پارلیمنٹ کی عزت و توقیر
پارلیمنٹ کی تعظیم و توقیر تو اُسکے اپنے لوگ بھی نہیں کیا کرتے۔
مسلم لیگ (ن) اُس روز بہت خوش تھی جس روز اُس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ایک نا اہل شخص کو پارٹی کا صدر بنانے کا قانون پاس کروا لیا تھا۔ اُسے شاید یہ معلوم نہ تھا کہ اِس مملکت خداداد پاکستان میں وہ جس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اُسکی تو یہاں کوئی حیثیت و وقعت ہی نہیں ہے۔
اِس مملکت میں صرف دو ہی ادارے مقدس اور محترم ہیں۔ پارلیمنٹ کی تعظیم و توقیر تو اُسکے اپنے لوگ بھی نہیں کیا کرتے۔کوئی اُسے چور اور ڈاکو کہتا ہے تو کوئی اُس پر لعنت و تبرا بھیجتا ہے۔ کوئی اُسے صبح و شام میڈیا پر بیٹھ کر غلیظ قسم کی مغلظات بکتا ہے تو کوئی اُسے جب چاہے لپیٹ کر گھر بھیج دیتا ہے۔ اُسکے بنائے ہوئے آئین و دستور کی بھی حیثیت کاغذ کے چند ٹکڑوں سے زیادہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی یہ خوش فہمی بہت جلد دور ہوگئی جب سپریم کورٹ نے اِک نااہل شخص کو پارٹی کا سربراہ بنانیوالے قانون کو کسی غیر ضروری تاخیر کے بغیر لمحوں میں ختم کر دیا۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا معمولی سا قانون تھا جو بادی النظر میں فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا تھا ہم نے تو دو تہائی اکثریت بلکہ پوری پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور شدہ آئینی ترمیم کو بھی اِسی طرح نیست و نابود ہوتے دیکھا جب ایسی ہی سرگرم اور متحرک عدلیہ نے 1998ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی قیادت میں جمہوری دور کی منظور شدہ تیرھویں آئینی ترمیم کو منٹوں میں منسوخ کرکے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی اُس بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم 58 بی2 کو بحال کر ڈالا تھا حالانکہ وہ ترمیم تو کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے نہیں کی گئی تھی۔
پارلیمنٹ کی ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق رائے کے ساتھ اُس ترمیم کو منظور کیا تھا مگر اُسے بھی جس طرح طاقت اور جبر کے زور پر بے آبرو اور بے وقعت کیاگیا وہ بھی ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک مثالی واقعہ ہے۔
میاں صاحب آج ''ووٹ کو عزت دو'' کی ملک گیر مہم پر نکلے ہوئے ہیں لیکن کیا ووٹ سے زیادہ پارلیمنٹ کو عزت دینا ضروری نہیں ہے۔عوام کا کام ہے ووٹ دینا اور وہ اپنا یہ فریضہ کئی سال سے انجام دیتے آئے ہیں۔اُسکے ووٹ کو عزت اُسی وقت مل سکتی ہے جب پارلیمنٹ مضبوط ہوگی اور اُسکے احترام کے لیے خود پارلیمنٹرین کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب پارلیمنٹرین خود متحد ہوجائیں۔ وہ خود ہی جب اپنی پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو پھر بھلا کسی دوسرے ادارے سے یہ کیسے توقع رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے میں تین ادارے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ۔ اِن تینوں اداروں میں سب سے کمزور ادارہ پارلیمنٹ ہے جسے ہونا تو سب سے مضبوط چاہیے تھا لیکن وہی سب سے کمزور اور لاغر ادارہ ہے۔ یہ آئین کو تخلیق دینے والا ادارہ ہے دوسرے لفظوں میں ہم اِسے آئین و دستور کی ماں کہہ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے اِس ماں کی بھی ہمارے یہاں وہی حیثیت ہے جو عام طور سے ہمارے گھروں میں اِک ماں کو دی جاتی ہے جب ہم عام حالات میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی اپنی ماں کی عظمت کا خیال نہیں رہتا لیکن جب ہم کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں توفوراً پارلیمنٹ یعنی ماں یاد آجاتی ہے۔ یہ ماں جس دستور کو جنم دیتی ہے ملک کے تمام ادارے اُسی کے تحت کام کرنے پر لازم تصور کیے جاتے ہیں مگر خود اِس ماں کی زندگی کی حفاظت کرنیوالا کوئی نہیں۔
