سپریم کورٹ نے کالا باغ یا متبادل ڈیموں کے لیے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی
کالا باغ نام منظور نہیں تو بے نظیر ڈیم رکھ لیں، پٹیشنر، مسئلہ گہرا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن
سپریم کورٹ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے بارے میں ریفرنڈم کرانے کیلیے دائر درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں فل بینچ نے وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفر اللہ کی درخواست پر حکومت سے کالاباغ یا متبادل ڈیموںکی تعمیر کیلیے کیے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ڈیم کی تعمیرکا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ عدالت نے حکومت سے کالاباغ ڈیم کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں آگاہی مہم چلانے کے بارے میں کیے گئے اقدامات کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی آنے والے وقت میں پانی بہت بڑا ایشو ہو گا لیکن پانی کی فراہمی کے فیصلے حکومت نے کرنا ہیں۔درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے بتایا 2025ء تک ذخیرہ شدہ پانی ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا، اگر فوری طور پر مناسب انتظام نہ کیا گیا تو ملک میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔
درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے کہا اگر نام کا مسئلہ ہے توکالاباغ کی جگہ بینظیر بھٹو ڈیم رکھ لیں لیکن یہ ڈیم پاکستان کا مستقبل ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا مسئلہ نام کا نہیں مسئلہ گہرا ہے۔عدالت نے درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزیدسماعت 15 روزکیلیے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ24 جون 2016 کوآئین کے آرٹیکل184/3کے تحت یہ درخواست دائر کی گئی جس میں وفاق ، واپڈا، صوبائی حکومتوںاور سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کو فریق بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے سکیورٹی اداروں کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قید افرادکی تفصیلات طلب کرتے ہوئے وضاحت مانگی ہے کہ ان فرادکوکن الزامات میں زیر حراست رکھا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں فل بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو ہدایت کی کہ تمام متعلقہ اداروں سے معلومات لیکر 3 ہفتے کے اندر تفصیلی رپورٹ دیںکہ سیکیورٹی اداروں کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قید افرادکیخلاف کیا الزامات ہیں اور اب تک ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔
جسٹس اعجاز افضل نے سوال اٹھایاکیا ریاست کا کوئی نظام ہے؟ جو لوگ لاپتہ ہوئے وہ کدھر چلے گئے؟لاپتہ افرادکو زمین نگل گئی، آسمان پر چلے گئے یا کوئی لے گیا، ریاست کو توکچھ معلوم ہونا چاہیے،لاپتہ افرادکے بارے میں لوگوں اور عدالت کو اصل حقائق بتانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا لاپتہ افراد اغوا ہوئے کہ پڑوسی ملک چلے گئے ،جن لوگوں کے جوان بچے غائب ہیں ریاست بتائے وہ کیوں اورکیسے لاپتہ ہوئے۔لاپتہ افرادکمیشن کے رجسٹرار خالد نسیم نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ کمیشن نے2011ء سے اب تک 3219کیسز کونمٹایاہے۔
وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے پورٹ پر اعتراض کیاکہ کسی شخص کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ حراستی مرکز میں ہے توکمیشن کیس ختم کردیتا ہے لیکن یہ معلوم نہیںکیا جاتا کہ الزام کیا ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیر حراست افراد پرکیا الزام ہے اور ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی، ہمیں بتایا جائے کیا وہ دہشتگردہیں؟ان پر کوئی مقدمہ ہے یانہیں،یہ لوگ کس قانون،الزام کے تحت زیرحراست ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں فل بینچ نے وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفر اللہ کی درخواست پر حکومت سے کالاباغ یا متبادل ڈیموںکی تعمیر کیلیے کیے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ڈیم کی تعمیرکا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ عدالت نے حکومت سے کالاباغ ڈیم کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں آگاہی مہم چلانے کے بارے میں کیے گئے اقدامات کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی آنے والے وقت میں پانی بہت بڑا ایشو ہو گا لیکن پانی کی فراہمی کے فیصلے حکومت نے کرنا ہیں۔درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے بتایا 2025ء تک ذخیرہ شدہ پانی ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا، اگر فوری طور پر مناسب انتظام نہ کیا گیا تو ملک میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔
درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے کہا اگر نام کا مسئلہ ہے توکالاباغ کی جگہ بینظیر بھٹو ڈیم رکھ لیں لیکن یہ ڈیم پاکستان کا مستقبل ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا مسئلہ نام کا نہیں مسئلہ گہرا ہے۔عدالت نے درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزیدسماعت 15 روزکیلیے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ24 جون 2016 کوآئین کے آرٹیکل184/3کے تحت یہ درخواست دائر کی گئی جس میں وفاق ، واپڈا، صوبائی حکومتوںاور سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کو فریق بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے سکیورٹی اداروں کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قید افرادکی تفصیلات طلب کرتے ہوئے وضاحت مانگی ہے کہ ان فرادکوکن الزامات میں زیر حراست رکھا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں فل بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو ہدایت کی کہ تمام متعلقہ اداروں سے معلومات لیکر 3 ہفتے کے اندر تفصیلی رپورٹ دیںکہ سیکیورٹی اداروں کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قید افرادکیخلاف کیا الزامات ہیں اور اب تک ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔
جسٹس اعجاز افضل نے سوال اٹھایاکیا ریاست کا کوئی نظام ہے؟ جو لوگ لاپتہ ہوئے وہ کدھر چلے گئے؟لاپتہ افرادکو زمین نگل گئی، آسمان پر چلے گئے یا کوئی لے گیا، ریاست کو توکچھ معلوم ہونا چاہیے،لاپتہ افرادکے بارے میں لوگوں اور عدالت کو اصل حقائق بتانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا لاپتہ افراد اغوا ہوئے کہ پڑوسی ملک چلے گئے ،جن لوگوں کے جوان بچے غائب ہیں ریاست بتائے وہ کیوں اورکیسے لاپتہ ہوئے۔لاپتہ افرادکمیشن کے رجسٹرار خالد نسیم نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ کمیشن نے2011ء سے اب تک 3219کیسز کونمٹایاہے۔
وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے پورٹ پر اعتراض کیاکہ کسی شخص کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ حراستی مرکز میں ہے توکمیشن کیس ختم کردیتا ہے لیکن یہ معلوم نہیںکیا جاتا کہ الزام کیا ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیر حراست افراد پرکیا الزام ہے اور ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی، ہمیں بتایا جائے کیا وہ دہشتگردہیں؟ان پر کوئی مقدمہ ہے یانہیں،یہ لوگ کس قانون،الزام کے تحت زیرحراست ہیں۔