ٹیکس ایمنسٹی اسکیم خدشات و توقعات

سردست دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا استدلال یہ ہے کہ اسکیم کا اجرا پارلیمنٹ میں مشاورت سے مشروط ہونا چاہیے تھا۔

سردست دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا استدلال یہ ہے کہ اسکیم کا اجرا پارلیمنٹ میں مشاورت سے مشروط ہونا چاہیے تھا۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اندرون اور بیرون ملک پڑے کالے دھن کو سفیدکرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کردیا ہے۔

اسکیم کے تحت ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار 30لاکھ لوگوں تک لے جانے کے لیے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کو این ٹی این قرار دینے اور انفرادی ٹیکس دہندگان کے لیے ٹیکس کی شرح کم کردی گئی، جس میں حکومت کی جانب سے ملکی تاریخ میں پہلی بار 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدنی رکھنے والے ٹیکس دہندگان کے لیے ٹیکس کی شرح صفر کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، ٹیکس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جس کی سالانہ انکم 12 لاکھ ہوگی وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

بلاشبہ 5 نکاتی ایمنسٹی اسکیم کے سرکاری اعلان سے ملک میں کالادھن کو سفید کرنے سے متعلق ایک مناظرے کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، جب کہ تجارتی اورکاروباری حلقوں نے تاحال محتاط ردعمل دیا ہے، جب کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اسکیم کی بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعظم کی اسکیم کی تمام تر تفصیل میڈیا میں آچکی ہے اورامید کی جانی چاہیے کہ سیاست دان، ماہرین خزانہ، صنعت و حرفت اور تاجر برادری کے رہنما ایمنسٹی اسکیم کا تعمیری اور ناقدانہ زاویوں سے جائزہ لیں گے، کیونکہ ضروری نہیں کہ ماضی کی ایسی کسی ایمنسٹی اسکیم سے ملکی خزانہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تو لازماً اس اسکیم کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا، اس لیے ملکی معیشت کے استحکام اور دیگر خارجی و داخلی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکیم کے ہر پہلو پر ژرف نگاہی سے بحث کی ضرورت ہے۔

حکومتی ذمے دار، عوامی حلقے، اشرافیہ، دولتمند طبقات، تاجر برادری اور اپوزیشن رہنما اسکیم کا کثیر جہتی جائزہ محض پوائنٹ اسکورنگ سے بالاتر رہتے ہوئے کریں اور یہ بات ذہن میں ہو کہ غیر ملکی دولت کی وطن واپسی کے رومانٹک نعروں کی حکومتی ذرائع اور کوششوں سے واپسی اگر ممکن ہے یا نہیں ہے تو بھی اس ڈیبیٹ کا سیاق و سباق قومی امنگوں اور ملکی معیشت کی صورتگری سے مربوط رہے تو صائب کہلائے گا۔

سردست دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا استدلال یہ ہے کہ اسکیم کا اجرا پارلیمنٹ میں مشاورت سے مشروط ہونا چاہیے تھا، اسے ووٹ کے تقدس کو روندنے سے تعبیر کیا گیا، لہٰذا معاشی حوالوں سے اسکیم کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر ایک سنجیدہ اتفاق رائے پیدا ہونے کے امکانات ماضی کے خدشات سے بالکل الگ ہونے چاہئیں، اس اسکیم کو اس کے میرٹ پر غیر جذباتی انداز میں پرکھنے پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔

وزیراعظم نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ کوئی این آر او آرہا ہے۔ انھوں نے پانچ نکاتی ٹیکس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے متعدد ریلیف کا بھی اعلان کیا، مثلاً ماہانہ ایک لاکھ کمانے والوں پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، جب کہ 12 سے 24 لاکھ آمدن پر 5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے، 24 سے 48 لاکھ آمدن پر 10 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا اور 48لاکھ سے زائد آمدن والوں پر 15 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بیرون ملک پڑے کالے دھن اور اثاثہ جات کو سفید کرنے کے لیے اعلان کی جانے والی پالیسی کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کی واپسی پر 2 فیصد ٹیکس ہوگا اور اس میں بھی 2 آپشن دیے گئے ہیں جس کے تحت 5 سالہ بانڈز کی خریداری کی صورت میں حکومت 3فیصد سالانہ منافع دے گی، مگر ان بانڈز کو ایک سال تک فروخت نہیں کیا جاسکے گا اور سال بعد خریدو فروخت بھی انٹر بینک ڈالر ریٹ کے مطابق پاکستانی روپے میں ادائیگی کی جائے گی۔