ملک کے باقی تمام اداروں کے لوگ اپنے اپنے ادارے کے تحفظ اور حفاظت کی خاطر متحد و یکجا ہوکر ڈٹ جاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ اِس ملک کا وہ بد نصیب ادارہ ہے جسکے اپنے لوگ ہی اُسکے دشمن ہیں۔ جس روز عوام کے ووٹوں سے یہ پارلیمنٹ معرض وجود میں آتی ہے اُسی روز سے اُسے نیست و نابود کرنے والے بھی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ عدلیہ کے بچاؤ کے لیے تو اُس کے لوگ سخت سے سخت چٹان سے بھی ٹکرا جاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بچانے کے لیے کوئی مرد مجاہد آگے نہیں بڑھتا۔
ایسا ہی اتحاد و یگانت ہم نے اِس ملک کے دیگر اداروں میں بھی دیکھا ہے۔ پارلیمنٹ کے علاوہ سارے ادارے مقدس و محترم ہیں۔اُن کے خلاف کوئی شخص بد زبانی یا دشنام طراز ی نہیں کرسکتا۔ مروجہ قوانین کے تحت ایسا شخص ادارے کی توہین کے جرم کا مرتکب قرار پائے گا اور قرار واقعی سزا تصور کیاجائے گا، لیکن پارلیمنٹ کو برا بھلا کہنے والے کے لیے ہمارے یہاں کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔
جو شخص چاہے جتنی گالیاں دے اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا، بلکہ اُسے داد تحسین پیش کرکے مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کی بے حرمتی پر بھی آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ بڑے بڑے مطلق العنان حکمراں آئے۔ سب نے اِسے ردی کے ٹوکری میں ڈال کر یا عرصہ دراز کے لیے معطل کرکے اپنا نیا قانون اور آڈر''ایل ایف او'' متعارف کروایا اور آج تک انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آئین کو معطل کرنے والے کسی ایک شخص کو بھی دستور کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا توکیا کوئی اُسے کٹہرے میں بھی کھڑا نہیں کرسکا۔ جس نے بھی یہ جرأت رندانہ دکھانے کی کوشش کی اُسے خود اپنے بچاؤکی فکر اور لالے پڑگئے۔
ویسے تو ریاست کے تین اہم ستونوں میں سے سب کے لیے حدود و قیود مقرر ہیں۔کوئی کسی اور ادارے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتا لیکن پارلیمنٹ ہی ایک واحد ایسا ادارہ ہے جسکے کاموں میں ہرکوئی مداخلت کرسکتا ہے۔ کبھی ملکی و قومی مفاد کے نام پر اورکبھی نظریہ ضرورت کے نام پر۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے علاوہ بھی ہمارے یہاں ایک ادارہ ایسا ہے جو اِن سب تین اداروں پر بھاری ہے۔
بظاہر اس ادارے کا نام ملک کے تین اہم ستونوں میں شمار نہیں ہوتا لیکن وہ ادارہ سب سے بالاتر اور بالادست تصور کیا جاتا ہے۔ ملک کا کوئی کام اُسکی مرضی و منشاء کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت اُسکے اولین فرائض میں شامل ہے لیکن اُسے ملک کے داخلی معاملات کی فکر بھی لاحق ہے۔ ملک دشمن طاقتوں سے جنگ لڑنے کے لیے وہ دونوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔
ضرب عضب اور رد الفساد جسے آپریشنوں کی مدد سے وہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے میں سرخرو اور کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اُسکی اِن کامیابیوں کے پیچھے حکومت وقت کے اُن فیصلوں کا بھی حصہ ہے جسکے تحت یہ سب کچھ ممکن ہوا۔ حکومت کی مرضی و منشاء اگر نہ ہوتی تو کراچی میں یہ امن و سکون کبھی واپس نہ آتا۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف اور زرداری دور میں ہر روزاِس شہر میں دس دس لاشیں گرتے دیکھی ہیں۔
عسکری قوتیں اُس وقت بھی موجود تھیں لیکن کچھ نہ کرسکیں۔ ملک بھی میں روزانہ کئی کئی بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے۔ ہزاروں شہری مرتے رہے۔ شہر کراچی میں خونریزی ہوتی رہی لیکن فوج اور رینجرز کچھ نہ کرسکی۔کوئی ادارہ تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ جب تک سارے ادارے متحد و متفق نہ ہوں ملک میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ خوشحالی۔ جس طرح دوسرے اداروں کی تعظیم و توقیر ضروری ہے اُسی طرح پارلیمنٹ کی بھی عزت و تکریم اشد ضروری ہے۔
کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے سے ممتاز اور بالاتر نہیں ہے۔ سب کے اپنے اپنے اختیارات اور فرائض ہیں۔ کسی کو دوسرے کے کاموں میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ جسکا جو کام ہے وہ اگر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کرتا رہے توکوئی مسئلہ اور تنازعہ پیدا ہی نہ ہو۔ صرف اِسی زریں اُصول پر اگر سختی سے کاربند رہا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک مثالی جمہوری ریاست کے امین اور باسی نہ کہلائیں۔
