کچھ انتخابی عمل کے بارے میں

ان میں سب سے اہم ووٹر لسٹوں کی تیاری ہے۔ ووٹرلسٹوں میں غلط اندراج، پہلی دھاندلی ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

عیدین کے موقعے پر مولوی صاحبان عید کی نماز کا طریقہ ہر بار اس لیے دہراتے ہیںکہ مبادا لوگ سال بھر میں اسے بھول چکے ہوں گے جب کہ الیکشن پانچ برس بعد ہوتے ہیں،اس لیے ان کے بارے میں معلومات کا اعادہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔اب چونکہ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے،اس لیے اس بارے میں بعض ضروری قواعد وضوابط کا جاننا نہ صرف ووٹروں بلکہ انتخابات کی کوریج کرنے والے صحافیوںکے لیے بھی ضروری ہے۔

عوام کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انتخابی عمل میں دھاندلیوں کے تین مدارج ہیں۔ اول، قبل از انتخابات (Pre-election)۔دوئم ،انتخابات کے روز ہونے والی دھاندلیاں اور بعد از انتخابات (Post Election) ہونے والی دھاندلیاں۔انتخابی دھاندلیوں کا آغاز انتخابات سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ وہ حکومتی اقدامات جن پر عموماً سول سوسائٹی، عوام اور دیگرمتعلقہ حلقے توجہ نہیں دیتے،دراصل انتخابی دھاندلیوں کی راہ ہموارکرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ان میں سب سے اہم ووٹر لسٹوں کی تیاری ہے۔ ووٹرلسٹوں میں غلط اندراج، پہلی دھاندلی ہے۔ اس سلسلے میںجعلی ناموں کا اندراج،ایک پتہ پر کئی کئی خاندانوں کا اندراج وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح بعض با اثرسیاسی شخصیات اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسے ووٹروں کا نام فہرست سے غیر قانونی طورپر خارج کرا دیتی ہیں،جن سے انھیں ووٹ ملنے کی توقع نہیں ہوتی۔اسی طرح فہرستوں سے مرحومین کے نام خارج نہ ہونے کے سبب ان کے جعلی ووٹ بھگتائے جانے کے خدشات ہوتے ہیں۔

سول سوسائٹی کا مطالبہ رہا ہے کہ انتخابی فہرستوں کی تصدیق NADRAکے ذریعے کرائی جائے۔ الیکشن کمیشن نے اس مطالبے کوتسلیم کرتے ہوئے اس مرتبہ انتخابی فہرستوں کی NADRAسے تصدیق کرائی ہے۔مگرNADRAمیں رجسٹریشن کے طریقہ کارپرکئی اعتراضات اورتحفظات اٹھائے جاتے رہے ہیں، کیونکہ اس میں Cross Checkکاکوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

ایک عام شکایت یہ ہے کہ NADRAکے عملہ میں بعض افراد رشوت لے کرغیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کردیتے ہیں۔خاص طور پر ان گنت افغانیوں، برمیوں اور بنگالیوں نے اس طرح پاکستانی شہریت حاصل کرلی ہے۔لہٰذا NADRAمیں رجسٹریشن کے عمل کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔مگریہ وقت اس مسئلے کواٹھانے کا نہیںہے ،کیونکہ انتخابات سر پر موجود ہیں۔لیکن سول سوسائٹی کو اگلی حکومت کے قیام کے بعد اس مسئلے کو پوری شدومد سے اٹھانے کی ضرورت ہے،تاکہ اگلی انتخابی فہرست زیادہ بہتراندازمیں بنائی جاسکے۔

قبل ازانتخابات دھاندلی کی دوسری مثال اہم انتظامی عہدوں پرسیاسی کردار کے حامل Politicised اہلکاروں کی تعیناتی ہے۔یہ عمل انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے۔یہ کارروائی عموماً انتخابات سے چند ماہ قبل شروع کی جاتی ہے اور ہر سطح پر ایسے اہلکاروں کا تقرر یا تبادلہ کیا جاتا ہے،جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے اور کسی مخصوص جماعت کوفائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

