عدالتِ عظمیٰ اور مفادِ عامہ
وزیراعظم نے مفادِ عامہ سے تعلق رکھنے والے معاملات میں چیف جسٹس کے اقدامات کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود پاکستان کے مسائل گرفتہ عوام کی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق معاملات کا از خود نوٹس لے رہے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے جسے مظلوموں اور ستم رسیدہ بے کس اور بے سہارا پاکستانیوں کی حالتِ زار پر بے حد ترس آتا ہے۔
انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اپنی تمام حدود پارکرچکی ہے اور وطن عزیزکے بیشتر ادارے اپنی تباہی و بربادی کی آخری حدوں کو چھورہے ہیں ۔ دو وقت کی روٹی تو کجا عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔
حب الوطنی اور خدمت عوام کے جذبے سے سرشار چیف جسٹس کو اس سنگین صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ قوم کے حقوق کے محافظ کی حیثیت سے انھوں نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ٹھیکے داروں کے حوالے کرنے دیںگے اور نہ ہی قومی خزانے کی بندر بانٹ کی اجازت دی جائے گی۔ موصوف نے اسٹرٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپانس یونٹ میں ریٹائرڈ افسروں کی بے تحاشا مراعات اور بھاری بھاری تنخواہوں پربھرتیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس نے لاہور کے لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر میں بھاری تنخواہوں پر ڈاکٹروں کی بھرتی کا بھی نوٹس لے لیا اور سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگانے کا عندیہ بھی دیا۔ انھوں نے بیگم کوٹ کی رہائشی صغریٰ بی بی کی فریاد پر ان کے 18 سالہ نوجوان بیٹے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام پولیس اہلکاروں کو طلب کرلیا اور نوجوان کی والدہ کو مفت قانونی امداد کی فراہمی کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس آخر کب تک ماؤں کی گودیں اجاڑتی رہے گی۔
مظلوم عورت نے روتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے گھر پر قبضہ کرانے کے لیے پولیس نے اس کا 18 سالہ نوجوان بیٹا مار ڈالا۔ عدالت نے قصور کے قصبے چونیاں میں ایک اور پولیس مقابلے میں ارسلان شاہد نامی نوجوان کی ہلاکت کو جوڈیشل تحقیقات کا بھی حکم صادر کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق سیل قائم کرنے کے احکامات بھی صادر کیے۔ پھول نگر کے ریڈ کریسنٹ میڈیکل کالج سے متعلق از خود نوٹس کیس کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر نکلنے چاہئیں عطائی نہیں۔
اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے سیاسی قائدین عام انتخابات کے وقت عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اور پھر جب وہ برسر اقتدار آجاتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اپنی جیبیں بھرنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طول دینے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ Musical Chairs کا یہ کھیل جمہوریت کے نام پر وطن عزی میں مدتِ دراز سے جاری ہے۔ وطن عزیز کی سیاست کے حوالے سے ذہن میں یہ شعر گردش کر رہا ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ملک کی موجودہ حکومت نے تیسری بار برسر اقتدار آنے سے پہلے عام انتخابات کے موقعے پر عوام سے کئی وعدے کیے تھے جن میں سب سے بڑا وعدہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا، اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے عوام سے کیا ہوا اپنا یہ وعدہ پورا کردیا ہے لیکن حقیقت حال اس کے برعکس ہے جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ہم کراچی کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں وہ بجلی کے بلوں کی سو فی صد ادائیگی والے علاقوں میں شامل ہے اور بجلی چوری کے جرم سے بھی پاک ہے لیکن اس کے باوجود یہاں وقفے وقفے سے ہونے والی غیر اعلانیہ اور اعصاب شکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے۔
ستم بالائے ستم بجلی کے ماہانہ بل اتنے بھاری بھاری آتے ہیں کہ انھیں دیکھتے ہی جسم میں کرنٹ دوڑجاتا ہے۔ رہی بات بجلی کے بلوں کے خلاف شکایت درج کرانے کی تو کہا یہ جاتا ہے کہ پہلے بل کی ادائیگی کریں اس کے بعد کوئی بات کریں۔ بجلی کے بل کی کے الیکٹرک کے شکایت دفتر میں جاکر شکایت درج کرانا محض سعی لا حاصل ہے۔ نقاد خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔
وطن عزیز میں بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بجلی کا استعمال عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجائے گا۔ بجلی کے بلوں میں استعمال کی ہوئی بجلی کے چارجز کے علاوہ مختلف حیلوں بہانوں سے کئی طرح چارجز وصول کیے جارہے ہیں جو ''جگا ٹیکس'' کے مترادف ہیں۔ یہ سلسلہ بجلی کے صارفین کی چمڑی ادھیڑنے سے کم نہیں۔
ہمیں کے الیکٹرک کی نجکاری سے قبل اس محکمے کے ایک کارکن کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ جناب نجکاری کے بعد آپ پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ بجلی چوروں کے جرم کا خمیازہ بھی ایمان دار صارفین کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی اور کیا اس ظلم و ستم کا از خود نوٹس بھی چیف جسٹس صاحب کو ہی لینا پڑے گا؟
