چین سے تجارتی جنگ ہارنے کا امریکی اعتراف

اپنی ریاست کو استحکام دینے کے لیے درست حکمت عملی اور طویل المدت منصوبوں کا احیاء لازم ہے۔

اپنی ریاست کو استحکام دینے کے لیے درست حکمت عملی اور طویل المدت منصوبوں کا احیاء لازم ہے۔ فوٹو: فائل

چین نے گزشتہ کئی عشروں سے اکانومی طاقت بننے کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت چینی مصنوعات دنیا کی تمام مارکیٹوں میں چھائی ہوئی ہیں، اس وقت چین ایک بڑی اکانومی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا اعتراف منہ پھٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے کہ چین کے ساتھ کوئی تجارتی جنگ نہیں، یہ جنگ تو ہم برسوں پہلے امریکا کی نمائندگی کرنے والے احمق اور نااہل لوگوں کی وجہ سے ہار چکے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کیا۔ بالآخر امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہوہی گیا کہ دنیا کی مارکیٹ میں اب صرف وہی سپر پاور کی حیثیت نہیں رکھتا۔ حالیہ امریکی صدر کی متنازعہ شخصیت اور پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے بعض اوقات وہ مبنی بر حقیقت اعلان کرجاتے ہیں۔

ٹرمپ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ امریکا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، امریکا کو سالانہ 500 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے، ہم یہ سب جاری نہیں رہنے دے سکتے۔ امریکی صدر کا یہ ٹویٹ چین کی جانب سے امریکی مصنوعات کی درآمد پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا عندیہ دیے جانے اور ان مصنوعات کی فہرست جاری کرنے کے اگلے روز سامنے آئی ہے۔


واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں امریکا اور چین کی جانب سے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے 2 بڑی معیشتوں کے باہمی تجارتی روابط میں تناؤ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پہلے امریکا نے چینی مصنوعات پر 25 فیصد تک ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر اسی شرح سے ٹیکس بڑھانے کا اعلان کردیا اور ایک روز بعد 106 اشیا کی فہرست بھی جاری کردی تھی جن پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

ایسا نہیں ہے کہ چین کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تنازعات نہ ہوں، لیکن چین نے روایتی جنگوں کے بجائے اپنے تنازعات کو نمٹانے اور دنیا میں سپر طاقت بننے کے لیے اکانومی حیثیت کو بڑھانے کو ترجیح دی۔ چین کے ان ہی صائب اقدامات کے باعث آج دنیا بھر میں چین کو ایک اکانومی طاقت کا درجہ دیا جاتا ہے، اور چین کا یہ سفر ابھی جاری ہے جس کا مظہر ہمیں سی پیک کی صورت میں بھی نظر آتا ہے، جس منصوبے کا حصہ بننے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں اظہار کرچکی ہیں۔

بلاشبہ اپنی ریاست کو استحکام دینے کے لیے درست حکمت عملی اور طویل المدت منصوبوں کا احیاء لازم ہے۔ چین نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ درست ثابت ہوا، آج امریکا نے اپنے اختلافات کے باوجود چین کی برتری کا موہوم سا پیغام دیا ہے، مستقبل میں ہوسکتا ہے امریکا اپنے وسیع تر مفادات کی خاطر چین سے باہمی اختلافات کو دور کرتے ہوئے ایک میز پر آبیٹھے، دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی یہ ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب دو بڑی ریاستیں اپنے باہمی اختلافات سے صرف نظر کرسکتی ہیں تو دیگر ممالک بھی اپنے استحکام کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے کو ترجیح دیں۔
Load Next Story