قیامِ پاکستان پر جید علماء میں تاریخی مکالمے کا خلاصہ
تحریک پاکستان کا ایک مرحلہ جب علماء کا ایک گروہ تقسیم ہند کا مخالف اور دوسرا دل و جان سے قیام پاکستان کا حامی تھا
ISLAMABAD:
اجتہادی اختلاف شرعی اصطلاح میں ایسے اختلاف کو کہا جاتا ہے جہاں اختلاف کرنے والے فریقین کے متضاد موقف حق کے قریب ہوں اور دونوں طرح سے مسلمانوں کی بھلائی سوچی جارہی ہو۔ تحریک پاکستان کے زمانے میں بھی ایک ایسا ہی مرحلہ آیا جب علماء کے ایک گروہ نے تقسیم ہند کی مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ متحدہ ہندوستان ہی مسلمانوں کےلیے بہتر ہے۔ اس کے بالعکس، علماء کے دوسرے گروہ نے قیام پاکستان کی دل و جان سے حمایت کی۔
پہلے گروہ کو جمعیت علمائے ہند کہا گیا جس کے سربراہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی تھے، دوسرے گروہ کو جمعیت علمائے اسلام کا نام ملا جس کے سربراہ حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی تھے؛ اور اس موقف یعنی مسلم لیگ کی حمایت کے بانی و سرپرست اعلی حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی تھے۔
اس دور میں تحریری اور تقریری طور پر دونوں جانب سے بڑے زبردست دلائل و براہین سے بھرپور مباحثے و مناظرے ہوئے جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان ہی میں سے ایک سب سے زیادہ معرکتہ الآراء مکالمہ، مناظرہ یا مباحثہ دونوں سربراہان علماء کے درمیان پیش آیا جسے مکالمہ بین الصدرین کے نام سے ایک کتابچے میں طبع کیا گیا تھا، اور رسالہ الجمعیتہ دیوبند میں بھی غالباً شائع ہوا تھا، لیکن اب نایاب ہے۔ اس گفتگو میں تقریباً تمام سوالات پر بات کی گئی اور حضرت علامہ کی جانب سے قیام پاکستان پر ہونے والے تمام اعتراضات کے کافی و شافی جوابات دیئے گئے۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس مباحثے کا نئی نسل کے سامنے اور ریکارڈ پر آنا بہت ضروری ہے کیونکہ مخالفین و ناقدین پاکستان یہی اعتراضات کسی نہ کسی طرح دوہراتے ہی رہتے ہیں۔ اس مباحثے کی تلخیص پیش خدمت ہے۔ قوسین میں لکھے گئے جملے اس عاجز مؤلف کے ہیں۔
مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، ناظم اعلی جمعیت علمائے ہند کا حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے پاس حاضر ہوکر اس معاملے پر (یعنی نظریہ پاکستان کی حمایت یا مخالفت) بات کرنے کا کہنا؛ اور بعد ازاں ایک خط کے ذریعے وقت طے کرنا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کا خوش دلی سے آمادہ ہوجانا اور جمعے کا دن طے ہوجانا۔
اس پروگرام کے مطابق 7 دسمبر 1945 بروز جمعہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی (صدر جمعیت علمائے ہند)، مفتی کفایت اللہ دہلوی ( مفتی اعظم دیوبند)، مولانا سعید احمد (سابق ناظم اعلی جمعیت ہند)، مولانا حفظ الرحمان (موجودہ ناظم اعلی جمعیت ہند) اور دیگر چند علماء وفد کی شکل میں حضرت علامہ سے ملنے اور معاملے پر بات کرنے ان کے دولت کدے پر تشریف لائے۔ رسمیات کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا اور مولانا حفظ الرحمان صاحب نے ایک طویل تقریر فرمائی (جس میں قیام پاکستان کے نقصانات، متبادل فارمولا، اور چند دیگر نکات شامل تھے)، جسے علامہ نے بہت انہماک سے سنا۔
جب وہ بول چکے تو علامہ نے فرمایا کہ آپ کی لمبی چوڑی گفتگو کے پورے الفاظ اور اجزاء تو مجھے یاد نہیں رہے، مگر جو تلخیص میرے ذہن میں آئی ہے، اس کے جوابات بلالحاظ ترتیب عرض کروں گا۔ اگر کوئی بات رہ جائے تو آپ یاد دلا کر اس کا جواب مجھ سے لے سکتے ہیں۔
اس گفت و شنید کا سلسلہ تقریباً تین سوا تین گھنٹے جاری رہا۔ وفد کی جانب سے سب سے زیادہ گفتگو مولانا حفظ الرحمان نے کی، دوسرے درجے میں مولانا احمد سعید نے حصہ لیا۔ اکا دکا بات کسی اور صاحب نے بھی کی۔ مجلس کے اختتامی لمحات میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کچھ بولے جو 10 منٹ سے زیادہ نہ تھا۔
مولانا زبردست مقرر تھے۔ انہوں نے ایک طویل تقریر کی اور اپنی بات کی تفصیل سے وضاحت کی، جس کا خلاصہ یہ دو باتیں ہیں:
1- جمعیت علماء اسلام کا قیام انگریزوں کے ایما پر جمعیت علمائے ہند کے اثر و نفوذ کو توڑنے کےلیے عمل میں لایا گیا ہے۔ چند افراد اور اخباری خبروں کا حوالہ بھی اپنے موقف کی تائید میں دیا۔
2- اس کے بعد مولوی حفظ الرحمان نے پاکستان کی صورت میں جو نقصانات ان کے نزدیک تھے، وہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانان ہند کےلیے نظریہ پاکستان سراسر مضر ہے۔
آپ نے قیام جمعیت علماء اسلام کے بارے میں جو روایات بیان کی ہیں میں اس کی نہ تصدیق کرتا ہوں نہ تکذیب، اس سے مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور میری رائے کیا متاثر ہوسکتی ہے؟ میں نے جو رائے پاکستان کے متعلق قائم کی ہے وہ بلکل خلوص پر مبنی ہے۔
