پانی بچائیں
یہ سہل پسندی، آرام طلبی اور لاپرواہی روزمرہ کے آسان معمولات کو مشکل بنانے کا سبب بن رہی ہے۔
TAUNTON, UNITED KINGDOM:
کہتے ہیں کہ حالت امن میں حالت جنگ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ جب مشکل وقت آئے تو زیادہ پریشانی نہ ہو اور اس مصیبت کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے۔ آج دنیا ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کر رہی ہے۔ ایسی ایسی ایجادات سامنے آرہی ہیں کہ انسان ایک لمحے کے لیے تو حیران ہی رہ جاتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ سائنسی ترقی نے انسانی جسم کو تکالیف اور زحمت سے بچانے کے بھی بہت سے سامان پیدا کردیے ہیں۔
ہر کسی کا مشاہدہ ہو گا کہ اب تو صرف چند ایک بٹن دبانے سے ہی صفائی ستھرائی،کھانا پکانا اور اس جیسے ہی دیگر امور مشینوں کے ذریعے انجام پاجاتے ہیں اور انسان کو زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی۔
مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ جدید سہولتوں کے استعمال سے انسان کو جہاں بہت آسانیاں ملیں وہاں اُسے ''سہل پسندی'' جیسی بیماری کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ سہل پسندی، آرام طلبی اور لاپرواہی روزمرہ کے آسان معمولات کو مشکل بنانے کا سبب بن رہی ہے۔
ہم کمپیوٹر تو چلانا سیکھ گئے، بڑی سے بڑی مشینری ہمارے تابع ہوگئی لیکن ہم اپنے ذہن و دل کو اس بات پر تیارکرنے میں تاحال ناکام ہیں کہ روزمرہ استعمال کی تمام چیزوں خاص طور پر قدرت کی دی گئی چیزوںکو ضایع نہ کیا جائے، اُن کو اگر آج صحیح طرح استعمال کیا جائے توکل بہت فائدہ ہوگا۔
موسم گرما کی آمد آمد ہے، درج بالا سطروں کی تمہید اس لیے باندھی کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلے کی جانب مبذول کرائی جاسکے اور وہ مسئلہ ہے ''پانی کا زیاں'' اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ''پانی'' کو ہم جس طرح ضایع کررہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ موسم سرما میں پانی کی بہتات بھی ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت اور اس کا استعمال بھی موسم گرما کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لیکن موسم گرما میں ہمیں خاص طور پر پانی کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں رجحان ہے کہ جب تک کوئی مصیبت یا مسئلہ گلے نہ پڑ جائے، ہم اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ پانی کے حوالے سے بھی ہمارا یہی مزاج ہے۔ ہم بحیثیت قوم پانی کو وہ اہمیت دیتے ہی نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جب پانی کی بہتات ہوتی ہے تو ہمیں کسی چیزکی پروا نہیںہوتی، نلکا چل رہا ہے تو چلنے دو، پانی بہہ رہا ہے تو بہنے دو۔ ہم توجہ ہی نہیں دیتے، ہاں جب پانی کی قلت ہوتی ہے تو ہم بری طرح چیخ رہے ہوتے ہیں، حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن پانی کی قلت کے اسباب کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کچھ اقدامات تجویز کررہا ہوں تاکہ اگر چند لوگ بھی ان مشوروں پر عمل کرکے پانی کی کچھ مقدار بچالیں گے تو شاید وہ پانی اُن لوگوں تک پہنچ جائے جو شدید آبی قلت کے شکار علاقوں میں رہتے ہیں۔ انفرادی طور پر ہم سب اپنے اپنے گھروں میں تھوڑا سا وقت لگاکر ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے پانی ضایع نہ ہو۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ پانی کا ضایع کرنا اپنے اوپر، اپنے گھر پر، اپنی نسلوں پر بلکہ ساری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے۔