ستم ظریفی یہ کہ عدالت عظمیٰ کی فعالیت کو ہمارے نام نہاد عوام دوست سیاست دان شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے عدالت کے دائرے سے تجاوز اور اپنی حدود میں داخل اندازی تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک طنزیہ ٹوئیٹ میں کہاتھاکہ چیف جسٹس کو سموسوں کی قیمت اور معیار کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت اچھی حکمرانی نہیں کرسکتی اور عدلیہ بھی اس کا نوٹس نہ لے تو بے چارے عوام کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔یہ تو وہی ہوا کہ:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
وطن عزیز میں عدل و انصاف کے تقاضوں کی پامالی، میرٹ اور شفافیت کی درگت اور اداروں میں فرض شناسی اور عوام کی خدمت کے جذبے کی عدم موجودگی اور کرپشن میں بے تحاشا اضافے نے پاکستانی معاشرے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے اور عوامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بے بس اور بے کس عوام کو قدم قدم پر طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بھی کیا عجب تماشا ہے کہ آیندہ سال کے مالی بجٹ کی تیاری کا مرحلہ درپیش ہے اور وزیر خزانہ ملک میں موجود نہیں:
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
حکومت وقت کی سوجھ بوجھ اور حسنِ کارکردگی کا اندازہ لگایئے کہ امریکا جیسے ملک کے لیے جس کے ساتھ وطن عزیز کے تعلقات اس وقت کڑی آزمائش سے گزررہے ہیں ایک ایسے شخص کو سفیر نامزد کردیا جس کا سفارت کاری سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں بلکہ جس کی دیانت داری کے آگے بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور جیسے ابھی ایک کڑی آزمائش سے گزرنا ہے بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہمارے بہت سے قومی اداروں کی زبوں حالی کی کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
ہماری حکومتیں پے در پے کرپشن میں سر سے لے کر پیروں تک ڈوب کر اور اپنی اقربا پروری اور نا اہلی کا ثبوت دے کر ایک بہت بڑا خلا پیدا کررہی ہیں اور جب اس خلا کو عدالت عظمیٰ آئین کی رہنمائی میں پر کرنے کی مخلصانہ اور جرأت مندانہ کوشش کرتی ہے تو اسے ہدف تنقید بنایاجاتا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ساتھ حالیہ ملاقات کو خوش آیند اور ایک مثبت پیش رفت کہاجاسکتا ہے۔
وزیراعظم نے مفادِ عامہ سے تعلق رکھنے والے معاملات میں چیف جسٹس کے اقدامات کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ چیف جسٹس نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عدلیہ اپنی آئینی ذمے داری آزادانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اوربلا خوف و رغبت قانون کے مطابق ادا کرے گی۔
انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اپنی تمام حدود پارکرچکی ہے اور وطن عزیزکے بیشتر ادارے اپنی تباہی و بربادی کی آخری حدوں کو چھورہے ہیں ۔ دو وقت کی روٹی تو کجا عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔
حب الوطنی اور خدمت عوام کے جذبے سے سرشار چیف جسٹس کو اس سنگین صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ قوم کے حقوق کے محافظ کی حیثیت سے انھوں نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ٹھیکے داروں کے حوالے کرنے دیںگے اور نہ ہی قومی خزانے کی بندر بانٹ کی اجازت دی جائے گی۔ موصوف نے اسٹرٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپانس یونٹ میں ریٹائرڈ افسروں کی بے تحاشا مراعات اور بھاری بھاری تنخواہوں پربھرتیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس نے لاہور کے لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر میں بھاری تنخواہوں پر ڈاکٹروں کی بھرتی کا بھی نوٹس لے لیا اور سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگانے کا عندیہ بھی دیا۔ انھوں نے بیگم کوٹ کی رہائشی صغریٰ بی بی کی فریاد پر ان کے 18 سالہ نوجوان بیٹے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام پولیس اہلکاروں کو طلب کرلیا اور نوجوان کی والدہ کو مفت قانونی امداد کی فراہمی کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس آخر کب تک ماؤں کی گودیں اجاڑتی رہے گی۔
مظلوم عورت نے روتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے گھر پر قبضہ کرانے کے لیے پولیس نے اس کا 18 سالہ نوجوان بیٹا مار ڈالا۔ عدالت نے قصور کے قصبے چونیاں میں ایک اور پولیس مقابلے میں ارسلان شاہد نامی نوجوان کی ہلاکت کو جوڈیشل تحقیقات کا بھی حکم صادر کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق سیل قائم کرنے کے احکامات بھی صادر کیے۔ پھول نگر کے ریڈ کریسنٹ میڈیکل کالج سے متعلق از خود نوٹس کیس کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر نکلنے چاہئیں عطائی نہیں۔
اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے سیاسی قائدین عام انتخابات کے وقت عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اور پھر جب وہ برسر اقتدار آجاتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اپنی جیبیں بھرنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طول دینے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ Musical Chairs کا یہ کھیل جمہوریت کے نام پر وطن عزی میں مدتِ دراز سے جاری ہے۔ وطن عزیز کی سیاست کے حوالے سے ذہن میں یہ شعر گردش کر رہا ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ملک کی موجودہ حکومت نے تیسری بار برسر اقتدار آنے سے پہلے عام انتخابات کے موقعے پر عوام سے کئی وعدے کیے تھے جن میں سب سے بڑا وعدہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا، اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے عوام سے کیا ہوا اپنا یہ وعدہ پورا کردیا ہے لیکن حقیقت حال اس کے برعکس ہے جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ہم کراچی کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں وہ بجلی کے بلوں کی سو فی صد ادائیگی والے علاقوں میں شامل ہے اور بجلی چوری کے جرم سے بھی پاک ہے لیکن اس کے باوجود یہاں وقفے وقفے سے ہونے والی غیر اعلانیہ اور اعصاب شکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے۔
ستم بالائے ستم بجلی کے ماہانہ بل اتنے بھاری بھاری آتے ہیں کہ انھیں دیکھتے ہی جسم میں کرنٹ دوڑجاتا ہے۔ رہی بات بجلی کے بلوں کے خلاف شکایت درج کرانے کی تو کہا یہ جاتا ہے کہ پہلے بل کی ادائیگی کریں اس کے بعد کوئی بات کریں۔ بجلی کے بل کی کے الیکٹرک کے شکایت دفتر میں جاکر شکایت درج کرانا محض سعی لا حاصل ہے۔ نقاد خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔
وطن عزیز میں بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بجلی کا استعمال عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجائے گا۔ بجلی کے بلوں میں استعمال کی ہوئی بجلی کے چارجز کے علاوہ مختلف حیلوں بہانوں سے کئی طرح چارجز وصول کیے جارہے ہیں جو ''جگا ٹیکس'' کے مترادف ہیں۔ یہ سلسلہ بجلی کے صارفین کی چمڑی ادھیڑنے سے کم نہیں۔
ہمیں کے الیکٹرک کی نجکاری سے قبل اس محکمے کے ایک کارکن کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ جناب نجکاری کے بعد آپ پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ بجلی چوروں کے جرم کا خمیازہ بھی ایمان دار صارفین کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی اور کیا اس ظلم و ستم کا از خود نوٹس بھی چیف جسٹس صاحب کو ہی لینا پڑے گا؟
ستم ظریفی یہ کہ عدالت عظمیٰ کی فعالیت کو ہمارے نام نہاد عوام دوست سیاست دان شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے عدالت کے دائرے سے تجاوز اور اپنی حدود میں داخل اندازی تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک طنزیہ ٹوئیٹ میں کہاتھاکہ چیف جسٹس کو سموسوں کی قیمت اور معیار کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت اچھی حکمرانی نہیں کرسکتی اور عدلیہ بھی اس کا نوٹس نہ لے تو بے چارے عوام کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔یہ تو وہی ہوا کہ:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
وطن عزیز میں عدل و انصاف کے تقاضوں کی پامالی، میرٹ اور شفافیت کی درگت اور اداروں میں فرض شناسی اور عوام کی خدمت کے جذبے کی عدم موجودگی اور کرپشن میں بے تحاشا اضافے نے پاکستانی معاشرے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے اور عوامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بے بس اور بے کس عوام کو قدم قدم پر طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بھی کیا عجب تماشا ہے کہ آیندہ سال کے مالی بجٹ کی تیاری کا مرحلہ درپیش ہے اور وزیر خزانہ ملک میں موجود نہیں:
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
حکومت وقت کی سوجھ بوجھ اور حسنِ کارکردگی کا اندازہ لگایئے کہ امریکا جیسے ملک کے لیے جس کے ساتھ وطن عزیز کے تعلقات اس وقت کڑی آزمائش سے گزررہے ہیں ایک ایسے شخص کو سفیر نامزد کردیا جس کا سفارت کاری سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں بلکہ جس کی دیانت داری کے آگے بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور جیسے ابھی ایک کڑی آزمائش سے گزرنا ہے بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہمارے بہت سے قومی اداروں کی زبوں حالی کی کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
ہماری حکومتیں پے در پے کرپشن میں سر سے لے کر پیروں تک ڈوب کر اور اپنی اقربا پروری اور نا اہلی کا ثبوت دے کر ایک بہت بڑا خلا پیدا کررہی ہیں اور جب اس خلا کو عدالت عظمیٰ آئین کی رہنمائی میں پر کرنے کی مخلصانہ اور جرأت مندانہ کوشش کرتی ہے تو اسے ہدف تنقید بنایاجاتا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ساتھ حالیہ ملاقات کو خوش آیند اور ایک مثبت پیش رفت کہاجاسکتا ہے۔
وزیراعظم نے مفادِ عامہ سے تعلق رکھنے والے معاملات میں چیف جسٹس کے اقدامات کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ چیف جسٹس نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عدلیہ اپنی آئینی ذمے داری آزادانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اوربلا خوف و رغبت قانون کے مطابق ادا کرے گی۔