قائم ہونے والی نگراں حکومت عموماً اوپری سطح کے بعض کلیدی عہدیداروں کو تبدیل کردیتی ہے، جس سے انتظامیہ کے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا مکمل سدباب نہیں ہو پاتا۔ پاکستان میں یہ کارروائی گزشتہ چالیس برس سے جاری ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول انتظامیہ خاصی حد تک کرپٹ اور بدعنوان ہونے کے ساتھ Politicised بھی ہوچکی ہے ۔اس کے علاوہ اس خطے میںموجود ایک صدی پرانا جاگیردارانہ اور پشتینی پیری مریدی کا انسٹیٹیوشن بھی کرپٹ اور بدعنوان انتظامیہ کی سرپرستی کرتا ہے،جو ان کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ضروری ہے۔

قبل از انتخابات دھاندلی کی تیسری شکل پولنگ اسٹیشنوں کا قیام اور پولنگ عملے کی تقرری ہے۔ اس سلسلے میںمیرامشاہدہ یہ رہا ہے کہ بعض مخصوص حلقوں میں پولنگ اسٹیشن مخصوص سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں۔ قواعدوضوابط کے مطابق کسی بستی کا پولنگ اسٹیشن تین کلومیٹر قطر کے اندر ہونا چاہیے۔مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ نہ صرف دیہی علاقوں میں ووٹوں کی تعداد کا بہانہ بناکر میلوں دور دوسرے دیہات میں قائم کردیے جاتے ہیں،بلکہ شہروں میں بھی ایک علاقے کے پولنگ اسٹیشن دوسرے علاقے میں قائم کرکے مخصوص مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


قانون کے مطابق پولنگ کے اوقات کارصبح8بجے سے شام5بجے تک ہوتے ہیں۔جوکل 540منٹ بنتے ہیں۔اگر ایک ووٹر کے لیے کم ازکم5منٹ کا وقت تصور کرلیا جائے تو ایک بوتھ پر100سے زائد ووٹر نہیں ہونے چاہئیں۔ مگر اکثر پولنگ اسٹیشنوںکے ایک بوتھ پر ووٹروں کی تعداد 150تک دیکھنے میں آئی ہے،جو اصول وضابطے کے خلاف ہے۔

پولنگ اسٹاف کی تقرری بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ریٹرننگ افسران ضلعی عدلیہ سے لیے جاتے ہیں ،جب کہ پولنگ اسٹیشن پر تعینات70سے80 فیصد عملہ محکمہ تعلیم سے لیا جاتا ہے بقیہ دیگر محکموں سے آتا ہے۔ پریزائیڈنگ افسرکو الیکشن کے روز مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ وہ17یا اس سے اوپر کے گریڈ کا گزٹیڈ افسرہو۔لیکن دیکھنے میںیہ آیا ہے کہ مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر بیشتر پولنگ اسٹیشنوںپر 16یا اس سے کم گریڈ کے افسران کو پریزائیڈنگ افسر تعینات کردیا جاتا ہے ،جو کہ انتخابی اصول وضابطے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

انتخابات کے روز جو دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ان میں سے بیشتر قبل از انتخاب دھاندلیوںکا تسلسل ہوتی ہیں، جن میںغلط انتخابی فہرستیں، پولنگ اسٹیشن کاغیر مناسب جگہ قیام اور سیاسی مقاصد کے تحت پولنگ عملے کی تقرری شامل ہے۔ دوسری دھاندلی امیدوار اور ان کے حامی طاقت کے بل بوتے پر کرتے ہیں۔ طاقتور امیدوار مخالف امیدواروںکے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے روک دیتے ہیں اور عملہ کو ڈرا دھمکا کر جعلی ووٹ بھگتاتے ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ جعلی ووٹنگ کو روکنے کے بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔لیکن دوسرا سبب یہ ہے کہ پولنگ عملہ اور سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوںکی صحیح معنی میں تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔جس کی وجہ سے60فیصد کے قریب پولنگ عملہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ قواعد وضوابط ان میں موجود قانونی موشگافیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کی کوریج کرنے والے بیشتر صحافی بھی ان قواعد وضوابط سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

