’ پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ‘
بھارت کی خوشامد یا اپنوں کوتنہا چھوڑنے کا نیا انداز ؟
یہ بات طے کرنا اب ضروری ہوچکا ہے کہ پاکستانی زیادہ محب وطن ہیں یا بھارت والے ؟
اس کا اگربغورجائزہ لیا جائے تویک چیزجو صاف دکھائی دیتی ہے کہ لائن آف کنٹرول کی جس طرح سے بھارتی فوج نے خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ہے ، اب تواس پرانٹرنیشنل میڈیا بھی آواز اٹھانے لگا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خلاف ورزی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کڑیاں تحقیقات کے بعد بھارت سے جاملتی ہیں اوراس حوالے سے بہت سے شواہد بھی سامنے لائے جا چکے ہیں ۔ مگرسچ کوماننا توشاید انہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں ہے اورپھرجذبہ حب الوطنی دیکھنا ہوتواس کی بڑی مثال کچھ عرصہ پہلے ہی ہمارے سامنے آئی ہے جس کے بعد توفیصلہ کرنے میں سب کوآسانی ہوجائے گی کہ کون زیادہ محب وطن ہے۔
اس وقت بھارت میں اینٹی مسلم اورپاکستان '' سازشوں'' کوکچھ اندرونی طاقتیں صرف اورصرف اپنے مفادات کیلئے پروان چڑھا کراسے کچھ ایسا رنگ دینے میں مصروف عمل ہیں کہ اس سے بھارت کی عوام میں پاکستان اور اسلام کیلئے مزید نفرت پیدا کی جاسکے۔
اس سلسلہ میں بھارتی فلم نگری والوں نے اس مہم کا حصہ بن کرجس طرح سے ''یکجہتی'' کا ایک ایسا دائو چلایا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے بھارت میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے وہاں کام کرنے پرخود ہی پابندی لگادی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فنکاروںکو آئندہ ویزہ جاری نہ کرنے کیلئے وزیراعظم نریندرمودی کوخط بھی لکھ ڈالا۔
اب ذرا سوچئے کہ محب وطن توپھربھارت والے ہی ہوئے، جوسب کچھ جاننے، سمجھنے کے باوجود بھی اپنی حکومت اورفوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حالانکہ اپنی فلموں، ڈراموں اوردیگرذرائع سے '' امن، بھائی چارے اوربھارت مہان '' کا سبق پڑھانے اوردکھانے والے ملک کی اس حرکت نے ایک طرح سے جہاں بھارت کے اصل چہرے کودنیا بھرکے سامنے پیش کیا ہے، وہیں ان کے گھنائونے عزائم بھی آج سب کے سامنے آچکے ہیں۔
دیکھا جائے تواپنے ملک اورفوج کی ''قربانیوں'' کیلئے بھارتی فلم انڈسٹری کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم ایک طرح سے ان کے مطابق'' حب الوطنی '' ہی ہے لیکن اصل میں یہ کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ پاکستانی فنکاروں کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہونے والے بھارتی فنکاروں، گلوکاروں اور تکنیک کاروں کی سوچی سمجھی سازش ہے ، جوآج نہیں توکل ضروربے نقاب ہوجائے گی۔
بھارت میں پاکستانی فنکاروںکو بین کرنے کی مہم کوبہت سراہا گیا ہے لیکن بھارتی فلموں کے پاکستان میں کامیاب کاروبارکوکسی نے بُرانہیں سمجھا اورنہ ہی کسی نے اس پرکوئی آواز اٹھائی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان میں امپورٹ قوانین کے تحت سالانہ کروڑوں روپے مالیت کی فلمیں امپورٹ کی جا رہی ہیں۔ اس لئے کچھ ہی عرصہ بھی بھارتی فلم انڈسٹری کیلئے پاکستان بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔اسی لئے توصرف پاکستانی فنکاروں کے کام پرپابندی ہے لیکن فلموں کی ایکسپورٹ پرنہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی توجس طرح بھارت والوں نے اپنا جذبہ حب الوطنی سب کے سامنے رکھ دیا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے ایک خاص طبقہ کے لوگوں نے بھی ان کی اس مہم کوبڑی تقویت بخشی ہے۔ یہ بات توکسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان والے انتہائی مہمان نواز ہوتے ہیں۔ کوئی پھرچاہے دشمن ملک سے ہی کیوں نہ ہو، ہم اس کی آئوبھگت میں لگ جاتے ہیں۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں آکراچھی اچھی باتیں کرنے والے لوگ اپنے ملک پہنچتے ہی ہمارے خلاف زہراگلیں گے یا پھرہماری چاہت اورمہمان نوازی کوبے وقوفی کا نام دیں گے، لیکن اس کے باوجود ہم اپنی عادت اور روایات سے مجبورہیں۔ اسی طرح کی صورتحال ہمیں شہر قائد کراچی میں اس وقت دکھائی دی، جب ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن 'کراچی فلم سوسائٹی' کے زیر اہتمام چارروزہ ''پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول'' منعقد کیا گیا۔
کہنے کو تو اس فیسٹیول میں 93ممالک کی تقریباً 210 فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں، لیکن توجہ کا مرکز صرف اورصرف بھارت سے آنے والے فلم میکر، فنکار، پروڈیوسراورڈائریکٹرہی بنے رہے۔ منتظمین بھارتی فنکاروں کی آمد سے اس قدر خوش تھے کہ وہ یہ بھول ہی گئے کہ انہیں جہاں بہترین میزبان بننے کا '' فرض ''انجام دینا ہے، وہیں اپنے ملک کے عظیم فنکاروں، فلم میکرز ، ڈائریکٹر، رائٹرز اوردیگرکوبھی مدعو کرنا ضروری ہے۔
کہنے کو تو یہ ایک پرائیویٹ تنظیم کا ایونٹ تھا لیکن اس کے انعقاد میں وفاقی وزارت اطلات ونشریات ، سندھ حکومت اور دیگر حکومتی ذرائع کی بھرپورمالی سپورٹ رہی ۔ ایک طرف جہاں مالی معاونت کی گئی، وہیں حکومتی اداروں کی جانب سے ایونٹ کے انعقاد کیلئے مختلف مقامات کی دستیابی اور سکیورٹی کوبھی یقینی بنایا گیا۔ مختلف مقامات پرفلموں کی نمائش کا سلسلہ توجاری رہا ہی لیکن لائیوسیشنزمیں بھارتی مہمانوں کی آئوبھگت اوران کے کارناموںکو کچھ ایسے پیش کیا گیا کہ بس شرکاء بھی یہ سب دیکھ کراس پرحیران تھے۔
کراچی فلم سوسائٹی' کے تحت ہونے والے چار روزہ فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے بھارت، جرمنی، اٹلی اور دیگر ممالک کے فلمساز ، ہدایتکار ،موسیقار اورفنکار کراچی پہنچے۔ جن میں بھارت کی سب سے مقبول اور مہنگی ترین فلم'' باہوبَلی''کے ہدایتکارایس ایس راجہ مَولی، بولی ووڈ فلموں کی نامور اداکارہ نندیتا داس ، بھارت کی درجنوں فلموں کے کامیاب ہدایتکار وِشال بھردواج اور ان کی اہلیہ معروف پلے بیک سنگر ریکھا بھردواج ، بھارگوی دلیپ کمار ، ہرش نارائن، وینے پاٹھک، انجم راجا بلی ، سوبھاش کپور، بھرم آنند سنگھ وغیرہ شامل تھے۔
فیسٹیول 29مارچ سے شروع ہوکر یکم اپریل کی شام شاندار اور پْروقار تقریب کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ فیسٹیول میںشاٹ فلم،ڈاکیومنٹریز اور فیچر فلمز کا انتخاب کیا گیا جن کی اسکریننگ چار دن تک کراچی کے چار اہم مقامات پرکی گئیں۔ فیسٹیول کے پہلے روز زبردست گہماگہمی دیکھنے میں آئی۔
بھارتی اور پاکستانی فنکار'' فلم ڈپلومیسی اور کراس بارڈر کو لیبریشن''کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کررہے تھے جن میں معروف پاکستانی ہدایتکار عاصم رضا ،بھارتی اسکرین پلے رائٹر انجم راجا بلی،بھارتی اداکارہ نندیتا داس ، فلمساز ہرش نارائن اور پاکستانی اداکارہ سجل علی نے گفتگو کی۔ شام کے وقت نیوپلیکس سینما میں بھارتی اور پاکستانی فنکاروں کا میلہ دیکھنے کو ملا اس موقع پر نوجوان ہدایتکار عاصم عباسی کی نئی فلم ''کیک''کا پریمیئر بھی رکھا گیا۔
