پبلک ٹرانسپورٹ کے بحران سے منی بسوں کی روایتی سجاوٹ کم ہوگئی
ٹرک آرٹ کی ترویج کاذریعہ بننے والی سجی سجائی منی بسوں کاعروج زوال سے دوچار ہونے لگا۔
کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بڑھتے مسائل،آمدن میں کمی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے منی بسوں کی بڑی تعداد سڑکوں سے غائب ہوچکی ہے۔
دنیا بھر میں پاکستانی ٹرک آرٹ کی ترویج کا ذریعہ بننے والی سجی سجائی منی بسوں کا عروج بھی تیزی سے روبہ زوال ہے منی بسوں کی تعداد میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے جہاں شہریوں کو آمدورفت کے لیے چنگ چی اور سی این جی رکشوں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے وہیں منی بسوں کو دیدہ زیب بنانے اور سجاوٹ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی متاثر ہورہا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر2005 تک دلہن کی طرح سجی ہوئی منی بسوں کا راج تھا بسوں کو اندراور باہر آرٹ کے نمونوں سے سجایا جاتا تھا، سجاوٹ کے لیے رنگ برنگی چمک پٹی، اسٹیل کی چادر پر ہاتھ سے بنائے گئے نقش و نگار کے ساتھ جگ مگ کرتے آئینے استعمال کیے جاتے تھے منی بسوں کی اندرونی اور بیرونی سجاوٹ پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے کراچی میں چلنے والی11 W-کے روٹ کی منی بسوں نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی تاہم شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام روز بروز درہم برہم ہوتا گیا۔
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، گاڑیوں کی مرمت کی لاگت بڑھنے کے باوجود کرایوں میں مناسب اضافہ نہ ہوسکا دوسری جانب سڑکوں پر چنگ چی رکشوں اور سی این جی بسوں کے متبادل نظام نے منی بسوں کی رہی سہی آمدن بھی ختم کردی خسارے کا شکار ٹرانسپورٹرز کی بڑی تعداد نے منی بسوں کو لوڈنگ گاڑیوں میں تبدیل کردیا جبکہ متعدد گاڑیاں کوسٹر کی شکل اختیار کرکے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جانے لگیں۔
ٹرانسپورٹرز کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر 2005 تک 26ہزار کے لگ بھگ منی بسیں رواں دواں تھیں جو مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ٹرک آرٹ کی ترویج کا بھی ذریعہ بن رہی تھیں تاہم بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے منی بسوں کی تعداد گھٹ کر 6000 تک محدود ہوچکی ہے جس سے شہریوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے ساتھ ہی منی بسوں کو آراستہ کرنے اور سجاوٹ کا کام بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
کراچی میں مشہور منی بس W-11کے اسٹاپ اللہ والی پر26سال سے منی بسوں کی باڈیاں تیار کرنے والے حنیف بھائی نے بتایا کہ کراچی کی منی بسوں نے اپنی سج دھج کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی اور عروج کے زمانے میں ہر ماہ 50 سے زائد منی بسوں کو سجانے کا کام ملتا رہا لیکن اب صورتحال بہت خراب ہے اب مہینے بھر میں بمشکل ایک سے 2 منی بسیں ہی تیار کی جاتی ہیں زیادہ تر منی بسیں کمرشل لوڈنگ گاڑیوں میں تبدیل کردی گئیں۔
کچھ منی بسیں دیگر شہروں میں چلائی جانے لگیں یا پھر خستہ حالی کا شکار ہوکر شہر کے مختلف روٹس پر چلائی جارہی ہیں حنیف بھائی کے مطابق منی بسوںکی مکمل اور بھرپور سجاوٹ پر ایک سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے5 سے 6 کاریگر دن رات محنت کرتے ہیں، بسوں کو چمک پٹی، اسٹیل کی چادر پر بنے نقش و نگار، جھالروں، برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ بسوں کی بیرونی سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے منی بس کی اسکرین کے اوپر کے حصہ کو منی بس کا تاج کہا جاتا ہے جس پر آئینوں سمیت چمک پٹی اور دیگر سجاوٹ کی جاتی ہے۔