عوام کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ڈالے گئے ووٹ چار قسم کے ہوتے ہیں۔اول،صحیح ووٹ۔دوئم،چیلنج ووٹ۔ سوئم،Tender Vote،چہارم ردکردہ یا Cancelled ووٹ۔ صحیح ووٹ وہ ہوتا ہے، جسے گنتی میںشامل کیا جائے۔چیلنج ووٹ سے مراد ایسا ووٹ ہے،جس کے ووٹرکی حیثیت کوکوئی پولنگ ایجنٹ چیلنج کردے۔اس کی فیس پہلے دو روپے ہوتی تھی، جو اب10روپے کردی گئی ہے۔جب پولنگ ایجنٹ مقررہ فیس اداکردیتا ہے،تواس ووٹر کو ووٹ کا حق تودیا جاتا ہے، مگراس کا ووٹ بکس میں ڈالے جانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک مخصوص لفافے میں رکھا جاتاہے۔

ٹینڈر ووٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد کا ووٹ کسی وجہ سے پہلے ڈالاجاچکا ہو، مگر اصل فرد ووٹ دینے آئے تو عملہ اس کی شناخت کرنے کے بعد اسے ووٹ کی پرچی جاری کرتا ہے، کیونکہ ووٹ ڈالنا اس کا حق ہے۔مگر یہ ووٹ بھی بکس میںنہیں جاتا اور اسے ایک دوسرے مخصوص لفافے میں رکھا جاتا ہے۔رد کردہ ووٹ وہ ووٹ ہوتا ہے،جوگنتی کے وقت الگ کیا جاتا ہے۔ایسی پرچیاں جن پر ایک سے زائد نشانات لگے ہوںیا نشان دو خانوں میں مساوی طور پرلگا محسوس ہورہا ہو۔ گنتی کے وقت ایسے تمام ووٹ گنتی میں شامل نہیں کیے جاتے ،بلکہ انھیںگن کر ایک تیسرے لفافے میں رکھا جاتا ہے۔

پریزائڈنگ افسر کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کو الگ الگ لفافوں میں سیل کرے۔اسی طرح ٹینڈر، چیلنج اور رد کردہ ووٹوں کو ان کے لیے مخصوص کردہ لفافوں میں سیل کرے۔ نتائج کی تیاری کے بعد اسے نتیجے کی ایک کاپی پولنگ اسٹیشن پر آویزاںکرنا ہوتی ہے تاکہ عام آدمی نتائج کا مطالعہ کرسکے۔ ہر امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو اپنے دستخطوں سے نتائج جاری کرے، جن میں چینلج ،ٹینڈر اور رد کردہ ووٹوں کی تعداد بھی درج ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ وہ چار فارم بھرتا ہے۔

جن میں سے ایک ریٹرننگ افسر کومختلف لفافوں کے ساتھ جمع کراناہوتا ہے۔دوکاپیاں بالترتیب صوبائی اور مرکزی الیکشن کمیشن کو بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک بھیجتا ہے،جب کہ چوتھا فارم اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے، تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔پریزائڈنگ افسرکی ذمے داری ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ سیل بندانتخابی مواد (Material) پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں کھولے۔اسی طرح ہر بکس پر ووٹنگ سے قبل سیل بھی ایجنٹوں کے سامنے لگانا ہوتی ہے۔

الیکشن کی کوریج کرنے والے صحافیوں، سیاسی وسماجی کارکنوںاورعام شہریوںکی ذمے داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے قواعد وضوابط کابغور مطالعہ کریں۔تاکہ ان قواعد وضوابط کی خلاف ورزیوں اور انتخابی عمل میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہوسکے۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انتخابی عمل کومزید شفاف بنانے کے لیے پیش رفت ممکن ہے ۔
Load Next Story