دو یادگار خطوط

آپ کو یہ جان کریقیناً حیرت ہوگی کہ بھٹو صاحب کے اس جوابی خط پر 12 اپریل کی تاریخ درج تھی جو میری تاریخ پیدائش ہے۔

آج 4 اپریل ہے ۔ 1979ء میں اسی دن پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور جوہری پروگرام کے خالق، ذوالفقار علی بھٹو کو، فوجی آمر جنرل ضیاء کے ایماء پر تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔

یہ عدالتی قتل ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے جس کی تفصیلات دہرانے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ وہ نہ صرف ہر پاکستانی کو ازبر ہیں بلکہ پوری دنیا اس عدالتی قتل اور اس کے پیچھے کارفرما سازشی عوامل سے باخبر ہے۔

اس نے اعلیٰ عدلیہ کو خود اپنے ہاتھوں منہ پرکالک ملتے بھی دیکھا یہی وجہ ہے کہ 39 برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی دکھی دل سے اس کی یاد منائی جاتی ہے، لیکن میرے اس کالم کا موضوع ان کی پھانسی نہیں بلکہ ٹھیک اسی دن یعنی 4 اپریل کو انھیں لکھا گیا ایک خط اور اس کا ان کی طرف سے موصول ہونے والا جواب ہے۔

ایوبی دور آمریت کے ابتدائی دن تھے۔ نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو، جن کی تنگ ٹیڈی پتلون اس زمانے کے نوجوانوں خصوصاً یونیورسٹیوں اورکالجوں کے طالب علموں میں بہت مقبول ہوا کرتی تھی، پانی و بجلی نیز قدرتی وسائل کے وزیر تھے۔ تب میری عمر یہی کوئی 17 - 16 سال رہی ہوگی، اپنے شہر ٹنڈو غلام علی میں اگرچہ بطور نامہ نگار صحافت کرنا شروع کرچکا تھا لیکن زمانہ طالب علمی کے اثرات ابھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے تھے، ایلیمینٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان پاس کیے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جس میں فری ہینڈ ڈرائنگ مجھے زیادہ پسند تھی اور میں فارغ وقت میں اس کی پریکٹس کرتا رہتا تھا۔

ملک بھر خصوصاً سندھ میں ان کی بے پناہ مقبولیت اورصوبے کے مسائل و محرومی کے حوالے سے ان کی تقریروں اور بیانات سے متاثر ہوکر میں نے کئی دن کی شب وروز محنت سے بھٹو صاحب کا ایک خوبصورت پینسل اسکیچ تیار کیا اور اپنے خط کے ساتھ، جس میں شہرکے دیرینہ حل طلب مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی، انھیں بھیج دیا۔

میرے اس خط پر4 اپریل کی تاریخ درج تھی جو ان کی تاریخ شہادت ہے۔ مجھے اْس وقت بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب اگلے ہفتے مجھے بذریعہ ڈاک بھٹو صاحب کا سرکاری لیٹر پیڈ پرانگریزی میں ٹائپ کیا ہوا مگر دستخط شدہ جواب موصول ہوا۔ اس حوالے سے مزید کچھ جاننے سے پہلے بہتر ہوگا آپ ان کا وہ خط پڑھ لیں۔ انھوں نے لکھا تھا:

My dear Sardar Muhammad,

I have received your letter of 4th instant along with pencil sketch of mine on my return from tour for which I thank you.

I have gone through the contents of your letter. Your spirit for the service of your nation is indeed admirable.

Yours Sincerely,


Zulfiqar Ali Bhutto

آپ کو یہ جان کریقیناً حیرت ہوگی کہ بھٹو صاحب کے اس جوابی خط پر 12 اپریل کی تاریخ درج تھی جو میری تاریخ پیدائش ہے۔ اس میں انھوں نے خود بھی میرے خط مورخہ 4 اپریل کا حوالہ دیا تھا۔ اب اسے عجیب اتفاق ہی کہیں گے کہ بھٹو صاحب کو لکھے گئے میرے خط میں درج تاریخ کا ان کی زندگی سے گہرا تعلق تھا جب کہ ان کی طرف سے موصول ہونے والے جوابی خط میں درج تاریخ میرے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

بدقسمتی سے بھٹو صاحب کا یہ خط، جسے میں اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھتا تھا، میری بہت سی کتابوں اور دوری دستاویزات کے ساتھ 1964ء کی اْس طوفانی بارش کی نذر ہوگیا جس نے رات بھر میں ہمارے شہرکوکھنڈر میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔

ہمارے شاہی بازار والے گھر کے اْس کمرے میں، جہاں سے بالائی منزل پرجانے کا راستہ تھا، زینے کے نیچے کپڑوں کی پیٹیوں کے علاوہ وہ دو بڑے ٹرنک بھی رکھے ہوتے تھے جن میں سے ایک میں تو ابا کی شکار کی دونالی (ڈبل بیرل) بندوق، کارتوسوں کا ذخیرہ بمع چھرے بھرنے کی مشین اور درجنوں گراموفون ریکارڈ تالے میں بند تھے جب کہ دوسرے میں بھائی جان اور میری کتابیں اور دوسری چیزیں رکھی ہوتی تھیں۔