منی بس کے باہری حصے پر اسٹیل کے پائپ سے جنگلہ لگایا جاتا ہے، منی بسوں کے پائیدان، اگلے پچھلے بمپر بھی نقش و نگار سے آراستہ کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ منی بسوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی وجہ سے باڈی میکرز اور سجاوٹ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے جس سے بسوں کو سجانے کی مہارت کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔
منی بسوں کی اوورہالنگ اور سجاوٹ میں 6 کاری گروں کو روزگار ملتا ہے
منی بسوں کی اوورہالنگ کے کام میں 6کاریگروں کو روزگار ملتا ہے پرانی منی بسوں کو اسکریپ کرکے پرانا اور ناکارہ سامان نکال کر الگ کیا جاتا ہے جس کے بعد ڈینٹنگ کا کام شروع ہوتا ہے بس کی باڈی میں گلے ہوئے حصے نکال کر لوہے کی نئی چادر لگائی جاتی ہے فرش، پلرز اور اگلے پچھلے حصوں سمیت چھت کی مرمت کی جاتی ہے جس کے بعدمنی بس کی باڈی پر رنگ و روغن کا کام کیا جاتا ہے بس میں برقی قمقموں اور میوزک سسٹم کے لیے وائرنگ کی جاتی ہے، باڈی پر نقش و نگار بنانے کے ساتھ چمک پٹی سے سجاوٹ کی جاتی ہے جس کے بعد ریگزین کی سیٹیں اور کشن بنانے کا کام شروع کیا جاتا ہے یہ تمام کام الگ الگ کاریگر اپنی ورکشاپ میں کرتے ہیں۔
منی بسوں کی سجاوٹ میں آرٹ کے کاریگروں پینٹرز، ڈینٹرز، الیکٹریشنز، ویلڈرز، مکینکس، ریگزین کی سیٹیں اور کشن بنانے والے کاریگروں کو روزگار ملتا ہے تاہم منی بسوںکی تعداد کم ہونے سے روزگار کے مواقع بھی کم ہورہے ہیں۔
W-11کی سج دھج کے ماہرکاریگروں کی آسٹریلیا میں دھوم
کراچی کی سڑکوں کی دلہن W-11 کی سج دھج کے ماہر پاکستانی کاری گر آسٹریلیا میں دھوم مچاچکے ہیں، آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر 14سے 26 مارچ تک Z1 18 روٹ کی ٹرام کو پاکستانی W-11 کی طرح سجایا گیا،ٹرام کو سجانے کے لیے کراچی سے 5 کاری گروں کو میلبورن بلا گیا جنھوں نے 2 ہفتوں کی محنت کے بعد ٹرام کو سجانے کا کام کیا ٹرام تزئین و آرائش مکمل ہونے کے بعد دنیا بھر سے آئے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی جس سے دنیا بھر میں پاکستانی ٹرک آرٹ، موسیقی اور ثقافت کو فروغ ملا میلبورن کی ٹرام پر ''پیار زندگی ہے'' کی عبارت درج کی گئی جبکہ اوپری حصے پر W-11 کا نیون سائن لگایا گیا۔
کامن ویلتھ گیمز کے دوران 14سے 26 مارچ کے دوران ہزاروں سیاحوں نے پاکستانی ثقافت کا شاہکار اس ٹرام میں سفر کیا ٹرام کی مغربی میڈیا میں خصوصی کوریج کی گئی ٹرام میں پاکستانی موسیقی اور لوک رقص کا بھی اہتمام کیا گیا میلبورن شہر کی سڑکوں پر پاکستانی کاری گروں کی مہارت اور ثقافت کے جلوے بکھیرنے والی ٹرام آج بھی میلبورن ٹرام میوزیم میں موجود ہے اور دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
چنگ چی رکشوں کی بھرمار نے منی بسوں کی تعداد کم کردی
نیوکراچی میں چمکیلی پٹیوں سے گاڑیوں پر نقش و نگار بنانے کے ماہر کاری گر محمد اقبال نے بتایا کہ وہ کراچی میں 27سال سے گاڑیوں کی سجاوٹ کا کام کررہے ہی اور اب تک ہزاروں گاڑیوں پر کام کرچکے ہیں محمد اقبال کے مطابق کراچی میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار نے منی بسوں کی تعداد کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے منی بسوں کی سجاوٹ کا کام بھی متاثر ہوا انھوں نے بتایا کہ اس وقت منی بسوں کی مکمل سجاوٹ اور اوورہالنگ پر 5 سے 6 لاکھ روپے کا خرچ آرہا ہے جو خسارے کا شکار ٹرانسپورٹرز کے بس سے باہر ہے۔