جمعیت علماء میں مولانا آزاد سبحانی صاحب (مولانا آزاد سبحانی کے متعلق مولوی حفظ الرحمان نے سرکاری آدمی اور انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا) رہیں یا نہ رہیں، جمعیت علماء اسلام خود قائم رہے یا نہ رہے، میری رائے جب بھی یہی ہے کہ پاکستان مسلمانوں کےلیے مفید ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کےلیے یہ مان بھی لوں کہ جمعیت علماء اسلام گورنمنٹ کے ایما پر قائم ہوئی ہے، تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی ابتداء کس نے کی اور کس طرح ہوئی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا قیام وائسرائے ہند کے ایما پر ہوا تھا (اور عرصے تک وہ انگلش سرکار کی وفاداری کا راگ الاپتی رہی، مؤلف)۔ بہت سی چیزوں کی ابتداء غلط ہوتی ہے، مگر انجام میں بسا اوقات وہ چیز سنبھل جایا کرتی ہے۔ ہم نے مولانا آزاد سبحانی یا جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے مسلم لیگ کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ دیانتاً یہ رائے قائم کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مرکز، ایک پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے اور علمائے ملت کو اس کی پشت پناہی اور اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ لہذا اب میں مزید گفتگو سے پہلے تین چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہوں:
1- جو فارمولا جمعیت علمائے ہند نے پاکستان کا نعم البدل ظاہر کرکے ملک کے سامنے پیش کیا اور جس کا حوالہ مولانا حفظ الرحمان نے اپنی تقریر میں بھی دیا ہے، اس فارمولے کوآپ حضرات نے کم از کم کانگریس سے منوالیا ہے یا نہیں؟ مولانا حفظ الرحمان نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کچھ عذر بیان کئے۔ علامہ نے فرمایا: عذر چاہے جو بھی ہوں، میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا فارمولا کانگریس نے مان لیا ہے یا نہیں؟ مولانا حفظ الرحمان نے فرمایا، ہمارا صول یہ نہیں ہے کہ ہم جنگ آزادی کی شرط کے طور پر کوئی بات ہندوؤں سے منوائیں۔
2- علامہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ کرنی ہے کہ جو کچھ گفتگو اس وقت آپ مجھ سے فرمانا چاہتے ہیں، وہ کس تقدیر پر ہے؟ آیا یہ فرض کرتے ہوئے کہ انگریز حکومت ہندوستان سے چلی گئی ہے یا جا رہی ہے، یا یہ مان کر کہ وہ ابھی موجود ہے اور سرِدست جا نہیں رہی؛ اور جو کچھ بھی لینا ہے اسی سے لینا ہوگا۔ مولانا نے تسلیم کیا کہ انگریز حکومت ابھی موجود ہے اور جو کچھ بھی لینا ہے اسی سے لینا ہوگا۔
3- پوچھا: آپ حضرات جو انقلاب اس وقت چاہتے ہیں، وہ فوجی انقلاب ہے یا آئینی؟ اس کا جواب دیا گیا کہ فوجی انقلاب کا تو اس وقت کوئی موقع ہی نہیں، نہ امکان۔ اس وقت تو آئینی انقلاب ہی زیر بحث ہے۔
علامہ عثمانی نے فرمایا کہ بس اب بحث کا رخ متعین ہو گیا۔ اب کلام اس پر رہے گا کہ سرِدست انگریزی حکومت کی موجودگی کے باوجود آئینی انقلاب میں کونسا راستہ مسلمانوں کےلیے مفید ہے؟ آیا وہ راستہ جو جمعیتہ العلمائے ہند نے تجویز کیا ہے یا پاکستان کا راستہ، جو مسلم لیگ اختیار کر رہی ہے۔ پھر دوبارہ مولانا حفظ الرحمان نے اپنی طویل تقریر میں فرمایا کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان ہے۔ بنگال، آسام اور فلاں فلاں صوبوں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے، ہر جگہ مسلم اکثریتی صوبوں میں غیر مسلم اقلیت اتنی زبردست ہے کہ مسلمان اس سے کسی طرح بھی عہدہ برأ نہ ہوسکیں گے؛ اور بہت تھوڑی اکثریت کچھ بھی نہ کرسکے گی بلکہ ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ اُدھر مسٹر جناح کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری طرز کی حکومت ہوگی۔ ایسی شکل میں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ تنظیم، دولت اور تعلیم میں پست ہونے کی وجہ سے 53 فیصد مسلم اکثریت 47 فیصد غیر مسلم اقلیت کے عملاً تابع و محکوم رہے گی؛ سکھ نہایت جنگجو قوم ہے، وہ کسی بھی طرح پاکستان کوقائم نہ رہنے دے گی۔ ادھر جاٹوں کی قوم ہے، وہ بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دے گی۔
علامہ نے کمال اطمینان سے یہ ساری بات سن کر پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ کرنے والے صوبہ وار چھ پاکستان بنانا چاہتے ہیں یا تمام مسلم اکثریت والے صوبوں کا ایک پاکستان مطلوب ہے؟
