اراضی پر ناجائز قبضہ
زمین کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف عنوان سے بارہا زمین کا ذکر کیا ہے۔
غور کیجیے تو کائنات میں انسان کا تمام اشیاء سے بڑھ کر زمین سے تعلق ہے، وہ خود زمین سے پیدا کیا گیا ہے۔ ( الانعام)
یہی زمین میں اس کے لیے بستر استراحت ہے، اسی زمین میں موت تک اس کا قیام ہے، خدا نے اس متواضع اور بچھی ہوئی زمین کو بلند و بالا اور سر پر سایہ فگن آسمان سے بھی پہلے پیدا فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں زمین کی قسم کھائی گئی ہے۔
زمین کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف عنوان سے بارہا زمین کا ذکر کیا ہے، شاید ہی مخلوقاتِ عالم میں کسی کا اس تکرار اور کثرت کے ساتھ ذکر ہو، پھر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام ضرورتوں کو زمین ہی سے متعلق رکھا ہے، اسی زمین سے درخت اگتے ہیں، پودے پنپتے ہیں، پھل پھول اور نوع بہ نوع غذائیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں کو لبھانے اور آنکھوں کو بھانے والے خوب صورت گل بُوٹے اور مشام جان کو عطر بیز کرنے والے خوش بُودار بہار بردوش پھول اور پتے وجود میں آتے ہیں۔
اسی زمین نے اپنے اندر میں پانی چھپا رکھا ہے، جو ہماری تشنہ کامی کا مداوا ہے، سونا، چاندی، لوہا، تانبا، رنگ بہ رنگ پتھر، پیٹرول اور توانائی سے بھرپور گیس اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جس کو زمین نے نہایت صبر و ضبط کے ساتھ اپنے اندر چھپا رکھا ہے، دولت مند ہے لیکن نشۂ دولت سے خالی، وسیع و عریض ہے لیکن کبر و ترفع سے عاری، ہر وقت انسان کے قدموں میں بچھی ہوئی اور ہمہ دم اس کی خدمت کے لیے تیار و مستعد، پھر آخر انسان کو واپس بھی اسی مٹی میں جانا ہے اور قیامت تک اسی کی آغوش میں وقت کاٹنا ہے، پھر اسی کی آغوش سے باہر نکل کر عالم آخرت تک پہنچنا ہے، پیدائش سے موت اور موت سے پھر دوسری زندگی تک یہی مٹی غم جاناں اور غم دوراں میں ساتھ دیتی ہے۔
زمین اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ایک شاہ کار ہے، اسی لیے زمین کی محبت اور حرص بھی انسان کے اندر نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ کبھی سماج میں زمین کی یہ محبت حرص و ہوس کی طرف لے جاتی ہے اور زمین پر ناجائز قبضہ اور ناجائز خرید و فروخت تک منتج ہو تی ہے، چناں چہ آج کل اخبارات میں آئے دن قتل و خون کی جو خبریں آتی ہیں، وہ زیادہ تر زمین ہی کے مسئلے سے جُڑی ہوتی ہیں، پاکستان میں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں میں مقبوضہ زمین کی ناجائز خرید و فروخت کا بازار گرم ہے، بعض بھولے بھالے خریدار تو اپنی زمین کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں، بعض لوگ زمین خرید کر پلاٹ چھوڑ دیتے ہیں اور جب سال، دو سال کے بعد آتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ ان کی زمین پر مکان بنا ہوا ہے، مگر یہ مکان کسی مخلص و ہم درد کی طرف سے ان کے لیے ''تحفۂ غیر مترقبہ'' نہیں ہوتا، بل کہ اس شخص کا ہو تا ہے جس کے ہاتھوں دوبارہ زمین فروخت کی جاتی ہے، پہلے اور دوسرے خریدار کے درمیان نزاع چھڑ جاتی ہے اور اصل فروخت کرنے ولا منظر سے غائب ہوجاتا ہے، بعض جگہ تو تعمیر شدہ مکان پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا ہے، زمین بھی گئی، پیسے بھی اور محنت بھی!
