموں سے اُڑایا جا رہا تھا، سوات کی گلیوں اور بازاروں کے چوراہوں میں وردی پوش سپاہیوں کی لاشیں لٹکائی جا رہی تھیں، صحافیوں کو قتل کیا جا رہا تھا، سیاحوں کی جنت مینگورہ کے کاروبار تباہ کر دیے گئے، ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے لوگوں کو سزائیں سنائی جاتی رہیں۔
اور پھر ملالہ، شرمین عبید اور ان جیسی خواتین نے پاکستان سے لیا کیا ہے؟ ان کی وجہ سے اگر پاکستان کا مثبت تاثر قائم ہورہا ہے تو ہونے دو۔ الزامات کا کیا ہے، وہ تو علامہ اقبالؒ و قائداعظم پر بھی لگائے گئے تھے، الزامات تو فیض احمد فیض پر بھی لگائے گائے، لاہور میں عائشہ ممتاز نے تھوڑا بہتر کام کرنے کی طرف توجہ دی تھی ، تو کیا وہ الزامات سے بچ گئی تھی؟ اسے اُٹھا کر کھڈے لائن لگادیا گیا۔
الزامات تو نجم سیٹھی پر لگے یعنی ہم حسد کے مارے لوگ ہیں ، نفرت اور کدورت پالنے والے ، زندگی میں کسی کوآگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے ، خصوصاً اُن لوگوں کو جو کبھی ہم پلہ رہے ہوں ، مسلسل محنت یا ذہانت کے بل بوتے پر جو لوگ ہم سے آگے نکل جائیں اُن سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے ، کوئی بچپن کا دوست ہمارے سامنے ترقی کرکے زندگی میں کچھ بن جائے ،ہمیں منظور نہیں ''ارے یہ تو ہمارے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا کرتا تھا، آج بڑا افسر بنا پھرتا ہے ''۔ گویا اسے آج بھی گلی ڈنڈا ہی کھیلتے رہنا چاہیے تھا۔
کسی ایسے شخص کو اگر ہم دیکھ لیں جو اپنے شعبے میں بہتری کے لیے کام کر رہا ہو تو پہلا خیال یہ ذہن میں آئے گا کہ ہو نہ ہو اس کا اپنا کوئی فائدہ ہوگایا پھراس نے کوئی ٹھیکہ اپنے سالے کو دیا ہوگا!ہر قابل اور ذہین آدمی کے بارے میں ہماری رائے منفی ہوتی ہے، وئی ثبوت یا دلیل ہو یانہ ہو پتہ نہیں کیوں ہمیں وہ کرپٹ لگتا ہے، ہر کامیاب آدمی کو ہم نے یہاں متنازع بنا دیا ہے ، ہمارا کوئی رول ماڈل نہیں،ہر ماڈل کو ہم نے ''رول '' کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارے نزدیک کوئی مغرب کا ایجنٹ ہے تو کوئی صہیونی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے یعنی ہر شخص کے بارے میں ہم خواہ مخواہ ایک منفی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھریہ منفی رائے اُس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ہم اسے اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفنا نہیں دیتے۔
ہمارے اندر تو اتنا ظرف بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرلیں، وہ آسٹریلوی کرکٹر ہی تھے جنہوں نے چیٹنگ کی، اپنی غلطیاں مانیں، شرمندہ ہوئے، آبدیدہ ہوئے، اور پھر خود کو کرکٹ سے الگ کرلیا، قوم نے انھیں معاف کردیا اور اس سے ملک بڑی بدنامی سے بچ گیا، ہمارے یہاں بے شرموں کی طرح ڈھٹائی کے ساتھ قسمیں کھانے والے کرپشن بھی کرتے ہیں، ڈٹے بھی رہتے ہیں۔
ہر دوسرے شخص کو امریکن ایجنٹ بنایا ہوا ہے۔ گاڑیاں ہم یورپ کی بنی ہوئی پسند کرتے ہیں، جائے نماز ہم چین کی بنی ہوئی پسند کرتے ہیں۔ اور جس بچی نے تعلیم کی خاطر طالبان کی گولیاں کھائیں اسے ہم ''ایجنٹ'' قرار دے دیتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے۔
میرے خیال میں جو ملالہ سے نفرت کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود سے نفرت کرتے ہیں، ملالہ پاکستان کے لیے بیسیوں عالمی ایوارڈ اپنے نام کرچکی ہے۔ اِس لڑکی کو ''مدر ٹریسا میموریل ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اِسے ''دخترِ پاکستان'' کا خطاب دینے کی قرارداد منظور کی۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر پیرس میں پاکستان اور یونیسکو کے زیرِ اہتمام ہونے والی کانفرنس میں دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ''ملالہ فنڈ'' قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد اگر کسی کو نوبل انعام ملا تو وہ ملالہ ہی ہے، اسے کسی شخصیت یا ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے 2013ء میں سخاروف پرائز برائے آزادیِ اظہار کا ایوارڈ دیا گیا۔
اس کے علاوہ نیشنل یوتھ پیس پرائز، ستارہ شجاعت، روم پرائز فار پیس، سیموں دا بوار پرائز، 'ضمیر کی سفیر' ایوارڈ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ، اعزازی ڈاکٹر آف سول لا، کینیڈا، اسکول گلوبل ٹریژر ایوارڈ اور دیگر کئی ایوارڈز اسے دنیا بھر سے ملے اور تو اور بھارت جیسے ملک میں بھی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے وہاں کی دیواروں پر بڑے بڑے ہولڈنگز لگے نظر آتے ہیں۔ لیکن افسوس ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں اس کا ہمیں خود علم نہیں ہے!!!