منی بسوں کے اندر اور باہر چمک پٹی کے کام پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرک آرٹ اور چمک پٹی کے کام کی شہر ت اندرون اور بیرون ملک پھیلنے سے یہ کام اب تک باقی ہے۔
آرٹ کے شوقین افراد اپنے گھروں میں ٹرک آرٹ اور چمک پٹی سے سجاوٹ کرواتے ہیں انھوں نے بتایا کہ چمک پٹی کا زیادہ تر کام اب رکشوں پر کیا جاتا ہے شوقین افراد اپنے نئے نویلے رکشے کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لیے 15 سے 20 ہزار روپے تک خرچ کرتے ہیں ایک رکشا ایک ہفتے میں تیار کردیا جاتا ہے محمد اقبال کے مطابق منی بسوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی وجہ سے اب تین چار ماہ کے بعد کوئی ایک منی بس سجنے آتی ہے 2000سے 2006تک عروج کے زمانے میں بیک وقت ایک مہینے میں تین چار گاڑیوں پر کام کیا جاتا تھا۔
سجاوٹ کا زیادہ کام ڈبلیو گیارہ پر کیا جاتا تھا جن کی تعداد اب 100سے 150تک محدود ہوچکی ہے۔ محمد اقبال کے مطابق چمک پٹی کی اجرت ڈیزائن اور کام کی باریکی کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔ چمک پٹی کے لیے چائنا اور جاپان کے اسٹیکر استعمال کیے جاتے ہیں جاپانی اسٹیکر 3x3 فٹ کی شیٹ 1200روپے میں ملتی ہے جبکہ چائنا کے اسٹیکر کی شیٹ 300روپے تک مل جاتی ہے جاپانی اسٹیکر اپنی چمک، چپکنے کی صلاحیت دھوپ اور پانی سے مزاحمت کی وجہ سے مشہور ہے۔
محمد اقبال نے بتایا کہ وہ 2006میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر ٹرام کو ڈبلیو گیارہ کی طرح ٹرک آرٹ اور چمک پٹیوں کے پراجیکٹ پر بھی کام کرچکے ہیں اور اس ٹرام پر ان کے ہاتھ سے بنائی گئے ڈیزائن چسپاں کیے گئے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
دنیا بھر میں پاکستانی ٹرک آرٹ کی ترویج کا ذریعہ بننے والی سجی سجائی منی بسوں کا عروج بھی تیزی سے روبہ زوال ہے منی بسوں کی تعداد میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے جہاں شہریوں کو آمدورفت کے لیے چنگ چی اور سی این جی رکشوں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے وہیں منی بسوں کو دیدہ زیب بنانے اور سجاوٹ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی متاثر ہورہا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر2005 تک دلہن کی طرح سجی ہوئی منی بسوں کا راج تھا بسوں کو اندراور باہر آرٹ کے نمونوں سے سجایا جاتا تھا، سجاوٹ کے لیے رنگ برنگی چمک پٹی، اسٹیل کی چادر پر ہاتھ سے بنائے گئے نقش و نگار کے ساتھ جگ مگ کرتے آئینے استعمال کیے جاتے تھے منی بسوں کی اندرونی اور بیرونی سجاوٹ پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے کراچی میں چلنے والی11 W-کے روٹ کی منی بسوں نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی تاہم شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام روز بروز درہم برہم ہوتا گیا۔
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، گاڑیوں کی مرمت کی لاگت بڑھنے کے باوجود کرایوں میں مناسب اضافہ نہ ہوسکا دوسری جانب سڑکوں پر چنگ چی رکشوں اور سی این جی بسوں کے متبادل نظام نے منی بسوں کی رہی سہی آمدن بھی ختم کردی خسارے کا شکار ٹرانسپورٹرز کی بڑی تعداد نے منی بسوں کو لوڈنگ گاڑیوں میں تبدیل کردیا جبکہ متعدد گاڑیاں کوسٹر کی شکل اختیار کرکے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جانے لگیں۔