بھارتی فلمسازوں اور فنکاروں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے نوجوانوں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فلم کی تعریف کی۔ بھارت سمیت دیگر ممالک سے آئے فنکاروں اور ہنرمندوں کے اعزاز میں گورنر ہائوس میں پروقار ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں فیسٹیول کے بورڈ میں شامل ممبران اور دیگر فنکاروں نے بھی شرکت کی۔ فیسٹیول کے دوسرے روز دو پینل ڈسکشنز کا اہتمام کیا گیا۔
پہلا پینل ڈسکشن ''جونرابسٹرز''کے عنوان سے تھا جس میں فلم ''شاہ''کے ڈائریکٹر ،رائٹر اور پروڈیوسر عدنان سرور، اینی میٹڈ فلم ''ٹِک ٹاک''کی پروڈیوسر ثنا توصیف، نامور اداکارہ عتیقہ اوڈھو، ''باہو بَلی''کے ڈائریکٹر ایس ایس راجا مَولی ، اداکارہ نندیتا داس اور بھارتی اداکاروِینے پھاٹک نے فلم انڈسٹری کے مختلف ادوار اور اس دوران پیش آنے والی تبدیلیوں پر تفصیلی گفتگو کی لیکن یہاں فلم فیسٹیول کی انتظامیہ نے پاکستان کے نامور فن کاروں اور فلم سازوں کومکمل نظر انداز کیا۔
کیونکہ اس موقع پراگرماضی کے معروف اداکار ندیم بیگ، غلام محی الدین، مصطفی قریشی، شان، معمررانا، ریشم، سنگیتا، بہار بیگم، جاوید شیخ ، ہمایوں سعید، صبا قمر، سید نور، شہزاد رفیق، پرویزکلیم، ناصر ادیب، حسن عسکری اور غیرملکی فلموں کے سب سے بڑے امپورٹرآئی ایم جی سی گروپ کے چیئرمین شیخ امجد رشید سمیت دیگرکومدعو کیا جاتا توبھارت سمیت دنیا کے دوسرے ممالک سے آئے لوگوں کو پاکستان فلم انڈسٹری کے باصلاحیت لوگوں سے مل کرجہاں اچھا لگتا، وہیں کوپروڈکشن جیسی اہم ضرورت میں بہترپیش رفت بھی دیکھنے کو ملتی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن اورپاکستان فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشنز کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے نام خطوط لکھے گئے، جس میںاس ایونٹ کے انعقاد پرجہاں سخت الفاظ میں مذمت کی گئی، وہیں پاکستانی فلم کوکراچی تک محدود رکھنے اورتقسیم کرنے کے حوالے سے گہری تشویش کا بھی اظہاکیا گیا۔
فلم فیسٹیول کے تیسرے دن دو پینل ڈسکشنز بعنوان ''فلمز فار چینج ،سوشلی موٹیویٹڈ کانٹنٹ ان سائوتھ ایشین فلم انڈسٹری''اور ''دی فیوچر آ میوزک اینڈ لیرکس''کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں ہدایت کار جامی، سبھاش کپور، وِشال بھردواج ، اَریم فاروق، آصف نورانی، سلطان ارشد، ریکھا بھردواج ، ڈاکٹرعمر عادل ،ارشد محمود اور پاکستانی اور گلوکارعلی ظفر نے اپنے دلی جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔
فیسٹیول میں فلم ''کیک''کے علاوہ مزید 7فلموں کے پریمیئرز بھی ہوئے جن میں ''دی ویلی''،''لالہ بیگم''،''مومل رانو''،''زراب''،''دی سانگ آف اسکارپینز''، ''کچھ بھیگے الفاظ ''، ''دی وِشنگ ٹری''اور اینی میٹڈ فلم ''ٹِک ٹاک''وغیرہ شامل تھیں۔ فلم فیسٹیول میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز سپر ہٹ فلم ''باہو بَلی''کے ہدایتکار ایس ایس راجا مَولی رہے۔