ملالہ یوسفزئی 6 برس بعد پاکستان آئی ہے ، اپنی تقریر میں اُس نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ کیسے وہ اپنے ملک اوراپنی دھرتی کو دیار غیر میں یاد کرتی تھی۔اس کی آمد کا کئی لوگوں کو اس قدر دکھ ہے کہ وہ سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک ہمارے بعض ''ایڈیٹرز'' فرما رہے ہیں کہ ملالہ ملک دشمن ہی نہیں فوج دشمن اور مذہب دشمن بھی ہے۔
اسے مغربی سازش کے تحت تیار کیا جارہا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں آئے اور پھر یہود و ہنود کی آلہ کار بن کر اس ملک کی سیاست پر حملہ آور ہو۔ شاید وزیراعظم بنے اور پھر شاید اس ملک کے اثاثے بشمول ہمارے ایٹم بم کو کسی بکسے میں ڈال کر مغربی طاقتوں کے حوالے کردے۔21توپوں کی سلامی ایسے لوگوں کی سوچ پر ۔ بندہ پوچھے جو گزشتہ ساٹھ برس سے اس ملک پر حکومت کر تے چلے آئے ہیں ، اُن سے بڑا بھی کوئی ''ایجنٹ '' ہو سکتا ہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ پاکستان میں کون غیر ملکی ایجنٹ نہیں رہا اور ہے؟
کون کون سا سیاستدان مغربی ملکوں میں متھا ٹیکنے نہیں جاتا، بے نظیر (مرحوم) کہاں سے آئی تھیں؟ نواز شریف کے بچے کہاں ہیں؟ عمران خان کی اولاد کہاں ہے ؟ پھر ہمارے مذہبی رہنماؤں کی اولاد بھی تو امریکا و یورپ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے تو کیا وہ سب ''ایجنٹ'' ہیں؟ کیا ایف سولہ جس پر ہم فخر کرتے ہیں وہ امریکا سے درآمد نہیں کیا ہوا؟
ملالہ کا یہ کہناکہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں تعلیم کا بول بالا ہوگا۔ تو اس میں غلط کیا ہے؟ اگر وہ تعلیم کے لیے کام کرنا چاہ رہی ہے تو کرنے دو ۔ کیا ہم ان نااہل اور کرپٹ ترین حکمرانوں اور بیوروکریسی کی وجہ سے پوری دنیا میں ذلیل و رسوا نہیں ہورہے؟
ملالہ کے بارے میں یہ ساری بدگمانیاں ایک طرف، میں صرف اتنا کہوں گا کہ آج سے 8 سال پہلے اس نے جن طالبان کے خلاف آواز بلند کی تھی کیا آج پوری قوم بشمول فوج و سیاستدان انھیں کا صفایا کرنے کا کریڈٹ نہیں لے رہے؟ مجھے سوات کے وہ دن یاد ہیں جب میں نے لڑکیوں کے اسکولوں کی تباہی ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھی تھی، تمام اسکولوں کو بموں سے اُڑایا جا رہا تھا، سوات کی گلیوں اور بازاروں کے چوراہوں میں وردی پوش سپاہیوں کی لاشیں لٹکائی جا رہی تھیں، صحافیوں کو قتل کیا جا رہا تھا، سیاحوں کی جنت مینگورہ کے کاروبار تباہ کر دیے گئے، ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے لوگوں کو سزائیں سنائی جاتی رہیں۔
اور پھر ملالہ، شرمین عبید اور ان جیسی خواتین نے پاکستان سے لیا کیا ہے؟ ان کی وجہ سے اگر پاکستان کا مثبت تاثر قائم ہورہا ہے تو ہونے دو۔ الزامات کا کیا ہے، وہ تو علامہ اقبالؒ و قائداعظم پر بھی لگائے گئے تھے، الزامات تو فیض احمد فیض پر بھی لگائے گائے، لاہور میں عائشہ ممتاز نے تھوڑا بہتر کام کرنے کی طرف توجہ دی تھی ، تو کیا وہ الزامات سے بچ گئی تھی؟ اسے اُٹھا کر کھڈے لائن لگادیا گیا۔
الزامات تو نجم سیٹھی پر لگے یعنی ہم حسد کے مارے لوگ ہیں ، نفرت اور کدورت پالنے والے ، زندگی میں کسی کوآگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے ، خصوصاً اُن لوگوں کو جو کبھی ہم پلہ رہے ہوں ، مسلسل محنت یا ذہانت کے بل بوتے پر جو لوگ ہم سے آگے نکل جائیں اُن سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے ، کوئی بچپن کا دوست ہمارے سامنے ترقی کرکے زندگی میں کچھ بن جائے ،ہمیں منظور نہیں ''ارے یہ تو ہمارے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا کرتا تھا، آج بڑا افسر بنا پھرتا ہے ''۔ گویا اسے آج بھی گلی ڈنڈا ہی کھیلتے رہنا چاہیے تھا۔
