نیشنل اسٹیڈیم کی ویرانی ختم
سیکیورٹی کے نام پر شائقین کو زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ بات یقینی بنائیں۔
''کرکٹ پاکستان میں کہاں واپس آئی ہے، میچز تو صرف لاہور میں ہو رہے ہیں ، کراچی کے ساتھ بورڈ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتا ہے''
مجھے نہیں یاد کہ کتنے لوگوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران یہ الفاظ مجھ سے کہے تھے، شائقین کرکٹ کی یہ شکایت بجا تھی،پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو بھی میچز کی میزبانی کا حق تھا۔
لاہور میں کئی مقابلے بااحسن انداز میں ہو گئے تو پھر شہرقائد کی باری آئی، چونکہ یہاں طویل عرصے بعد پہلی بار بڑی کرکٹ ہو رہی تھی لہذا پی ایس ایل فائنل کے دوران سیکیورٹی سمیت کئی معاملات میں حد سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا،البتہ میچ کے عمدگی سے انعقاد نے سب کے حوصلے بڑھا دیے اور ویسٹ انڈیز سے سیریز میں زیادہ بہتر انتطامات کیے گئے، جس سے شائقین اور میڈیا کو نسبتاً کم دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
اب کراچی میں چار میچز کا کامیابی سے انعقاد ہوگیا،یوں لاہور کے بعد ایک اور شہر نے ثابت کر دکھایا کہ ہمارا ملک اب انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے تیار ہے، سیکیورٹی اتنی سخت تھی کہ آسٹریلیا، انگلینڈ یا بھارت کی ٹیمیں بھی کھیل کر جاتیں تو انتظامات کو سراہا جاتا مگر افسوس فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اس سیریز کی نتائج سے زیادہ انتظامی اہمیت تھی۔
خدانخواستہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہوجاتا تو ہمارے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا مگر ہمیں سیکیورٹی اداروں کوخراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنھوں نے دن رات عمدگی سے فرائض نبھائے جس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثرگیا، ہمیں کراچی کے شائقین کو بھی سراہنا چاہیے جنھوں نے چاروں میچز میں مثالی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، ویسٹ انڈین ٹیم کو بھی سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور ہر اچھے شاٹ پر ایسے داد دی جیسے اپنی ٹیم کھیل رہی ہو۔
قومی ترانے کے وقت جب ہزاروں افراد ٹیم کے ساتھ شامل ہوتے اس سے اچھا کوئی لمحہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، سبز ہلالی پرچم تھامے، گرین شرٹس زیب تن کیے، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے شائقین نیشنل اسٹیڈیم میں برسوں بعد نظر آئے،دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا کہ پاکستانی زندہ دل قوم ہیں اور اب حالات ایسے ہو چکے کہ ہم عالمی کرکٹ کی دوبارہ میزبانی کر سکتے ہیںِ۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں بڑے کھلاڑی شامل نہیں تھے اور انھیں مقامی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا زیادہ موقع بھی نہیں مل پایا، اس لیے کارکردگی اچھی نہیں رہی، پاکستان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کلین سوئپ کے ذریعے رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن کو مزید مستحکم کر لیا، جب سے سرفراز نے قیادت سنبھالی قومی ٹیم میں نئی قوت دوڑتی نظر آ رہی ہے، مسلسل سات سیریز جیتنا کوئی معمولی بات نہیں۔