یہ صورتِ حال ہر شریف انسان کے لیے تکلیف دہ ہے اور یہ رجحان بغیر محنت کے بیٹھ کر کھانے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے، آخر یہ سینہ زوری کبھی قتل و قتال کا باعث بن جاتی ہے اور بہ جائے اس کے کہ زمین پر قبضہ ہو، زمین خود اس کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کے اس کاروبار میں مذہب و ملت اور عقیدہ و مسلک کا بھی کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ غنڈوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ اس پیشے میں گھسے ہوئے خدا ناترس افراد پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
غصب اور ظلماً کسی کی چیز پر قبضہ کر لینے کی قرآن و حدیث میں جو مذمت آئی ہے، وہ محتاجِ اِظہار نہیں، جو شخص حرام کھاتا ہے، بارگاہِ ربانی میں اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی، نہ اس کی دعا مقبول ہوتی ہے، لیکن زمین کے غصب کر نے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مذمت فرمائی ہے، حضرت سعید بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے زمین کا کوئی حصہ ظلماً لے لیا، ساتوں زمینیں اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالی جائیں گے۔'' (بخاری)
حضرت ابوسلمہؓ کی روایت میں ہے کہ اگر ایک بالشت زمین بھی ظلماً حاصل کی تو زمین کی سات تہیں اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی۔
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ کرلی اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مکلف کریں گے کہ وہ اس زمین کو حاضر کرے، یہاں تک کہ اس کی سات تہیں قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی، تاآں کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے کچھ بھی زمین ناحق لے لی، وہ قیامت کے دن سات تہوں تک اس میں دھنسایا جائے گا۔'' (بخاری)
ان احادیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ کتنا شدید گناہ ہے اور کسی بھی طرح ایک مسلمان بل کہ شریف انسان کے شایانِ شان نہیں، یہ رویہ نہ مسلمانوں کے ساتھ درست ہے اور نہ غیر مسلموں کے ساتھ، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ ظاہری دین داری کے ساتھ اس طرح کا تکلیف دہ رویہ اختیار کرتے ہیں، شکل و صورت، وضع قطع اور بات چیت سے پکے دین دار ہو نے کا خیال پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں، چاہے وہ لوگوں کو دھوکا دے دیں، لیکن یقینا خدا کو اور اپنے ضمیر کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے، زمینیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں، زیورِ تعلیم سے وہ خالی و عاری ہیں، تجارت کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہے، اس فاقہ مستی کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست عناصر کا پھیلایا ہوا زہر اب معصوم دیہاتیوں کے ذہن کو بھی متاثر کر رہا ہے اور کوئی حساس موقع ہو تو جان اور عزت و آبرو کو بھی خطرہ دامن گیر ہو جاتا ہے۔
عام طور پر یہ شہر کے کنارے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محرم ہوتے ہیں، تنگ اور کچے راستے، بجلی نہ فراہمی و نکاسی آب، گاڑھا پسینہ بہا کر اور تھوڑے تھوڑے کرکے کتنی قسطوں میں قیمت ادا ہو پاتی ہے، لیکن افسوس کہ بہت سے خدا ناترس لوگ ایسے غریب بھائیوں کی بھی جاں بخشنے کو تیار نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ آخری قطرۂ خون بھی ان سے نچوڑ لیں، گویا انہوں نے زمین کے ساتھ ساتھ اپنا ضمیر بھی فروخت کردیا ہو، کاش! ہمارے