جواب آیا: نہیں پاکستان تو ایک ہی بنانا چاہتے ہیں۔ علامہ نے فرمایا، تب صوبہ جاتی اعداد کی گفتگو اس موقعے پر بیکار ہے۔ مزید فرمایا: اس وقت ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں مسلم اور غیر مسلم آبادی میں کیا تناسب ہے؟ مولانا حفظ الرحمان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد چھ کروڑ ہوگی اور غیر مسلم تین کروڑ ہوں گے۔ علامہ نے فرمایا: یہ تعداد غلط ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان تقریباً سوا سات کروڑ ہیں لیکن ہم سات تسلیم کرلیتے ہیں؛ اور غیر مسلم جو تین کروڑ سے کم ہیں، ان کو پورے تین کروڑ کرلیتے ہیں۔ اس حساب سے سات اور تین کی نسبت مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ہوگی؛ اور مجموعی آبادی میں آپ کے فرمانے کے مطابق (آپ کی بیان کردہ نسبت کو مانتے ہوئے) ساٹھ اور چالیس کی نسبت ہوگی، یعنی مسلمان ساٹھ فیصد اور غیر مسلم چالیس فیصد ہوں گے (حالانکہ درست صورت میں مسلم مجموعہ 70 اور غیر مسلم مجموعہ 30 فیصد بنتا ہے)۔ پھر فرمایا: اب آپ اپنے فارمولے پر نظر ڈالیے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کا مرکزی حکومت میں تناسب کیا رہتا ہے؟ آپ کے فارمولے کی رُو سے مرکز میں 40 فیصد مسلمان ہوں گے، 40 فیصد ہندو اور 20 فیصد دیگر غیر مسلم اقلیتیں؛ اس طرح آپ کے فارمولے سے مسلم اور غیر مسلموں میں 40 اور 60 کی نسبت ہوگی اور مسلم لیگ کے پاکستانی فارمولے میں اس کے بالعکس یعنی 60 فیصد مسلمان اور 40 فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ حالانکہ حقیقی تناسب پاکستانی فارمولے میں ستر فیصد برائے مسلم کا ہے۔ اب آپ ہی ذرا انصاف فرمائیے کہ آپ کے فارمولے سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ (یعنی اگر ہم ساٹھ فیصد رہتے ہوئے بھی بقول آپ کے پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے تو متحدہ ہندوستان میں 40 فیصد میں کیا کر پائیں گے؟)
اس موقعے پر کہا گیا کہ عیسائی ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ علامہ نے فرمایا: بڑی عجیب بات ہے کہ جب پاکستان کا فارمولا سامنے آتا ہے تو عیسائیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ غیر مسلم بلاک میں شمار کیا جاتا ہے اور جب جمعیتہ العلمائے ہند کا مقدس فارمولا پیش کیا جائے تو وہی عیسائی گویا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں، اور مسلمانوں کی طرف شمار کیے جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ غیر مسلم سب کے سب بہرصورت ایک ہی شمار ہوں گے (الکفر ملتہ واحدہ۔ القرآن)۔
وفد جمیعتہ العلمائے ہند کو آخرکار یہ تسلیم کرتے ہی بنی، اور انہوں نے یہ مان لیا کہ ان کا فارمولا کمزور ہے۔
علامہ نے پھر فرمایا: آپ کا یہ دعوی کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان اور ہندوؤں کا فائدہ ہے، اگر مان بھی لیا جائے تو کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ہندو، پاکستان کی مخالفت اس لیے کررہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان ہے؛ اور وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کا نقصان دیکھنے کو تیار نہیں۔ پھر آخر پاکستان کی اتنی پُر زور مخالفت کیوں؟
مولانا حفظ الرحمان نے کہا: اس میں ان کی کوئی مصلحت ہوگی، مگر کوئی معقول اور ٹھوس جواب نہ دے سکے اور بار بار اس پہلو سے گریز کیا جاتا رہا۔ علامہ نے فرمایا: ان کی جو بھی مصلحت ہو، آخر آپ حضرات نے بھی تو کچھ غور فرمایا ہوگا! میرے نزدیک تو پاکستان کی مخالفت کی وجہ بجز اس کے کچھ اور نہیں کہ ہندو یہ چاہتا ہے کہ موجودہ انگریزی حکومت کے زیر سایہ دس کروڑ مسلمانوں میں سے کسی ایک کی گردن پر سے کبھی بھی ہندو اکثریت کا جوا اترنے نہ پائے اور مسلمان، انگریزوں اور ہندوؤں کی دوہری غلامی میں ہمیشہ مبتلا رہیں۔
علامہ نے یہ بات بار بار دریافت کی مگر دوسری جانب سے شافی جواب نہ آسکا۔
پھر وفد کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اگر پاکستان بنتا ہے تو تین کروڑ کی مسلم آبادی ہندوستان میں رہ جائے گی؛ اس کی حفاظت کیسے ہوگی؟ کیا انتظام ہوسکے گا؟
علامہ نے اطمینان سے فرمایا: اس کےلیے معاہدہ جات کیے جاسکتے ہیں؛ اور اگر یہاں مسلم آبادی ہوگی، تو وہاں (یعنی پاکستان) میں بھی تو غیر مسلم اور ہندو اآبادی ہوگی ہی، اور ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے تلے دبا رہے گا، اور مزید یہ کہ (پاکستان نہ بننے کی صورت میں) اکھنڈ (متحدہ) ہندوستان میں دس کروڑ مسلم، چالیس کروڑ غیروں سے پھر کیسے محفوظ رہیں گے؟
پھر کچھ مزید گفتگو ہوئی اور چند معمولی سطح کے اعتراضات وغیرہ اٹھائے گئے جن کا حضرت علامہ نے حسب روایت شافی جواب دیا۔ انہیں طوالت کے خوف سے یہاں نہیں لکھا جارہا۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے اپنی جیب سے ایک تین کالمی (اخباری) مضمون نکال کر تقریباً 10 منٹ تک سنایا، جو ایک انگریز کی تجویز اور رائے پر مبنی تھا، جس میں ہندوستان کی سیاست پر بحث کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو اس کا یہ حل بتا گیا تھا کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، اور بمبئی کے بجائے کراچی کو تجارت کا مرکز بنایا جائے۔ گویا اس مضمون کو سنانے کی غرض یہ تھی کہ مسلم لیگ نے جو نظریہ پاکستان پیش کیا ہے وہ اس انگریز کی تجویز پر مبنی ہے اور مسلم لیگ انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے۔