اِس مملکت میں صرف دو ہی ادارے مقدس اور محترم ہیں۔ پارلیمنٹ کی تعظیم و توقیر تو اُسکے اپنے لوگ بھی نہیں کیا کرتے۔کوئی اُسے چور اور ڈاکو کہتا ہے تو کوئی اُس پر لعنت و تبرا بھیجتا ہے۔ کوئی اُسے صبح و شام میڈیا پر بیٹھ کر غلیظ قسم کی مغلظات بکتا ہے تو کوئی اُسے جب چاہے لپیٹ کر گھر بھیج دیتا ہے۔ اُسکے بنائے ہوئے آئین و دستور کی بھی حیثیت کاغذ کے چند ٹکڑوں سے زیادہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی یہ خوش فہمی بہت جلد دور ہوگئی جب سپریم کورٹ نے اِک نااہل شخص کو پارٹی کا سربراہ بنانیوالے قانون کو کسی غیر ضروری تاخیر کے بغیر لمحوں میں ختم کر دیا۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا معمولی سا قانون تھا جو بادی النظر میں فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا تھا ہم نے تو دو تہائی اکثریت بلکہ پوری پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور شدہ آئینی ترمیم کو بھی اِسی طرح نیست و نابود ہوتے دیکھا جب ایسی ہی سرگرم اور متحرک عدلیہ نے 1998ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی قیادت میں جمہوری دور کی منظور شدہ تیرھویں آئینی ترمیم کو منٹوں میں منسوخ کرکے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی اُس بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم 58 بی2 کو بحال کر ڈالا تھا حالانکہ وہ ترمیم تو کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے نہیں کی گئی تھی۔
پارلیمنٹ کی ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق رائے کے ساتھ اُس ترمیم کو منظور کیا تھا مگر اُسے بھی جس طرح طاقت اور جبر کے زور پر بے آبرو اور بے وقعت کیاگیا وہ بھی ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک مثالی واقعہ ہے۔
میاں صاحب آج ''ووٹ کو عزت دو'' کی ملک گیر مہم پر نکلے ہوئے ہیں لیکن کیا ووٹ سے زیادہ پارلیمنٹ کو عزت دینا ضروری نہیں ہے۔عوام کا کام ہے ووٹ دینا اور وہ اپنا یہ فریضہ کئی سال سے انجام دیتے آئے ہیں۔اُسکے ووٹ کو عزت اُسی وقت مل سکتی ہے جب پارلیمنٹ مضبوط ہوگی اور اُسکے احترام کے لیے خود پارلیمنٹرین کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب پارلیمنٹرین خود متحد ہوجائیں۔ وہ خود ہی جب اپنی پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو پھر بھلا کسی دوسرے ادارے سے یہ کیسے توقع رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے میں تین ادارے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ۔ اِن تینوں اداروں میں سب سے کمزور ادارہ پارلیمنٹ ہے جسے ہونا تو سب سے مضبوط چاہیے تھا لیکن وہی سب سے کمزور اور لاغر ادارہ ہے۔ یہ آئین کو تخلیق دینے والا ادارہ ہے دوسرے لفظوں میں ہم اِسے آئین و دستور کی ماں کہہ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے اِس ماں کی بھی ہمارے یہاں وہی حیثیت ہے جو عام طور سے ہمارے گھروں میں اِک ماں کو دی جاتی ہے جب ہم عام حالات میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی اپنی ماں کی عظمت کا خیال نہیں رہتا لیکن جب ہم کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں توفوراً پارلیمنٹ یعنی ماں یاد آجاتی ہے۔ یہ ماں جس دستور کو جنم دیتی ہے ملک کے تمام ادارے اُسی کے تحت کام کرنے پر لازم تصور کیے جاتے ہیں مگر خود اِس ماں کی زندگی کی حفاظت کرنیوالا کوئی نہیں۔
ملک کے باقی تمام اداروں کے لوگ اپنے اپنے ادارے کے تحفظ اور حفاظت کی خاطر متحد و یکجا ہوکر ڈٹ جاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ اِس ملک کا وہ بد نصیب ادارہ ہے جسکے اپنے لوگ ہی اُسکے دشمن ہیں۔ جس روز عوام کے ووٹوں سے یہ پارلیمنٹ معرض وجود میں آتی ہے اُسی روز سے اُسے نیست و نابود کرنے والے بھی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ عدلیہ کے بچاؤ کے لیے تو اُس کے لوگ سخت سے سخت چٹان سے بھی ٹکرا جاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بچانے کے لیے کوئی مرد مجاہد آگے نہیں بڑھتا۔
