اسلام کا نظامِ انصاف

’’ اللہ کی حدود دُور و نزدیک سب پر قائم کرو اور کہیں تمہیں لوگوں کی ملامت اس عمل سے روک نہ دے۔‘‘ (ابن ماجہ)

’’ اللہ کی حدود دُور و نزدیک سب پر قائم کرو اور کہیں تمہیں لوگوں کی ملامت اس عمل سے روک نہ دے۔‘‘ (ابن ماجہ)۔ فوٹو: فائل

بے شک رسول اللہ ﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ میں سفر ہو یا حضر، داخلی معاملات ہوں یا خارجی، خلوت ہو یا جلوت، امن ہو یا جنگ ال غرض ہر شعبے اور معاملے میں سیرت النبی ﷺ پر عمل کرنے کے بہترین اصول نمایاں ہیں۔

بے شک اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو معلم بناکر دنیا میں بھیجا، لیکن اگر آپؐ کی سیرت کا بہ غور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو صرف معلم بناکر نہیں بھیجا بل کہ آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کہیں معلم کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے، کہیں ایک بہترین قانون ساز کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتی ہے اور کہیں بہترین مربی اور تربیت کار کی حیثیت سے واضح ہوتی ہے۔

اسی طرح آقا کریم ﷺ کی زندگی کا ایک شعبہ اور منصب قاضی کا بھی ہے۔ آپ ﷺ نے بہ حیثیت قاضی کئی فیصلے نافذ فرمائے۔ انصاف کا شعبہ نہایت اہم شعبہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عدل کو تقویٰ کے قریب قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' اور فرما دیجیے میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔'' (سورۃ الشوریٰ)

'' اور کہہ دیجیے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔'' (سورۃ الاعراف)

'' اور جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔'' ( المائدہ)


آپؐ کی عدالت سے انصاف کا حصول نہایت آسان تھا۔ کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والا شخص آپؐ کی عدالت سے جلد اور بہ آسانی انصاف حاصل کرلیتا۔ اسی طرح آپؐ کی عدالت سے کوئی بھی مجرم بغیر سزا پائے نہیں بچتا تھا، اگرچہ اس کا تعلق کسی اعلیٰ قبیلے سے ہوتا۔ آپؐ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو کسی کی سفارش قبول کیے بغیر سزا سنا دیتے اور اس پر عمل درآمد کردیا جاتا۔ آقا کریمؐ نے لوگوں کو بھی حدود اللہ میں سفارش کرنے سے بھی منع فرمایا۔ چناں چہ ارشاد فرمایا، مفہوم : '' اللہ کی حدود دور و نزدیک سب پر قائم کرو اور کہیں تمہیں لوگوں کی ملامت اس عمل سے روک نہ دے۔'' (ابن ماجہ)

'' حدودِ الٰہی میں سے کسی حد میں جس شخص کی سفارش حائل ہوگئی تو وہ اللہ کے حکم میں اللہ کی مخالفت کرنے والا ہے۔'' ( ابوداؤد )

آپ ﷺ نے بہ ذاتِ خود اس پر عمل کرکے قیامت تک آنے والوں کے لیے ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ حدود اللہ میں سفارش قبول نہ کرنے کے متعلق ایک مشہور حدیث شریف حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ چوری کرنے والی ایک بااثر مخزومی عورت کے معاملے نے قریش کو پریشان کردیا۔ لوگوں نے مشورہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کے لیے کون بات کرے گا؟ انہوں نے کہا: اسامہؓ کے سوا کوئی اس کی جرأت نہیں کرے گا، کیوں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چہیتے ہیں۔ حضرت اسامہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟'' پھر آپ ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: '' اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ ان میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے، جب کوئی ادنیٰ شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم ! اگر محمد ( ﷺ ) کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔'' (بخاری )

آپ ﷺ کی عدالت میں چوری کے متعدد مقدمات آئے جن میں آپ ﷺ نے بعض اوقات چور کو اقبالِ جرم کرنے پر سزا سنائی اور بعض اوقات آپؐ چوری کے معاملے میں تفتیش و تحقیق کے بعد مجرم کو سزا کا حق دار ٹھہرا تے تھے، محض کسی کے کہنے یا الزام لگانے پر فیصلہ نہیں سناتے تھے۔ حضرت صفوانؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور نماز پڑھی، پھر اپنی چادر کو لپیٹا اور اسے سر کے نیچے رکھ کر سوگئے۔ ایک چور آیا، اس نے چادر کو ان کے سر کے نیچے سے نکال لیا۔ انہوں نے اس چور کو پکڑلیا اور کہا : اس آدمی نے میری چادر چوری کی ہے۔ آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا : کیا تم نے اس کی چادر چوری کی ہے ؟ تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس چور کو لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوانؓ کہنے لگے: میں یہ نہیں چاہتا کہ میری چادر کے بدلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کام تم نے پہلے کیوں نہیں کیا؟ (سنن نسائی)

آپ ﷺ کی عدالت میں ذاتی معاملات اور امورِ خانہ داری سے متعلق بھی کیسز درج ہوا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت نے آکر کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا خاوند مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے، جب کہ میرے اس بیٹے نے ابوعتبہ کے کنویں سے مجھے پانی پلایا ہے اور میری ہر طرح خدمت کی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرعہ اندازی کرلو، تو خاوند نے کہا: میرے بیٹے کو مجھ سے کو ن روک سکتا ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے بچے سے مخاطب ہوکر فرمایا: یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں، ان دونوں میں سے جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو۔ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا تو وہ اسے لے کر چلی گئی۔ ( ترمذی )

عصر حاضر میں اگر واقعات اور فیصلوں کو پرکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عدالتیں عدل و انصاف سے کوتاہی کی مرتکب ہیں۔ مظلوم اور ملزم کئی دہائیوں تک اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ آقا کریم ﷺ کی عدالت میں ملزم پر لگائے گئے الزام کی فوری تحقیق کی جاتی تھی، اگر واقعی وہ کسی جرم کا مرتکب پایا جاتا تو اسے فوراً سزا سنا دی جاتی اور اس پر عمل درآمد کردیا جاتا۔ اس کے برعکس ہماری عدالتوں میں کئی کئی سال تک فیصلوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص یا اعلیٰ حکام سے قریبی تعلق رکھنے والا کوئی جرم کرتا ہے تو وہ بغیر کوئی سزا پائے بہ آسانی مقدمے سے بری ہوکر رہائی حاصل کرلیتا ہے جب کہ غریب اور مظلوم انصاف طلب کرتے کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن انصاف حاصل نہیں کرپاتے۔

رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور فیصلوں کی پیروی منصفوں پر لازم ہے۔ فریقین کو سُن کر ان کے معاملات میں تفتیش کے بعد فیصلہ سنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذاتی تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلا کسی امتیاز کے فیصلہ سنانا چاہیے۔ قاضی کو کسی بھی موڑ پر عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اسلام کی سربلندی اور عظمت میں عدل و انصاف کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسلام کا نظام قضا بھی ایک شعبہ ہے جس نے اسلام کو تمام ادیان و مذاہب پر برتری دی ہے۔ اس شعبے کے تحت ہر شخص کو انصاف کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی ریاست یا مملکت عروج کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہی ایک شعبہ سے جس سے ریاست میں امن و امان کا قیام ممکن ہوتا ہے۔ اسلام کا نظام انصاف بہترین اور بے مثال نظام ہے جس کی پیروی کرنا چاہیے۔
Load Next Story