پھر مولانا احمد سعید نے سوال کیا کہ انگریز کی پالیسی ٹکڑے کرنے کی ہے یا جمع کرنے کی؟ مطلب یہ تھا کہ ہم جو متحدہ اور وفاقی حکومت چاہتے ہیں وہ انگریز کےلیے نقصان دہ اور آپ جو تقسیم ہند چاہتے ہیں یہ صورت حکومت کےلیے مفید و معین ہے۔
علامہ نے دونوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میرے نزدیک آپ کے سوال کا متعین جواب نہیں ہوسکتا، یعنی آپ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انگریز کا فائدہ ہمیشہ ٹکڑے کرنے میں ہے یا نہیں۔ میرا جواب یہ ہے کہ انگریز کا فائدہ کبھی ٹکڑے کرنے میں ہوتا ہے کبھی جمع کرنے میں ہوتا ہے۔
ایک حالیہ نظیر ملاحظہ فرمائیے کہ برطانیہ نے ترکی اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے؛ عراق، شام، لبنان، نجد، یمن سب کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کردیا۔ یہ ایک وقت میں اس کی پالیسی تھی، مگر اب روس کے خطرے کی وجہ سے عرب لیگ بنائی جارہی ہے اور عربوں کو مجتمع کیا جارہا ہے کہ اب فائدہ جمع کرنے میں ہے۔ وفد نے یہ تسلیم کیا۔
پھر آپ نے مزید فرمایا کہ اس انگریز قوم کا فائدہ کبھی تقسیم میں ہوتا ہے کبھی جوڑنے میں۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہمارا فائدہ کس میں ہے؟ خواہ اس میں حکومت کا فائدہ ہو یا نقصان (ہمیں تو اپنی بھلائی اور مفاد پر نظر رکھنی ہے)۔ پھر فرمایا: مولانا حسین احمد نے ایک مضمون سنایا۔ یہ ایک انگریز کی شخصی رائے ہے، جو آج سے چودہ برس پہلے پیش کی گئی تھی۔ لیکن آج، ہندوستان میں حکومت برطانیہ کا سب سے بڑا نمائندہ وائسرائے ہند لارڈ ویول ہے جو اس وقت حکمران ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں برملا کہتا ہے کہ اس ملک کا مرکز اور اس کی حکومت ایک ہی رہنی چاہیے اور یہ کہ اس ملک یعنی ہندوستان پر کوئی بڑا عملِ جراحی نہیں ہوسکتا۔ اس سے پہلے 1942 میں سابق وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے بھی اسی قسم کی تقریر کی تھی۔ اب آپ حضرات ہی ذرا غور فرمائیے کہ آج وائسرائے ہند کے نظریات کی حمایت کانگریس اور جمعیتہ العلمائے ہند کر رہی ہے یا مسلم لیگ؟
مولانا احمد سعید بولے: اجی حضرت یہ تو انگریزوں کی چالیں ہیں۔ حضرت علامہ نے مسکرا کر فرمایا کہ اس انگریز کی تجویز میں بھی (جس کا مضمون پڑھا گیا تھا) تو یہی احتمال ہوسکتا ہے (یعنی چال) لیکن دلیل اور حجت کےلیے تو سب سے بڑے سرکاری عہدے دار کا ہی قول ہم پیش کریں گے ناں!
حضرت مولانا حسین احمد نے فرمایا: اچھا، اگر پاکستان قائم ہوگیا، تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہوگا؟ اگر روس نے حملہ کیا تو سرحد کے مسلمان تو بے چارے پس جائیں گے، سارا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ (دیکھیے اللہ والوں کی بصیرت، وہ بات 1980 کی دہائی میں روس کے افغانستان پر حملے کی صورت میں سامنے آئی۔)
حضرت علامہ نے جواباً فرمایا: یہ تو آپ مان ہی چکے ہیں کہ سردست انگریز یہاں موجود ہے۔ سو اگر پاکستان بنے گا تو وہی بنائے گا۔ سرحدوں کی حفاظت کی بھی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالے گا۔ اس کے چلے جانے کی صورت میں، اگر کوئی بیرونی طاقت ہندوستان پر چڑھائی کرتی ہے تو دونوں مل کر اس کی حفاظت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہوگا۔ ایسا نہیں کریں گے تو سب کا نقصان ہوگا۔ باہمی معاہدے کرکے اس قسم کا مشترکہ دفاع قائم کیا جاسکتا ہے۔
مولانا احمد سعید بولے: اجی حضرت، معاہدوں کو آج کل کون پوچھتا ہے۔
علامہ عثمانی نے فرمایا: جب بلامعاہدہ ہی آپ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں تو معاہدے کی صورت تو بہرحال، اس سے قوی تر ہونی چاہیے نیز آپ دیکھتے ہیں کہ یہ معاہدات کی ہی طاقت تھی کہ روس اور برطانیہ نے مل کر کس طرح جرمنی اور جاپان کو پیس ڈالا ہے؛ کیونکہ ان کی غرض مشترکہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کا بھی جب مفاد مشترکہ ہوگا تو دونوں بذریعہ معاہدات عملی اتحاد کیوں نہیں کرسکتے؟
کچھ مزید تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد وفد رخصت ہوگیا۔ سارا مکالمہ انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا، کہیں ادنی سی بھی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔
بندے نے اس مکالمے کو حتی لاامکان مختصر کرنے کی، اور تمام اہم نکات کو سمیٹنے کی عاجزانہ کوشش کی ہے۔ جو مکالمہ اوپر درج ہوا ہے، وہ منضبط کرنے کے بعد حضرت علامہ کو دکھایا گیا تھا اور حضرت نے کچھ معمولی ترمیم و اصلاح فرمائی تھی۔ لہذا یہ مکالمہ اب حضرت علامہ کا تصدیق شدہ ہے۔ اس مکالمے سے یہ بھی واضح ہوگا کہ اختلافات میں حزم و احتیاط اور عدل و توازن سے کیسی لطافت پیدا ہوجاتی ہے اور تہذیب یافتہ اہل بصیرت و اہل علم کے مباحثوں کا انداز کیسا لطیف اور مہذب ہوتا ہے۔