ایسا ہی اتحاد و یگانت ہم نے اِس ملک کے دیگر اداروں میں بھی دیکھا ہے۔ پارلیمنٹ کے علاوہ سارے ادارے مقدس و محترم ہیں۔اُن کے خلاف کوئی شخص بد زبانی یا دشنام طراز ی نہیں کرسکتا۔ مروجہ قوانین کے تحت ایسا شخص ادارے کی توہین کے جرم کا مرتکب قرار پائے گا اور قرار واقعی سزا تصور کیاجائے گا، لیکن پارلیمنٹ کو برا بھلا کہنے والے کے لیے ہمارے یہاں کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔
جو شخص چاہے جتنی گالیاں دے اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا، بلکہ اُسے داد تحسین پیش کرکے مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کی بے حرمتی پر بھی آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ بڑے بڑے مطلق العنان حکمراں آئے۔ سب نے اِسے ردی کے ٹوکری میں ڈال کر یا عرصہ دراز کے لیے معطل کرکے اپنا نیا قانون اور آڈر''ایل ایف او'' متعارف کروایا اور آج تک انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آئین کو معطل کرنے والے کسی ایک شخص کو بھی دستور کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا توکیا کوئی اُسے کٹہرے میں بھی کھڑا نہیں کرسکا۔ جس نے بھی یہ جرأت رندانہ دکھانے کی کوشش کی اُسے خود اپنے بچاؤکی فکر اور لالے پڑگئے۔
ویسے تو ریاست کے تین اہم ستونوں میں سے سب کے لیے حدود و قیود مقرر ہیں۔کوئی کسی اور ادارے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتا لیکن پارلیمنٹ ہی ایک واحد ایسا ادارہ ہے جسکے کاموں میں ہرکوئی مداخلت کرسکتا ہے۔ کبھی ملکی و قومی مفاد کے نام پر اورکبھی نظریہ ضرورت کے نام پر۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے علاوہ بھی ہمارے یہاں ایک ادارہ ایسا ہے جو اِن سب تین اداروں پر بھاری ہے۔
بظاہر اس ادارے کا نام ملک کے تین اہم ستونوں میں شمار نہیں ہوتا لیکن وہ ادارہ سب سے بالاتر اور بالادست تصور کیا جاتا ہے۔ ملک کا کوئی کام اُسکی مرضی و منشاء کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت اُسکے اولین فرائض میں شامل ہے لیکن اُسے ملک کے داخلی معاملات کی فکر بھی لاحق ہے۔ ملک دشمن طاقتوں سے جنگ لڑنے کے لیے وہ دونوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔
ضرب عضب اور رد الفساد جسے آپریشنوں کی مدد سے وہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے میں سرخرو اور کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اُسکی اِن کامیابیوں کے پیچھے حکومت وقت کے اُن فیصلوں کا بھی حصہ ہے جسکے تحت یہ سب کچھ ممکن ہوا۔ حکومت کی مرضی و منشاء اگر نہ ہوتی تو کراچی میں یہ امن و سکون کبھی واپس نہ آتا۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف اور زرداری دور میں ہر روزاِس شہر میں دس دس لاشیں گرتے دیکھی ہیں۔
عسکری قوتیں اُس وقت بھی موجود تھیں لیکن کچھ نہ کرسکیں۔ ملک بھی میں روزانہ کئی کئی بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے۔ ہزاروں شہری مرتے رہے۔ شہر کراچی میں خونریزی ہوتی رہی لیکن فوج اور رینجرز کچھ نہ کرسکی۔کوئی ادارہ تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ جب تک سارے ادارے متحد و متفق نہ ہوں ملک میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ خوشحالی۔ جس طرح دوسرے اداروں کی تعظیم و توقیر ضروری ہے اُسی طرح پارلیمنٹ کی بھی عزت و تکریم اشد ضروری ہے۔
کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے سے ممتاز اور بالاتر نہیں ہے۔ سب کے اپنے اپنے اختیارات اور فرائض ہیں۔ کسی کو دوسرے کے کاموں میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ جسکا جو کام ہے وہ اگر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کرتا رہے توکوئی مسئلہ اور تنازعہ پیدا ہی نہ ہو۔ صرف اِسی زریں اُصول پر اگر سختی سے کاربند رہا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک مثالی جمہوری ریاست کے امین اور باسی نہ کہلائیں۔