عقلی دلائل
چونکہ ماننے کے لیے جاننا اور پہچاننا بنیادی شرط ہے،اس لیے ان معاملات میں عقلی دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جبرائیل امین نے ایک بار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا'' اے! اللہ کے رسول، ایمان کیا ہے؟'' آپ نے فرمایا ''اللہ کو ایک ماننا، مجھے آخری نبی تسلیم کرنا، تمام انبیاء علیہم السلام، آسمانی صحیفوں، فرشتوں، حیات بعد از موت، یوم حساب اور تقدیرکو برحق ماننا ایمان ہے۔'' گویا ان دیکھی چیزوں کو، جن میں اللہ کی وحدانیت سرِ فہرست ہے،کسی عقلی دلیل اور بحث وتمحیص کے بغیر حق ماننے کا نام ایمان ہے، چونکہ ماننے کے لیے جاننا اور پہچاننا بنیادی شرط ہے،اس لیے ان معاملات میں عقلی دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ ''آپ نے اپنے رب کوکیسے پہچانا ؟'' آپ نے جواب دیا '' میں نے اپنے پالنے والے کو عزائم کے ٹوٹنے سے پہچانا۔'' یعنی اگر آپ کوئی کام کرنے کا پکا ارادہ کرلیں اور نہ کرسکیں تو جان لیں کہ کوئی ہے جو آپ کو وہ کام کرنے سے روکنے پر قادر ہے اور وہ اللہ کے سوا بھلا اورکون ہوسکتا ہے۔
جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے تو امام شافعی سے پوچھا گیا، ''آپ نے اللہ کو کیسے پہچانا؟'' انھوں نے جواب دیا ''شہتوت کے پتے سے جسے بکری کھاتی ہے تو اس سے مینگنی بنتی ہے، ہرن کھاتا ہے تو مشک بنتا ہے اور ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو اس سے ریشم بنتا ہے۔ میں نے اس سے یہ جانا کہ کوئی ہے جو ایک ہی شئے سے مختلف چیزیں بناتا ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔'' یہی بات جب امام احمد بن حنبل سے دریافت کی گئی توآپ نے فرمایا ''میں نے اپنے خالق و مالک کو چاندی کے محل سے پہچانا جس سے مراد مرغی کا انڈا تھا۔
آپ نے فرمایا مرغی پورے21 دن انڈے پر بیٹھ کر اس کو سینچتی ہے تب کہیں جاکر اس میں سے چوزا نکلتا ہے، میں نے سوچا یہ پڑھی لکھی تو ہے نہیں، نہ ہی اس کے پاس کوئی گھڑی یا کیلینڈر ہے پھر اسے 21 دن پورے ہونے کی گنتی کون سکھاتا ہے، یہی نہیں جب انڈے میں سے چوزا نکلتا ہے تو اسے کیسے پتہ چلتا ہے کہ مرغی اس کی مہربان ماں اور جائے پناہ جب کہ بلی اس کی جان کی دشمن ہے، اس نے تو پہلے نہ مرغی کو دیکھا ہوتا ہے نہ بلی کو، اس نے تو ابھی تھوڑی دیر پہلے دنیا میں آکر ان دونوں کو دیکھا ہے۔ میں نے اس نکتے پر غور کیا تو جانا کہ چوزے کو اپنی محافظ اور دشمن کی پہچان بخشنے والی ذات اللہ ہی کی ہوسکتی ہے کیونکہ صرف وہی ایسے محیئر العقول کام کرنے پر قادر ہے۔''
امام ابو حنیفہ کے مشہور واقعے سے بھی اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک دن شاہی دربارکے کارندے نے حاضر ہوکر بادشاہ کے یاد کرنے کا پیغام دیا۔ معلوم ہوا کسی دہریے نے انہیں بادشاہ کے روبرو مناظرے کے لیے چیلنج کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اللہ کے خالق ِکائنات ہونے کا دعویٰ غلط ہے جب کہ اصل میں کائنات خود سے وجود میں آئی ہے اور خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہے، یہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، جب اس کی تخلیق میں کسی کا ہاتھ کار فرما نہیں تو اس کی طرف سے اس کا نظام چلانے کے دعویٰ کوکیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
امام ابوحنیفہ نے کہلوا بھیجا کہ وہ ضروری مصروفیات سے فارغ ہوکر آدھے گھنٹے میں حاضر ہوتے ہیں، لیکن آپ جان بوجھ کر ڈیڑھ دوگھنٹے کی تاخیر سے دربارمیں پہنچے اور اس کی جو وجہ بیان فرمائی اس کے بعد مناظرے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