کسی ایسے شخص کو اگر ہم دیکھ لیں جو اپنے شعبے میں بہتری کے لیے کام کر رہا ہو تو پہلا خیال یہ ذہن میں آئے گا کہ ہو نہ ہو اس کا اپنا کوئی فائدہ ہوگایا پھراس نے کوئی ٹھیکہ اپنے سالے کو دیا ہوگا!ہر قابل اور ذہین آدمی کے بارے میں ہماری رائے منفی ہوتی ہے، وئی ثبوت یا دلیل ہو یانہ ہو پتہ نہیں کیوں ہمیں وہ کرپٹ لگتا ہے، ہر کامیاب آدمی کو ہم نے یہاں متنازع بنا دیا ہے ، ہمارا کوئی رول ماڈل نہیں،ہر ماڈل کو ہم نے ''رول '' کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارے نزدیک کوئی مغرب کا ایجنٹ ہے تو کوئی صہیونی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے یعنی ہر شخص کے بارے میں ہم خواہ مخواہ ایک منفی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھریہ منفی رائے اُس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ہم اسے اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفنا نہیں دیتے۔
ہمارے اندر تو اتنا ظرف بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرلیں، وہ آسٹریلوی کرکٹر ہی تھے جنہوں نے چیٹنگ کی، اپنی غلطیاں مانیں، شرمندہ ہوئے، آبدیدہ ہوئے، اور پھر خود کو کرکٹ سے الگ کرلیا، قوم نے انھیں معاف کردیا اور اس سے ملک بڑی بدنامی سے بچ گیا، ہمارے یہاں بے شرموں کی طرح ڈھٹائی کے ساتھ قسمیں کھانے والے کرپشن بھی کرتے ہیں، ڈٹے بھی رہتے ہیں۔
ہر دوسرے شخص کو امریکن ایجنٹ بنایا ہوا ہے۔ گاڑیاں ہم یورپ کی بنی ہوئی پسند کرتے ہیں، جائے نماز ہم چین کی بنی ہوئی پسند کرتے ہیں۔ اور جس بچی نے تعلیم کی خاطر طالبان کی گولیاں کھائیں اسے ہم ''ایجنٹ'' قرار دے دیتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے۔
میرے خیال میں جو ملالہ سے نفرت کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود سے نفرت کرتے ہیں، ملالہ پاکستان کے لیے بیسیوں عالمی ایوارڈ اپنے نام کرچکی ہے۔ اِس لڑکی کو ''مدر ٹریسا میموریل ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اِسے ''دخترِ پاکستان'' کا خطاب دینے کی قرارداد منظور کی۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر پیرس میں پاکستان اور یونیسکو کے زیرِ اہتمام ہونے والی کانفرنس میں دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ''ملالہ فنڈ'' قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد اگر کسی کو نوبل انعام ملا تو وہ ملالہ ہی ہے، اسے کسی شخصیت یا ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے 2013ء میں سخاروف پرائز برائے آزادیِ اظہار کا ایوارڈ دیا گیا۔
اس کے علاوہ نیشنل یوتھ پیس پرائز، ستارہ شجاعت، روم پرائز فار پیس، سیموں دا بوار پرائز، 'ضمیر کی سفیر' ایوارڈ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ، اعزازی ڈاکٹر آف سول لا، کینیڈا، اسکول گلوبل ٹریژر ایوارڈ اور دیگر کئی ایوارڈز اسے دنیا بھر سے ملے اور تو اور بھارت جیسے ملک میں بھی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے وہاں کی دیواروں پر بڑے بڑے ہولڈنگز لگے نظر آتے ہیں۔ لیکن افسوس ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں اس کا ہمیں خود علم نہیں ہے!!!