انہوں نے چار روز تک مختلف ملاقاتوں میں بڑی محبتوں اور چاہتوں کا اظہار کیا وہ بہت خوش دِکھائی دے رہے تھے۔ اْن کا کہنا تھا کہ میں پاکستانیوں کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے میری فلموں کو پسند کیا۔ یہاں کی مہمان نوازی کے بارے میں جیسا سْنا تھا ،اس سے بھی اچھا محسوس کررہا ہوں۔ یہاں کے لوگ بہت محبتی اور آرٹ کے دیوانے ہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹول کا اختتام فرئیر ہال کراچی میں منعقدہ ایک شاندار تقریب کے ذریعے کیا گیا۔ اس موقع پرجہاں گالا ایوارڈ نائٹ میں شوبزسے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی وہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ صوفی گلوکارہ عابدہ پروین کی ایک شاندار پرفا رمنس کا اہتمام بھی کیا گیا۔
تقریب کی مہمان خصوصی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب تھیں جنہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''فنکار وں پر بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا مثبت امیج دنیا کے سامنے لانا اور اپنے فن کے ذریعے معاشرے میں قوت برداشت پیدا کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور کے ایف ایس کے زیر اہتمام پہلے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹول کی کامیابی اور اس میں غیر ملکی وفود کی بھرپور شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی تقریب کے پہلے میزبان کے فرائض ثروت گیلانی اور اظفر رحمن نے انجام دیئے ۔
بیسٹ ڈاکومنٹری فیچر کا ایوارڈ پروین رحمن ''دی ریبل آپٹیمس ''کو علی رحمن اور کبری خان نے پیش کیا۔ اس موقع پر14کیٹگریوں میں منتخب فنکاروں اور تکنیک کاروںکو ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
کراچی میں منعقدہ فلم فیسٹیول کے حوالے سے پاکستان فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا تھا کہ ثقافتی سرگرمیاں ایک صحتمند معاشرے کی علامت ہوتی ہیں لیکن اس فیسٹیول کے انعقاد پرجہاں حکومت کی جانب سے ایک پرائیویٹ تنظیم کو بھرپورسپورٹ کیا گیا، وہیں اس بات کا خیال رکھنا بھی بے حدضروری تھا کہ اس ایونٹ کے انعقاد سے کس طرح پاکستان فلم انڈسٹری کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردینے والے فنکاروں، تکنیک کاروں اور دیگر کو نظرانداز تو نہیں کیا جارہا۔
جس طرح پاکستانی فنکاروںکوبھارت میں بین کرنے کی حمایت کرنے والی کمیونٹی کے لوگوں نے یہاں پروٹوکول کوانجوائے کیا، اگراسی طرح اپنے ملک کے عظیم فنکاروںکو بھی اس کا حصہ بنا کرحوصلہ افزائی کی جاتی تویہ سب سے اچھا اقدام ہوتا۔ یہی نہیں جس طرح سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں، فلم میکرز، ڈائریکٹرز اور رائٹرزکوجان بوجھ کریا نادانی میں نظرانداز کیا گیا، اس سے پاکستانی فلم انڈسٹری کوتقسیم کرنے کی بُوبھی پھیل رہی ہے۔
اس مہم کوروکنے کیلئے حکومت کوہی اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ وگرنہ ہم جہاں پاکستانی فلم کی بحالی اورترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی فلم انڈسٹریوں کے شانہ بشانہ چلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، یہ خواب آپسی اختلافات اورایک دوسرے کونیچا دکھانے کے پیچھے چکنا چورہوجائیں گے۔ اس وقت ہمیں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ایک محبت وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ جب تک ہم اپنے فنکاروںکو عزت واحترام نہیں دیں گے، تب تک ہمیں کسی اورملک سے یہ عزت اوراحترام نہیں ملے گا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، جس پرسب کوغورکرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ہماری آپسی لڑائی میں فائدہ ہمارے دشمن ہی اٹھائیں گے۔