سب سے پہلے تو گھر میں نلکوں اور پائپ کو چیک کیا جائے کہ کہیں سے رساؤ تو نہیں ہو رہا، اس طرح ہم بڑی مقدار میں وہ پانی بچاسکتے ہیں جو قطرہ قطرہ نلکوں سے ٹپکتا ہے اور ہم اسے اہمیت نہیں دیتے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں اب ایسے فلش ٹینکس بھی متعارف کرائے جارہے ہیں جو بہت زیادہ پانی نہیں بہاتے، ایسے ہی اقدامات ہمیں بھی کرنے چاہئیں، جدید تحقیق کے مطابق ایک نارمل فلش ٹینک ایک باری میں تقریباً 6 یا 7 گیلن پانی نکالتا ہے جب کہ نئے Low flow flush tanks میں اس کی مقدار کافی کم ہے۔ یاد رہے کہ ایک گیلن پانی کا مطلب ہے تقریباً پونے 4 لیٹر پانی۔
جب رات میں گھروں میں سرکاری پانی آتا ہے تو عام مشاہدہ ہے کہ لوگ موٹریں چلاکر سوجاتے ہیں، کچھ گھنٹوں میں پانی بھر جاتا ہے اور ٹینک سے بہہ بہہ کر گلیوں یا سڑکوں پر ضایع ہونے لگتا ہے لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ پانی بھرتے وقت بار بار دیکھتے رہیں اور جب ٹینک بھر جائے تو موٹر بند کردیں۔ اس کے علاوہ پانی کی ٹینکی میں بھی پانی بھرتے وقت اس کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔ منہ ہاتھ دھوتے وقت، برش کرتے وقت یا برتن دھوتے وقت نلکا کھلا چھوڑے رکھنا لوگوں کی عادت بن گئی ہے، اس پر قابو پانا ازحد ضروری ہے۔
ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس مشق کی وجہ سے ہم کتنا پانی ضایع کررہے ہوتے ہیں۔ غسل کرتے وقت بھی نلکوں یا شاور کو بے جا چلائے رکھنا بہت غلط روش ہے۔ گاڑیاں دھوتے وقت یا گھرکی صفائی کے وقت جب ہم پائپ لگاکر نلکا چلائیں تو اس پر بھی کنٹرول رکھنا ضروری ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے پائپ لگاکر پانی چلاتے ہیں تو وہ کام ختم بھی ہوجائے تب بھی پانی بہتا رہتا ہے، اس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں کی دھلائی یا گھر کی صفائی بالٹی میں پانی بھر کی بھی کی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں آبی قلت ایک بڑے مسئلے اور انتہائی سنگین بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، ابھی ہم لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس شاید اس لیے نہیں ہورہا کہ اللہ کے کرم سے ہمارے ملک میں پانی کی نعمت موجود ہے تاہم ضروری ہے کہ ہم اس نعمت کا صحیح استعمال کریں، انفرادی نہیں اجتماعی طور پر سوچیں تاکہ ہماری آیندہ نسلیں بھی اس نعمت سے لطف اندوز ہوں۔
چلتے چلتے اب پانی کے حوالے سے کچھ بڑے لوگوں کی اہم باتوں پر نظر ڈال لیں
پیاسے آدمی کے لیے ایک بوند پانی سونے سے بھری بوری سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
آپ پانی کی قدر کریں، آگے چل کر یہ آپ کی حفاظت کرے گا۔
دنیا میں آیندہ جنگیں زمینوں اور جاگیروں کے لیے نہیں بلکہ پانی کے لیے لڑی جائیں گی۔
پانی کو بچانے اور اسے ضایع نہ ہونے کے بہت سے طریقے ہیں جو سب آپ سے شروع ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پانی اور زندگی ایک ہی چیز کا نام ہے۔
جب کنویں خشک ہوجاتے ہیں تب ہمیں پانی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔
پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں،کاش کہ ہر کوئی اس جملے کی اہمیت سمجھ سکے۔
ہماری زندگی کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد پانی کو ضایع ہونے سے بچانا بھی شامل ہونا ضروری ہے۔
پانی جیسی بڑی نعمت کو ضایع نہ کرنا بھی اللہ کی نعمتوں کے شکر کا بہترین طریقہ ہے۔
آبی مسائل کو حل کرنے والا 2 نوبل انعامات کا حقدار ہے،ایک سائنس کے شعبے میں ، دوسرا امن کے لیے۔
آخر میں ایک اور اہم بات یہ کہ موسم گرما میں اپنے گھروں میں مٹی کا کوئی برتن پرندوں کے پانی کے لیے ضرور رکھیں، شدید گرمی میں یہ بے زبان پانی کے لیے ترستے ہیں ، اگر ہماری وجہ سے یہ بے زبان پانی پی لیں گے تو یقینی طور پر اس کا اجر ہمیں ضرور ملے گا۔
