ملالہ یوسف زئی کی چھ برس بعد گھر واپسی

سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی آنے والے دنوں میں کیا کرناچاہتی ہے؟

سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی آنے والے دنوں میں کیا کرناچاہتی ہے؟۔ فوٹو: فائل

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے مارچ کے آخری ہفتے اچانک وطن واپس آئیں، اگرچہ یہ دورہ محض چار روزہ تھا تاہم اسے غیرمعمولی طور پر اہم سمجھاجارہاہے۔

چھ برس بعد پاکستان آمد پر اسلام آباد کے بے نظیرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ وفاقی دارالحکومت میں ملالہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی، اس موقع پر ملالہ کے اہل خانہ بھی ہمراہ تھے جبکہ وفاقی وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکشن انوشہ رحمان اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چئیرپرسن ماروی میمن بھی شریک تھیں۔

اس کے بعد ملالہ کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں ایک تقریب منعقد کی گئی جہاںملالہ نے کہا :''وطن واپس آکر بہت خوش ہوں، ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ پاکستان میں ہوں، پانچ سال بعد پھر اپنے وطن اپنی مٹی پر قدم رکھے ہیں۔ اس وقت 20 سال کی ہوں لیکن میں نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے، 5 سال سے یہی خواب دیکھا کہ پاکستان واپس جاؤں اور بنا کسی خوف کے سڑکوں پر چل سکوں اور لوگوں سے مل سکوں، بات کر سکوں اور میرا گھر ویسا ہی ہو جیسا پہلے تھا۔ جب انہیں اپنا وطن یاد آتا تو انگلینڈ کے شہروں میں سفر کرتے ہوئے جہاز یا گاڑی میں بیٹھے میں خود سے کہتیں کہ 'تصور کرو کہ تم اپنے شہر میں ہو، یہی پاکستان کے شہر ہیں۔ لیکن میں جانتی تھی کہ وہ سچ نہیں تھا''۔

ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کی تعلیم کیلئے کام کرنا چاہتی ہوں، ہمیں بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے کیونکہ آنے والی نسلیں ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ نوجوان نسل ہی پاکستان کا مستقبل ہے اور اس پر توجہ دینی چاہیے اور ان نوجوانوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ملالہ فنڈ سے 60 لاکھ ڈالر پہلے ہی پاکستان میں مختلف منصوبوں پر لگائے جا چکے ہیں۔ تعلیم، صحت اورمعیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں کو ان معاملات پر ایک ہونا چاہیے۔ اگر میں چاہتی تو کبھی اپنا ملک نہ چھوڑتی۔ انھوں نے کہا کہ خواتین لیڈرزبن سکتی ہیں، خواتین کوتعلیم کے ذریعے خودمختار کرنا انتہائی ضروری ہے۔'میں امید کرتی ہوں کہ پاکستان کی بہتری کے مقصد میں ہم ساتھ کام کریں۔ خاص طور پر عورتوں کو اتنا اختیار ہو کہ وہ ملازمت کر سکیں، اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکیں۔'

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ملالہ کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:'' آج ہمیں فخر ہے، ہماری بچی جس نے دنیا میں مقام حاصل کیا وہ گھر واپس آئی ہیں، ملالہ دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں، ملالہ نے بچوں کی تعلیم کیلئے کوششیں کی ہیں۔ ملالہ جب پاکستان سے گئیں تو بچی تھیں لیکن اب جب واپس آئی ہیں تو تاریخ کی مشہور لڑکی ہیں، ملالہ اب پاکستان کی عام شہری نہیں ہیں،آپ کی حفاظت ہم پر لازم ہے۔

جب ملالہ پاکستان سے گئی تھیں تو پاکستان میں دہشت گردی عروج پرتھی، ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک مشکل جنگ لڑی، ہم نے پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا ہے، دنیا جو مرضی سمجھے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ لڑی اور آج بھی لڑرہے ہیں''۔ ملالہ کی تعلیم کے شعبے میں کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے وزیراعظم عباسی نے کہا کہ'' آپ نے نوجوانوں خاص کر بچیوں کی تعلیم کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں ان کے لیے ہم دعا گو ہیں کہ وہ کامیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے۔''

ملالہ کی پاکستان آمد سے قبل کہاگیاتھا کہ وہ اسلام آباد ہی میں رہیں گی، ان کے عزیزواقارب ان سے ملنے اسلام آباد ہی آئیں گے۔تاہم31 مارچ کو اچانک ملالہ وزیرِ مملکت مریم اورنگزیب سمیت ایک وفد کے ہمراہ خصوصی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچ گئیں جہاں وہ اپنے گھر گئیںجہاں ان کے بچپن کا زیادہ تر وقت گزرا تھا، وہاں کچھ وقت گزارا اور پھر وہاں سے روانہ ہوگئیں۔ اس کے بعد ملالہ نے سوات ہی میں ایک کیڈٹ کالج کا بھی دورہ کیا جہاں ان کی چند سہیلیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر پورے علاقے میں سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے، ملالہ کے آبائی گھر کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو بند کردیا گیا۔

ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے کہا کہ سوات ہم تین گھنٹے کے لئے گئے تھے مگر یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں اگر اسلام آباد سے واپس چلے جاتے تو ہاف ہوم ہوتا اور سوات جانا فل ہوم ہے، ملالہ کے کمرے میں گئے اس کی ٹرافیاں سکیچز دیکھے۔ پاکستان آنے کا فیصلہ پوری فیملی کا فیصلہ تھا۔ ہمیں خوف نہیں تھا اگر ہوتا تو نہ آتے۔ ہمیں پتا تھا کہ حکومت پاکستان سپورٹ کررہی ہے۔

ملالہ یوسفزئی سن2012 میں خود پر ہونے والے حملے کے بعد پہلی بار پاکستان آئیںتو ان کی نقل وحرکت کو غیرمعمولی طور پر محدود رکھاگیا۔ انھیں اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کے ایسے حصے میں ٹھہرایاگیا جہاں عام دنوں میں کوئی چڑیا پر نہیں مارسکتی، تاہم ملالہ کی موجودگی کے خاص دنوں میں ہوٹل کے اس حصے کے اردگرد فوج اور انٹیلی جنس اہلکاروں کا سخت ترین پہرہ تھا، پاکستانی فوج کے افسران بھی سکیورٹی کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں۔ صرف چندایک صحافیوں کو اعلیٰ سطح سے منظوری کے بعد ملاقات کی اجازت ملی، ان اخبارنویسوں کو بھی ملاقات سے پہلے سخت ترین تلاشی کے مراحل سے گزرناپڑا۔ ان ایک دو پاکستان آمد کے پہلے روز وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ تقریب کے بعد اخبارنویسوں نے ان سے سوالات کرنے کی کوشش کی لیکن ملالہ نے مکمل طور پرخاموشی اختیار کی، ایسا معلوم ہوا جیسے انھیں اس بات کا پابند کیاگیاہو۔


ایک غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دینے کے لئے ہوٹل کے ایک مخصوص کمرے میں آئیں تو اس دوران بھی سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں اکیلا نہ چھوڑا بلکہ دوران انٹرویو وہ ان کے چاروں طرف موجود رہے۔ ملالہ کے پورے دورے کا شیڈول انتہائی خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی، یہی وجہ ہے کہ شانگلہ اور سوات بالترتیب 70 اور ڈیڑھ سو اساتذہ، مقامی صحافیوں، قریبی رشتہ داروں سمیت دیگر افراد پر مشتمل دو وفود نے اسلام آباد جاکر ملالہ سے ملاقات کی۔اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ لڑکی نے اسلام آباد میں حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والی خواتین کے وفد سے بھی ملاقات کی۔ 'آسکر' جیتنے والی شرمین عبیدچنائے سے بھی ملاقات کی۔

ملالہ یوسف زئی کا چار روزہ دورہ پاکستان کس اعتبار سے اہم تھا، وہ آنے والے دنوں میں کیا کرنے والی ہیں؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے ان باتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ملالہ نے پاکستان آکر کہیں، انہی باتوں سے محسوس ہوا کہ ان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف تعلیم ہی ہے۔ کئی برس پہلے وہ سیاست میں آنے اور وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کی باتیں کرتی تھیں لیکن اب ان کی سوچ بدل چکی ہے۔ اب ان کاخیال ہے کہ وہ سیاست کے علاوہ دیگرشعبوں میں زیادہ بہترکام کرسکتی ہیں۔ان کے خیال میں سیاست ایک پیچیدہ عمل ہے، اب وہ وزیراعظم نہیں بنناچاہتیں۔

ایک غیرملکی خبررساں ادارے سے انٹرویو میں انھوں نے واضح طور پر کہا:''میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتی، یہ خواب تب دیکھا جب میں 11 یا 12 برس کی تھی، سوات میں دہشت گردی تھی، مجھے لگا کہ وزیر اعظم بن کر میں اپنے ملک کے مسائل حل کر دوں گی، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہے، اور تبدیلی تو آپ کسی بھی اور طریقے سے لا سکتے ہیں۔ ڈاکٹرانجینیئر بن کر بھی، محنت کریں اور کوشش کریں۔ میں بھی اپنا کام جاری رکھوں گی۔''

ملالہ یوسفزئی پاکستان کی سیاست پر نظر رکھتی ہیں، تاہم ان کے خیال میں سیاستدانوں کو اپنی ترجیحات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی سیاست میں تعلیم اور صحت جیسے مسائل پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف رہتی ہیں، انھیں تعلیم اور صحت پر بات کرنی چاہییے جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے جانناچاہتی ہیں کہ وہ پاکستان کو کیسے بہتربناسکتی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ 'منشور میں تعلیم اہم ہے اور یہ بھی کہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیا کریں گی۔' ملالہ کے خیال میںآج کا پاکستان 2012 کے پاکستان سے خاصا مختلف نظر آیا ہے، وہ ملک میں امن قائم ہونے پر بہت خوش ہیں۔ ''والدین بچیوں کو تعلیم کے لیے سکول بھیج رہے ہیں، ملکی معیشت میں پہلے سے زیادہ خواتین اپنا حصہ ڈال رہی ہیں'۔