ٹرانسپورٹرز کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر 2005 تک 26ہزار کے لگ بھگ منی بسیں رواں دواں تھیں جو مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ٹرک آرٹ کی ترویج کا بھی ذریعہ بن رہی تھیں تاہم بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے منی بسوں کی تعداد گھٹ کر 6000 تک محدود ہوچکی ہے جس سے شہریوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے ساتھ ہی منی بسوں کو آراستہ کرنے اور سجاوٹ کا کام بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
کراچی میں مشہور منی بس W-11کے اسٹاپ اللہ والی پر26سال سے منی بسوں کی باڈیاں تیار کرنے والے حنیف بھائی نے بتایا کہ کراچی کی منی بسوں نے اپنی سج دھج کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی اور عروج کے زمانے میں ہر ماہ 50 سے زائد منی بسوں کو سجانے کا کام ملتا رہا لیکن اب صورتحال بہت خراب ہے اب مہینے بھر میں بمشکل ایک سے 2 منی بسیں ہی تیار کی جاتی ہیں زیادہ تر منی بسیں کمرشل لوڈنگ گاڑیوں میں تبدیل کردی گئیں۔
کچھ منی بسیں دیگر شہروں میں چلائی جانے لگیں یا پھر خستہ حالی کا شکار ہوکر شہر کے مختلف روٹس پر چلائی جارہی ہیں حنیف بھائی کے مطابق منی بسوںکی مکمل اور بھرپور سجاوٹ پر ایک سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے5 سے 6 کاریگر دن رات محنت کرتے ہیں، بسوں کو چمک پٹی، اسٹیل کی چادر پر بنے نقش و نگار، جھالروں، برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ بسوں کی بیرونی سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے منی بس کی اسکرین کے اوپر کے حصہ کو منی بس کا تاج کہا جاتا ہے جس پر آئینوں سمیت چمک پٹی اور دیگر سجاوٹ کی جاتی ہے۔
منی بس کے باہری حصے پر اسٹیل کے پائپ سے جنگلہ لگایا جاتا ہے، منی بسوں کے پائیدان، اگلے پچھلے بمپر بھی نقش و نگار سے آراستہ کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ منی بسوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی وجہ سے باڈی میکرز اور سجاوٹ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے جس سے بسوں کو سجانے کی مہارت کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔
منی بسوں کی اوورہالنگ اور سجاوٹ میں 6 کاری گروں کو روزگار ملتا ہے
منی بسوں کی اوورہالنگ کے کام میں 6کاریگروں کو روزگار ملتا ہے پرانی منی بسوں کو اسکریپ کرکے پرانا اور ناکارہ سامان نکال کر الگ کیا جاتا ہے جس کے بعد ڈینٹنگ کا کام شروع ہوتا ہے بس کی باڈی میں گلے ہوئے حصے نکال کر لوہے کی نئی چادر لگائی جاتی ہے فرش، پلرز اور اگلے پچھلے حصوں سمیت چھت کی مرمت کی جاتی ہے جس کے بعدمنی بس کی باڈی پر رنگ و روغن کا کام کیا جاتا ہے بس میں برقی قمقموں اور میوزک سسٹم کے لیے وائرنگ کی جاتی ہے، باڈی پر نقش و نگار بنانے کے ساتھ چمک پٹی سے سجاوٹ کی جاتی ہے جس کے بعد ریگزین کی سیٹیں اور کشن بنانے کا کام شروع کیا جاتا ہے یہ تمام کام الگ الگ کاریگر اپنی ورکشاپ میں کرتے ہیں۔
منی بسوں کی سجاوٹ میں آرٹ کے کاریگروں پینٹرز، ڈینٹرز، الیکٹریشنز، ویلڈرز، مکینکس، ریگزین کی سیٹیں اور کشن بنانے والے کاریگروں کو روزگار ملتا ہے تاہم منی بسوںکی تعداد کم ہونے سے روزگار کے مواقع بھی کم ہورہے ہیں۔
W-11کی سج دھج کے ماہرکاریگروں کی آسٹریلیا میں دھوم