یہ بھائی انصارِ مدینہ کے اسوہ کو سامنے رکھتے، جنہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے خود اپنی زمین کے دو حصے کر دیے تھے، آدھا خود رکھا تھا اور آدھا مہاجر بھائی کو دے دیا تھا، اگر ہم ایسی قربانی پیش نہیں کرسکتے تو کم سے کم ان کے ساتھ ظلم و زیادتی اور لوٹ و غارت گری کا رویہ تو اختیار نہیں کریں۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس تجارت میں سارے لوگ ایسے نہیں ہیں اور ایمان دار اور دیانت دار لوگوں سے یہ پیشہ خالی نہیں ہوا ہے، اگر ایمان داری اور دیانت کے ساتھ غریبوں کو راحت پہنچانے اور بے گھروں کو سر چھپانے کی جگہ مہیا کر نے کی نیت سے پلاٹنگ کی جائے اور مناسب قیمت پر دیانت داری کے ساتھ فروخت کیا جائے، تو انشاء اللہ یہی تجارت آخرت کے لیے بھی نفع خیز تجارت ہو جائے گی اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بسانے اور مفلوک الحال انسانوں کے کام آنے کا اجر بھی ان کے حصے میں آئے گا۔
کسی سماج میں برائی کو اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک برائی پر ٹوکنے والی زبانیں، اس کو روکنے والے ہاتھ اور اس کو بُرا سمجھنے والے دل موجود نہ ہوں، جیسے ایک چور (جس کی چوری کا راز کھل گیا ہو) شرمندگی کا احساس کرتا ہے اور سماج کے دامن کو اپنے لیے تنگ محسوس کرنے لگتا ہے، اسی طرح زمین کے ناجائز قابضین کو روکنے والے ہاتھ ہوں، انہیں ٹوکنے والی زبان ہو، انہیں لوگ بُرا سمجھتے ہوں، اور وہ محسوس کرتا ہو کہ اس حرکت سے میں سماج کی تحقیر و ناپسندیدگی کا خریدار بن جاؤں گا، تو یہ خوف اسے گناہ سے باز رکھ سکتا ہے، ورنہ اس کے جرم میں بالواسطہ پورا سماج شریک ہے، ضرورت ہے کہ مسجد کے منبروں سے، جلسوں کے شہ نشینوں سے، جماعتوں اور تحریکوں کے اجتماعات سے اور اخبارات و جرائد کے صفحات سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے اور اس تجارت کو صحیح طریقے پر اور جائز حدود میں کر نے کی ترغیب دی جائے، تو یقینا یہ قوم کی ایک اہم خدمت ہوگی۔
یہی زمین میں اس کے لیے بستر استراحت ہے، اسی زمین میں موت تک اس کا قیام ہے، خدا نے اس متواضع اور بچھی ہوئی زمین کو بلند و بالا اور سر پر سایہ فگن آسمان سے بھی پہلے پیدا فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں زمین کی قسم کھائی گئی ہے۔
زمین کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف عنوان سے بارہا زمین کا ذکر کیا ہے، شاید ہی مخلوقاتِ عالم میں کسی کا اس تکرار اور کثرت کے ساتھ ذکر ہو، پھر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام ضرورتوں کو زمین ہی سے متعلق رکھا ہے، اسی زمین سے درخت اگتے ہیں، پودے پنپتے ہیں، پھل پھول اور نوع بہ نوع غذائیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں کو لبھانے اور آنکھوں کو بھانے والے خوب صورت گل بُوٹے اور مشام جان کو عطر بیز کرنے والے خوش بُودار بہار بردوش پھول اور پتے وجود میں آتے ہیں۔
اسی زمین نے اپنے اندر میں پانی چھپا رکھا ہے، جو ہماری تشنہ کامی کا مداوا ہے، سونا، چاندی، لوہا، تانبا، رنگ بہ رنگ پتھر، پیٹرول اور توانائی سے بھرپور گیس اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جس کو زمین نے نہایت صبر و ضبط کے ساتھ اپنے اندر چھپا رکھا ہے، دولت مند ہے لیکن نشۂ دولت سے خالی، وسیع و عریض ہے لیکن کبر و ترفع سے عاری، ہر وقت انسان کے قدموں میں بچھی ہوئی اور ہمہ دم اس کی خدمت کے لیے تیار و مستعد، پھر آخر انسان کو واپس بھی اسی مٹی میں جانا ہے اور قیامت تک اسی کی آغوش میں وقت کاٹنا ہے، پھر اسی کی آغوش سے باہر نکل کر عالم آخرت تک پہنچنا ہے، پیدائش سے موت اور موت سے پھر دوسری زندگی تک یہی مٹی غم جاناں اور غم دوراں میں ساتھ دیتی ہے۔