ابا اپنے دوست عبدالوہاب کی مزاج پْرسی کے لیے، جو اْن دنوں بیمار تھے، شکارپور گئے ہوئے تھے۔ صرف میں اور دو چھوٹے بھائی بہن اماں کے ساتھ گھر میں تھے۔ ابا کی عادت تھی کہ رات کو وقفے وقفے سے اٹھ کر باہر صحن میں چکر لگایا کرتے تھے، وہ ہوتے تو کم ازکم کپڑوں کی پیٹیاں اور دانوں بڑے ٹرنک ضرور تباہ ہونے سے بچا لیتے، نیند تو اماں کی بھی بہت کچی تھی اور ذرا سی آہٹ پر جاگ جایا کرتی تھیں پر اْس رات جانے کیا ہوا کہ انھیں بھی پتہ نہیں چلا۔

میں ابا کے کمرے میں سویا ہوا تھا، صبح کوئی چھ سات بجے کے قریب جاگا تو اس وقت بھی تیز ہواؤں کے ساتھ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ دروازے اور کھڑکیاں کھلیں تو رات کو گزرنے والی قیامت کا احساس ہوا خاص طور پر اس وقت جب زینے والے کمرے کا دروازہ کھلتے ہی اس میں رات بھر جمع ہونے والا پانی سیلابی ریلے کی صورت میں باہر آیا۔ اب جو ہم سب نے ملکر پیٹیاں اور ٹرنک اٹھانے کی کوشش کی تو پانی بھرجانے کی وجہ سے وہ اتنی وزنی ہوچکی تھیں کہ ہلائے نہ ہلتی تھیں۔

ان میں بند ساری چیزیں تلف ہوگئیں، بھائی جان کی کتابوں میں ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس، کارل مارکس کا داس کیپیٹال، نسیم حجازی کے اْس وقت تک شایع ہونے والے سبھی تاریخی ناول اور ان کی تعلیمی اسناد وغیرہ جب کہ میری چیزوں میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں، سندھی لوک کہانیوں، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کی ڈاکٹر گربخشانی کی لکھی ہوئی شرح، عثمان ڈیپلائی کی اسلامی تاریخ کے سورماؤں کی سوانحی خاکوں پر مشتمل کتابوں اور بھٹو صاحب کے متذکرہ بالا خط جیسی کچھ یادگار دستاویزات شامل تھیں۔

مجھے ان کے ضایع ہونے کا جتنا رنج اور افسوس ہوا وہ میں ہی جانتا ہوں۔ بھٹو صاحب کا خط پانی، بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت کے سرکاری لیٹر پیڈ پر ٹائپ شدہ تھا اور اس پر باقاعدہ روانگی نمبر بھی درج تھا۔ حال ہی میں اپنے کالموں کے حوالے سے مجھے کچھ ایسے خلاف توقع ، دلچسپ اور حیران کن تجربات ہوئے ہیں جو مجھے اپنے قارئین سے یہ اپیل کرنے پر اکسا رہے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کی متعلقہ وزارت کے ریکارڈ تک رسائی ہو تو ازراہ کرم اس خط کی مصدقہ نقل حاصل کرنے میں ضرور میری مدد فرمائیں۔

میں نے ایک دوسرے خط کے ذریعے بھی بھٹو صاحب کی توجہ اپنے شہر اور گرد و نواح میں اس طوفانی بارش کی تباہ کاریوں کی طرف مبذول کراتے ہوئے گھربار، کھڑی فصلوں اور مال مویشیوں سے محروم ہوجانے والے متاثرین کی سرکاری سطح پر مدد کرنے کی درخواست تھی۔ تب وہ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھال چکے تھے۔ ان کے دلچسپی لینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ماتلی کے تحصیلدار کی نگرانی میں متاثرین کا سروے ہوا اور ان کی مالی مدد بھی کی گئی۔

اس کے جواب میں بھی مجھے بھٹو صاحب کا پہلے کی طرح سرکاری لیٹر پیڈ پر ٹائپ شدہ جواب موصول ہوا تھا، لیکن اب وہ بھی میرے پاس نہیں ہے اور کہیں کھو گیا ہے۔ اس کا پورا متن بھی اب حافظے میں محفوظ نہیں البتہ اتنا یاد ہے کہ اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ایسے وقت جب وہ خود تباہ حال لوگوں کی دلجوئی کے لیے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا چاہتے تھے ، منصبی ذمے داریاں انھیں ملک سے باہر لے جا رہی ہیں، اگر وزارت خارجہ میں کام کرنے والے میرے کوئی مہربان قاری سنہ 64ء میں لکھے ہوئے بھٹو صاحب کے اس خط کی نقل حاصل کرنے میں بھی میری مدد کر سکیں تو میں ان کا احسان مند رہوں گا۔
Load Next Story