اس کا اگربغورجائزہ لیا جائے تویک چیزجو صاف دکھائی دیتی ہے کہ لائن آف کنٹرول کی جس طرح سے بھارتی فوج نے خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ہے ، اب تواس پرانٹرنیشنل میڈیا بھی آواز اٹھانے لگا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خلاف ورزی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کڑیاں تحقیقات کے بعد بھارت سے جاملتی ہیں اوراس حوالے سے بہت سے شواہد بھی سامنے لائے جا چکے ہیں ۔ مگرسچ کوماننا توشاید انہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں ہے اورپھرجذبہ حب الوطنی دیکھنا ہوتواس کی بڑی مثال کچھ عرصہ پہلے ہی ہمارے سامنے آئی ہے جس کے بعد توفیصلہ کرنے میں سب کوآسانی ہوجائے گی کہ کون زیادہ محب وطن ہے۔
اس وقت بھارت میں اینٹی مسلم اورپاکستان '' سازشوں'' کوکچھ اندرونی طاقتیں صرف اورصرف اپنے مفادات کیلئے پروان چڑھا کراسے کچھ ایسا رنگ دینے میں مصروف عمل ہیں کہ اس سے بھارت کی عوام میں پاکستان اور اسلام کیلئے مزید نفرت پیدا کی جاسکے۔
اس سلسلہ میں بھارتی فلم نگری والوں نے اس مہم کا حصہ بن کرجس طرح سے ''یکجہتی'' کا ایک ایسا دائو چلایا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے بھارت میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے وہاں کام کرنے پرخود ہی پابندی لگادی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فنکاروںکو آئندہ ویزہ جاری نہ کرنے کیلئے وزیراعظم نریندرمودی کوخط بھی لکھ ڈالا۔
اب ذرا سوچئے کہ محب وطن توپھربھارت والے ہی ہوئے، جوسب کچھ جاننے، سمجھنے کے باوجود بھی اپنی حکومت اورفوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حالانکہ اپنی فلموں، ڈراموں اوردیگرذرائع سے '' امن، بھائی چارے اوربھارت مہان '' کا سبق پڑھانے اوردکھانے والے ملک کی اس حرکت نے ایک طرح سے جہاں بھارت کے اصل چہرے کودنیا بھرکے سامنے پیش کیا ہے، وہیں ان کے گھنائونے عزائم بھی آج سب کے سامنے آچکے ہیں۔
دیکھا جائے تواپنے ملک اورفوج کی ''قربانیوں'' کیلئے بھارتی فلم انڈسٹری کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم ایک طرح سے ان کے مطابق'' حب الوطنی '' ہی ہے لیکن اصل میں یہ کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ پاکستانی فنکاروں کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہونے والے بھارتی فنکاروں، گلوکاروں اور تکنیک کاروں کی سوچی سمجھی سازش ہے ، جوآج نہیں توکل ضروربے نقاب ہوجائے گی۔
بھارت میں پاکستانی فنکاروںکو بین کرنے کی مہم کوبہت سراہا گیا ہے لیکن بھارتی فلموں کے پاکستان میں کامیاب کاروبارکوکسی نے بُرانہیں سمجھا اورنہ ہی کسی نے اس پرکوئی آواز اٹھائی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان میں امپورٹ قوانین کے تحت سالانہ کروڑوں روپے مالیت کی فلمیں امپورٹ کی جا رہی ہیں۔ اس لئے کچھ ہی عرصہ بھی بھارتی فلم انڈسٹری کیلئے پاکستان بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔اسی لئے توصرف پاکستانی فنکاروں کے کام پرپابندی ہے لیکن فلموں کی ایکسپورٹ پرنہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی توجس طرح بھارت والوں نے اپنا جذبہ حب الوطنی سب کے سامنے رکھ دیا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے ایک خاص طبقہ کے لوگوں نے بھی ان کی اس مہم کوبڑی تقویت بخشی ہے۔ یہ بات توکسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان والے انتہائی مہمان نواز ہوتے ہیں۔ کوئی پھرچاہے دشمن ملک سے ہی کیوں نہ ہو، ہم اس کی آئوبھگت میں لگ جاتے ہیں۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں آکراچھی اچھی باتیں کرنے والے لوگ اپنے ملک پہنچتے ہی ہمارے خلاف زہراگلیں گے یا پھرہماری چاہت اورمہمان نوازی کوبے وقوفی کا نام دیں گے، لیکن اس کے باوجود ہم اپنی عادت اور روایات سے مجبورہیں۔ اسی طرح کی صورتحال ہمیں شہر قائد کراچی میں اس وقت دکھائی دی، جب ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن 'کراچی فلم سوسائٹی' کے زیر اہتمام چارروزہ ''پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول'' منعقد کیا گیا۔
کہنے کو تو اس فیسٹیول میں 93ممالک کی تقریباً 210 فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں، لیکن توجہ کا مرکز صرف اورصرف بھارت سے آنے والے فلم میکر، فنکار، پروڈیوسراورڈائریکٹرہی بنے رہے۔ منتظمین بھارتی فنکاروں کی آمد سے اس قدر خوش تھے کہ وہ یہ بھول ہی گئے کہ انہیں جہاں بہترین میزبان بننے کا '' فرض ''انجام دینا ہے، وہیں اپنے ملک کے عظیم فنکاروں، فلم میکرز ، ڈائریکٹر، رائٹرز اوردیگرکوبھی مدعو کرنا ضروری ہے۔
کہنے کو تو یہ ایک پرائیویٹ تنظیم کا ایونٹ تھا لیکن اس کے انعقاد میں وفاقی وزارت اطلات ونشریات ، سندھ حکومت اور دیگر حکومتی ذرائع کی بھرپورمالی سپورٹ رہی ۔ ایک طرف جہاں مالی معاونت کی گئی، وہیں حکومتی اداروں کی جانب سے ایونٹ کے انعقاد کیلئے مختلف مقامات کی دستیابی اور سکیورٹی کوبھی یقینی بنایا گیا۔ مختلف مقامات پرفلموں کی نمائش کا سلسلہ توجاری رہا ہی لیکن لائیوسیشنزمیں بھارتی مہمانوں کی آئوبھگت اوران کے کارناموںکو کچھ ایسے پیش کیا گیا کہ بس شرکاء بھی یہ سب دیکھ کراس پرحیران تھے۔
کراچی فلم سوسائٹی' کے تحت ہونے والے چار روزہ فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے بھارت، جرمنی، اٹلی اور دیگر ممالک کے فلمساز ، ہدایتکار ،موسیقار اورفنکار کراچی پہنچے۔ جن میں بھارت کی سب سے مقبول اور مہنگی ترین فلم'' باہوبَلی''کے ہدایتکارایس ایس راجہ مَولی، بولی ووڈ فلموں کی نامور اداکارہ نندیتا داس ، بھارت کی درجنوں فلموں کے کامیاب ہدایتکار وِشال بھردواج اور ان کی اہلیہ معروف پلے بیک سنگر ریکھا بھردواج ، بھارگوی دلیپ کمار ، ہرش نارائن، وینے پاٹھک، انجم راجا بلی ، سوبھاش کپور، بھرم آنند سنگھ وغیرہ شامل تھے۔
فیسٹیول 29مارچ سے شروع ہوکر یکم اپریل کی شام شاندار اور پْروقار تقریب کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ فیسٹیول میںشاٹ فلم،ڈاکیومنٹریز اور فیچر فلمز کا انتخاب کیا گیا جن کی اسکریننگ چار دن تک کراچی کے چار اہم مقامات پرکی گئیں۔ فیسٹیول کے پہلے روز زبردست گہماگہمی دیکھنے میں آئی۔
بھارتی اور پاکستانی فنکار'' فلم ڈپلومیسی اور کراس بارڈر کو لیبریشن''کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کررہے تھے جن میں معروف پاکستانی ہدایتکار عاصم رضا ،بھارتی اسکرین پلے رائٹر انجم راجا بلی،بھارتی اداکارہ نندیتا داس ، فلمساز ہرش نارائن اور پاکستانی اداکارہ سجل علی نے گفتگو کی۔ شام کے وقت نیوپلیکس سینما میں بھارتی اور پاکستانی فنکاروں کا میلہ دیکھنے کو ملا اس موقع پر نوجوان ہدایتکار عاصم عباسی کی نئی فلم ''کیک''کا پریمیئر بھی رکھا گیا۔