کراچی کی سڑکوں کی دلہن W-11 کی سج دھج کے ماہر پاکستانی کاری گر آسٹریلیا میں دھوم مچاچکے ہیں، آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر 14سے 26 مارچ تک Z1 18 روٹ کی ٹرام کو پاکستانی W-11 کی طرح سجایا گیا،ٹرام کو سجانے کے لیے کراچی سے 5 کاری گروں کو میلبورن بلا گیا جنھوں نے 2 ہفتوں کی محنت کے بعد ٹرام کو سجانے کا کام کیا ٹرام تزئین و آرائش مکمل ہونے کے بعد دنیا بھر سے آئے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی جس سے دنیا بھر میں پاکستانی ٹرک آرٹ، موسیقی اور ثقافت کو فروغ ملا میلبورن کی ٹرام پر ''پیار زندگی ہے'' کی عبارت درج کی گئی جبکہ اوپری حصے پر W-11 کا نیون سائن لگایا گیا۔
کامن ویلتھ گیمز کے دوران 14سے 26 مارچ کے دوران ہزاروں سیاحوں نے پاکستانی ثقافت کا شاہکار اس ٹرام میں سفر کیا ٹرام کی مغربی میڈیا میں خصوصی کوریج کی گئی ٹرام میں پاکستانی موسیقی اور لوک رقص کا بھی اہتمام کیا گیا میلبورن شہر کی سڑکوں پر پاکستانی کاری گروں کی مہارت اور ثقافت کے جلوے بکھیرنے والی ٹرام آج بھی میلبورن ٹرام میوزیم میں موجود ہے اور دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
چنگ چی رکشوں کی بھرمار نے منی بسوں کی تعداد کم کردی
نیوکراچی میں چمکیلی پٹیوں سے گاڑیوں پر نقش و نگار بنانے کے ماہر کاری گر محمد اقبال نے بتایا کہ وہ کراچی میں 27سال سے گاڑیوں کی سجاوٹ کا کام کررہے ہی اور اب تک ہزاروں گاڑیوں پر کام کرچکے ہیں محمد اقبال کے مطابق کراچی میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار نے منی بسوں کی تعداد کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے منی بسوں کی سجاوٹ کا کام بھی متاثر ہوا انھوں نے بتایا کہ اس وقت منی بسوں کی مکمل سجاوٹ اور اوورہالنگ پر 5 سے 6 لاکھ روپے کا خرچ آرہا ہے جو خسارے کا شکار ٹرانسپورٹرز کے بس سے باہر ہے۔
منی بسوں کے اندر اور باہر چمک پٹی کے کام پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرک آرٹ اور چمک پٹی کے کام کی شہر ت اندرون اور بیرون ملک پھیلنے سے یہ کام اب تک باقی ہے۔
آرٹ کے شوقین افراد اپنے گھروں میں ٹرک آرٹ اور چمک پٹی سے سجاوٹ کرواتے ہیں انھوں نے بتایا کہ چمک پٹی کا زیادہ تر کام اب رکشوں پر کیا جاتا ہے شوقین افراد اپنے نئے نویلے رکشے کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لیے 15 سے 20 ہزار روپے تک خرچ کرتے ہیں ایک رکشا ایک ہفتے میں تیار کردیا جاتا ہے محمد اقبال کے مطابق منی بسوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی وجہ سے اب تین چار ماہ کے بعد کوئی ایک منی بس سجنے آتی ہے 2000سے 2006تک عروج کے زمانے میں بیک وقت ایک مہینے میں تین چار گاڑیوں پر کام کیا جاتا تھا۔
سجاوٹ کا زیادہ کام ڈبلیو گیارہ پر کیا جاتا تھا جن کی تعداد اب 100سے 150تک محدود ہوچکی ہے۔ محمد اقبال کے مطابق چمک پٹی کی اجرت ڈیزائن اور کام کی باریکی کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔ چمک پٹی کے لیے چائنا اور جاپان کے اسٹیکر استعمال کیے جاتے ہیں جاپانی اسٹیکر 3x3 فٹ کی شیٹ 1200روپے میں ملتی ہے جبکہ چائنا کے اسٹیکر کی شیٹ 300روپے تک مل جاتی ہے جاپانی اسٹیکر اپنی چمک، چپکنے کی صلاحیت دھوپ اور پانی سے مزاحمت کی وجہ سے مشہور ہے۔
محمد اقبال نے بتایا کہ وہ 2006میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر ٹرام کو ڈبلیو گیارہ کی طرح ٹرک آرٹ اور چمک پٹیوں کے پراجیکٹ پر بھی کام کرچکے ہیں اور اس ٹرام پر ان کے ہاتھ سے بنائی گئے ڈیزائن چسپاں کیے گئے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