کیا یہ واقعی لطیفے ہیں

آئیے ہم سب مل کر اس تجربے سے گزرتے ہیں کہ رواداری کا حامل ملاپ ہمیشہ دلوں میں نرمی اور نگاہوں میں وسعت پیدا کرتا ہے۔

Amjadislam@gmail.com

انور مسعود کا ایک قول ہے کہ لطیفہ وہ ہوتا ہے جسے نچوڑو تو اس میں سے آنسو ٹپک پڑیں۔ یہ بات سننے میں جتنی انوکھی اور گہرے لگتی ہے حقیقت میں کچھ اس سے بھی زیادہ ہے کہ بیشتر اعلیٰ درجے کے لطیفے ہونٹوں پر ہنسی لانے کے ساتھ ساتھ ذہن میں کئی سوالیہ نشان بھی چھوڑ جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں میرے عزیز اور لکھاری دوست سید میو نے ٹورانٹو کینیڈا سے ایک واٹس ایپ کی معرفت کچھ ایسے ہی دو آتشہ قسم کے لطیفے یا سانحے شیئر کیے تھے۔ اتفاق سے آج کل وہ پاکستان میں آئے ہوئے ہیں، کل ملنے کے لیے تشریف لائے تو اور باتوں کے ساتھ ساتھ ان ''نام نہاد'' لطیفوں کا ذکر بھی درمیان میں آگیا کہ موضوع گفتگو پاکستان کی سیاست، ہمارے رویے اور وہ نظریاتی افراتفری تھی جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک عجیب سی شکل اختیار کرگیا ہے اور ہر کوئی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے بجائے اپنے لیے جواز تلاش کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔

سعید میو ایک درد مند دل کا حامل اور عملی قسم کا آدمی ہے۔ اپنے نسلی اور قبائلی تعلق کی وجہ سے اس کی طبیعت میں ایک مخصوص نوع کا اکھڑپن تو ہے مگر تعلیم اور دیار فرنگ میں طویل قیام کے باعث اور محنت مزدوری کے ساتھ اپنے ادبی ذوق اور لکھنے کی صلاحیت سے رشتہ جوڑے رکھنے کی وجہ سے اس کی سوچ اور گفتگو میں ملک اور معاشرے کے مسائل اور ان کے لیے برداشت اور وسیع النظری کا رویہ کچھ اس طرح سے در آئے ہیں کہ وہ ایک مخصوص سیاسی وابستگی کے باوجود نہ صرف کھل کر مکالمہ کرتا ہے بلکہ دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور دیکھا جائے تو یہی وہ رویہ ہے جس کو نہ اپنانے کی وجہ سے تفرقے بڑھتے اور بدگمانیاں پھیلتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اس نوع کے لطیفے پیدا ہوتے ہیں جن پر ایک بار ہنسنے کے بعد دس بار سوچنا پڑتا ہے۔

آئیے ہم سب مل کر اس تجربے سے گزرتے ہیں کہ رواداری کا حامل ملاپ ہمیشہ دلوں میں نرمی اور نگاہوں میں وسعت پیدا کرتا ہے اور یہی ان ''لطیفوں'' کا بھی تقاضا ہے جن کے ''واقعات'' بے شک پرانے ہیں لیکن ان کی تفسیر نئی بھی ہے اور حسب حال بھی۔

''ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے پانی خطرے کے نشان سے دو فٹ اونچا ہوگیا ہے، لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم نے انتظام کرلیا ہے خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔''

یہ لطیفہ ان معاشی پالیسیاں بنانے والے ماہرین کے نام ہے جو مہنگائی کے اسباب ختم کرنے کے بجائے تنخواہ میں اضافے کی بات کرتے ہیں جب کہ دنیا کے معاشی ماہرین کے مطابق تنخواہ میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔


''لندن کی ایک بیکری کے کباب عموماً ملکہ کے لیے قصر بکنگھم میں جاتے تھے، دوستوں کے مشورے پر بیکری والے نے دکان پر ایک بڑے سائز کا بورڈ نصب کرایا جس پر تحریر تھا کہ ہمارے یہاں کے کباب ملکہ معظمہ بڑے شوق سے تناول فرماتی ہیں۔ قریب کے دوسرے بیکری والے کو اس کی یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی اس نے فوراً دکان پر ایک بورڈ لگوایا جس پر تحریر تھا۔ ''اے اللہ، ہماری ملکہ کی صحت کی حفاظت فرما''

اپوزیشن کی سیاست کا کردار کرنے والے سیاستدانوں کے نام

''کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔''

دور حاضر کے تقاضوں سے لاعلم حضرات کے نام

''ایک شہری خاتون گاؤں میں عورتوں کو حساب سکھا رہی تھی۔ اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس پچاس روپے ہوں، اس میں سے بیس روپے تم اپنے شوہر کو دے دو تو بتاؤ تمہارے پاس کتنے روپے باقی بچیں گے۔ عورت نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ خاتون نے دیہاتی عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا، احمق عورت تم حساب بالکل نہیں جانتی ہو۔ دیہاتی عورت نے جواب دیا، آپ بھی میرے شوہر ''شیرو'' کو نہیں جانتیں وہ یہ سارے روپے مجھ سے چھین لے گا۔''

یہ لطیفہ ان ماہرین کے نام جو پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔

''ایک مولوی صاحب کسی گاؤں میں پہنچے انھیں تبلیغ کا شوق تھا، جمعے کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن جمعے کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ انھوں نے اس شخص سے کہا تم واحد آدمی ہو جو مسجد میں آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ بولا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں مجھے اتنا پتہ ہے کہ اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے انھوں نے بھی پوری تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے صرف ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔''
Load Next Story