کہتے ہیں کہ حالت امن میں حالت جنگ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ جب مشکل وقت آئے تو زیادہ پریشانی نہ ہو اور اس مصیبت کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے۔ آج دنیا ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کر رہی ہے۔ ایسی ایسی ایجادات سامنے آرہی ہیں کہ انسان ایک لمحے کے لیے تو حیران ہی رہ جاتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ سائنسی ترقی نے انسانی جسم کو تکالیف اور زحمت سے بچانے کے بھی بہت سے سامان پیدا کردیے ہیں۔
ہر کسی کا مشاہدہ ہو گا کہ اب تو صرف چند ایک بٹن دبانے سے ہی صفائی ستھرائی،کھانا پکانا اور اس جیسے ہی دیگر امور مشینوں کے ذریعے انجام پاجاتے ہیں اور انسان کو زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی۔
مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ جدید سہولتوں کے استعمال سے انسان کو جہاں بہت آسانیاں ملیں وہاں اُسے ''سہل پسندی'' جیسی بیماری کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ سہل پسندی، آرام طلبی اور لاپرواہی روزمرہ کے آسان معمولات کو مشکل بنانے کا سبب بن رہی ہے۔
ہم کمپیوٹر تو چلانا سیکھ گئے، بڑی سے بڑی مشینری ہمارے تابع ہوگئی لیکن ہم اپنے ذہن و دل کو اس بات پر تیارکرنے میں تاحال ناکام ہیں کہ روزمرہ استعمال کی تمام چیزوں خاص طور پر قدرت کی دی گئی چیزوںکو ضایع نہ کیا جائے، اُن کو اگر آج صحیح طرح استعمال کیا جائے توکل بہت فائدہ ہوگا۔
موسم گرما کی آمد آمد ہے، درج بالا سطروں کی تمہید اس لیے باندھی کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلے کی جانب مبذول کرائی جاسکے اور وہ مسئلہ ہے ''پانی کا زیاں'' اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ''پانی'' کو ہم جس طرح ضایع کررہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ موسم سرما میں پانی کی بہتات بھی ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت اور اس کا استعمال بھی موسم گرما کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لیکن موسم گرما میں ہمیں خاص طور پر پانی کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں رجحان ہے کہ جب تک کوئی مصیبت یا مسئلہ گلے نہ پڑ جائے، ہم اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ پانی کے حوالے سے بھی ہمارا یہی مزاج ہے۔ ہم بحیثیت قوم پانی کو وہ اہمیت دیتے ہی نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جب پانی کی بہتات ہوتی ہے تو ہمیں کسی چیزکی پروا نہیںہوتی، نلکا چل رہا ہے تو چلنے دو، پانی بہہ رہا ہے تو بہنے دو۔ ہم توجہ ہی نہیں دیتے، ہاں جب پانی کی قلت ہوتی ہے تو ہم بری طرح چیخ رہے ہوتے ہیں، حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن پانی کی قلت کے اسباب کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کچھ اقدامات تجویز کررہا ہوں تاکہ اگر چند لوگ بھی ان مشوروں پر عمل کرکے پانی کی کچھ مقدار بچالیں گے تو شاید وہ پانی اُن لوگوں تک پہنچ جائے جو شدید آبی قلت کے شکار علاقوں میں رہتے ہیں۔ انفرادی طور پر ہم سب اپنے اپنے گھروں میں تھوڑا سا وقت لگاکر ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے پانی ضایع نہ ہو۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ پانی کا ضایع کرنا اپنے اوپر، اپنے گھر پر، اپنی نسلوں پر بلکہ ساری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے۔