سرفراز ہمیشہ نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرتے ہیں، اس سیریز میں بھی حسین طلعت، آصف علی اور شاہین شاہ آفریدی کا ڈیبیو ہوا، حسین نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ڈیبیو پر مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کر لیا، دیگر دو پلیئرز بھی یقیناً مستقبل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیں گے۔
پی ایس ایل میں کم اسٹرائیک ریٹ کی وجہ سے بابر اعظم تنقید کی زد میں آئے تھے، البتہ اس سیریز میں انھوں نے کافی حد تک یہ تاثر زائل کر دیا،ان کے اوپنر بننے سے احمد شہزاد باہر رہے ، وہ لیگ میں ناکامی کے باوجود حیران کن طور پر اسکواڈ میں شامل ہو گئے تھے، البتہ ایسا لگتا ہے کہ اگلی سیریز میں ڈراپ ہو جائیں گے،فخر زمان نے بھی اچھی بیٹنگ کی، بولنگ میں عامر اور شاداب کو 5،5 وکٹیں ملیں، البتہ دوسرے میچ میں اسپنر نے جو حرکت کی انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
آپ ہزاروں لوگوں کے رول ماڈل اور بخوبی جانتے ہیں کہ کتنے کیمرے چہرے کو فوکس کیے ہوتے ہیں، ایسے میں منہ سے الفاظ نکالتے ہوئے احتیاط برتنا ہی مناسب ہے، ویسے بھی کون سا ورلڈکپ کا فائنل تھا کہ ایسے جذباتی ہو کر خوشیاں منائی جاتیں،امید ہے کہ جرمانے سے وہ سبق سیکھیں گے،سیریز کے دوران پریس باکس کا ماحول بھی بڑا زبردست رہا،میڈیا کے دوست اپنے ملک میں انٹرنیشنل میچز کور کر کے خوشی سے سرشار دکھائی دیے۔
اتفاق سے دوسرے میچ کے دن میری سالگرہ بھی تھی ، وہاں اصغر اور نظام کیک لے آئے، یوں میں نے ساتھی صحافیوں اور سابق کرکٹرز راشد لطیف، محمد وسیم، عبدالرزاق اور بازید خان کے ہمراہ اسٹیڈیم میں ہی کیک کاٹ کر یادگار سالگرہ منائی،معروف کمنٹیٹر طارق سعید کے ساتھ دو میچز میں کچھ دیر تک ریڈیو پر کمنٹری بھی کی، وسیم اکرم، وقار یونس، رمیز راجہ بھی پریس باکس آتے رہے۔
یہ سب بھی اس بات پر بیحد خوش تھے کہ کراچی میں کرکٹ کی واپسی ہو گئی،9 برس بعد نیشنل اسٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچز ہوئے مگر ماحول وہی ماضی جیسا تھا، شائقین اس سے بیحد لطف اندوز ہوئے،ہمیں اس کا کریڈٹ پی سی بی کو بھی دینا چاہیے،جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا کہ یہ طویل سفر کا دوسرا قدم ہے، لاہور اور اب کراچی میں میچز ہونے لگے لیکن بڑی ٹیموں کا اعتماد واپس پانے میں ہمیں ابھی مزید کئی برس لگیں گے، اس دوران محنت جاری رکھنی چاہیے۔
آئندہ سال پی ایس ایل کے آدھے میچز پاکستان میں کرانے سے پی سی بی کو خاصی مدد ملے گی،اب گراؤنڈز برسوں بعد دوبارہ آباد ہوئے ہیں، چاہے سیاسی پارٹیز ہوں یا صوبائی حکومتیں کرکٹ سب کو ایک پیج پر لے آئی، یہی اس کھیل کی خاصیت ہے، میچز کراچی میں ہوئے پورا پاکستان خوش ہو رہا تھا کہ ملک میں کرکٹ لوٹ آئی، سب یکجا نظر آئے، بس اب اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے۔
لاہور اور کراچی والوں کو تو اسٹیڈیمز میں جا کر دل دل پاکستان گانے کا موقع مل گیا اب دیگر شہروں کی باری ہے، پی سی بی کو اگلے سال تک مزید 2 شہروں کو انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کیلیے تیار کرنا چاہیے،ساتھ ہی مقابلوںکا شیڈول بناتے ہوئے خیال رکھا جائے کہ ایک ہی شہر میں تین میچز ساتھ نہ ہوں، ٹریفک کو رواں رکھنے کیلیے بھی مناسب حکمت عملی بنانی چاہیے، ٹکٹوں کے نرخ کم رکھیں اور کوشش کریں ٹیموں میں اسٹار کرکٹرز شامل ہوں تاکہ شائقین کی دلچسپی بڑھ سکے۔
سیکیورٹی کے نام پر شائقین کو زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ بات یقینی بنائیں، شٹل سروس اسٹیڈیم کے قریب تک کی ہو،ٹکٹوں کے حصول کا بھی نیا سسٹم بنانا ہوگا، اس بار جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ کامیاب نہ رہا،امید ہے بورڈ حکام نظر آنے والی خامیاں دور کرتے ہوئے اگلی سیریز میں مزید بہتر انتظامات کریں گے۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔
مجھے نہیں یاد کہ کتنے لوگوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران یہ الفاظ مجھ سے کہے تھے، شائقین کرکٹ کی یہ شکایت بجا تھی،پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو بھی میچز کی میزبانی کا حق تھا۔
لاہور میں کئی مقابلے بااحسن انداز میں ہو گئے تو پھر شہرقائد کی باری آئی، چونکہ یہاں طویل عرصے بعد پہلی بار بڑی کرکٹ ہو رہی تھی لہذا پی ایس ایل فائنل کے دوران سیکیورٹی سمیت کئی معاملات میں حد سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا،البتہ میچ کے عمدگی سے انعقاد نے سب کے حوصلے بڑھا دیے اور ویسٹ انڈیز سے سیریز میں زیادہ بہتر انتطامات کیے گئے، جس سے شائقین اور میڈیا کو نسبتاً کم دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
اب کراچی میں چار میچز کا کامیابی سے انعقاد ہوگیا،یوں لاہور کے بعد ایک اور شہر نے ثابت کر دکھایا کہ ہمارا ملک اب انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے تیار ہے، سیکیورٹی اتنی سخت تھی کہ آسٹریلیا، انگلینڈ یا بھارت کی ٹیمیں بھی کھیل کر جاتیں تو انتظامات کو سراہا جاتا مگر افسوس فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اس سیریز کی نتائج سے زیادہ انتظامی اہمیت تھی۔
خدانخواستہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہوجاتا تو ہمارے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا مگر ہمیں سیکیورٹی اداروں کوخراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنھوں نے دن رات عمدگی سے فرائض نبھائے جس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثرگیا، ہمیں کراچی کے شائقین کو بھی سراہنا چاہیے جنھوں نے چاروں میچز میں مثالی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، ویسٹ انڈین ٹیم کو بھی سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور ہر اچھے شاٹ پر ایسے داد دی جیسے اپنی ٹیم کھیل رہی ہو۔
قومی ترانے کے وقت جب ہزاروں افراد ٹیم کے ساتھ شامل ہوتے اس سے اچھا کوئی لمحہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، سبز ہلالی پرچم تھامے، گرین شرٹس زیب تن کیے، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے شائقین نیشنل اسٹیڈیم میں برسوں بعد نظر آئے،دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا کہ پاکستانی زندہ دل قوم ہیں اور اب حالات ایسے ہو چکے کہ ہم عالمی کرکٹ کی دوبارہ میزبانی کر سکتے ہیںِ۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں بڑے کھلاڑی شامل نہیں تھے اور انھیں مقامی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا زیادہ موقع بھی نہیں مل پایا، اس لیے کارکردگی اچھی نہیں رہی، پاکستان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کلین سوئپ کے ذریعے رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن کو مزید مستحکم کر لیا، جب سے سرفراز نے قیادت سنبھالی قومی ٹیم میں نئی قوت دوڑتی نظر آ رہی ہے، مسلسل سات سیریز جیتنا کوئی معمولی بات نہیں۔
سرفراز ہمیشہ نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرتے ہیں، اس سیریز میں بھی حسین طلعت، آصف علی اور شاہین شاہ آفریدی کا ڈیبیو ہوا، حسین نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ڈیبیو پر مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کر لیا، دیگر دو پلیئرز بھی یقیناً مستقبل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیں گے۔