زمین اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ایک شاہ کار ہے، اسی لیے زمین کی محبت اور حرص بھی انسان کے اندر نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ کبھی سماج میں زمین کی یہ محبت حرص و ہوس کی طرف لے جاتی ہے اور زمین پر ناجائز قبضہ اور ناجائز خرید و فروخت تک منتج ہو تی ہے، چناں چہ آج کل اخبارات میں آئے دن قتل و خون کی جو خبریں آتی ہیں، وہ زیادہ تر زمین ہی کے مسئلے سے جُڑی ہوتی ہیں، پاکستان میں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں میں مقبوضہ زمین کی ناجائز خرید و فروخت کا بازار گرم ہے، بعض بھولے بھالے خریدار تو اپنی زمین کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں، بعض لوگ زمین خرید کر پلاٹ چھوڑ دیتے ہیں اور جب سال، دو سال کے بعد آتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ ان کی زمین پر مکان بنا ہوا ہے، مگر یہ مکان کسی مخلص و ہم درد کی طرف سے ان کے لیے ''تحفۂ غیر مترقبہ'' نہیں ہوتا، بل کہ اس شخص کا ہو تا ہے جس کے ہاتھوں دوبارہ زمین فروخت کی جاتی ہے، پہلے اور دوسرے خریدار کے درمیان نزاع چھڑ جاتی ہے اور اصل فروخت کرنے ولا منظر سے غائب ہوجاتا ہے، بعض جگہ تو تعمیر شدہ مکان پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا ہے، زمین بھی گئی، پیسے بھی اور محنت بھی!
یہ صورتِ حال ہر شریف انسان کے لیے تکلیف دہ ہے اور یہ رجحان بغیر محنت کے بیٹھ کر کھانے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے، آخر یہ سینہ زوری کبھی قتل و قتال کا باعث بن جاتی ہے اور بہ جائے اس کے کہ زمین پر قبضہ ہو، زمین خود اس کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کے اس کاروبار میں مذہب و ملت اور عقیدہ و مسلک کا بھی کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ غنڈوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ اس پیشے میں گھسے ہوئے خدا ناترس افراد پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
غصب اور ظلماً کسی کی چیز پر قبضہ کر لینے کی قرآن و حدیث میں جو مذمت آئی ہے، وہ محتاجِ اِظہار نہیں، جو شخص حرام کھاتا ہے، بارگاہِ ربانی میں اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی، نہ اس کی دعا مقبول ہوتی ہے، لیکن زمین کے غصب کر نے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مذمت فرمائی ہے، حضرت سعید بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے زمین کا کوئی حصہ ظلماً لے لیا، ساتوں زمینیں اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالی جائیں گے۔'' (بخاری)
حضرت ابوسلمہؓ کی روایت میں ہے کہ اگر ایک بالشت زمین بھی ظلماً حاصل کی تو زمین کی سات تہیں اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی۔
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ کرلی اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مکلف کریں گے کہ وہ اس زمین کو حاضر کرے، یہاں تک کہ اس کی سات تہیں قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی، تاآں کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے کچھ بھی زمین ناحق لے لی، وہ قیامت کے دن سات تہوں تک اس میں دھنسایا جائے گا۔'' (بخاری)