دلائل و براہین کس کے قوی تر تھے؟ یہ فیصلہ کرنا قارئین کےلیے زیادہ مشکل نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اجتہادی اختلاف شرعی اصطلاح میں ایسے اختلاف کو کہا جاتا ہے جہاں اختلاف کرنے والے فریقین کے متضاد موقف حق کے قریب ہوں اور دونوں طرح سے مسلمانوں کی بھلائی سوچی جارہی ہو۔ تحریک پاکستان کے زمانے میں بھی ایک ایسا ہی مرحلہ آیا جب علماء کے ایک گروہ نے تقسیم ہند کی مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ متحدہ ہندوستان ہی مسلمانوں کےلیے بہتر ہے۔ اس کے بالعکس، علماء کے دوسرے گروہ نے قیام پاکستان کی دل و جان سے حمایت کی۔
پہلے گروہ کو جمعیت علمائے ہند کہا گیا جس کے سربراہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی تھے، دوسرے گروہ کو جمعیت علمائے اسلام کا نام ملا جس کے سربراہ حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی تھے؛ اور اس موقف یعنی مسلم لیگ کی حمایت کے بانی و سرپرست اعلی حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی تھے۔
اس دور میں تحریری اور تقریری طور پر دونوں جانب سے بڑے زبردست دلائل و براہین سے بھرپور مباحثے و مناظرے ہوئے جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان ہی میں سے ایک سب سے زیادہ معرکتہ الآراء مکالمہ، مناظرہ یا مباحثہ دونوں سربراہان علماء کے درمیان پیش آیا جسے مکالمہ بین الصدرین کے نام سے ایک کتابچے میں طبع کیا گیا تھا، اور رسالہ الجمعیتہ دیوبند میں بھی غالباً شائع ہوا تھا، لیکن اب نایاب ہے۔ اس گفتگو میں تقریباً تمام سوالات پر بات کی گئی اور حضرت علامہ کی جانب سے قیام پاکستان پر ہونے والے تمام اعتراضات کے کافی و شافی جوابات دیئے گئے۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس مباحثے کا نئی نسل کے سامنے اور ریکارڈ پر آنا بہت ضروری ہے کیونکہ مخالفین و ناقدین پاکستان یہی اعتراضات کسی نہ کسی طرح دوہراتے ہی رہتے ہیں۔ اس مباحثے کی تلخیص پیش خدمت ہے۔ قوسین میں لکھے گئے جملے اس عاجز مؤلف کے ہیں۔
آغاز
مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، ناظم اعلی جمعیت علمائے ہند کا حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے پاس حاضر ہوکر اس معاملے پر (یعنی نظریہ پاکستان کی حمایت یا مخالفت) بات کرنے کا کہنا؛ اور بعد ازاں ایک خط کے ذریعے وقت طے کرنا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کا خوش دلی سے آمادہ ہوجانا اور جمعے کا دن طے ہوجانا۔
اس پروگرام کے مطابق 7 دسمبر 1945 بروز جمعہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی (صدر جمعیت علمائے ہند)، مفتی کفایت اللہ دہلوی ( مفتی اعظم دیوبند)، مولانا سعید احمد (سابق ناظم اعلی جمعیت ہند)، مولانا حفظ الرحمان (موجودہ ناظم اعلی جمعیت ہند) اور دیگر چند علماء وفد کی شکل میں حضرت علامہ سے ملنے اور معاملے پر بات کرنے ان کے دولت کدے پر تشریف لائے۔ رسمیات کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا اور مولانا حفظ الرحمان صاحب نے ایک طویل تقریر فرمائی (جس میں قیام پاکستان کے نقصانات، متبادل فارمولا، اور چند دیگر نکات شامل تھے)، جسے علامہ نے بہت انہماک سے سنا۔
جب وہ بول چکے تو علامہ نے فرمایا کہ آپ کی لمبی چوڑی گفتگو کے پورے الفاظ اور اجزاء تو مجھے یاد نہیں رہے، مگر جو تلخیص میرے ذہن میں آئی ہے، اس کے جوابات بلالحاظ ترتیب عرض کروں گا۔ اگر کوئی بات رہ جائے تو آپ یاد دلا کر اس کا جواب مجھ سے لے سکتے ہیں۔
اس گفت و شنید کا سلسلہ تقریباً تین سوا تین گھنٹے جاری رہا۔ وفد کی جانب سے سب سے زیادہ گفتگو مولانا حفظ الرحمان نے کی، دوسرے درجے میں مولانا احمد سعید نے حصہ لیا۔ اکا دکا بات کسی اور صاحب نے بھی کی۔ مجلس کے اختتامی لمحات میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کچھ بولے جو 10 منٹ سے زیادہ نہ تھا۔
مولانا حفظ الرحمان کی گفتگو کا خلاصہ
مولانا زبردست مقرر تھے۔ انہوں نے ایک طویل تقریر کی اور اپنی بات کی تفصیل سے وضاحت کی، جس کا خلاصہ یہ دو باتیں ہیں:
1- جمعیت علماء اسلام کا قیام انگریزوں کے ایما پر جمعیت علمائے ہند کے اثر و نفوذ کو توڑنے کےلیے عمل میں لایا گیا ہے۔ چند افراد اور اخباری خبروں کا حوالہ بھی اپنے موقف کی تائید میں دیا۔
2- اس کے بعد مولوی حفظ الرحمان نے پاکستان کی صورت میں جو نقصانات ان کے نزدیک تھے، وہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانان ہند کےلیے نظریہ پاکستان سراسر مضر ہے۔
حضرت علامہ کا جواب
آپ نے قیام جمعیت علماء اسلام کے بارے میں جو روایات بیان کی ہیں میں اس کی نہ تصدیق کرتا ہوں نہ تکذیب، اس سے مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور میری رائے کیا متاثر ہوسکتی ہے؟ میں نے جو رائے پاکستان کے متعلق قائم کی ہے وہ بلکل خلوص پر مبنی ہے۔