بھارتی فلمسازوں اور فنکاروں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے نوجوانوں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فلم کی تعریف کی۔ بھارت سمیت دیگر ممالک سے آئے فنکاروں اور ہنرمندوں کے اعزاز میں گورنر ہائوس میں پروقار ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں فیسٹیول کے بورڈ میں شامل ممبران اور دیگر فنکاروں نے بھی شرکت کی۔ فیسٹیول کے دوسرے روز دو پینل ڈسکشنز کا اہتمام کیا گیا۔
پہلا پینل ڈسکشن ''جونرابسٹرز''کے عنوان سے تھا جس میں فلم ''شاہ''کے ڈائریکٹر ،رائٹر اور پروڈیوسر عدنان سرور، اینی میٹڈ فلم ''ٹِک ٹاک''کی پروڈیوسر ثنا توصیف، نامور اداکارہ عتیقہ اوڈھو، ''باہو بَلی''کے ڈائریکٹر ایس ایس راجا مَولی ، اداکارہ نندیتا داس اور بھارتی اداکاروِینے پھاٹک نے فلم انڈسٹری کے مختلف ادوار اور اس دوران پیش آنے والی تبدیلیوں پر تفصیلی گفتگو کی لیکن یہاں فلم فیسٹیول کی انتظامیہ نے پاکستان کے نامور فن کاروں اور فلم سازوں کومکمل نظر انداز کیا۔
کیونکہ اس موقع پراگرماضی کے معروف اداکار ندیم بیگ، غلام محی الدین، مصطفی قریشی، شان، معمررانا، ریشم، سنگیتا، بہار بیگم، جاوید شیخ ، ہمایوں سعید، صبا قمر، سید نور، شہزاد رفیق، پرویزکلیم، ناصر ادیب، حسن عسکری اور غیرملکی فلموں کے سب سے بڑے امپورٹرآئی ایم جی سی گروپ کے چیئرمین شیخ امجد رشید سمیت دیگرکومدعو کیا جاتا توبھارت سمیت دنیا کے دوسرے ممالک سے آئے لوگوں کو پاکستان فلم انڈسٹری کے باصلاحیت لوگوں سے مل کرجہاں اچھا لگتا، وہیں کوپروڈکشن جیسی اہم ضرورت میں بہترپیش رفت بھی دیکھنے کو ملتی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن اورپاکستان فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشنز کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے نام خطوط لکھے گئے، جس میںاس ایونٹ کے انعقاد پرجہاں سخت الفاظ میں مذمت کی گئی، وہیں پاکستانی فلم کوکراچی تک محدود رکھنے اورتقسیم کرنے کے حوالے سے گہری تشویش کا بھی اظہاکیا گیا۔
فلم فیسٹیول کے تیسرے دن دو پینل ڈسکشنز بعنوان ''فلمز فار چینج ،سوشلی موٹیویٹڈ کانٹنٹ ان سائوتھ ایشین فلم انڈسٹری''اور ''دی فیوچر آ میوزک اینڈ لیرکس''کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں ہدایت کار جامی، سبھاش کپور، وِشال بھردواج ، اَریم فاروق، آصف نورانی، سلطان ارشد، ریکھا بھردواج ، ڈاکٹرعمر عادل ،ارشد محمود اور پاکستانی اور گلوکارعلی ظفر نے اپنے دلی جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔
فیسٹیول میں فلم ''کیک''کے علاوہ مزید 7فلموں کے پریمیئرز بھی ہوئے جن میں ''دی ویلی''،''لالہ بیگم''،''مومل رانو''،''زراب''،''دی سانگ آف اسکارپینز''، ''کچھ بھیگے الفاظ ''، ''دی وِشنگ ٹری''اور اینی میٹڈ فلم ''ٹِک ٹاک''وغیرہ شامل تھیں۔ فلم فیسٹیول میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز سپر ہٹ فلم ''باہو بَلی''کے ہدایتکار ایس ایس راجا مَولی رہے۔