ان احادیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ کتنا شدید گناہ ہے اور کسی بھی طرح ایک مسلمان بل کہ شریف انسان کے شایانِ شان نہیں، یہ رویہ نہ مسلمانوں کے ساتھ درست ہے اور نہ غیر مسلموں کے ساتھ، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ ظاہری دین داری کے ساتھ اس طرح کا تکلیف دہ رویہ اختیار کرتے ہیں، شکل و صورت، وضع قطع اور بات چیت سے پکے دین دار ہو نے کا خیال پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں، چاہے وہ لوگوں کو دھوکا دے دیں، لیکن یقینا خدا کو اور اپنے ضمیر کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے، زمینیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں، زیورِ تعلیم سے وہ خالی و عاری ہیں، تجارت کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہے، اس فاقہ مستی کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست عناصر کا پھیلایا ہوا زہر اب معصوم دیہاتیوں کے ذہن کو بھی متاثر کر رہا ہے اور کوئی حساس موقع ہو تو جان اور عزت و آبرو کو بھی خطرہ دامن گیر ہو جاتا ہے۔
عام طور پر یہ شہر کے کنارے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محرم ہوتے ہیں، تنگ اور کچے راستے، بجلی نہ فراہمی و نکاسی آب، گاڑھا پسینہ بہا کر اور تھوڑے تھوڑے کرکے کتنی قسطوں میں قیمت ادا ہو پاتی ہے، لیکن افسوس کہ بہت سے خدا ناترس لوگ ایسے غریب بھائیوں کی بھی جاں بخشنے کو تیار نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ آخری قطرۂ خون بھی ان سے نچوڑ لیں، گویا انہوں نے زمین کے ساتھ ساتھ اپنا ضمیر بھی فروخت کردیا ہو، کاش! ہمارے یہ بھائی انصارِ مدینہ کے اسوہ کو سامنے رکھتے، جنہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے خود اپنی زمین کے دو حصے کر دیے تھے، آدھا خود رکھا تھا اور آدھا مہاجر بھائی کو دے دیا تھا، اگر ہم ایسی قربانی پیش نہیں کرسکتے تو کم سے کم ان کے ساتھ ظلم و زیادتی اور لوٹ و غارت گری کا رویہ تو اختیار نہیں کریں۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس تجارت میں سارے لوگ ایسے نہیں ہیں اور ایمان دار اور دیانت دار لوگوں سے یہ پیشہ خالی نہیں ہوا ہے، اگر ایمان داری اور دیانت کے ساتھ غریبوں کو راحت پہنچانے اور بے گھروں کو سر چھپانے کی جگہ مہیا کر نے کی نیت سے پلاٹنگ کی جائے اور مناسب قیمت پر دیانت داری کے ساتھ فروخت کیا جائے، تو انشاء اللہ یہی تجارت آخرت کے لیے بھی نفع خیز تجارت ہو جائے گی اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بسانے اور مفلوک الحال انسانوں کے کام آنے کا اجر بھی ان کے حصے میں آئے گا۔
کسی سماج میں برائی کو اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک برائی پر ٹوکنے والی زبانیں، اس کو روکنے والے ہاتھ اور اس کو بُرا سمجھنے والے دل موجود نہ ہوں، جیسے ایک چور (جس کی چوری کا راز کھل گیا ہو) شرمندگی کا احساس کرتا ہے اور سماج کے دامن کو اپنے لیے تنگ محسوس کرنے لگتا ہے، اسی طرح زمین کے ناجائز قابضین کو روکنے والے ہاتھ ہوں، انہیں ٹوکنے والی زبان ہو، انہیں لوگ بُرا سمجھتے ہوں، اور وہ محسوس کرتا ہو کہ اس حرکت سے میں سماج کی تحقیر و ناپسندیدگی کا خریدار بن جاؤں گا، تو یہ خوف اسے گناہ سے باز رکھ سکتا ہے، ورنہ اس کے جرم میں بالواسطہ پورا سماج شریک ہے، ضرورت ہے کہ مسجد کے منبروں سے، جلسوں کے شہ نشینوں سے، جماعتوں اور تحریکوں کے اجتماعات سے اور اخبارات و جرائد کے صفحات سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے اور اس تجارت کو صحیح طریقے پر اور جائز حدود میں کر نے کی ترغیب دی جائے، تو یقینا یہ قوم کی ایک اہم خدمت ہوگی۔