جمعیت علماء میں مولانا آزاد سبحانی صاحب (مولانا آزاد سبحانی کے متعلق مولوی حفظ الرحمان نے سرکاری آدمی اور انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا) رہیں یا نہ رہیں، جمعیت علماء اسلام خود قائم رہے یا نہ رہے، میری رائے جب بھی یہی ہے کہ پاکستان مسلمانوں کےلیے مفید ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کےلیے یہ مان بھی لوں کہ جمعیت علماء اسلام گورنمنٹ کے ایما پر قائم ہوئی ہے، تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی ابتداء کس نے کی اور کس طرح ہوئی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا قیام وائسرائے ہند کے ایما پر ہوا تھا (اور عرصے تک وہ انگلش سرکار کی وفاداری کا راگ الاپتی رہی، مؤلف)۔ بہت سی چیزوں کی ابتداء غلط ہوتی ہے، مگر انجام میں بسا اوقات وہ چیز سنبھل جایا کرتی ہے۔ ہم نے مولانا آزاد سبحانی یا جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے مسلم لیگ کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ دیانتاً یہ رائے قائم کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مرکز، ایک پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے اور علمائے ملت کو اس کی پشت پناہی اور اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ لہذا اب میں مزید گفتگو سے پہلے تین چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہوں:
1- جو فارمولا جمعیت علمائے ہند نے پاکستان کا نعم البدل ظاہر کرکے ملک کے سامنے پیش کیا اور جس کا حوالہ مولانا حفظ الرحمان نے اپنی تقریر میں بھی دیا ہے، اس فارمولے کوآپ حضرات نے کم از کم کانگریس سے منوالیا ہے یا نہیں؟ مولانا حفظ الرحمان نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کچھ عذر بیان کئے۔ علامہ نے فرمایا: عذر چاہے جو بھی ہوں، میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا فارمولا کانگریس نے مان لیا ہے یا نہیں؟ مولانا حفظ الرحمان نے فرمایا، ہمارا صول یہ نہیں ہے کہ ہم جنگ آزادی کی شرط کے طور پر کوئی بات ہندوؤں سے منوائیں۔
2- علامہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ کرنی ہے کہ جو کچھ گفتگو اس وقت آپ مجھ سے فرمانا چاہتے ہیں، وہ کس تقدیر پر ہے؟ آیا یہ فرض کرتے ہوئے کہ انگریز حکومت ہندوستان سے چلی گئی ہے یا جا رہی ہے، یا یہ مان کر کہ وہ ابھی موجود ہے اور سرِدست جا نہیں رہی؛ اور جو کچھ بھی لینا ہے اسی سے لینا ہوگا۔ مولانا نے تسلیم کیا کہ انگریز حکومت ابھی موجود ہے اور جو کچھ بھی لینا ہے اسی سے لینا ہوگا۔
3- پوچھا: آپ حضرات جو انقلاب اس وقت چاہتے ہیں، وہ فوجی انقلاب ہے یا آئینی؟ اس کا جواب دیا گیا کہ فوجی انقلاب کا تو اس وقت کوئی موقع ہی نہیں، نہ امکان۔ اس وقت تو آئینی انقلاب ہی زیر بحث ہے۔
علامہ عثمانی نے فرمایا کہ بس اب بحث کا رخ متعین ہو گیا۔ اب کلام اس پر رہے گا کہ سرِدست انگریزی حکومت کی موجودگی کے باوجود آئینی انقلاب میں کونسا راستہ مسلمانوں کےلیے مفید ہے؟ آیا وہ راستہ جو جمعیتہ العلمائے ہند نے تجویز کیا ہے یا پاکستان کا راستہ، جو مسلم لیگ اختیار کر رہی ہے۔ پھر دوبارہ مولانا حفظ الرحمان نے اپنی طویل تقریر میں فرمایا کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان ہے۔ بنگال، آسام اور فلاں فلاں صوبوں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے، ہر جگہ مسلم اکثریتی صوبوں میں غیر مسلم اقلیت اتنی زبردست ہے کہ مسلمان اس سے کسی طرح بھی عہدہ برأ نہ ہوسکیں گے؛ اور بہت تھوڑی اکثریت کچھ بھی نہ کرسکے گی بلکہ ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ اُدھر مسٹر جناح کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری طرز کی حکومت ہوگی۔ ایسی شکل میں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ تنظیم، دولت اور تعلیم میں پست ہونے کی وجہ سے 53 فیصد مسلم اکثریت 47 فیصد غیر مسلم اقلیت کے عملاً تابع و محکوم رہے گی؛ سکھ نہایت جنگجو قوم ہے، وہ کسی بھی طرح پاکستان کوقائم نہ رہنے دے گی۔ ادھر جاٹوں کی قوم ہے، وہ بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دے گی۔
علامہ نے کمال اطمینان سے یہ ساری بات سن کر پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ کرنے والے صوبہ وار چھ پاکستان بنانا چاہتے ہیں یا تمام مسلم اکثریت والے صوبوں کا ایک پاکستان مطلوب ہے؟