انہوں نے چار روز تک مختلف ملاقاتوں میں بڑی محبتوں اور چاہتوں کا اظہار کیا وہ بہت خوش دِکھائی دے رہے تھے۔ اْن کا کہنا تھا کہ میں پاکستانیوں کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے میری فلموں کو پسند کیا۔ یہاں کی مہمان نوازی کے بارے میں جیسا سْنا تھا ،اس سے بھی اچھا محسوس کررہا ہوں۔ یہاں کے لوگ بہت محبتی اور آرٹ کے دیوانے ہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹول کا اختتام فرئیر ہال کراچی میں منعقدہ ایک شاندار تقریب کے ذریعے کیا گیا۔ اس موقع پرجہاں گالا ایوارڈ نائٹ میں شوبزسے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی وہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ صوفی گلوکارہ عابدہ پروین کی ایک شاندار پرفا رمنس کا اہتمام بھی کیا گیا۔
تقریب کی مہمان خصوصی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب تھیں جنہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''فنکار وں پر بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا مثبت امیج دنیا کے سامنے لانا اور اپنے فن کے ذریعے معاشرے میں قوت برداشت پیدا کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور کے ایف ایس کے زیر اہتمام پہلے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹول کی کامیابی اور اس میں غیر ملکی وفود کی بھرپور شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی تقریب کے پہلے میزبان کے فرائض ثروت گیلانی اور اظفر رحمن نے انجام دیئے ۔
بیسٹ ڈاکومنٹری فیچر کا ایوارڈ پروین رحمن ''دی ریبل آپٹیمس ''کو علی رحمن اور کبری خان نے پیش کیا۔ اس موقع پر14کیٹگریوں میں منتخب فنکاروں اور تکنیک کاروںکو ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
کراچی میں منعقدہ فلم فیسٹیول کے حوالے سے پاکستان فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا تھا کہ ثقافتی سرگرمیاں ایک صحتمند معاشرے کی علامت ہوتی ہیں لیکن اس فیسٹیول کے انعقاد پرجہاں حکومت کی جانب سے ایک پرائیویٹ تنظیم کو بھرپورسپورٹ کیا گیا، وہیں اس بات کا خیال رکھنا بھی بے حدضروری تھا کہ اس ایونٹ کے انعقاد سے کس طرح پاکستان فلم انڈسٹری کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردینے والے فنکاروں، تکنیک کاروں اور دیگر کو نظرانداز تو نہیں کیا جارہا۔
جس طرح پاکستانی فنکاروںکوبھارت میں بین کرنے کی حمایت کرنے والی کمیونٹی کے لوگوں نے یہاں پروٹوکول کوانجوائے کیا، اگراسی طرح اپنے ملک کے عظیم فنکاروںکو بھی اس کا حصہ بنا کرحوصلہ افزائی کی جاتی تویہ سب سے اچھا اقدام ہوتا۔ یہی نہیں جس طرح سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں، فلم میکرز، ڈائریکٹرز اور رائٹرزکوجان بوجھ کریا نادانی میں نظرانداز کیا گیا، اس سے پاکستانی فلم انڈسٹری کوتقسیم کرنے کی بُوبھی پھیل رہی ہے۔
اس مہم کوروکنے کیلئے حکومت کوہی اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ وگرنہ ہم جہاں پاکستانی فلم کی بحالی اورترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی فلم انڈسٹریوں کے شانہ بشانہ چلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، یہ خواب آپسی اختلافات اورایک دوسرے کونیچا دکھانے کے پیچھے چکنا چورہوجائیں گے۔ اس وقت ہمیں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ایک محبت وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ جب تک ہم اپنے فنکاروںکو عزت واحترام نہیں دیں گے، تب تک ہمیں کسی اورملک سے یہ عزت اوراحترام نہیں ملے گا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، جس پرسب کوغورکرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ہماری آپسی لڑائی میں فائدہ ہمارے دشمن ہی اٹھائیں گے۔