سب سے پہلے تو گھر میں نلکوں اور پائپ کو چیک کیا جائے کہ کہیں سے رساؤ تو نہیں ہو رہا، اس طرح ہم بڑی مقدار میں وہ پانی بچاسکتے ہیں جو قطرہ قطرہ نلکوں سے ٹپکتا ہے اور ہم اسے اہمیت نہیں دیتے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں اب ایسے فلش ٹینکس بھی متعارف کرائے جارہے ہیں جو بہت زیادہ پانی نہیں بہاتے، ایسے ہی اقدامات ہمیں بھی کرنے چاہئیں، جدید تحقیق کے مطابق ایک نارمل فلش ٹینک ایک باری میں تقریباً 6 یا 7 گیلن پانی نکالتا ہے جب کہ نئے Low flow flush tanks میں اس کی مقدار کافی کم ہے۔ یاد رہے کہ ایک گیلن پانی کا مطلب ہے تقریباً پونے 4 لیٹر پانی۔
جب رات میں گھروں میں سرکاری پانی آتا ہے تو عام مشاہدہ ہے کہ لوگ موٹریں چلاکر سوجاتے ہیں، کچھ گھنٹوں میں پانی بھر جاتا ہے اور ٹینک سے بہہ بہہ کر گلیوں یا سڑکوں پر ضایع ہونے لگتا ہے لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ پانی بھرتے وقت بار بار دیکھتے رہیں اور جب ٹینک بھر جائے تو موٹر بند کردیں۔ اس کے علاوہ پانی کی ٹینکی میں بھی پانی بھرتے وقت اس کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔ منہ ہاتھ دھوتے وقت، برش کرتے وقت یا برتن دھوتے وقت نلکا کھلا چھوڑے رکھنا لوگوں کی عادت بن گئی ہے، اس پر قابو پانا ازحد ضروری ہے۔
ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس مشق کی وجہ سے ہم کتنا پانی ضایع کررہے ہوتے ہیں۔ غسل کرتے وقت بھی نلکوں یا شاور کو بے جا چلائے رکھنا بہت غلط روش ہے۔ گاڑیاں دھوتے وقت یا گھرکی صفائی کے وقت جب ہم پائپ لگاکر نلکا چلائیں تو اس پر بھی کنٹرول رکھنا ضروری ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے پائپ لگاکر پانی چلاتے ہیں تو وہ کام ختم بھی ہوجائے تب بھی پانی بہتا رہتا ہے، اس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں کی دھلائی یا گھر کی صفائی بالٹی میں پانی بھر کی بھی کی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں آبی قلت ایک بڑے مسئلے اور انتہائی سنگین بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، ابھی ہم لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس شاید اس لیے نہیں ہورہا کہ اللہ کے کرم سے ہمارے ملک میں پانی کی نعمت موجود ہے تاہم ضروری ہے کہ ہم اس نعمت کا صحیح استعمال کریں، انفرادی نہیں اجتماعی طور پر سوچیں تاکہ ہماری آیندہ نسلیں بھی اس نعمت سے لطف اندوز ہوں۔
چلتے چلتے اب پانی کے حوالے سے کچھ بڑے لوگوں کی اہم باتوں پر نظر ڈال لیں
پیاسے آدمی کے لیے ایک بوند پانی سونے سے بھری بوری سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
آپ پانی کی قدر کریں، آگے چل کر یہ آپ کی حفاظت کرے گا۔
دنیا میں آیندہ جنگیں زمینوں اور جاگیروں کے لیے نہیں بلکہ پانی کے لیے لڑی جائیں گی۔
پانی کو بچانے اور اسے ضایع نہ ہونے کے بہت سے طریقے ہیں جو سب آپ سے شروع ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پانی اور زندگی ایک ہی چیز کا نام ہے۔
جب کنویں خشک ہوجاتے ہیں تب ہمیں پانی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔
پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں،کاش کہ ہر کوئی اس جملے کی اہمیت سمجھ سکے۔
ہماری زندگی کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد پانی کو ضایع ہونے سے بچانا بھی شامل ہونا ضروری ہے۔
پانی جیسی بڑی نعمت کو ضایع نہ کرنا بھی اللہ کی نعمتوں کے شکر کا بہترین طریقہ ہے۔
آبی مسائل کو حل کرنے والا 2 نوبل انعامات کا حقدار ہے،ایک سائنس کے شعبے میں ، دوسرا امن کے لیے۔
آخر میں ایک اور اہم بات یہ کہ موسم گرما میں اپنے گھروں میں مٹی کا کوئی برتن پرندوں کے پانی کے لیے ضرور رکھیں، شدید گرمی میں یہ بے زبان پانی کے لیے ترستے ہیں ، اگر ہماری وجہ سے یہ بے زبان پانی پی لیں گے تو یقینی طور پر اس کا اجر ہمیں ضرور ملے گا۔