جواب آیا: نہیں پاکستان تو ایک ہی بنانا چاہتے ہیں۔ علامہ نے فرمایا، تب صوبہ جاتی اعداد کی گفتگو اس موقعے پر بیکار ہے۔ مزید فرمایا: اس وقت ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں مسلم اور غیر مسلم آبادی میں کیا تناسب ہے؟ مولانا حفظ الرحمان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد چھ کروڑ ہوگی اور غیر مسلم تین کروڑ ہوں گے۔ علامہ نے فرمایا: یہ تعداد غلط ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان تقریباً سوا سات کروڑ ہیں لیکن ہم سات تسلیم کرلیتے ہیں؛ اور غیر مسلم جو تین کروڑ سے کم ہیں، ان کو پورے تین کروڑ کرلیتے ہیں۔ اس حساب سے سات اور تین کی نسبت مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ہوگی؛ اور مجموعی آبادی میں آپ کے فرمانے کے مطابق (آپ کی بیان کردہ نسبت کو مانتے ہوئے) ساٹھ اور چالیس کی نسبت ہوگی، یعنی مسلمان ساٹھ فیصد اور غیر مسلم چالیس فیصد ہوں گے (حالانکہ درست صورت میں مسلم مجموعہ 70 اور غیر مسلم مجموعہ 30 فیصد بنتا ہے)۔ پھر فرمایا: اب آپ اپنے فارمولے پر نظر ڈالیے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کا مرکزی حکومت میں تناسب کیا رہتا ہے؟ آپ کے فارمولے کی رُو سے مرکز میں 40 فیصد مسلمان ہوں گے، 40 فیصد ہندو اور 20 فیصد دیگر غیر مسلم اقلیتیں؛ اس طرح آپ کے فارمولے سے مسلم اور غیر مسلموں میں 40 اور 60 کی نسبت ہوگی اور مسلم لیگ کے پاکستانی فارمولے میں اس کے بالعکس یعنی 60 فیصد مسلمان اور 40 فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ حالانکہ حقیقی تناسب پاکستانی فارمولے میں ستر فیصد برائے مسلم کا ہے۔ اب آپ ہی ذرا انصاف فرمائیے کہ آپ کے فارمولے سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ (یعنی اگر ہم ساٹھ فیصد رہتے ہوئے بھی بقول آپ کے پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے تو متحدہ ہندوستان میں 40 فیصد میں کیا کر پائیں گے؟)
اس موقعے پر کہا گیا کہ عیسائی ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ علامہ نے فرمایا: بڑی عجیب بات ہے کہ جب پاکستان کا فارمولا سامنے آتا ہے تو عیسائیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ غیر مسلم بلاک میں شمار کیا جاتا ہے اور جب جمعیتہ العلمائے ہند کا مقدس فارمولا پیش کیا جائے تو وہی عیسائی گویا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں، اور مسلمانوں کی طرف شمار کیے جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ غیر مسلم سب کے سب بہرصورت ایک ہی شمار ہوں گے (الکفر ملتہ واحدہ۔ القرآن)۔
وفد جمیعتہ العلمائے ہند کو آخرکار یہ تسلیم کرتے ہی بنی، اور انہوں نے یہ مان لیا کہ ان کا فارمولا کمزور ہے۔
علامہ نے پھر فرمایا: آپ کا یہ دعوی کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان اور ہندوؤں کا فائدہ ہے، اگر مان بھی لیا جائے تو کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ہندو، پاکستان کی مخالفت اس لیے کررہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان ہے؛ اور وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کا نقصان دیکھنے کو تیار نہیں۔ پھر آخر پاکستان کی اتنی پُر زور مخالفت کیوں؟
مولانا حفظ الرحمان نے کہا: اس میں ان کی کوئی مصلحت ہوگی، مگر کوئی معقول اور ٹھوس جواب نہ دے سکے اور بار بار اس پہلو سے گریز کیا جاتا رہا۔ علامہ نے فرمایا: ان کی جو بھی مصلحت ہو، آخر آپ حضرات نے بھی تو کچھ غور فرمایا ہوگا! میرے نزدیک تو پاکستان کی مخالفت کی وجہ بجز اس کے کچھ اور نہیں کہ ہندو یہ چاہتا ہے کہ موجودہ انگریزی حکومت کے زیر سایہ دس کروڑ مسلمانوں میں سے کسی ایک کی گردن پر سے کبھی بھی ہندو اکثریت کا جوا اترنے نہ پائے اور مسلمان، انگریزوں اور ہندوؤں کی دوہری غلامی میں ہمیشہ مبتلا رہیں۔
علامہ نے یہ بات بار بار دریافت کی مگر دوسری جانب سے شافی جواب نہ آسکا۔
پھر وفد کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اگر پاکستان بنتا ہے تو تین کروڑ کی مسلم آبادی ہندوستان میں رہ جائے گی؛ اس کی حفاظت کیسے ہوگی؟ کیا انتظام ہوسکے گا؟
علامہ نے اطمینان سے فرمایا: اس کےلیے معاہدہ جات کیے جاسکتے ہیں؛ اور اگر یہاں مسلم آبادی ہوگی، تو وہاں (یعنی پاکستان) میں بھی تو غیر مسلم اور ہندو اآبادی ہوگی ہی، اور ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے تلے دبا رہے گا، اور مزید یہ کہ (پاکستان نہ بننے کی صورت میں) اکھنڈ (متحدہ) ہندوستان میں دس کروڑ مسلم، چالیس کروڑ غیروں سے پھر کیسے محفوظ رہیں گے؟
پھر کچھ مزید گفتگو ہوئی اور چند معمولی سطح کے اعتراضات وغیرہ اٹھائے گئے جن کا حضرت علامہ نے حسب روایت شافی جواب دیا۔ انہیں طوالت کے خوف سے یہاں نہیں لکھا جارہا۔
گفتگو کے آخرمیں
حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے اپنی جیب سے ایک تین کالمی (اخباری) مضمون نکال کر تقریباً 10 منٹ تک سنایا، جو ایک انگریز کی تجویز اور رائے پر مبنی تھا، جس میں ہندوستان کی سیاست پر بحث کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو اس کا یہ حل بتا گیا تھا کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، اور بمبئی کے بجائے کراچی کو تجارت کا مرکز بنایا جائے۔ گویا اس مضمون کو سنانے کی غرض یہ تھی کہ مسلم لیگ نے جو نظریہ پاکستان پیش کیا ہے وہ اس انگریز کی تجویز پر مبنی ہے اور مسلم لیگ انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے۔