ملالہ کے خیالات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اب سیاست کے بجائے اپنے ادارے 'ملالہ فنڈ' کی بنیاد پر پاکستان میں کام کرناچاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے ادارے کی کارکردگی کی بات کی جبکہ ان کے والد ضیاالدین یوسف زئی نے بھی 'ایکسپریس نیوز ' کے ایک پروگرام میں ملالہ فنڈ کی خدمات کو نمایاں کیا اور کہا:'' ملالہ فنڈ سے ہم سب سے زیادہ کام پاکستان میں کررہے ہیں، ہم نے پاکستان مین 6 ملین ڈالر سے زیادہ کے منصوبے بنائے ہیں مگر ہم تشہیر نہیں کرتے۔ ملالہ فنڈ سے سکول قائم کیا اور ایک اور پروجیکٹ شانگلہ میں کیا۔ دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کا پراجیکٹ مکمل ہوگیا، ان بچیوں کے لئے جہاں 7لاکھ کی آبادی میں ایسا ایک بھی سکول نہیں تھا۔ سکول شروع ہوچکاہے اور اب اس میں ایسی بچیاں جاتی ہیں جو انتہائی غریب ہیں'۔

ملالہ کا دورہ پاکستان، عالمی ذرائع ابلا غ کی نظر میں
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'ملالہ! میرے لئے سوات سے آڑولانامت بھولنا، ٹھیک ہے نا؟'

امریکی ٹی وی چینل سی این این، این بی سی ، سی بی ایس، سکائی نیوز، امریکی اخبارات واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، لاس اینجلس ٹائمز، واشنگٹن ٹائمز، برطانوی اخبارات دی گارڈین، ٹیلی گراف، ڈیلی میل، مرر، دی سن، عرب اخبارات خلیج ٹائمز، عرب نیوز اور بھارتی اخبارات وجرائد' انڈیا ٹوڈے، آئوٹ لک، ہندوستان ٹائمز،انڈین ایکسپریس، ون انڈیا،سمیت بڑی تعداد میں ذرائع ابلاغ نیچھ برس بعد ملالہ کی وطن واپسی کی خبر کو نمایاں اندازمیں پیش کیا۔ 'وائس آف امریکا' نے حقوقِ انسانی کی ایک سرگرم کارکن بے نظیر جتوئی کے حوالے سے بتایا کہ ملک میں ترقی پسند حلقے ملالہ کی واپسی پر بہت خوش ہیں کیونکہ وہ ملالہ کو اپنی سمجھتے ہیں۔ بھارتی صحافی برکھا دت نے کہا کہ ملالہ ہم سب کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ بعض بھارتی صحافیوں نے اس موقع پر ملالہ کو شرانگیز مشورے دئیے مثلاً 'ٹائمز آف انڈیا' کی ایڈیٹر آرتی تیکو سنگھ نے ٹویٹ کیا کہ یقیناً ملالہ حقیقت میں ایک بہادر اور حوصلے بڑھانے والی لڑکی ہے لیکن وہ جنوبی ایشیا میں گیم چینجر اس وقت ثابت ہوگی جب وہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے اسلام پسند جہادیوں کی سرحدپار بھارت میں دہشت گردی پر سوال اٹھائے گی۔ تاہم ابھی تک وہ پاکستانی فوج کے اشارے پر چل رہی ہے،اس نے بہت مایوس کیاہے۔

عرب ٹیلی ویژن چینل 'الجزیرہ' اور 'وائس آف امریکا' نے اپنی ایک رپورٹ میں ملالہ کی آمد پر بعض پاکستانی حلقوں کی طرف سے 'آئی ایم ناٹ ملالہ ڈے' کے نام سے احتجاج کا ذکر بھی کیا۔ 'الجزیرہ'کے مطابق اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ملالہ کے مداحین کی طرح اس کے ناقدین بھی بڑی تعدادمیں موجود ہیں۔ تاہم'وائس آف امریکا' نے اپنی رپورٹ میں مختلف افراد کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں کہیں بھی ایسا کوئی دن نہیں منایاگیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے 'بی بی سی' کے مطابق ''ملالہ یوسفزئی کو جہاں پاکستان کا فخر سمجھا جاتا ہے وہیں ایک طبقہ انھیں سخت تنقید کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ یہ افراد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر سرگرم ملتے ہیں اور اب تو 'ملالہ ہیٹرز' جیسی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ملالہ کے ناقدین ان پرکسی ایجنڈے کے تحت غیر ملکی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ تاہم ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی کا کہناہے کہ اگر کسی نے کہا:'' ملالہ پاکستان مخالف یا اسلام مخالف ہے تو میں اپنا مشن چھوڑ دوں گا۔ ملالہ پاکستان کا انتہائی خوبصورت چہرہ ہے کاش پاکستانی اسے سمجھ سکیں''۔
Load Next Story