افغان امن کو لاحق خطرات داخلی ہیں

اس حقیقت کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ افغان المیہ عالمی طاقتوں کی جنگ زرگری کا شاخسانہ ہے۔

اس حقیقت کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ افغان المیہ عالمی طاقتوں کی جنگ زرگری کا شاخسانہ ہے۔فوٹو:فائل

افغانستان کو درپیش بحران نے اکیسویں صدی کے اوائل کے سنگین سیاسی، عسکری اور تزویراتی چیلنج کی حیثیت اختیار کر لی ہے،جس کے امن کے لیے نہ صرف امریکا سمیت سارے یورپی ممالک مشرق وسطیٰ اور ایشائی و افریقی حکومتوں نے اسے فلسطین اور کشمیر کے بعد دنیا کے آتش فشاں کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔

اس تضاد کو امریکا نے اپنی طویل ترین جنگی حکمت عملی اور اس میں ہونے والی پسپائی کے باعث خطے کا سنگین مسئلہ بنا دیا ہے جب کہ یہی افغان بحران اس وقت عالمی سطح پر امریکا سمیت نیٹو فورسز کے لیے سب سے بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

اس لیے سوال پیدا ہوتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی عسکری اور سیاسی سبقت کی وہ کون سی خوبی ہے جو اسے بش یا اوباما اسٹرٹیجی اور افغان مسئلے کے پر امن حل کی غیر معمولی کوششوں کے تناظر میں منفرد بناتی ہے یا وہ کون سے خرابی ہے جس کی وجہ سے امریکی فوجی ڈاکٹرائن بے تحاشہ طاقت، کھربوں کے اسلحے کے بہیمانہ استعمال اور افغانستان کے ریاستی ڈھانچے کی انتظامی، سماجی اور اقتصادی بحالی کے لیے ڈالروں کی خطیر رقوم سے بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

یہ وہ سوال ہیں جو افغانستان کی تباہی اور اس کو درپیش مسائل کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں جب کہ اسی سیاق و سباق میں افغان حکومت اور جنگ آزما طالبان قیادت کے مابین خون ریز تصادم، خود کش حملوں، بمباری سے ہونے والی سویلین ہلاکتوں اور کابل حکومت کی سمٹتی ہوئی حکمرانی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔

لہٰذا پیر کو افغان سیکیورٹی فورسز کے صوبہ قندوز کے ضلع دشت ارچی میں ایک مدرسے پر بمباری کے واقعے پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں متعدد سینئر طالبان کمانڈرز، شہریوں اور بچوں سمیت60 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

اخباری اطلاع کے مطابق طالبان مبینہ طور پر مدرسے میں نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں سویلین ہلاکتوں کی تاحال کوئی اطلاع نہیں ملی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ حملے میں 150 سے زائد مذہبی اسکالر اور عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ طالبان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حملے کے وقت جنگجو وہاں موجود تھے۔


تاہم امریکی فوج کے ترجمان نے کہا کہ امریکی فورسز حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ زخمی ہونے والے بچوں اور شہریوں کو قریبی اسپتال میں داخل کرادیا گیا ہے۔ زخمی ہونے والے افراد کے رشتے داروں نے کہا کہ حملے کے وقت مدرسے میں طلباء کی گریجویشن تقریب جاری تھی۔

ان واقعات کی دردانگیز کیمسٹری افغان معاشرے پر گزرنے والی بپتا کے کئی دریچہ کھولتی ہے۔ عالمی طاقتوں نے بلاشبہ افغانستان مین امن کے قیام کے لیے بے شمار آپشنز اور مشترکہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کے ذریعے اس بد نصیب ملک کو جنگ اور بربادی کے کھیل سے بچانے کے لیے بظاہر کافی کوششیں کی ہیں مگر بنیادی حقائق کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو افغانستان امریکا، بھارت، اور خود افغانستان کی باہمی بے تدبیری کا ستم رسیدہ نظر آتا ہے۔

اس حقیقت کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ افغان المیہ عالمی طاقتوں کی جنگ زرگری کا شاخسانہ ہے اور نیو گریٹ گیم کو تازہ دم جنگی مقاصد کی روشنی میں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے تا کہ خطے میں پاکستان کی کلیدی اہمیت کو بھارت کی توسیع پسندی پر قربان کیا جائے اور بلوچستان و کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزی کو جنگویانہ بھارتی منصوبہ کے لیے کھلی چھوٹ دی جائے۔

یہ کام ٹرمپ کی بے سمت افغان پالیسی نے الجھا دیا ہے اور تاریخی عوامل امریکا، بھارت اور افغانستان کی تکون کے تنگ نظرانہ اور مخصوص جنگی اہداف کی تکمیل کے لیے فتح گر ثابت نہیں ہو سکے کیونکہ اس پالیسی کی بنیاد ہی پاکستان سے مخاصمت، کشیدگی اورحتمی تصادم پر تھی اور طالبان سے مذاکرات کی راہ میں بھی ابھی تک کئی بارودی سرنگوں سے بھرے علاقے ہیں جہاں طالبان کی طاقت اور پاکستان کے امن عمل کو یقینی بنانے کے ناگزیر کردار کو غیر موثر کرنے کا کوئی نسخہ امریکا، بھارت اور افغانستان کے پاس نہیں، بادی النظر میں تینوں ملک دیگر امدادی ممالک کو یہی تاثر دیتے رہے ہیں کہ افغان امن خطے کے عوام کے لیے سود مند ہے۔

محولہ بالا واقعات افغانستان میں جاری بحران کا ہولناک تسلسل ہیں۔ ایک طرف افغان صدر اشرف غنی نے مذاکرات کا آپشن دیتے ہوئے طالبان کو اوپن ڈائیلاگ کی پیشکش کی مگر طالبان کے مطالبات پر کوئی فریق سنجیدگی سے غور کرنے پر تیار نہیں، جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، افغانستان پر کسی بھی جانب سے آتش و آہن کی بارش بند ہو گی تب ہی کوئی امن کی فاختہ کابل کے دارالحکومت کی طرف کا سفر کر سکتی ہے۔

ضرورت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے اعلان کردہ نام نہاد پیراڈائم شفٹ کے ثمرات کے لیے پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے بجائے اسے امن عمل میں کھلا میدان دے، بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے سے افغان عوام کو امن کی منزل نہیں ملے گی بلکہ صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

 
Load Next Story