پھر مولانا احمد سعید نے سوال کیا کہ انگریز کی پالیسی ٹکڑے کرنے کی ہے یا جمع کرنے کی؟ مطلب یہ تھا کہ ہم جو متحدہ اور وفاقی حکومت چاہتے ہیں وہ انگریز کےلیے نقصان دہ اور آپ جو تقسیم ہند چاہتے ہیں یہ صورت حکومت کےلیے مفید و معین ہے۔
علامہ نے دونوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میرے نزدیک آپ کے سوال کا متعین جواب نہیں ہوسکتا، یعنی آپ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انگریز کا فائدہ ہمیشہ ٹکڑے کرنے میں ہے یا نہیں۔ میرا جواب یہ ہے کہ انگریز کا فائدہ کبھی ٹکڑے کرنے میں ہوتا ہے کبھی جمع کرنے میں ہوتا ہے۔
ایک حالیہ نظیر ملاحظہ فرمائیے کہ برطانیہ نے ترکی اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے؛ عراق، شام، لبنان، نجد، یمن سب کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کردیا۔ یہ ایک وقت میں اس کی پالیسی تھی، مگر اب روس کے خطرے کی وجہ سے عرب لیگ بنائی جارہی ہے اور عربوں کو مجتمع کیا جارہا ہے کہ اب فائدہ جمع کرنے میں ہے۔ وفد نے یہ تسلیم کیا۔
پھر آپ نے مزید فرمایا کہ اس انگریز قوم کا فائدہ کبھی تقسیم میں ہوتا ہے کبھی جوڑنے میں۔ ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہمارا فائدہ کس میں ہے؟ خواہ اس میں حکومت کا فائدہ ہو یا نقصان (ہمیں تو اپنی بھلائی اور مفاد پر نظر رکھنی ہے)۔ پھر فرمایا: مولانا حسین احمد نے ایک مضمون سنایا۔ یہ ایک انگریز کی شخصی رائے ہے، جو آج سے چودہ برس پہلے پیش کی گئی تھی۔ لیکن آج، ہندوستان میں حکومت برطانیہ کا سب سے بڑا نمائندہ وائسرائے ہند لارڈ ویول ہے جو اس وقت حکمران ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں برملا کہتا ہے کہ اس ملک کا مرکز اور اس کی حکومت ایک ہی رہنی چاہیے اور یہ کہ اس ملک یعنی ہندوستان پر کوئی بڑا عملِ جراحی نہیں ہوسکتا۔ اس سے پہلے 1942 میں سابق وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے بھی اسی قسم کی تقریر کی تھی۔ اب آپ حضرات ہی ذرا غور فرمائیے کہ آج وائسرائے ہند کے نظریات کی حمایت کانگریس اور جمعیتہ العلمائے ہند کر رہی ہے یا مسلم لیگ؟
مولانا احمد سعید بولے: اجی حضرت یہ تو انگریزوں کی چالیں ہیں۔ حضرت علامہ نے مسکرا کر فرمایا کہ اس انگریز کی تجویز میں بھی (جس کا مضمون پڑھا گیا تھا) تو یہی احتمال ہوسکتا ہے (یعنی چال) لیکن دلیل اور حجت کےلیے تو سب سے بڑے سرکاری عہدے دار کا ہی قول ہم پیش کریں گے ناں!
حضرت مولانا حسین احمد نے فرمایا: اچھا، اگر پاکستان قائم ہوگیا، تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہوگا؟ اگر روس نے حملہ کیا تو سرحد کے مسلمان تو بے چارے پس جائیں گے، سارا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ (دیکھیے اللہ والوں کی بصیرت، وہ بات 1980 کی دہائی میں روس کے افغانستان پر حملے کی صورت میں سامنے آئی۔)
حضرت علامہ نے جواباً فرمایا: یہ تو آپ مان ہی چکے ہیں کہ سردست انگریز یہاں موجود ہے۔ سو اگر پاکستان بنے گا تو وہی بنائے گا۔ سرحدوں کی حفاظت کی بھی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالے گا۔ اس کے چلے جانے کی صورت میں، اگر کوئی بیرونی طاقت ہندوستان پر چڑھائی کرتی ہے تو دونوں مل کر اس کی حفاظت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہوگا۔ ایسا نہیں کریں گے تو سب کا نقصان ہوگا۔ باہمی معاہدے کرکے اس قسم کا مشترکہ دفاع قائم کیا جاسکتا ہے۔
مولانا احمد سعید بولے: اجی حضرت، معاہدوں کو آج کل کون پوچھتا ہے۔
علامہ عثمانی نے فرمایا: جب بلامعاہدہ ہی آپ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں تو معاہدے کی صورت تو بہرحال، اس سے قوی تر ہونی چاہیے نیز آپ دیکھتے ہیں کہ یہ معاہدات کی ہی طاقت تھی کہ روس اور برطانیہ نے مل کر کس طرح جرمنی اور جاپان کو پیس ڈالا ہے؛ کیونکہ ان کی غرض مشترکہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کا بھی جب مفاد مشترکہ ہوگا تو دونوں بذریعہ معاہدات عملی اتحاد کیوں نہیں کرسکتے؟
کچھ مزید تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد وفد رخصت ہوگیا۔ سارا مکالمہ انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا، کہیں ادنی سی بھی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔
ضروری گزارش
بندے نے اس مکالمے کو حتی لاامکان مختصر کرنے کی، اور تمام اہم نکات کو سمیٹنے کی عاجزانہ کوشش کی ہے۔ جو مکالمہ اوپر درج ہوا ہے، وہ منضبط کرنے کے بعد حضرت علامہ کو دکھایا گیا تھا اور حضرت نے کچھ معمولی ترمیم و اصلاح فرمائی تھی۔ لہذا یہ مکالمہ اب حضرت علامہ کا تصدیق شدہ ہے۔ اس مکالمے سے یہ بھی واضح ہوگا کہ اختلافات میں حزم و احتیاط اور عدل و توازن سے کیسی لطافت پیدا ہوجاتی ہے اور تہذیب یافتہ اہل بصیرت و اہل علم کے مباحثوں کا انداز کیسا لطیف اور مہذب ہوتا ہے۔
دلائل و براہین کس کے قوی تر تھے؟ یہ فیصلہ کرنا قارئین کےلیے زیادہ مشکل نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