پی ایس ایل میں کم اسٹرائیک ریٹ کی وجہ سے بابر اعظم تنقید کی زد میں آئے تھے، البتہ اس سیریز میں انھوں نے کافی حد تک یہ تاثر زائل کر دیا،ان کے اوپنر بننے سے احمد شہزاد باہر رہے ، وہ لیگ میں ناکامی کے باوجود حیران کن طور پر اسکواڈ میں شامل ہو گئے تھے، البتہ ایسا لگتا ہے کہ اگلی سیریز میں ڈراپ ہو جائیں گے،فخر زمان نے بھی اچھی بیٹنگ کی، بولنگ میں عامر اور شاداب کو 5،5 وکٹیں ملیں، البتہ دوسرے میچ میں اسپنر نے جو حرکت کی انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
آپ ہزاروں لوگوں کے رول ماڈل اور بخوبی جانتے ہیں کہ کتنے کیمرے چہرے کو فوکس کیے ہوتے ہیں، ایسے میں منہ سے الفاظ نکالتے ہوئے احتیاط برتنا ہی مناسب ہے، ویسے بھی کون سا ورلڈکپ کا فائنل تھا کہ ایسے جذباتی ہو کر خوشیاں منائی جاتیں،امید ہے کہ جرمانے سے وہ سبق سیکھیں گے،سیریز کے دوران پریس باکس کا ماحول بھی بڑا زبردست رہا،میڈیا کے دوست اپنے ملک میں انٹرنیشنل میچز کور کر کے خوشی سے سرشار دکھائی دیے۔
اتفاق سے دوسرے میچ کے دن میری سالگرہ بھی تھی ، وہاں اصغر اور نظام کیک لے آئے، یوں میں نے ساتھی صحافیوں اور سابق کرکٹرز راشد لطیف، محمد وسیم، عبدالرزاق اور بازید خان کے ہمراہ اسٹیڈیم میں ہی کیک کاٹ کر یادگار سالگرہ منائی،معروف کمنٹیٹر طارق سعید کے ساتھ دو میچز میں کچھ دیر تک ریڈیو پر کمنٹری بھی کی، وسیم اکرم، وقار یونس، رمیز راجہ بھی پریس باکس آتے رہے۔
یہ سب بھی اس بات پر بیحد خوش تھے کہ کراچی میں کرکٹ کی واپسی ہو گئی،9 برس بعد نیشنل اسٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچز ہوئے مگر ماحول وہی ماضی جیسا تھا، شائقین اس سے بیحد لطف اندوز ہوئے،ہمیں اس کا کریڈٹ پی سی بی کو بھی دینا چاہیے،جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا کہ یہ طویل سفر کا دوسرا قدم ہے، لاہور اور اب کراچی میں میچز ہونے لگے لیکن بڑی ٹیموں کا اعتماد واپس پانے میں ہمیں ابھی مزید کئی برس لگیں گے، اس دوران محنت جاری رکھنی چاہیے۔
آئندہ سال پی ایس ایل کے آدھے میچز پاکستان میں کرانے سے پی سی بی کو خاصی مدد ملے گی،اب گراؤنڈز برسوں بعد دوبارہ آباد ہوئے ہیں، چاہے سیاسی پارٹیز ہوں یا صوبائی حکومتیں کرکٹ سب کو ایک پیج پر لے آئی، یہی اس کھیل کی خاصیت ہے، میچز کراچی میں ہوئے پورا پاکستان خوش ہو رہا تھا کہ ملک میں کرکٹ لوٹ آئی، سب یکجا نظر آئے، بس اب اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے۔
لاہور اور کراچی والوں کو تو اسٹیڈیمز میں جا کر دل دل پاکستان گانے کا موقع مل گیا اب دیگر شہروں کی باری ہے، پی سی بی کو اگلے سال تک مزید 2 شہروں کو انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کیلیے تیار کرنا چاہیے،ساتھ ہی مقابلوںکا شیڈول بناتے ہوئے خیال رکھا جائے کہ ایک ہی شہر میں تین میچز ساتھ نہ ہوں، ٹریفک کو رواں رکھنے کیلیے بھی مناسب حکمت عملی بنانی چاہیے، ٹکٹوں کے نرخ کم رکھیں اور کوشش کریں ٹیموں میں اسٹار کرکٹرز شامل ہوں تاکہ شائقین کی دلچسپی بڑھ سکے۔
سیکیورٹی کے نام پر شائقین کو زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ بات یقینی بنائیں، شٹل سروس اسٹیڈیم کے قریب تک کی ہو،ٹکٹوں کے حصول کا بھی نیا سسٹم بنانا ہوگا، اس بار جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ کامیاب نہ رہا،امید ہے بورڈ حکام نظر آنے والی خامیاں دور کرتے ہوئے اگلی سیریز میں مزید بہتر انتظامات کریں گے۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