مقامی غیر ملکی زرمبادلہ رکھنے والے بھی یہ بانڈز خرید سکیں گے، جب کہ ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے پاکستانی شہری کالے دھن سے خریدے جانے والے ڈالرز کو بھی 2 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر اسے قانونی حیثیت دلوا سکیں گے۔ بیرون ملک چھپائے گئے غیرمنقولہ اثاثہ جات کو بھی 3 فیصد ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوائی جا سکے گی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایمنسٹی اسکیم دی ہے، اس اسکیم کے ذریعے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے سزا دی ہے اور ٹیکس چوروں کو اپنا پیسہ بلیک سے وائٹ کرنے کا موقع دیا ہے۔ ادھر قیصر احمدشیخ کی زیرصدارت اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے سفارش کی کہ کسی بھی اسکیم کا اعلان کرنے سے قبل کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔

دریں اثنا اس خدشہ کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ بجٹ سے قبل ایمنسٹی اسکیم لانے سے شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ ایمنسٹی اسکیم لانا حکومت کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کا مقصد کرپشن کرنے والے افراد کو تحفظ دینا ہے۔ ٹیکس سے متعلقہ ادارے درست کام نہیں کر رہے، ان خیالات کا اظہار ٹیکس اور تجارت کے شعبہ سے وابستہ شخصیات نے روزنامہ ایکسپریس کے تحت ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے کیے گئے سروے میں کیا۔ جب کہ تاجر برادری نے مطالبہ کیا ہے کہ آنے والا قومی بجٹ ٹیکسوں کی بھرمار کے بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافے، عوام کے لیے صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی پر مبنی ہونا چاہیے۔

ایک انگریزی معاصر اخبار نے تجزیاتی رپورٹ میں اس اعلان پر تبصرہ کیا کہ نان فائلرز نہیں بچ سکیں گے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2015 میں بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسی ہی اسکیم کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی اسکیم کا بنیادی مقصد اس خواہش یا کوشش پر مبنی تھا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے اور اہل ثروت، کاروباری طبقے اور بڑی آمدن رکھنے والوں کو ٹیکس کلچر سے پیوست کردیا جائے، حکومتی کوشش اس ضمن میں پورے ٹیکس نظام کی ڈاکومنٹیشن بھی تھی، جو بدقسمتی سے کاروباری اور تاجر حلقوں میں پذیرائی حاصل نہ کرسکی۔

ماضی میں ٹیکس نیٹ میں نادہندگان کو لانے کے لیے آہنی ہاتھ اور سخت ترین قانونی اقدامات کا عندیہ بھی دیا گیا لیکن تاجروں اور عام پرچون فروشوں نے اسے ظلم سے تعبیر کیا اور ٹیکس لینے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی اور مارکیٹیں بند کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، تاہم اس واشگاف حقیقت سے نظریں پھیرنے کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا کہ جس میں باضابطہ اقتصادی سسٹم کے مقابل ایک غیر مرئی زیر زمین معیشت برسہا برس سے پھلتی پھولتی رہی ہو، ملک اسمگلنگ کی جنت بن چکا ہو، اس معاشرہ اور ریاستی ڈھانچہ کی بقا، ملکی سلامتی اور معیشت کے استحکام کے لیے حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتی۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کے لیے اشتراک فکر وعمل کی کوئی ایسی نظیر پیش کریں جسے عوام ملکی مفاد میں سمجھتے ہوئے اس یقین کا اظہار کریں کہ اب کسی کو لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی، استحصال، دولت کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کا سدباب ہونا شرط ہے، غربت، کرپشن، اقربا پروری، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور رشوت و بدعنوانی کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے غیر ملکی بینکوں میں چھپائے گئے اثاثے اور دولت کی قانونی اور رضاکارانہ طریقے سے وطن واپسی کا مشن قومی قرار دیا جائے۔

ایک بنیادی حقیقت جس کی طرف توجہ مبذول کرانا ناگزیر ہے وہ سیاست دانوں کی بصیرت، قومی حمیت اور جمہوری اقدار وعوامی امنگوں کی ترجمانی سے ہے، کئی ناقدین اور سیاسی ماہرین کا شکوہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کا اجرا ہو، غیر ملکی دولت کی واپسی کا حکومتی ایجنڈہ ہو یا بجلی گیس کی چوری یا کنڈا سسٹم کا ناسور ہو، سیاستدان اپنے ووٹ بینک اور حلقہ انتخاب کی ناراضی کا خطرہ مول لینے پر راضی نہیں ہوتے، اس شکوہ کا جواب بھی قوم کو جلد ملنا چاہیے۔

 
Load Next Story