آپ نے فرمایا '' یہاں دریا کے اس پار سے کشتی کے ذریعے آنا پڑتا ہے۔ میں جب پتن پر پہنچا توکوئی کشتی موجود نہیں تھی، میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ اب شاہی دربار میں حاضری کیسے ممکن ہوسکے گی۔کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کنارے واقع جنگل سے درخت خود بخود چل کر میری طرف آرہے ہیں، وہ آئے ہی نہیں خودکار طریقے سے ان کی کٹائی اور چیرائی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چوڑے چوڑے بڑے تختوں میں تبدیل ہوگئے، پھر ان تختوں نے خود بخود جڑکرکشتی کی شکل اختیارکرلی اور وہ میرے سامنے آ کھڑی ہوئی، میرے سوار ہوتے ہی وہ چل پڑی اور مجھے باحفاظت دریا پارکرا دیا، یوں مجھے پہنچنے میں قدرے تاخیر ہوگئی۔''
اْن کی زبانی یہ کہانی سن کر وہ دہریہ ہذیانی انداز میں چیخا ''بکواس، یہ ناممکن ہے کہ درخت خود چل کر کسی کے پاس آئیں، خود بخود ان کی کٹائی اور چیرائی ہوجائے، پہلے اپنے آپ تختے بنیں اور پھر وہ خود سے جڑ کرکشتی کا روپ دھار لیں اور یہ اس کشتی پر سوار ہوکر بحفاظت دریا پارکرکے یہاں پہنچ جائیں۔''
امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر فرمایا اگر ایک چھوٹی سی کشتی خود سے نہیں بن سکتی تو اس پوری کائنات کا خود سے وجود میں آنا اورخود کار طریقے سے اس کے نظام کا چلنا کیونکر ممکن ہے۔ ثابت ہوا اللہ بلا شرکت غیرے کائنات کا خالق ومالک ہے اور وہی اس کا نظام چلا رہا ہے۔
بقول شاعر
''کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔''
محمد قطب شہید نے کیا خوب کہا تھا ''کائنات تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ روزو شب کی گردش، دن رات کا الٹ پھیر اور لیل ونہارکا اختلاف! ہر صبح کو ابھرتا ہوا اور ہرشام کو ڈوبتا ہوا سورج ، جس نے نہ طلوع ہونے میں کبھی کوتاہی کی اور نہ غروب ہونے سے باز رہا ! رات کی تاریکی میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے سیارگانِ فلک! ایک باریک شاخ کی صورت میں طلوع ہونے والا چاند، جو بڑھتے بڑھتے بدرِکامل بن جاتا ہے اور پھرگھٹتے گھٹتے باریک شاخ کی طرح ہو جاتا ہے!
زمین کے سینے کو شق کرکے نکلنے والا پودا اور اس میں پھوٹنے والی حسین و جمیل کونپلیں! چھوٹے چھوٹے محو پرواز پرندے! اور حقیر وکمتر کیڑے مکوڑے! نوزائیدہ اطفالِ حیوانات اور چونچوں سے دانہ دْنکا دیتی ہوئی اور دودھ پلاتی ہوئی ان کی مائیں! مردہ زمین سے اْبلتا ہوا زندگی کا سرچشمہ! عجیب نظام، حیرت انگیز انتظام، بڑی باریکی اور مہارت کے ساتھ چلنے والا نظامِ کائنات،کہیں کوئی ابتری نہیں،کوئی گڑبڑ نہیں،کروڑوں اور اربوں ستاروں میں سے کوئی ستارہ اپنے محور سے ایک انچ اِدھر اْدھر نہیں سرکتا، زمانے کے نشیب وفراز، زمانہ کی حقیقت اور اس کا ادراک، اس ساری عجیب وغریب اور حیرت انگیزکائنات میں گھرا ہوا کمزور و ناتواں انسان، یہ سب آیاتِ الٰہی ہیں! اور کائنات میں خالقِ کائنات کے وجود کی حیرت انگیز نشانیاں ہیں، لیکن انسان ان کے درمیان رہتے ہوئے ان کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر ان نشانیوں کے درمیان سے بغیر ان کی جانب توجہ کیے ہوئے اور بغیر ان پر غورکیے ہوئے گزرجاتے ہیں۔''
