روبوٹ ملازمین کا انتخاب کریں گے
ابتدائی دور میں یہ خودکار مشینیں کارساز فیکٹریوں سمیت چند ایک صنعتوں میں استعمال ہوتی تھیں۔ پھر ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد کار میں اضافہ اور استعمال متنوع چلاگیا۔ بالخصوص مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلی جنس) جس کے لیے عرف عام میں اے آئی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، کے ظہور کے بعد روبوٹوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اے آئی خودکار مشینوں میں انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کررہی ہے۔ وہ مرحلہ اگرچہ بہت دور ہے جب مشینیں کُلی طور پر انسانوں جیسی ذہانت اور سمجھ بُوجھ کی حامل ہوجائیں، لیکن اس جانب پیش رفت تیزی سے ہورہی ہے۔ اسی لیے مایۂ ناز سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے بھی اے آئی کو انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
بہرحال اے آئی اور دیگر ٹیکنالوجیز کے ملاپ سے بنائے گئے انسان نما روبوٹوں سے، جنھیں ہیومنائیڈ کہا جاتا ہے، وہ کام لیے جارہے ہیں جو قبل ازیں انسان انجام دیا کرتے تھے۔ مثلاً یہ ریستورانوں، ہوٹلوِں اور بینکوں وغیرہ میں استقبالیہ کلرک کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ انسانوں کی تفریح طبع کے لیے بھی ہیومنائیڈ بنالیے گئے ہیں، کھلاڑی روبوٹ بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی حامل مشینوں کی وجہ سے کتنے ہی انسان اپنے روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ ماہرین متنبہ کررہے ہیں کہ آنے والے برسوں کے دوران لاکھوں انسان ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے کیوں کہ روزمرّہ زندگی کے بیشتر شعبوں میں ان کی جگہ انسان نما روبوٹ لے لیں گے۔
مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ کا دائرہ عمل اب انسانی وسائل ( ہیومن ریسورس ) کے شعبے تک وسیع ہوگیا ہے، اور اس شعبے سے منسلک افراد کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ایک روسی کمپنی نے ایسا روبوٹ تیار کرلیا ہے جو ملازمت کے امیدواروں کے انٹرویوز کرسکتا ہے۔ اس روبوٹ کو خوب رُو عورت کی شکل دی گئی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے ویرا نامی روبوٹ کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ فی الحال ویرا کو نچلے درجے کے ملازمین جیسے کلرک، ویٹرز اور مزدور وغیرہ بھرتی کرنے میں معاونت کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
ویرا ملازمت کی نوعیت کے لحاظ سے، ملازمتوں کی پانچ ویب سائٹس پر موجود سی وی ز میں سے انتخاب کرکے متعلقہ فرد کو ٹیلی فون کرتی ہے، اور اسے ملازمت کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انٹرویو کا وقت طے کرتی ہے۔ پھر فون پر یا ویڈیوچیٹ کے ذریعے وہ امیدواروں کے انٹرویوکرتی ہے، اور غیرموزوں امیدواروں کو فہرست سے خارج کرتی چلی جاتی ہے۔
آخر میں صرف دس فی صد امیدوار بچتے ہیں۔ فی الحال ویرا کو امیدوار کے حتمی انتخاب یا کسی کو ملازمت سے برخاست کرنے کا اختیار نہیں سونپا گیا۔ وہ سیکڑوں لوگوں کے انٹرویو کرنے کے بعد موزوں ترین امیدواروں کے نام پیش کردیتی ہے۔ بعدازاں متعلقہ افسران ان میں سے انتخاب کرلیتے ہیں۔
ویرا کی خالق کمپنی اسٹرے فورے کے شریک بانی الیگزینڈر یوراکسن کہتے ہیں کہ امیدواروں کا انتخاب ایک تھکادینے والا کام ہے۔ ہمیں سیکڑوں امیدواروں کے انٹرویوکرنے کے بعد ان میں سے موزوں افراد کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس میں بہت وقت صرف ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی ہمیں صرف چند ایک موزوں ترین امیدواروں کے نام دے دے کہ ان میں سے منتخب کرلیں تو وقت اور وسائل کی بے حد بچت ہوگی۔ ویرا کی تخلیق کے پس پردہ یہی ضرورت تھی۔
شعبہ افرادی قوت کے افسران کو امیدواروں کے انٹرویو کرنے میں کئی روز بلکہ بعض اوقات کئی کئی ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں لیکن ویرا سیکڑوں امیدواروں کے انٹریو ایک ہی وقت میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس طرح یہ ان بڑی کمپنیوں کے لیے بہت موزوں ثابت ہوگی جہاں ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ اس کی خدمات حاصل کرنے سے وقت اور وسائل دونوں کی بچت ہوگی۔
ویرا کو اے آئی کے ساتھ ساتھ اسپیچ ری کگنیشن کی صلاحیت سے بھی لیس کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ روبوٹ پیچیدہ اہداف حاصل کرنے کے علاوہ روانی سے گفت و شنید بھی کرسکتا ہے۔
ویرا کی تربیت کے لیے ماہرین نے ٹیلی ویژن، وکی پیڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے تقریر اور تحریر کی تیرہ ارب سے زائد مثالوں سے مدد لی۔ چناں چہ اپنی یادداشت میں محفوظ ان ارب ہا مثالوں کی مدد سے اس کے لیے بات کرنا اور سمجھنا بہت آسان ہے۔ اگلے مرحلے میں روسی کمپنی کے ماہرین ویرا کو غصے، خوشی اور مایوسی کے جذبات کی پہچان کرنا سکھائیں گے۔