تکریمِ انسان کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے مولانا محمد اسلم فرماتے ہیں''اللہ تعالیٰ نے انسان کو محترم و مکرم بنایا ہے، انسان کی تکریم کے کئی پہلو قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ انسان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ سورہ ص میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ تم ان کے سامنے سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سارے فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی، اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔'' (آیت: 75)۔ جب باری تعالیٰ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ اپنے مقام کو پہچانے اور ایسے طریقے اختیارکرے جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو تکریم اور تعظیم کے قابل بنا سکتا ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ ''آپ نے اپنے رب کوکیسے پہچانا ؟'' آپ نے جواب دیا '' میں نے اپنے پالنے والے کو عزائم کے ٹوٹنے سے پہچانا۔'' یعنی اگر آپ کوئی کام کرنے کا پکا ارادہ کرلیں اور نہ کرسکیں تو جان لیں کہ کوئی ہے جو آپ کو وہ کام کرنے سے روکنے پر قادر ہے اور وہ اللہ کے سوا بھلا اورکون ہوسکتا ہے۔
جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے تو امام شافعی سے پوچھا گیا، ''آپ نے اللہ کو کیسے پہچانا؟'' انھوں نے جواب دیا ''شہتوت کے پتے سے جسے بکری کھاتی ہے تو اس سے مینگنی بنتی ہے، ہرن کھاتا ہے تو مشک بنتا ہے اور ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو اس سے ریشم بنتا ہے۔ میں نے اس سے یہ جانا کہ کوئی ہے جو ایک ہی شئے سے مختلف چیزیں بناتا ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔'' یہی بات جب امام احمد بن حنبل سے دریافت کی گئی توآپ نے فرمایا ''میں نے اپنے خالق و مالک کو چاندی کے محل سے پہچانا جس سے مراد مرغی کا انڈا تھا۔
آپ نے فرمایا مرغی پورے21 دن انڈے پر بیٹھ کر اس کو سینچتی ہے تب کہیں جاکر اس میں سے چوزا نکلتا ہے، میں نے سوچا یہ پڑھی لکھی تو ہے نہیں، نہ ہی اس کے پاس کوئی گھڑی یا کیلینڈر ہے پھر اسے 21 دن پورے ہونے کی گنتی کون سکھاتا ہے، یہی نہیں جب انڈے میں سے چوزا نکلتا ہے تو اسے کیسے پتہ چلتا ہے کہ مرغی اس کی مہربان ماں اور جائے پناہ جب کہ بلی اس کی جان کی دشمن ہے، اس نے تو پہلے نہ مرغی کو دیکھا ہوتا ہے نہ بلی کو، اس نے تو ابھی تھوڑی دیر پہلے دنیا میں آکر ان دونوں کو دیکھا ہے۔ میں نے اس نکتے پر غور کیا تو جانا کہ چوزے کو اپنی محافظ اور دشمن کی پہچان بخشنے والی ذات اللہ ہی کی ہوسکتی ہے کیونکہ صرف وہی ایسے محیئر العقول کام کرنے پر قادر ہے۔''
امام ابو حنیفہ کے مشہور واقعے سے بھی اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک دن شاہی دربارکے کارندے نے حاضر ہوکر بادشاہ کے یاد کرنے کا پیغام دیا۔ معلوم ہوا کسی دہریے نے انہیں بادشاہ کے روبرو مناظرے کے لیے چیلنج کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اللہ کے خالق ِکائنات ہونے کا دعویٰ غلط ہے جب کہ اصل میں کائنات خود سے وجود میں آئی ہے اور خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہے، یہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، جب اس کی تخلیق میں کسی کا ہاتھ کار فرما نہیں تو اس کی طرف سے اس کا نظام چلانے کے دعویٰ کوکیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
امام ابوحنیفہ نے کہلوا بھیجا کہ وہ ضروری مصروفیات سے فارغ ہوکر آدھے گھنٹے میں حاضر ہوتے ہیں، لیکن آپ جان بوجھ کر ڈیڑھ دوگھنٹے کی تاخیر سے دربارمیں پہنچے اور اس کی جو وجہ بیان فرمائی اس کے بعد مناظرے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
آپ نے فرمایا '' یہاں دریا کے اس پار سے کشتی کے ذریعے آنا پڑتا ہے۔ میں جب پتن پر پہنچا توکوئی کشتی موجود نہیں تھی، میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ اب شاہی دربار میں حاضری کیسے ممکن ہوسکے گی۔کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کنارے واقع جنگل سے درخت خود بخود چل کر میری طرف آرہے ہیں، وہ آئے ہی نہیں خودکار طریقے سے ان کی کٹائی اور چیرائی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چوڑے چوڑے بڑے تختوں میں تبدیل ہوگئے، پھر ان تختوں نے خود بخود جڑکرکشتی کی شکل اختیارکرلی اور وہ میرے سامنے آ کھڑی ہوئی، میرے سوار ہوتے ہی وہ چل پڑی اور مجھے باحفاظت دریا پارکرا دیا، یوں مجھے پہنچنے میں قدرے تاخیر ہوگئی۔''
اْن کی زبانی یہ کہانی سن کر وہ دہریہ ہذیانی انداز میں چیخا ''بکواس، یہ ناممکن ہے کہ درخت خود چل کر کسی کے پاس آئیں، خود بخود ان کی کٹائی اور چیرائی ہوجائے، پہلے اپنے آپ تختے بنیں اور پھر وہ خود سے جڑ کرکشتی کا روپ دھار لیں اور یہ اس کشتی پر سوار ہوکر بحفاظت دریا پارکرکے یہاں پہنچ جائیں۔''
امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر فرمایا اگر ایک چھوٹی سی کشتی خود سے نہیں بن سکتی تو اس پوری کائنات کا خود سے وجود میں آنا اورخود کار طریقے سے اس کے نظام کا چلنا کیونکر ممکن ہے۔ ثابت ہوا اللہ بلا شرکت غیرے کائنات کا خالق ومالک ہے اور وہی اس کا نظام چلا رہا ہے۔
بقول شاعر
''کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔''
محمد قطب شہید نے کیا خوب کہا تھا ''کائنات تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ روزو شب کی گردش، دن رات کا الٹ پھیر اور لیل ونہارکا اختلاف! ہر صبح کو ابھرتا ہوا اور ہرشام کو ڈوبتا ہوا سورج ، جس نے نہ طلوع ہونے میں کبھی کوتاہی کی اور نہ غروب ہونے سے باز رہا ! رات کی تاریکی میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے سیارگانِ فلک! ایک باریک شاخ کی صورت میں طلوع ہونے والا چاند، جو بڑھتے بڑھتے بدرِکامل بن جاتا ہے اور پھرگھٹتے گھٹتے باریک شاخ کی طرح ہو جاتا ہے!
زمین کے سینے کو شق کرکے نکلنے والا پودا اور اس میں پھوٹنے والی حسین و جمیل کونپلیں! چھوٹے چھوٹے محو پرواز پرندے! اور حقیر وکمتر کیڑے مکوڑے! نوزائیدہ اطفالِ حیوانات اور چونچوں سے دانہ دْنکا دیتی ہوئی اور دودھ پلاتی ہوئی ان کی مائیں! مردہ زمین سے اْبلتا ہوا زندگی کا سرچشمہ! عجیب نظام، حیرت انگیز انتظام، بڑی باریکی اور مہارت کے ساتھ چلنے والا نظامِ کائنات،کہیں کوئی ابتری نہیں،کوئی گڑبڑ نہیں،کروڑوں اور اربوں ستاروں میں سے کوئی ستارہ اپنے محور سے ایک انچ اِدھر اْدھر نہیں سرکتا، زمانے کے نشیب وفراز، زمانہ کی حقیقت اور اس کا ادراک، اس ساری عجیب وغریب اور حیرت انگیزکائنات میں گھرا ہوا کمزور و ناتواں انسان، یہ سب آیاتِ الٰہی ہیں! اور کائنات میں خالقِ کائنات کے وجود کی حیرت انگیز نشانیاں ہیں، لیکن انسان ان کے درمیان رہتے ہوئے ان کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر ان نشانیوں کے درمیان سے بغیر ان کی جانب توجہ کیے ہوئے اور بغیر ان پر غورکیے ہوئے گزرجاتے ہیں۔''
تکریمِ انسان کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے مولانا محمد اسلم فرماتے ہیں''اللہ تعالیٰ نے انسان کو محترم و مکرم بنایا ہے، انسان کی تکریم کے کئی پہلو قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ انسان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ سورہ ص میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ تم ان کے سامنے سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سارے فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی، اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔'' (آیت: 75)۔ جب باری تعالیٰ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ اپنے مقام کو پہچانے اور ایسے طریقے اختیارکرے جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو تکریم اور تعظیم کے قابل بنا سکتا ہے ۔